... loading ...
سیف اللہ خالد حزب المجاہدین کے نا ئب امیر ہیں۔ اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی توانا آوازہیں۔ حلقہ احباب میں فصاحت اور بلاغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اللہ کے دین اور آزادی کشمیرکی جدوجہد میں مجاہدانہ اور قائدانہ کردار جو سیف اللہ خالد نے پیش کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لیور پہلگام اسلام آباد کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والے58 سالہ مجاہد کمانڈر عامر خان المعروف سیف اللہ خالد ربع صدی سے بھارتی استعمار کے ظلم و جبراور آٹھ لاکھ فوج کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ 1995 سے1999تک ایک ایسا دور بھی آیا جب بھارتی ایجنسیوں کی سرپرستی میں، بھارت نواز کشمیری بندوق برداروں کے کئی گروپ وجود میں آئے اور جن کی آڑ لے کر بھارتی فورسز نے مجا ہدین کے ہمدردوں، قریبی رشتہ داروں اور جماعت اسلامی سے وابستہ افراد و قائدین کا چن چن کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، تو اس وقت کئی بڑے بڑے نامی گرامی عسکریت کے شہسوار عافیت کوشی کے لیے گمنام گوشوں کی تلاش میں تھے، حزب المجاہدین کی صف اول کی تمام قیادت تقریباً جام شہادت نوش کرچکی تھی۔ انہی حالات میں سیف اللہ خالد کے نحیف کندھوں پرحزب چیف آپریشنل کی ذمہ داری کا بوجھ ڈالا گیا اور سیف اللہ خالد نے اس بھاری ذمہ داری کو اُٹھاکر ہچکولے کھاتے ہوئی اس کشتی کو ساحل تک پہچانے کی ٹھان لی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کی قیادت میں، مجاہدین کشمیر پھرمنظم ہو گئے اور بھارتی بندوق برداروں کو پھر چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملی۔ بحیثیت آ پریشنل کمانڈر، حزب المجاہدین کو جموں و کشمیرکے طول و عرض میں متحرک اور منظم کیا۔ تیر بہدف کارروائیوں سے حزب المجاہدین بھارتی فوجیوں کے لیے دہشت کی علامت بن گئی۔ غداروں کے لیے زمین تنگ کردی، حالات کے دھارے کو تبدیل کرنے کے لیے وقت نے جس قربانی کا تقاضا کیا۔ سیف اللہ خالد نے خندہ پیشانی سے پیش کرکے اپنے آ پ کو قربانی کا پیکر ثابت کیا، ان کے باغات کاٹے گئے، تیار فصلوں کو لوٹا گیا، گھر جلایا گیا، دو بیٹوں اور ایک بھائی کو شہید کیا گیا، لیکن۔ ۔ ۔ ہر آزمائش سے سرخ رو ہوئے۔ آج کل جموں و کشمیرکے اس حصے میں مقیم ہیں۔ اُن سے وجود ڈاٹ کام نے کشمیر کی تحریک پرخصوصی گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے۔
جواب:-’’یہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے‘‘۔
جو لوگ بھی اس تحریک (مسلح جدوجہد) سے وابستہ رہے ہیں، وہ کھاتے پیتے گھرانوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ میرا تعلق بھی ایک متمول گھرانے سے تھا۔ بچپن اور جوانی عیش و عشرت میں گزاری، لیکن اس دور میں بھی کسی ظالم کا ظلم کسی مظلوم پر میرے لئے ناقابل برداشت ہوتا تھا تو قوم اور ملت پر ظلم کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جو میری پیدائش کے وقت ہی سے تحریک اسلامی (جماعت اسلامی) سے وابستہ تھا۔ والد صاحب جماعت اسلامی کے رُکن تھے اور گھر میں وسیع اسلامی لٹریچر موجود تھا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں اس اسلامی لٹریچر سے استفادہ کرتا رہتا تھا۔ والدین کی تربیت کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے عظیم بزرگوں محترم سعد الدین صاحبؒ، مولانا احرار صاحبؒ، مولانا حکیم غلام نبی صاحبؒ، محترم سید علی گیلانی صاحب، محترم سلیمان صاحب زالورہؒ اور محترم شیخ غلام حسن صاحب وغیرہ کی تربیت سے بھی فیض حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، کیونکہ ہمارا گھر تحصیل بجبہاڑہ اور تحصیل پہلگام میں جماعت اسلامی کا مرکز رہا ہے، اس لئے اس پُرخطر راستے میں شعوری طور قدم رکھا اور اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ راہِ جہاد بہت ساری قربانیوں کی متقاضی ہے۔ جب بیٹے اور بھائی شہادت کے منصب پر فائز ہوئے، تو سورۃ البقرہ کی یہ آیت نظروں کے سامنے آئی ؛ ’’ترجمہ: ہم تمہیں ضرور خوف، بھوک، مال اورجان کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔
ج :جی۔ ۔ ہاں میں رُکن جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ 6سال تک 11ذیلی حلقوں کا مرکزی امیر رہا ہوں۔
ج:- میدان کارزار میں ہزاروں ایسے واقعات رونما ہوئے، جہاں اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت صاف نظر آتی تھی۔ میرے ساتھ بھی درجنوں واقعات ایسے ہوئے جہاں عقل لب بام رہی اور عشق نے چھلانگ لگائی۔ طوالت سے بچتے ہوئے صرف ایک واقعہ مثال کے طور پر عرض کروں گا:
1994ء میں حزب المجا ہدین کا ڈسٹرکٹ کمانڈر تھا اور دشمن کو کافی مطلوب تھا۔ ایک کارروائی میں دشمن کا کافی جانی نقصان ہوا۔ ردعمل میں میرے گھر سے سارا مال و اسباب دشمن نے اپنی گاڑیوں میں بھر کر لوٹ لیا۔ میرے والد بزرگ نے عدالت میں ایک خلاف کیس دائر کیا۔ عدالت نے ڈی آئی جی پولیس کی قیادت میں تحقیقات کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ جس دن یہ کمیشن ہمارے گھر تحقیقات کے لئے آیا، اُس دن میں بھی اپنے ہی گاؤں میں کسی اور جگہ اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ چونکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ڈی آئی جی کی قیادت میں کمیشن بنایا گیا ہے میں سمجھا کہ تھانے کے کچھ پولیس اہلکار ایس ایچ او کی قیادت میں آئے ہوئے ہیں۔ ایس ایچ او سے متعلق اس سے پہلے بھی کچھ تحریک مخالف شکایات موصول ہوئی تھیں، موقع کو غنیمت جان کر، میں بھی گھر کی طرف آنکلا۔ بندو ق جیکٹ کے نیچے چھپاکر کے گھر کے صحن میں پہنچا تو ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور ایس ایچ او کو سامنے کھڑے پایا۔ وسیع و عریض گھر کا صحن آرمڈ پولیس، پولیس، بی ایس ایف اور سی آر پی ایف سے کھچا کھچ بھر ا تھااور میں سامنے بلا مبالغہ اللہ کے فضل سے بغیر کسی خوف اور ڈر کے کھڑا تھا۔ ایس ایس پی، ایس ایچ او اور پولیس اہلکارایک ایک کرکے ڈی آئی جی کی نظروں سے بچتے ہوئے مجھے سیلوٹ دے رہے تھے اور ڈی آئی جی کے چہرے پر ڈر اور خوف کی وجہ سے زردی چھا گئی۔ ہکا بکا کبھی میری طرف اور کبھی میرے لٹے ہوئے مکان کی طرف دیکھ رہا تھا اور بغیر مزید کوئی کارروائی کرکے کر اپنی فوج ظفر موج جن کی تعداد80 سے85 تک تھی کے ساتھ نکل گیا۔ بعد میں ڈی آئی جی کو اسی بنیاد پر معطل کیا گیا کہ آپ نے سیف اللہ خالد کو مارا یا گرفتار کیوں نہیں کیا۔ حالانکہ گرفتار کرنا یا شہید کرنا اُس وقت اُن کے لئے بہت آسان تھا۔ آج بھی یہ واقعہ میرے ذہن میں کبھی گونجتا ہے تو سورہ الانفال کی اس آیت پر نظر پڑتی ہے؛ ’’ترجمہ: ان کافروں (دشمنوں)کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں‘‘۔
ج:- اہل حق پر جو کچھ بیتی ہے، اس کا عشر عشیر بھی مجھ پر نہیں بیتی ہے۔ بیٹوں اور بھائی کی شہادت آنکھوں کے سامنے، باغات کو کاٹنا، فصل کو لوٹنا، دو مکانات کو بارود سے زمین بوس کرنا، ۳۰ افرادِ خانہ کی جلا وطنی، باپ بھائیوں اور رشتہ داروں کو انسانیت سوز ٹارچر، جائیداد کو ضبط کرنا، یہ سب کچھ دیکھا اور آج بھی میرے گھر والوں کو بہت کچھ سہنا پڑ رہا ہے اور یہ تحریکوں کا خاصہ ہے اور اللہ کے دربار میں قبولیت کی دعا کرتے ہوئے وَاسْتَعِیْنُوْ بِاالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ کے مصداق کھڑے ہیں۔
ج:- جنرل مشرف صاحب کی معذرت خواہانہ، بزدلانہ اور ناقص پالیسی نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو کافی نقصان پہنچایا بلکہ مملکت ِخداداد پاکستان کو بھی نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کے دلدل میں پھنسا دیا اور دشمنوں نے کافی فائدہ اُٹھایا۔ پاکستان کی موجودہ عسکری قیادت کی پالیسی فی الحال سابقہ پالیسی سے بہت مختلف اورمثبت نظر آرہی ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر چہ سشما سوراج کے دورہ پاکستان کے بعد کچھ سوالات جنم لے رہے ہیں تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان نے اس مسئلہ کو بار بار جارحانہ انداز میں بین الاقوامی فورمز پر اُٹھایا ہے۔ حکومت پاکستان کی اس پالیسی کو ہم خاصی اہمیت دیتے ہوئے قابل تحسین سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت بھی مسئلہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے مابین تمام تنازعات میں اہم مسئلہ قرار دیتی نظر آرہی ہے اور عسکری قیادت نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے دو ٹوک الفاظ میں مکرر یہ بیانات دیئے ہیں کہ اگر کشمیر کا مسئلہ فوری طور پر جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا گیا تو یہ خرمن امن کو آگ لگانے کا باعث بن سکتا ہے اور مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ کہنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اربابِ اقتدار و اختیار پر خواہ سیاسی ہو یا عسکری مجاہدین جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ وہاں کے مظلوم و مقہور عوام کا ہر محاذ خواہ سیاسی ہو، سفارتی ہو، اخلاقی ہو یا عسکری سپورٹ کرنا فرض ہے۔
ج:- نریندر مودی ایسے دہشت گرد وزیر اعظم ہیں جس کے ناپاک ہاتھ بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور واقعی وہ بھارت کو ہندو دیش میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کے جو مسلمان ہندوؤں سے زیادہ ہندوستانی تھے، اُن سے بھی آج کہا جا رہا ہے کہ پاکستان بھاگ جاؤ۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے بارے میں سابقہ حکومتوں کا بھی جارحانہ رویہ تھا اور آج ذرا اس رویہ میں تیزی آئی ہوئی لگتی ہے کیونکہ بی جے پی اور شیو سینا کا نعرہ ہی یہ ہے ’ہندوستان میں رہنا ہے، رام رام کہنا ہے، ہندو بن کر رہنا ہے وغیرہ۔ اسی رویہ سے ہماری جدوجہد میں اُبال اور اُبھار آئے گا انشاء اللہ اسی جارحانہ رویہ سے آج جموں و کشمیر کے مرد و زن، بچے بزرگ کھل کر بھارتی غاصبانہ قبضہ سے آزادی چاہتے ہیں۔ بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت ہو یا نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی یا اور کسی اتحاد کی، سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں اور بھارت کے ناپاک منصوبوں اور خاکوں میں اپنی لیلیٰ ٔاقتدار کی خاطر رنگ بھر رہے ہیں اور ہر کوئی جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے سینوں پر ظلم، جبر اور قہر کا مونگ دل رہا ہے۔
ج:- یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ منوہر پاریکر سے پہلے بھی بھارتی نیتا اور عسکری تھنک ٹینکس (Think Tanks) یہ نسخہ جموں و کشمیر میں آزما چکے ہیں کہ ہم دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گردی سے کریں گے۔ 1995ء سے لیکر 1997ء تک مسلم مجاہدین اور اخوانیوں کے لباس میں ان زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے اسی منصوبے پر عمل پیرا ہوئے تھے۔ اس پر مستزاد اپنے فوجیوں کو بھی سادہ لباس میں اس پلان کی تکمیل کرنا چاہتی تھی لیکن اللہ کی تائید اور مدد سے سربکف مجاہدین نے اپنی تیر بہدف کارروائیوں سے اس منصوبے کو بیخ و بن سے اُکھاڑ کر ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے اور اُن دہشت گردوں اور اُن کے کمانڈروں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ میں بھی یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بزدل ہمیشہ اوچھے ہتھکنڈوں اور ہتھیاروں سے حملہ کرتا ہے۔ یہ بھارتی فوج اور منوہر پاریکر کی کھلی ناکامی ہے۔ یہ اُس ہیجڑے کی مثال کے مترادف ہے، جب وہ کسی کو گالی دیتا ہے کہتا ہے میرا بھائی آپ کو ویسا اور تیسا کرے۔ خود وہ اس سے قاصر ہوتا ہے۔ ۱۹۶۷ء کے ترجمان القرآن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ’’جب بھارت میں مکمل رام راج قائم ہوگا، تو اُس وقت پاکستان اسلامی پاکستان بن جائے گا اور بھارت میں مظلوم مسلمان آزاد ہو جائیں گے۔
ج:- نائن الیون 9/11 کو امریکا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر مجاہدین کے حملے کا ڈرامہ رچاکر عراق اور افغانستان پر حملہ کرنے کی جو راہ ہموار کی تھی اور نیٹو کے26ممالک کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس اپنے ساتھ ملایا تھا، دنیا کے سامنے نہ صرف ایکسپوز ہوا بلکہ ہر محاذ پر اس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دفاعی بجٹ میں سو فیصداضافے کی وجہ سے امریکا قرض تلے دب چکا ہے۔ بڑے بڑے بینک اور فیکٹریاں دیوالیہ ہوچکی ہیں۔ بڑے بڑے پلازے خالی ہوگئے ہیں۔ عراق اور افغانستان سے ذلیل و رسوا ہوکر نکل چکا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھر کی جہادی تحریکیں پروان چڑھی ہیں۔ سامراجی اور طاغوتی طاقتیں بظاہر خوبصورت اور حسین نظر آرہی ہیں لیکن ان کے اندر کے زخموں سے تعفن اُٹھ رہا ہے جو پورے ماحول کو گندہ اور پلید کر رہا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری مبنی برحق جدوجہد بھی اپنے منطقی منزل کو پہنچ جائے گی۔ ان شاء اللہ
ج:- میں بڑے ادب و احترام کے ساتھ ایسے دانشوروں اور اہل عقل کی رائے پر ماتم کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ موجودہ عالمی منظر نامے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب عسکریت کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے ہیں کہ42 سالہ پُرامن جدوجہد کی ناکامی کے بعد ہم نے مسلح جدوجہد شروع کرکے مسئلہ کشمیر جو اقوام متحدہ کے سرد خانے میں پڑا ہوا تھا، عالمی فلیش پوائنٹ بنایا ہے۔ ایسے ہی اہل دانش اور اہل عقل عراق، افغانستان، فلسطین اور جموں و کشمیر میں سامراجی طاقتوں کی سرکاری دہشت گردی کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ جس دہشت گردی میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو لقمۂ اجل بنایا گیا اور کھربوں ڈالر کی جائیدادوں کو خاکستر، سینکڑوں بستیوں کو تاخت و تاراج اور چادر اور چار دیواری کو پامال کر دیا گیا۔ دنیا کے دوسرے اقوام کے مسائل کو آنِ واحد میں حل کیا گیا(مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان) کیونکہ وہ مسلمانوں کا نہیں عیسائیوں کا مسئلہ تھا۔ Diamond cuts Diamond کے مصداق عسکری غرور کو عسکری جدوجہد ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ پاک بھارت کے مابین150مرتبہ مذاکرات ہوئے لیکن نتیجہ ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘ کے مصداق 2008ء، 2009ء اور2010ء کی فقید المثال پُرامن احتجاجی ریلیاں، جلسے اور جلوس لیکن drop seen انتہائی مایوس کن اور حوصلہ شکن۔ مولانا سید ابو الااعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۶۵ء میں فرمایا ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف جہاد سے حل ہوگا اور بھارت کا غرور مسلح جدوجہد ہی سے پیوند خاک ہوگا ان شاء اللہ۔ مسلمانوں کا کوئی بھی جائز مسئلہ مذاکرات یا بات چیت سے حل ہوا ہے نہ ہوگا۔ مسئلہ کا ایک ہی حل․․․ الجہاد۔
ج:- بھارتی فوج کے افسروں اور اُن کے فوجیوں سے ہم نے ماضی میں بھی بہت سارے ہتھیار اور گولہ بارود خریدا ہے اور خریدتے ہیں اور آج بھی وہ عمل جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سربکف مجاہدین بھارتی بزدل فوجیوں اور ٹاسک فورس کے نا اہل سپاہیوں سے ہتھیار چھینتے ہیں۔ 2013ء سے لیکر آج تک ہمارے مجاہدین نے فوجیوں سے73کلاشنکوف اوردس انساس (Insaas) رائفلیں چھین لی ہیں اور بھی بہت سارے ذرائع سے مجاہدین تک سامان حرب و ضرب پہنچا رہے ہیں۔
ج:- ہماری تنظیم فدائی حملوں کو ناجائز نہیں سمجھتی ہے۔ ہمارے مجاہدین میدان کارزار میں اپنے سروں پر کفن باندھے کیل کانٹے سے لیس ۸ لاکھ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ مجاہدین فدائی نہیں تو اور کیا ہیں۔ فدائی اور خودکش میں واضح فرق ہے۔ خودکشی کے ہم مخالف ہیں اس لئے کہ یہ زندگی سے اورمصائب سے تنگ آکر کی جاتی ہے، جبکہ فدائی دشمن کو بہت زیادہ نقصان پہنچا کر بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ 1999ء میں نتونسہ ہندوارہ میں بریگیڈ کیمپ میں فدائی حملہ کرکے ہمارے مجاہدین نے کیمپ ہی کو تباہ و برباد کر دیا۔ بجبہاڑہ اسلام آباد میں1992ء میں دو بنکروں پر حملہ کرکے دونوں کو تباہ و برباد کرکے ۱۲ فوجیوں کو واصل جہنم کر دیا۔ تُرمکھ لولاب میں1999ء میں ہمارے فدائین نے فوجی کیمپ کو اُڑا دیا۔ ٹنکی پورہ ڈاروسہ فوجی کیمپ پر ہمارے فدائی مجاہدین نے حملہ کرکے پورے فوجی کیمپ کو تباہ کر دیا۔
ج:- پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور پاکستان کی سالمیت اور Integrity کیلئے کشمیر کی آزادی ناگزیر ہے۔ اس مسئلہ کے ساتھ کسی قسم کی سودا بازی یا compromise پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ سابقہ حکومتوں کے ادوار میں کشمیر پالیسی میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس کی بنیادی وجہ عالمی دباؤ اور پاکستان کی اندرونی صورت حال رہی ہے۔ عسکری اور سیاسی قیادت دو مختلف ٹریکوں پر چل رہے تھے جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو کافی حد تک نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کے 18کروڑ عوام کے مؤقف میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کبھی تبدیلی آئی ہے نہ آئندہ آسکتی ہے۔
ج:- نوے کی دہائی والی حزب المجاہدین اور آج کی حزب المجاہدین میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو سب سمجھتے تھے کہ آزادی کل یا پرسوں ملے گی۔ بھارت چند دنوں میں کشمیر کو چھوڑ دے گا نہ کوئی ظلم ہوگا نہ مار دھاڑ، گرفتاری ہوگی نہ انٹروگیشن، نہ ٹارچر نہ مخبری، کیونکہ ساراعوام مسلح جوانوں کے پشت پر نظر آرہا تھا۔ مجاہدین قوم کے ہیرو اور مافوق الفطرت سمجھے جاتے تھے۔ مجاہدین کو پھول مالائیں پہنائی جاتی تھیں، وازوان کھلائے جا رہے تھے۔ عسکری لوگوں کے ہاتھوں میں لیل و نہار تھے، عسکریت کا طوطی ہر جگہ بولتا تھا۔ قوم کے نوجوان یہ دیکھ کر بلا سوچے سمجھے شعوری اور غیر شعوری طور اس سیلاب میں بہہ گئے۔ جب بھارت نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر دیا تو وہی جوان مسلح جدوجدہ سے کھسکتے چلے گئے۔ بندوق کو خیر باد کیا، سرندڑ کاگراف بڑھتا چلا گیا، رینی گیڈز وجود میں آگئے۔ اس کے برعکس آج جو مجاہدین ہماری صفوں میں شامل ہیں انہوں نے اسی جدوجہد میں آنکھ کھولی، پروان چڑھے، اتار چڑھاؤ دیکھے، اپنی آنکھوں کے سامنے بھارت کا ظلم دیکھا، معصوم لوگ شہید ہوتے دیکھے، اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کو تار تار ہوتے دیکھیں، بستیوں کی بستیاں خاکستر ہوتے دیکھیں۔ اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے یہ پُرخار راستہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا۔ اسی لئے آج حزب المجاہدین کی صفوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، بلند حوصلہ، شہادت کے جذبہ سے سرشار مجاہدین شامل ہیں، جن پر ہمیں فخر اور ناز ہے۔ آج مجاہدین کے اندر سرنڈر کا رجحان ختم ہوچکا ہے، منصوبہ بند کارروائیوں کے ذریعے دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔
ج:- پاکستان کو سیاسی اور سفارتی محاذ پر اعتماد کے ساتھ جارحانہ انداز میں مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں میں اُٹھانا چاہئے۔ بھارت کشمیریوں پر جو ظلم و ستم ڈھا رہا ہے، اس کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے اجاگر کرکے بھارت کو ایکسپوز کروانا چاہئے۔ بھارت نے پاکستان کو دو لخت کرنے کیلئے جو کردار1971ء میں مشرقی پاکستان میں ادا کیا، حالانکہ بھارت کیلئے کوئی جواز نہیں بنتا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان میں اپنی فوج مکتی باہنی کے لباس میں داخل کرکے بنگلہ دیش معرض وجود میں لاتا۔ پاکستان کو یہی کردار کشمیر میں ادا کرنا چاہئے، کیونکہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم اور بنیادی فریق ہے۔ 68 سال گزرنے کے باوجود بھارت اور اقوام متحدہ کشمیریوں سے کیے گئے وعدے کو نبھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ جہاں سیاسی اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حمایت کرنی چاہئے، وہاں عسکری محاذ پر بھی مجاہدین کشمیر کا بھرپورساتھ دینے سے جی نہیں چرانا چاہئے۔ معذرت خواہانہ انداز کو چھوڑ کر جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہئے، کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ہیں۔
ج:-میں پہلے ہی عرض کرچکا ہو ں کہ مذاکرات کی میز آج تک بہت بار سجائی گئی ہے۔ وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکرٹریز کی سطح تک مذاکرات ہوتے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے کیونکہ بھارت سنجیدہ اور مخلص تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ وہ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کر رہا ہے۔ سشما سوراج آئے یا اور کوئی، توقع رکھنا وقت کا زیاں اور خود فریبی ہے۔ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق یا جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ یہ کسی قطعہ زمین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی تقدیر کا مسئلہ ہے اور مذاکرات میں جموں و کشمیر کی مسلمہ قیادت بنیادی اور اہم فریق کی حیثیت رکھتی ہے۔
ج: میرا راستہ تو جہاد ہے مجھے آج بھی یقین ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی آزادی جہاد فی سبیل اللہ ہی سے ممکن ہے۔ اگرچہ تحریک آزادی میں سیاست اور سفارتی محاذ کا اپنا
کرداراور افادیت ہے لیکن بیرونی فوجی قبضہ سوائے مسلح جدوجہد کے نہ کبھی ختم ہوا ہے ا ور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ غلام کا کوئی ووٹ نہیں ہوتا، لہٰذا غلامی کے بندھن توڑنے کے لیے قوم کی متحدہ جدوجہد ناگزیر ہے۔ اگر متحدہ قیادت کے زیر سایہ ریاست گیر اورمنظم مسلح جدوجہد ہوگی، توانڈیا کشمیر سے بہت جلد نکل جائے گا۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...