... loading ...
نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات پر سوالات ہیں اور بہت سوالات ہیں؟ پہلا مسئلہ ساکھ سے جڑا ہے اور پھر اُسی سے جڑا دوسرا مسئلہ مذاکرات پر اعتماد کا ہے۔ نوازشریف کسی اور کونہیں اپنے فارغ بیٹھے صدر کوہی یقین دلائے۔ جو قوم کے قیمتی وسائل پر دانشوروں کواپنے قیمتی خیالات سے نوازتے رہتے ہیں۔ کیا بریک تھرو ہو سکتا ہے؟سجاد میر کے سوال پر اُنہوں نے جو کچھ فرمایا اُسے چاپلوسوں نے فوراً ہی آف ڈی ریکارڈ کی آوازوں میں اُچک لیا۔ مگر اُنہوں نے کہا کہ مودی کا ٹریک ریکارڈ ہی یہ ہے کہ وہ کہہ کر مُکرجاتا ہے اس لئے اُ س پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اگلی بات زیادہ اہم تھی کہ ہمیں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے۔ مگر عجلت کس کو ہے؟ جناب نوازشریف کے اہلِ خانہ اور بھارت کی پراسرار کاروباری شخصیت سجن جندال کو ؟
ایک بات جناب نوازشریف کی سمجھ میں نہیں آتی۔ پاک بھارت تعلقات کا معاملہ اُن کے خاندان کی کسی کاروباری ڈیل کی طرح سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔ برصغیر کی تقدیر کچھ کاروباری لوگوں کے سپر د نہیں کی جاسکتی جن میں سے کچھ اتفاقاً’’دھاندلی زندہ ‘‘عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ اللہ اُنہیں غریقِ رحمت کرے، محترم مجید نظامی نے یہ بات خوب سمجھی تھی۔اُنہوں نے فروری ۱۹۹۹ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ لاہور پر تب دو بنیادی اعتراضات اُٹھائے تھے۔ دووزرائے اعظم کی ملاقات کو ذاتی رنگ نہ دیں ۔ اور واجپائی کو لاہور نہ بلائیں۔ مجید نظامی صاحب کا خیال تھا کہ واجپائی کو واہگہ سے لانا اپنے آپ میں ایک قابلِ اعتراض بات تھی۔ کسی بھی بھارتی وزیراعظم کو لاہور تب لایا جائے جب تعلقات معمول پر آجائیں۔ تب مجید نظامی کو وزیراعظم میاں نوازشریف نے ایک جواب دیا:کچھ نئیں ہوندا۔‘‘تاریخ نے ایک چکر کاٹ کر ہمیں واپس وہیں لاپھینکاہے۔اور حد تو یہ ہے کہ نوازشریف نے تاریخ سے کوئی سبق ہی نہیں سیکھا۔اس مرتبہ وہ فروری ۱۹۹۹ء کی کج ادائیوں سے زیادہ بڑھ کر ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے روابط کے ایسے طریقے نکالے جو سفارت کاری کے مسلمہ طریقوں سے مکمل ہٹ کر تھے۔ یہ کوئی نکسن قسم کا دورہ نہیں تھا۔ ریاستوں کے درمیان سفارتی محاذ پر ’’بیک ٹریک ‘‘کا ایک طریقہ موجود ہوتا ہے۔ مگر اِسے بھی ایک ’’کنونشنل ‘‘ یعنی روایتی انداز سے برتا جاتا ہے۔ نوازمودی کے درمیان ’’بیک ٹریک‘‘کا پورا عمل سفارتی زبان میں ہر گز ’’اسٹینڈرڈ بیک ٹریک‘‘نہیں تھا۔ پھر مودی کو وہ اپنے’’ کیمپ ڈیوڈ‘‘ یعنی امرتسر کے ایک امیر محلے پر رکھے گئے نام اپنے گھر ’’جاتی عمرا‘‘ لے گیے۔ نریندر مودی کی آمد کی خبروں سے پہلے وزیر اعظم نے اپنے ملٹری سیکریٹری کو بھی چھٹی پر بھیج دیا۔ اس پورے عمل سے خوش گمانیاں وابستہ کرنے کے لئے حد سے زیادہ امید پرست یا پھر حد سے زیادہ مفاد پرست بن کر دیکھنا پڑتا ہے۔ یوں بھی تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جس نے صحافیوں پر سب سے زیادہ نوازشات کی بارش کررکھی ہے۔ کوئی اِسے اب اسکینڈل (بھدنامہ) بھی نہیں سمجھتا۔
بھارت کی باخبر خاتون صحافی برکھا دت نے پہلے سے ہی اس پورے معاملے کو اپنی کتاب ’’ڈی ان کوئیٹ لینڈ‘‘ میں طشت ازبام کر رکھا ہے کہ کس طرح نوازمودی کے درمیان ایک بھارتی کاروباری شخصیت سجن جندال ملوث ہیں۔ یہ معاملہ تب زیادہ شکوک آلود ہو جاتا ہے جب سجن جندال اور شریف خاندان کے عرب امارات سے لے کر بیلا روس تک پھیلے کاروباری مفادات کے اشتراک کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی خرابیاں کوئی معمولی یا روایتی نوعیت کی نہیں۔ پاکستان کے اندر حب الوطنی کا پورا علم الکلام بھارت سے تعلقات کی نوعیت پر متحرک ہوتا ہے۔ اگر یہ سارا معاملہ پنجاب کے بغیر کسی دوسرے صوبے کے سیاسی رہنما کے ہاتھوں روبہ عمل آتا تو اب تک غداری کے نامعلوم کتنے افسانے تراشے جاچکے ہوتے۔ اس معاملے کا ایک نظری پہلو یہ بھی ہے کہ اس بحث کو فوی سیاسی تعلقات کے تعصب میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ اور پنجاب سے وابستہ دانشوروں کی طرف سے سیاسی قیادت کو اس کی گنجائشیں اس لئے دی جاتی ہیں کہ ریاستی امور چلانے کا حق فوجی کا نہیں بلکہ سیاسی قیادت کا مانا جاتا ہے۔ نظری طور پر اس بحث کو طے ہوئے ابھی پچاس برس بھی نہیں گزرے ، مگر اس بات کو طے ہوئے تو ہزاروں برس بیت گیے کہ ریاستی امور کسی ’’تاجر‘‘ کے سپرد نہیں کئے جاسکتے۔ ۴۲۷ سال قبل از مسیح میں افلاطون نے اپنی کتاب ’’جمہوریہ‘‘ میں واضح کر دیا تھا کہ ریاست کی سربراہی کسی تاجر کے حوالے نہیں کرنی چاہئے۔ جدید ریاستوں کا اس پر کامل ایمان ہے ۔ اور جدید ریاستوں میں’’ دستوری جمہوریت‘‘ کی ساری بحث ہی اس تناظر میں ہے کہ ’’کارپوریٹ ڈیمو کریسی‘‘نے جمہوریت کو یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ فوجی آمریت سے زیادہ بھیانک بن کر اپنا آپ دکھا رہی ہے۔
دوسری طرف خود بھارت سے مذاکرات کی تاریخ میں کوئی چیز بھی امید دلانے والی نہیں۔ یہاں جس چیز کو سب سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے، وہ بات چیت کا عمل ہی ہے۔ اور یہی چیز دونوں ممالک کی سب سے ناکام شے ہے۔ اس معاملے میں بھارت کا ایک سوچا سمجھا رویہ ہے ۔ وہ عالمی دباؤ پر مذاکرات کرتا ہے اور کسی بھی واقعے کو بہانہ بنا کر اس ملتوی کر دیتا ہے۔ بھارت نے اب تک جو کچھ پاکستان سے حاصل کیا ہے وہ چیز وں کو التوا کی کھونٹی سے باندھ کر کیا ہے۔ کسی اور کی طرف نہیں بھارتی مصنف کلدیپ نائر کی طرف دیکھتے ہیں۔ کلدیپ نائر بھارت میں مختلف مناصب پر بھی فائز رہے ہیں ۔ اُنہوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’Beyond the lines‘‘ میں ہند چینی تنازع کے بعد بھارت پر پڑنے والے عالمی دباؤ کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ مذکرات شروع کرنے کے پورے عمل سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ۱۹۶۲ء میں تب برطانوی اور امریکی سفارت کار بھی مذاکرات کی جگہوں پر خود موجود رہتے تھے، تب بھارتی وفد کو جو کسی وجہ سے مذاکرات سے باہر جانا چاہتے تھے، عالمی دباؤ کے باعث جب ایسا نہ کرسکے تو اُنہیں دارالحکومت سے ہدایت دی گئی کہ ’’مذاکرات بھلے جاری رہیں، مگر پرنالہ جوں کا توں رہے۔‘‘تب بھی راولپنڈی اور نئی دہلی کے درمیان اصل مسئلہ مذاکرات کے موضوعات ہی پر تھا۔ بھارت دیگر موضوعات کو زیربحث لانا چاہتا تھا اور پاکستان کا اصرار مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر تھی۔ اگر کسی کو بھارتی عزائم او رسوچنے کے انداز کو جانچنا ہو تو وہ کلدیپ نائز کی کتاب کے چھٹے باب میں چند فقروں کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔
’‘شاستری کی شدید خواہش تھی کہ وہ بھارت کی نمائندگی کرے۔ پاکستان بھی یہی چاہتا تھا۔نہرو نے سورن سنگھ کو نامزد کیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سورن سنگھ لایعنی گفتگو کا بادشاہ تھا۔‘‘
اب بھارت کو اس سے ذرا کچھ زیادہ چاہئے ، پہلے لایعنی گفتگو سے کام چل جاتا تھا، اب اتنے وعدے اور دعوے ہو چکے ہیں کہ بھارت کو کہہ کر مکرنے والے کی بھی ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے بھارت کی طرف سے خود نریندر مودی آگے بڑھے ہیں۔ مودی سے بڑھ کر مکرنے والے کون ہوگا۔ یہ بات تو خود نوازشریف کے پسندیدہ صدر جناب ممنون حسین فرما رہے ہیں۔ جو ایوان صدر میں ممنویت کے جذبات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں رکھتے۔ بدقسمتی یہ نہیں کہ مگر بھارت کی اس معاملے میں کوئی ساکھ نہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے بھارت سے بات چیت کے معاملے پر خود اپنی ساکھ کو باقی نہیں رہنے دیا۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
بھارت میں مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، حکومت نے دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کا الزام لگا کر مسلم مذہبی گروپ پر 5 سال کی پابندی لگا دی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مذہبی گروپ کے عسکریت پسند گروپوں سے تعلقات ہیں، گروپ اور اس ک...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جنتا کو ایک بار پھر ماموں بنادیا۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارتی وزیراعظم دہلی کے ایک مندر کے دورے پر مہمانوں کی کتاب میں تاثرات لکھنے گئے تاہم وہ پہلے سے ہی لکھے ہوئے تھے۔ نریندر مودی لکھے ہوئے تاثرات کے اوپر صرف ہوا میں قلم چلاتے رہے لیکن انہوں...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...