... loading ...
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے 2011ء میں لیبیا میں عوامی بغاوت کے بالکل ابتدائی دنوں میں معمر قذافی کو کہا تھا کہ وہ کوئی قدم نہ اٹھائیں اور کہیں چھپ جائیں جبکہ قذافی نے کہا تھا کہ لیبیا القاعدہ کے دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہے، جو شمالی افریقہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور پھر یورپ پر حملے کریں گے۔ اگر مغربی افواج نے مداخلت کی تو لیبیا کا حشر عراق جیسا ہوگا۔
دونوں کے درمیان یہ گفتگو اس وقت ہوئی تھی جب عرب بہار کے ابتدائی دن تھے اور لیبیا میں صدر معمر قذافی کی دہائیوں پر محیط آمریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہو رہا تھا۔ ٹونی بلیئر نے فروری 2011ء میں ایک فون پر قذافی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ تشدد بند کردیں اور تبدیلی کے عمل کا آغاز کریں، کوئی بھی پرتشدد قدم نہ اٹھائیں اور معاملے کو پرامن انداز سے حل کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ ان سے رابطے میں بھی رہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے انتباہ کیا کہ اگر کوئی محفوظ مقام ہے تو قذافی وہاں چلے جائیں، کیونکہ اس معاملے کا اختتام پرامن انداز میں نہیں ہوگا۔
قذافی نے جو الفاظ ادا کیے، انہیں ابتدا میں ‘دیوانے کی بڑ’ سمجھا گیا ہوگا لیکن اب یورپ داعش کی صورت میں ایک بہت بڑے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔
دونوں سابق سربراہان مملکت کی گفتگو کا یہ متن برطانیہ پارلیمان کی امور خارجہ کمیٹی نے شائع کیا ہے جو لیبیا کی خانہ جنگی میں مغرب کی مداخلت کا جائزہ لے رہی ہے۔ کمیٹی کے چیئر کرسپین بلنٹ نے کہا کہ وہ جائزہ لیں گے کہ کہیں شدت پسند مسلح گروہوں کے حوالے سے قذافی کے انتباہ کو نظر انداز تو نہیں کیا گیا کیونکہ دنیا کے بارے میں ان کے نظریے کو درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔
شواہد یہی ظاہر کرتے ہیں کہ مغربی پالیسی ساز قذافی کے مقابلے میں ان خطرات سے کہیں کم آگاہ تھے۔ اس کمیٹی نے دسمبر میں قذافی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بلیئر سے سوالات کیے تھے، جس کے بعد سابق وزیر اعظم نے فون پر ہونے والی دو گفتگوؤں کا متن جاری کیا۔ بلیئر 1997ء سے 2007ء تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہے تھے۔
لیبیا میں قذافی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جدوجہد کا آغاز فروری 2011ء میں ہوا تھا جو تونس کے مقابلے میں ایک مسلح اور خونی لڑائی میں تبدیل ہوئی۔ بلیئر کی قذافی سے یہ گفتگو 25 فروری 2011ء کو ہوئی تھی جس کے بعد اگست میں قذافی طرابلس سے فرار ہوگئے تھے اور 25 اکتوبر کو انہیں قتل کردیا گیا۔ تب سے لیبیا مکمل طور پر لاقانونیت کا شکار ہے اور عملاً دو متحارب حصوں میں تقسیم ہے۔
اس گفتگو میں قذافی نے دعویٰ کیا تھا کہ القاعدہ پولیس اسٹیشنوں پر حملے کر رہی ہے اور وہ پورے بحیرۂ روم کے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یورپ پر بھی حملے کریں گے۔ قذافی نے کہا تھا کہ وہ لوگوں کو مسلح کرنے کے لیے تیار ہیں، جو نو آبادیت کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ “اگر تم لیبیا کو کاٹنا چاہتے ہو، تو پھر لڑائی کے لیے تیار ہوجاؤ، نتیجہ عراق جیسا ہی نکلے گا۔” لیبیا کے صدر نے گفتگو کا خاتمہ اس حملے کے ساتھ کیا “ہمیں اکیلا چھوڑ دو”۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو دیا گیا سر کا خطاب واپس لینے سے متعلق عراق جنگ کے معاملے پر جاری پٹیشن پر ایک ملین سے زائد افراد نے دستخط کردیے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق ملکہ برطانیہ نے ٹونی بلیئر کو اعلی ترین اعزاز آڈر آف دا گارٹر سے تحفتاً نوازا تھا۔ اعزاز کیخلاف درخواست سا...
پنڈورا پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے وسطی لندن میں 67 لاکھ پونڈ کی جائیداد خریدی مگر 3 لاکھ 12 ہزار پونڈ اسٹیمپ ڈیوٹی ادا نہیں کی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پنڈورا پیپرز میں انکشاف کیا گیا کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے وسطی لندن م...
برطانیہ کے سابق نائب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ عراق کے خلاف جنگ غیر قانونی تھی۔ جان پریسکوٹ اس وقت ٹونی بلیئر کے نائب تھے جب برطانیہ نے امریکا کے ساتھ مل کر عراق پر بڑے پیمانے پر ہتھیار بنانے کا الزام لگایا تھا اور 2003ء میں اس پر حملہ کردیا تھا۔ پریسکوٹ کا یہ بیان اس وقت سامنے ...
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1973 کے تحت لیبیا میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے 'نو فلائی زون' تخلیق کیا گیا تھا۔ اس پورے معاملے میں فرانس پیش پیش تھا لیکن سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی منظر عام پر آنے والی 3 ہزار ای میلز سے ای...
اگر برطانیا پُرشکوہ تہذیب و اقدار کے وارث کے طور پرآج بھی ایک عظیم ملک ہے تو دس برس تک اُس کے وزیراعظم رہنے والے ٹونی بلیئر کون ہیں؟ کیا عظیم تہذیبیں اپنی زندگی اور عظیم اقدار اپنی فعالیت کے اوج وعروج پر ایسے لوگ پید اکرتے ہیں؟ برطانوی وزیراعظم نے سی این این کے نمائندے فرید زکریا...
برطانیا کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے عراق جنگ پر مجموعی طور پر معافی کے بجائے اس کے بعض پہلووؤں پر معافی مانگی ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نےاس کا انکشاف امریکی ادارے سی این این کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے حوالے سے کیا ہے جو ابھی تک نشر نہیں ہوا۔ غیر نشر شدہ انٹرویو کی سامنے آنے...
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے عراق پر حملے سے ایک سال قبل ہی امریکا کو یقین دہانی کرا دی تھی کہ اگر صدام حسین کے خلاف کارروائی کی گئی تو وہ امریکا کی مکمل حمایت کرے گا۔ یہ انکشاف برطانیہ کے اخبار 'ڈیلی میل' نے ایک نئی خفیہ دستاویز کے حوالے سے کیا ہے۔ اس وقت کے امریک...
دوسری جنگِ عظیم کے بعد اِسے عالمِ انسانیت کے لیے امید کی آخری کرن قراردیاگیا تھا۔ مگر اب یہ عالم انسانیت کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک برہنہ چیلنج بن چکا ہے۔ ماہِ ستمبر میں یہ ایک سالانہ ستمگر روایت بن چکی ہے کہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں عالمی رہنما ایک چھت کے نیچے جمع ہوجاتے ...