... loading ...
ہندی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ جس دیس کا راجہ بیوپاری وہاں کی جنتا بھکاری۔یہ بیوپاری لوگ بہت چالاک اور معاملہ فہم ہوتے ہیں جبھی تو ہندوؤں کے ہاں جو روزی روزگار کمانے کے دھندے ہیں، ان میں نوکری کو نیچ اور بیوپار کو اُتم (اعلیٰ) مانا جاتا ہے۔وہ تجارت کو بیوپار اسی لیے کہتے ہیں ۔اس کے فروغ اور دوام میں پابندی، قیدیا کنارہ نہیں ہوتا۔بیوپاریوں نے بھارت اور امریکا میں یہ راز بہت جلد جان لیا کہ اصلی مزہ ندی اور ساگر (سمندر )میں غوطے لگانے میں نہیں بلکہ کاٹھے(کنارے) بیٹھ کر نیر (پانی )پینے میں ہے۔ لہذا ایسے اپائے اور کھوجنا(تراکیب اور چالاکیاں) کرو کہ راج نیتی(سیاست) دوسرے کریں وہ بھی آپ کے سرمائے ، عطیات اور پروگرام کے عین مطابق اور فائدے آپ کو ملیں ، ان کے اقدامات اور کرتوت اگر بُرے ہوں گے تو گالیاں انہیں کو پڑیں گی کیوں کہ شہرت کے اور عارضی بڑائی کے ان متوالوں کا چہرہ سامنے ہوگا اور بیوپاری سہولت کار اور سرمایہ دار چونکہ سامنے نہیں ہوگا ۔ لہذا آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ آپ کا سرمایہ اور نام دونوں ہی محفوظ ہوگا۔ایک چھوٹی سی دل چسپی کی بات اس نکتے کو سمجھنے میں یوں معاون ثابت ہوگی کہ مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کا اصل نام عبدالحئی تھا ۔یہی ان کے والد کے دشمن کا نام بھی تھا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ بیٹے کا نام اپنے جانی دشمن کے نام پر کیوں رکھا تو جواب ملا اس سے گالیاں دینے میں آسانی ہوتی ہے۔ اہل تجارت کو بھی خفیہ ایجنسیوں کی طرح اپنے گندے کام کرنے کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔خفیہ ایجنسیوں کو اصطلاح میں انہیں KITE یعنی گدھ کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں سیاست دانوں کے تجارت میں ملوث ہونے کے دو دھارے ہیں۔ایوب خان جو ایک کڑے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے ان کے صاحبزادے ان ہی کے دور اقتدار میں بڑے تاجر گھرانوں کے داماد بن گئے اور اپنا کاروبار شروع کردیا۔ بعد میں جنرل ضیا الحق اور ان کے ڈی جی آئی ایس آئی رامپور کے پٹھان جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحب زادے تجارت کے راستے سیاست میں داخل ہوئے ۔اسی دور میں یہ تقسیم مٹ گئی کہ عوامی مفاد اور ذاتی مفاد دو مختلف اور اکثر متضاد (conflict of interests)میدان ہیں۔اگر آپ سیاست میں ہیں تو آپ کو تجارت سے دور رہنا ہوگا۔
پاکستان میں اخلاقی زوال کی ابتدا یوں تو سن 1971 سے شروع ہوئی تھی اس لیے کہ پہلی جمہوری حکومت نے پلاٹوں اور سرکاری نوکریوں کی اندھا دھند تقسیم شروع کردی تھی مگر یہ بہت محدود پیمانے پر تھی لیکن جنرل ضیا الحق کا دور ایک ایسا دور تھا جس میں اسلام کی اجلی اورپاکیزہ چادر کے نیچے ہر غلیظ،پر تشدد اور غیر قانونی کام دھڑلے سے ہوتا رہا ۔انہیں کے پروردہ سیاست دان بہت جلد یہ سبق سیکھ گیے کہ اقتدار ،مال کمانے کا ذریعہ ہے۔
ان فوجی ڈکٹیٹروں نے ریاست کی اساس (جو اس کے اخلاقی جواز میں ہوتی ہے ) کرپشن کے تیزاب سے جلا ڈالی۔ پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر بلا استثناء ،سبھی غریب ،بے نام گھرانوں کے مردانہ چشم و چراغ تھے۔ بعد از مرگ ِاقتدار ان کے پس ماندگان کے ترکے میں دولت کی بے دریغ ریل پیل اس لیے دکھائی دینے لگی کہ والدبزرگوار ،عالی جناب صدر محترم نے اپنے دور حکومت میں بہت کھل کر لوٹ مار کی تھی۔جنرل یحییٰ خان سے تاحال اخلاقی پس ماندگی اور مالی لوٹ مار کا سفر اس لیے جاری ہے کہ اس میں ملوث افراد کو خوف خمیازہ نہیں اور ان کا منترہ یہی ہے کہ دولت کماؤ اقتدار میں آؤ۔ اقتدار میں آن کر اور دولت کماؤ۔ کبھی ایسی گردش دوراں آبھی جائے کہ لیتے ہوئے پکڑے جاؤ تو دیتے ہوئے چھوٹ جاؤ۔
سیاست اور تجارت کا پہلا ناجائز تعلق دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل کارپوریشن آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں وجود پذیر ہوا۔اس کی تشکیل کی ضرورت سب سے پہلے برطانیا ،یورپ ، فرانس اور ہالینڈ کے مالدار یہودی اور عیسائی تاجروں نے محسوس کی اور اس حوالے سے پہلا تجربہ انگلستان کے تاجروں نے کیااس کے پس پردہ محرکات میں مشرق کی دولت کا پر قبضہ کا منصوبہ تھا۔ان دنوں مسلمان حکمرانوں کے ہندوستان میں خوشحالی اور دولت کی ایسی ریل پیل تھی کہ اس بارے میں1840 ء میں مسلمانوں کی ہندوستان میں سماجی ،تعلیمی برتری اور ان کی مذہبی یگانگت کو ادھیڑ کر رکھ دینے والے لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ بھارت کے طول و عرض میں اسے کہیں فقیر دکھائی نہیں دیے ۔یہ تاجر پہلے چالیس ہزار پونڈ لے کر ملکہ برطانیا کے پاس پہنچے کہ اس میں وہ انہیں جہاز خریدنے کی رقم چھوڑ کر باقی رقم کو نذرانہ جان کر ہندوستان یا اس کے اطراف کاروبار کی اجازت دے۔پہلی مہم ناکام ہوئی تو یہ تاجر پھر سے ستر ہزار پونڈ جمع کرکے پہنچ گئے۔
میلوں دور واقع ہندوستان پر براہ راست فوج کشی مشکل تھی،اتنے وسائل بھی نہ تھے۔تب تک بھاپ اور تیل سے چلنے والے بحری جہاز اور ٹرین بھی وجود میں نہ آئے تھے لہذا 31 دسمبر سن1600 عیسوی میں ملکہ برطانیا ایلزبتھ کی منظوری کے بعدایک جوائنٹ اسٹاک کمپنی جس کا نام آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا گیا وجود میں آگئی ۔ گورے ان دنوں پیار سے اسے جان کمپنی بھی کہتے تھے ۔
انگریزوں کے انہیں پرفریب اور حرص و ہوس سے لتھڑے حربوں کی وجہ سے نپولین انہیں دُکانداروں کی قوم یعنی ’ ’ Nation of Shop keepers ‘‘کے تضحیک آمیز الفاظ سے پکارا کرتا تھا۔ تجارتی جہاز مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں پہنچے اور گجرات بھارت کی بندرگاہ سورت کے کنارے یہ تجارتی مراکز قائم ہوئے۔ پہلے عربوں میں اوربعد میں انگریزوں سے تجارتی تعلقات اور یہ شعور اجاگر کیا کہ دنیا کی کامیابی میں جنگ و جدل سے زیادہ سرمائے کی اہمیت ہے۔
اس شعور نے گجراتیوں کو جن میں آپ سندھ سے ہجرت کرکے پہنچنے والے میمن اور چھوٹے مذہبی گروپ جو ایران سے یہاں آباد ہوئے جیسے پارسی، اسمعیلی،اثنا عشری شیعہ خواجے (حبیب اور گوکل گروپ)کو بھی شامل کرلیں وہ تجارت میں ایسے تیز ہوگئے کہ سندھ کی فتح کے بعد کراچی میں جن چار کمپنیوں کو کراچی میں کاروبار اور سرکاری ٹھیکے دیئے گیے وہ اثنا عشری خوجے تھے ۔اسی کمیونٹی سے ہمارے پیارے محمد علی جناح کا بھی تعلق تھا
مقامی راجے نوابوں کی نالائقیوں، ماتحت جاگیرداروں کی غداریوں ،اپنی پرائیوٹ فوج اور ان کی ریشہ دوانیاں جو علم اور دولت سکھاتے ہیں اس کی بدولت یہ بہت جلد بھارت ،برما، ملائشیا،سری لنکا پر تو براہ راست حکمرانی کرنے لگی اور چین کی تجارت پر بھی اس کا قبضہ ہوگیا۔مغل شہنشاہ نورالدین سلیم جہانگیر کے زمانے سے انہوں نے تجارت پر ایسا قبضہ کیا کہ ہندوستان سے کپاس، ریشم، گندھک ،چمڑہ انگلستان جانے لگا ۔تاجروں نے در آمد برآمد پر کسٹم ڈیوٹی بھی معاف کرالی ۔ 1757 ء میں نواب سراج الدولہ کو بنگال میں شکست دے کر بنگال میں اپنی حکومت بھی بنالی اور ڈھائی سو سال یعنی 1857 ء تک ہندوستان پر اسی کمپنی بہادر کی حکومت رہی۔تاج برطانیا ان کی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہی خوش تھا تا وقتیکہ کمپنی جنگ آزادی میں الجھ گئی اور برطانوی حکومت کو براہ راست نوے برس تک خود ہی حکمرانی کا درد سر جھیلنا پڑا ۔
ایسٹ انڈیاکمپنی کی ناکامی سے امریکی رہنماؤں نے بڑا اہم سبق یہ سیکھا کہ تجارت اور حکمرانی کو ایک دوسرے سے بہت پرے رکھا۔ 1776 ء میں جب امریکا نے انگلستان سے آزادی حاصل کی تو انہوں نے جہاں برطانوی تاج سے جان چھڑائی وہیں اپنے آپ کو برطانیا کی تجارتی کمپنیوں کے چنگل سے بھی آزاد کرایا۔انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ تاجروں کے مفادات اگر عوامی مفادات پر غلبہ پالیں تو سرکاری وسائل اور دولت پر چند افراد کی اجارہ داری ہوجاتی ہے۔ اس سے غربت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ غربت یا تو انقلاب کا باعث بنتی ہے یا مجرمانہ سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے۔ سرمایہ داروں کو ہر حال میں امور سرکاری سے دور رہنا چاہیے۔
ابتدائی ایام میں انہیں یہ اجازت بھی نہ تھی کہ وہ انتخاب میں کسی طور پر حصہ دار بنیں مگر وہ اپنے کاروباری علاقوں میں سہولت کی خاطر سڑکیں ،آبی گزر گاہیں اور ایسے منصوبے بناسکتے تھے جن سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ۔ان کے چارٹر (پروانۂ کاروبار ) بھی محدود مدت تک ہی رہتے تھے انہیں کاروبار کے علاوہ جائیداد اور ابلاغ عامہ کے اداروں سے بھی پرے رکھا جاتا تھا۔ان کے مالکان کے خلاف پرچے بھی باآسانی درج ہوجاتے تھے۔یہ کنٹرول کوئی سو سال تک جاری رہا۔ صنعتی انقلاب نے جب وسیع آبادیوں کے افراد اور علاقوں کو کارپوریشن سے وابستہ کردیا تو یہ کارپوریشنیں ریاستوں پر حاوی ہو گئیں۔انہوں نے اپنے مالکان کو ہیرو کے روپ میں پیش کرنے کے لیے میڈیا کو خریدنا شروع کردیا اور موجودہ کارپوریشن اس کی جدید شکل ہے۔پاکستان میں بھی ہر بڑا اخبار کسی نہ کسی چینل کا مالک ہے ۔یہ نیوز پرنٹ بھی بیچتا ہے۔اشتہارات کے حوالے سے کبھی حکومت تو کبھی ایف بی آر کے افسران کو تگنی کا ناچ نچاتا ہے۔
انقلاب امریکاسے وابستہ اپنے لیڈر صاحبان کے عزائم بھانپ کر امریکی کارپوریشن اپنے مشن اسٹیٹمنٹ (لائحہ عمل )میں یہ بات بن بیان کیے ہی اپنا بیٹھی ہے کہ وہ جمہوریت کو مستحکم رکھے گی ۔زندگی کی دوڑ میں قابلیت ،مسابقت ،مقابلے صحت مند تفریح اورلبھانے والی جلوہ نمائی((Glamour کو فروغ دے گی، جمہوریت کے اصلی ضامن ادارے یعنی ایک آزاد عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کرے گی اور ایک بے باک میڈیا کو بہت نامحسوس طریقے سے اپنے سرمائے سے داخل حرم کرلے گی۔اپنی تجارت کے بے پایاں فروغ کے لیے اپنی نت نئی ایجادات اور عالمی منڈیاں ڈھونڈ لے گی ۔جس کی وجہ سے ایک کارروائی میں دباؤ کو دوسری Field of Activity یا علاقے میں آسانی سے منتقل کیا جاسکے ۔ اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس کی سکونت والی مملکت میں اس کے خلاف مخاصمانہ جذبات نہیں پائے جاتے۔گوگل، مائیکروسوفٹ، ایپل ،کوکو کولا اور پیٹزا ہٹ کو عوام دوست کمپنیا ں شمار کیا جاتا ہے۔
اس سے قطع نظر اگر ان کی شیل کمپنی نائیجریا میں غد ر مچاتی ہے تو دنیا بھر کے سرمایہ داروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس ملک نائیجیریا میں لوٹ مار اور کرپشن کا ایسا کھٹراگ کھڑا کیا ہے کہ افریقا کے دنیا کے دیگر ماہرین معاشیات اب صرف ایک نکتے پر متفق ہیں کہ نائیجیریا کے عوام اس لیے مفلوک الحال ہیں کہ اس کے سیاست دان بہت مالدار ہیں۔
مشہور امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ اگر سن اسیّ کی دہائی میں بھوپال( بھارت) میں اپنی فیکٹری سے زہریلی گیس کے اخراج کی وجہ سے تباہی اور دو ہزار ہلاکتوں کا موجب بنتی ہے تو براہ راست اس کے خلاف کہیں کارروائی نہیں ہوتی۔ بھوپال کے ان باشندوں کو نہ توچالیس سال سے اوپر کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی معاوضہ ادا ہوا ،نہ اس زہریلی گیس کے اخراج سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے شکار باشندوں کا مناسب علاج ہوا۔اس کے بالکل برعکس جب برٹش پیٹرولیم کے ایک اسٹیشن سے زیر زمین تیل کا اخراج گلف آف میکسیکو میں ہوا تو امریکا کی جانب سے دائر کردہ دعووں کی مالیت نوے ارب ڈالر تک جاپہنچی ہے جس کی وجہ سے وہ کمپنی تباہ ہوچکی ہے۔دنیا کی مشہور جرمن کار کمپنی Volkswagen کو مضر صحت دھواں چھوڑنے والے انجن کی بنیاد پر مقررہ معیار سے کچھ زیادہ اخراج پر جب امریکامیں قانونی گرفت میں لیا گیا تو اس کے نقصانات کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس کے حصص کی قیمت دنیا بھر میں ستر فیصد نیچے گر گئی۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...