... loading ...
زرتشت 660 برس قبل مسیح میں افغانستان کے ایک مقام گنج میں پیدا ہوئے۔اُ ن کے مذہب کو کوروش اعظم اور دارااعظم نے ایران میں حکماً نافذ کیا تھا۔ اب یہ مذہب بھارت، پاکستان ، افریقا اور یورپ کے بعض حصوں میں اپنے پیروکار رکھتا ہے۔جنہیں پارسی کہا جاتا ہے۔ تب سیاست کے خدوخال ایسے اور اتنے کریہہ النظر نہ تھے ، مگر زرتشت کا تجربہ قبل مسیح کے ادوار میں سیاست دانوں کے متعلق کیسا رہا ہوگا کہ اُنہوں نے کہا : سیاست دان کھٹی قے ہیں۔‘‘
آدمی لوہے کی حکومت پر خود کو بے بس پاتا ہے مگر تب وہ حقارت سے سوچتا ہے جب اُس پر جمہور کے نام سے سیاست میں مکاری برتی جائے۔ لوہے کی حکومت میں لوگوں کے پاس اپنی بے بسی کی ایک توجیہ ہوتی ہے مگر وہ سیاسی حکومتوں میں اپنی بے بسی کی کیا توجیہ کر سکتے ہیں۔ اُن کے پا س آخر کیا چارہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حقارت سے دیکھیں کہ اُن کی تقدیر خود اُن کے ہاتھوں سے خود اُن کی ہی مرضی سے کیسے اغوا ہوتی ہے۔ جناب ِ زرداری نے ایک طویل وقفے کے بعد انگڑائی لی اور پھر گویا ہوئے۔
’’کسی فرد یا ادارے کو زبردستی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے‘‘
اتنی بات پر اُن کی مہر سکوت نہ ٹوٹی تھی اسی لئے اُنہیں اپنی زبان کے ٹانکے پھر کھولنے پڑے کہ ’’مقدس گائے کا نظریہ بھی بدترین کرپشن ہے۔‘‘ حالانکہ مقدس گائے کا گوبر صاف کرنا اس سے بھی بُرا وطیرہ ہے جو یہ سیاست دان اپنی اپنی باری باری پہ آگے بڑھ بڑھ کر کرتے ہیں۔ زرداری صاحب نے 16؍ جون 2015ء کو بھی اسی طرح زُبان نکالی تھی ، اور مقدس گائے کو کہا تھا کہ ہمیں جنگ آتی ہے اور کسی کو نہیں۔ وہ اپنے الفاظ میں اتنے ’’جری‘‘ثابت ہوئے کہ آج تک نہایت ’’بہادری‘‘ سے بیرون ملک مقیم ہیں ۔ اب ایک طویل عرصے کے بعد اُن کی زبان کے ٹانکے پھر ٹوٹے ہیں تو موضوع ِ سخن وہی مقدس گائے بنی ہے۔ سوال یہ پید اہوتا ہے کہ مقدس گائے کے متعلق اپنی پچھلی گفتگو کے بعد اُنہوں نے جس دامنِ احتیاط کو تھام رکھا تھا وہ اب اُن کے ہاتھوں سے یکدم کیوں چھوٹا ہے؟ پردے کے پیچھے اور اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا سرگوشیاں ہو رہی ہیں جو وہ دبئی میں سن رہے ہیں؟کیانوازشریف جن خطرناک منطقوں میں داخل ہوگیے ہیں، اُس کے بعد جس نوع کے مفروضے زیرگردش ہیں، وہ اس کا کوئی لابھ اُٹھا نا چاہتے ہیں؟ یا یہ معاملہ مقتدر حلقوں میں اس سے زیادہ باریکیوں اور نزاکتوں کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کے لیے ایک نئی توسیعی میعاد کی پیشکش قبل از وقت کر دی ہے۔ اسلام آباد کے حلقوں میں اس پر مختلف قسم کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کا وقت نہایت اہم ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ’’کسی فرد یا ادارے کو زبردستی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔‘‘کیا یہ عجیب اتفاق نہیں کہ یہ بیان نوازشریف کی جانب سے فوجی سربراہ کو پیشکش کئے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری نے ایک طویل خاموشی کے بعد یہی وقت اس قسم کی گفتگو کے لئے کیوں چنا ہے؟ کیا سیاست دان اپنی اپنی بازی کے اپنے اپنے پتّے پھینٹ رہے ہیں؟ یا پھر یہ ایک ہی مشترک بازی کا کوئی ملاجلا کھیل ہے؟یہ اس معاملے کا سب سے حساس نکتہ ہے۔ جس پر بعض حساس حلقوں تک میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔
ظاہر ہے کہ پہلا مفروضہ تو بالکل سادہ ہے کہ نوازشریف نے خلوصِ دل سے جنرل راحیل شریف کو پیشکش کی ہو۔ اور یہ چاہا ہو کہ عسکری قیادت اپنا اور وہ اپنا کام پورا کرسکیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کی راہ میں رکاؤٹ نہ بنیں۔ مگر سیاست میں اتنا سادہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نوازشریف کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ سادہ سے سادہ باتوں کو بھی پیچیدہ بنانے کا فن رکھتے ہیں۔ لہذا اس مفروضے کو سب سے کم وقعت دی جاتی ہے۔ اگلا مفروضہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کو بھی جنرل کیانی بنا دیا جائے۔ جنرل کیانی اپنی توسیع سے قبل فوجی حلقوں میں نہایت نیک نامی رکھتے تھے۔ مگر پھر اُنہوں نے توسیع کے بجائے پھر ایک پوری میعاد پالی۔ اور اس کے بعد اُن کے متعلق مختلف افسانے گردش کرنے لگے۔ جنرل راحیل شریف کا معاملہ ذرا سا مختلف ہے۔ وہ ایک فعال فوجی سربراہ ہیں ۔ وہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی سب سے مقبولیت شخصیت تھے۔ مگر اُن کی شہرت کے لئے ایک عسکری ادارے کی طرف سے جو پاپڑ بیلے جاتے تھے، اُنہیں سیاسی حکومت کے خاندانی سوشل میڈیا نے آڑے ہاتھوں لیا۔ اور ماڈل ٹاؤن کے ایک گھر سے ’’شکریہ راحیل شریف ‘‘کی مہم کو نہایت تضحیک آمیز بنا دیا گیا۔ ایک اوسط درجے کے ذہن کے لئے بھی یہ سمجھنا نہایت آسان ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے دورۂ امریکا کے بعد اُن کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوا ہے۔ اس کے فوراً بعد جنرل راحیل شریف کا دورۂ امریکا اُن کے لئے نسبتاً غیر موثر ثابت ہواہے۔ وہ اپنے دورۂ امریکا کے بعد براہِ راست اُن سرگرمیوں میں کم دکھائی دیئے جہاں وہ پہلے زیادہ فعال طور پر نظر آتے تھے۔ اس کا آخر مطلب کیا ہے؟ مطلب تو اس کا بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنرل راحیل شریف کے نسبتاً زیادہ خاموشی اور غیر فعالیت کے اس عرصے میں سیاسی حکومت نے سکون کا سانس لینے کے بجائے اُنہیں قبل ازوقت ملازمت میں توسیع دینے کی پیشکش کیوں ضروری خیال کی؟کیا یہ بھی شکریہ راحیل شریف کی مہم کے ساتھ جو کچھ کیا گیا تھا، اُسی نوع کا بندوبست ہے۔ جس میں اُن کی توسیع کے مسئلے کو سامنے لاکر عسکری حلقوں میں ایک بے اطمینانی پیدا کرنے کی سوچ پائی جاتی ہو۔ آصف علی زرداری کے بیان سے تو کم از کم یہی جھلکتا ہے۔ وہ دونوں طرف سے خود کومحفوظ بنانے کا زبردست کھیل کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اس سیاسی بازی گری سے خود کو مقتدر حلقوں کے سامنے برائے بات چیت پیش کررہے ہیں۔ جس طرح بے نظیر بھٹو نے 1993ء اور 1999ء میں کیا تھا کہ ایک سیاسی تحریک پید اکر کے اُسے عسکری حلقوں سے مفاہمت کے لئے استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف آصف علی زرداری کے لئے یہ بھی ایک کامیابی ہوگی ، اگر اس کھیل میں نوازشریف کامیاب بن کر اُبھریں۔ کیونکہ اس سے سندھ کے اندربدعنوانیوں سمیت دیگر بہت سے معاملات میں اُنہیں راحت ہی پہنچیں گی۔
اس پورے تجزیئے کے پیچھے کراچی میں رینجرز کے مسئلے پر طاقت ور حلقوں کی ایک اندرونی تفہیم بھی ہے۔ جس میں وہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو ایک گہری تال میل کے ساتھ اس مسئلے کو الجھانے کا مشترکہ ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اُن حلقوں میں اس پر ذرا بھی ابہام نہیں کہ دبئی اور رائیونڈ نے بہت سوچ سمجھ کر رینجرز کے مسئلے کو مستقل الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ جس میں قائم علی شاہ اور چوہدری نثار کی لڑائی نے دونوں کی سیاست کو محفوظ بنا رکھا ہے۔ اور رینجرز کے مسئلے پر عسکری حلقوں کو بھی بے قابو ہونے سے بچائے رکھا ہے۔ جو لوگ اِسے واقعی لڑائی سمجھتے ہیں، اُنہیں شاید اندازا تک نہیں کہ اندرونِ خانہ اس مسئلے میں کیا کیا کھچڑیاں پکتی رہی ہیں۔ کراچی آپریشن اب ایک فریب خوردہ کہانی ہے اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔بعض حلقے اسی پورے تناظر میں شریف ، زرداری دونوں رہنماوؤں کی اندرونی تال میل کے اندر ہی نواز شریف کی جانب سے جنرل راحیل شریف کی توسیع کی پیشکش کو دیکھ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کھیل اسی بدصورتی کے ساتھ کب تک اخفاء میں رہتا ہے اور اس پر عسکری حلقے اپنا ردِ عمل کس اقدام کے ذریعے دیتے ہیں۔کیونکہ اُن حلقوں میں بھی جاری غوروفکر کی بازگشت اب باہر بھی سنائی دینے لگی ہے۔ انسانوں پر لوہے کی حکومت اُن کے اجمتاعی دانش کے خلاف ایک تحقیر کا رویہ ہے، مگر ان تاجر سیاست دانوں کا یہ سلوک تو اجتماعی ضمیر کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ زرتشت نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ ’’سیاست دان کھٹی قے ہیں۔‘‘
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...