... loading ...
چند روز قبل دبئی کی ایک ڈھلتی شام عجوبہ روزگار شاہراہ شیخ زید بن سلطان پر دوستوں کے ہمراہ سیر کو نکلا۔ زرق برق گاڑیوں کے قافلے آنکھوں کو چندھیا رہے تھے۔ سڑک کے اوپر میٹرو کا تنا ہوا چھت اور رنگ برنگی بتیاں شام کے نظارے کو اور بھی دلکش بنادیتے ہیں۔ چائے کی طلب اور لنگر گپ مارنے کا من چاہا توسردار انور خان نے کہا کہ آپ کو چچا فقیر محمد کے ہوٹل کی مصالحے دارچائے پلاتے ہیں۔
سردار انور ایک خدائی خدمت گار ہیں۔ وطن کی محبت ان کے رگ ویشے میں رچی بسی ہے۔ جہاں بھی جاتے ہیں دوستوں کا اور غمگساروں کا ایک جہاں آباد کرآتے ہیں۔ فقیر محمد، جسے وہ پیار سے چچا کہتے ہیں، کے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو نے دلچسپ لیکن تکلیف دہ رخ اختیار کرلیا۔ ستر کی دہائی میں فقیر محمد گجر خان کے گاؤں جاتلی میں اسکول استاد تھے۔ دبئی چلو غربت مٹاؤ کا غلغلہ بلند ہوا تو راتوں رات درجنوں نوجوان گاؤں سے گم ہوگئے۔ پتہ چلا کہ رزق کی تلاش میں وہ دبئی پہنچے چکے ہیں۔ ہر ماہ گھروالوں کو خرچ اور نت نئے تحفے بھیجتے ہیں تو لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔
پھر وہ دن آگیا کہ فقیر محمد ایک صبح کاذب گجر خان ریلوے اسٹیشن سے تیزگام پر سوارہوا اورکراچی جاپہنچا جہاں کچھ دوست پہلے ہی اس کے منتظر تھے۔ رات کے تیسرے پہر وہ ساحل سے ایک لانچ کے ذریعے دبئی روانہ ہوگئے۔ کچھ ساتھی جو دوسری لانچ پرسوار تھے کوبحری قزاقوں نے پکڑ لیااور پھر ان کا آج تلک نام ونشان نہ ملا۔ اس زمانے میں دبئی ایک لق دق صحرا تھا۔ چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں تھیں۔ خستہ سڑکیں اور پارک نام کی کوئی شے پائی ہی نہیں جاتی تھی۔
تیل نکلنے سے دوبئی کی قسمت جاگ اٹھی۔ فقیر محمد نے پہلے پہل ایک عرب کفیل کے ہاں ملازمت کرلی۔ بعدازاں رفتہ رفتہ اپنا کاروبار جمانا شروع کردیا اور اب وہ ایک خوشحال انسان ہیں۔ معمر ہونے کے باوجود ہاتھ میں آئی فون سکس رکھتے ہیں اور زندہ دل ہیں۔ مقوی خوراک اور میک اپ نے ان کی عمر چھپارکھی ہے۔ دبئی میں چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے بھی موج کرتے میں لیکن چچا فقیر محمد کی کامیابی کی داستان دوسروں سے بہت مختلف اور بھرپور ہے۔ دبئی آنے سے قبل ان کی تنخواہ تین سو پچاس روپے تھی۔ فقیر محمد نے سوچا کہ انہیں اپنی اور خاندان والوں کی زندگی میں خوشیوں کا رنگ بکھیرنا ہے تو دیار غیر جانا ہوگا جہاں ریالوں اور دیناروں کی ریل پیل ہے اور جفاکش لوگوں پر قسمت کی دیوی جلد مہربان ہوجاتی ہے۔
شام گہری ہوتی جارہی تھی اور چچا کتھارسس کیے بنا ٹلنے والے نہ تھے۔ ان کی باتوں میں پائی جانے والی سچائی اور دکھ نے ہمیں اپنے سحر میں لے لیا۔ گویا ہوئے: دبئی پہنچاتو چند ماہ بعد بیٹے کی ولادت کی خبر ملی۔ ایسا لگا کہ کائنات سمٹ کر میرے پاؤں تلے آگئی ہو۔ جی چاہتاکہ بھنگڑاڈالوں۔ دبئی کی سڑکوں پر دیوانہ وار ناچوں اور لوگوں کو خبر کروں کہ اللہ تعالے نے چار سال بعد چاند کا ایک ٹکرا میرے آنگن میں ڈالا۔ ہر دوسال بعد چھٹی میں گاؤں جاتا۔ ابا جان کے لیے چار بینڈ والا ریڈیو لے گیا تو ان کی تفریح طبع کا کچھ سامان ہوگیا۔ شوق سے خبریں سنتے اور خاص کر فوجی بھائیوں کا پروگرام پاسبان انہیں بہت پسند تھا۔ بیگم کو ٹیپ ریکاڈرلے کردیا۔ وہ گانے اور قوالیاں سننے کی بہت شوقین ہیں۔ چھٹی آتا تو نئے گانوں کے کیسٹ بھرا کراسے دے جاتا۔ اہلیہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی لہٰذا وہ گھر کے حالات، محلے کی خبریں اور دل کے دکھڑے ریکارڈ کر بھیجتی۔ گاؤں سے آنے والا کیسٹ لے کرآتا تو کیمپ کے کسی کونے میں چھپ کر سنتاتو گزرے لمحات حافظے کی سکرین پردوڑنے لگتے۔ والدہ محترمہ بھی کچھ نہ کچھ ریکارڈ کراڈالتی لیکن اباجی پرانی وضع کے انسان تھے۔ سنتے سب کی لیکن گفتگو میں شریک نہ ہوتے۔ کوئی بات اچھی لگے تو مسکرادیتے۔ چالیس سالہ فوجی زندگی اور جنگوں میں شرکت نے انہیں خاندان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لاتعلق کردیا تھا۔
زندگی کے ماہ وسال گزرتے رہے۔ بیگم بتاتی کہ بچے پڑھائی میں اچھے جارہے ہیں۔ ٹیوشن بھی لیتے اور استاد بھی ان کی تعریف کرتے ہیں۔ انہیں زندگی کی ہر آشائش فراہم کرنے کی کوشش کرتا۔ دیدہ زیب لباس، قیمتی گھڑیاں،مہنگے کیمرے اور معقول جیب خرچ۔ میڑک کا رزلٹ آیاتو بتایا گیا کہ بیٹا کالج میں داخل ہوگیا ہے۔ بعدازاں یہ راز کھلا کہ وہ تو فیل ہوچکے ہیں۔ دوسرے بیٹے کا حال بھی اس سے مختلف نہ ہوا۔ فقیر محمد کی آنکھیں ٹپک رہی تھیں اور آواز رندھ گئی۔ میری اور انور صاحب کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ کسی کی دکھ بھری کہانی سنتاہوں تو ایسا لگتاہے کہ جیسے یہ میری اپنی بپتا ہو۔ اسی لیے ٹی وی ڈرامے دیکھنا بند کیے لیکن آج چچا نے تو کسر ہی نکال دی۔ فقیر محمد سے جان چھڑانے کی کئی ترکیبیں کیں کہ مزید سننے کا یارا نہ تھا لیکن وہ مُصر تھے کہ کھانا ان کے ساتھ کھائیں تاکہ وہ اپنی بات مکمل کرسکیں۔
گفتگو کا سلسلہ دوبارہ چل نکلاتو کہنے لگے کہ قسمت کی دیوی مہربان تھی کاروبارجلد چمک اٹھا۔ مصروفیت کا سلسلہ بھی شیطان کی آنت کی طرح دراز ہوتاگیا۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ گاؤں میں شاندار کوٹھی تعمیرکرائی لیکن بیگم اور بچے شہر میں رہنا چاہتے تھے۔ راولپنڈی کے پوش علاقے میں ایک خوبصورت مکان خریدا۔ گھر والے راولپنڈی منتقل ہوگئے۔
بچوں کے رشتے کا وقت آیا تو بیگم اور بچے پہلے ہی اپنے اپنے فیصلے صادرکرچکے تھے حتیٰ کہ میری صاحبزادی نے بھی ایک دن فیصلہ سنا دیا کہ وہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے اور اگر اس کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے تو وہ کورٹ میرج کر سکتی ہے۔ وہ باپ جس نے ساری زندگی خاندان کی خوشیوں کے لیے خون پسینے کی طرح بہایا اچانک تنہاہوگیا۔ قلق اس بات کا تھا کہ فیصلہ کا اختیار دینا تو درکنار مجھے مشورے کے قابل بھی نہ سمجھا گیا۔ بیگم اوربچوں کے ان فیصلوں اور رویے سے میں ٹوٹ پھوٹ گیا۔ ایسا لگا کہ سینہ شق ہوگیا ہو۔ اب ہوٹل میں بچوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے جوڑے دیکھتاہوں تولاشعوری طور پر آنکھ نم ہوجاتی ہے۔
اباجی میرے دبئی جانے کے بعد تنہا ہوگئے تھے۔ کبھی کبھی گجر خان چلے جاتے جہاں ان کی پلٹن کے سنگی ساتھی جمع ہوتے اور گزرے زمانے کی یادیں تازہ کرتے۔ فولادی قوت ارادی کے مالک اباجی اس وقت ٹوٹ پھوٹ گئے جب میرا گھر آنا جانا بہت کم ہوگیا۔ بعض اوقات محض چند دن کے لیے گھرجاتا۔ بچوں اور بیگم کے پاس ابا کے پاس بیٹھنے کا وقت نہ تھا۔ ایک دن اباجی حرکت قلب بند ہونے سے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔ میں انہیں اپنے ساتھ حج پرلے جانا چاہتاتھالیکن آج کل کرتے کرتے وقت گزرگیااور گزراوقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔
یہاں دبئی میں میرا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتارہا۔ اوپر والے نے چھپر پھاڑ کردیا لیکن میری روح مطمئن نہیں۔ اپنے اسکول کے کلرک فیروز دین کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ اس کی اولاد پڑھ لکھ کراعلیٰ عہدوں پر فائزہو گئی۔ سب سے بڑھ کر اپنے باپ سے محبت کرتے ہیں۔ دکھ سکھ میں اس کے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ فیروزدین کا منچلا بیٹا جو راولپنڈی کے ایک بڑے ہسپتال میں ایک شعبہ کا سربراہ ہے۔ میرے بیٹے کی اترن پہنتاتھا۔ وہ سعادت مند بچہ باپ کو اپنے ساتھ نماز فجر کے لیے مسجد لے جاتاہے۔ وہ فیروزدین کی عزت ہی نہیں کرتے بلکہ اُسے دیوتا کی طرح پوجتے ہیں۔ یہ وہی فیروز دین ہے جس کے بچوں کے پاس کالج کی فیس ہوتی تھی نہ ڈھنگ کے کپڑے۔ کاش میں فیروز دین ہوتا۔
فقیر محمد بے تکان بولے جارہے تھے اور ہماری نظریں کھانے کی میز پر گڑی جارہی تھیں۔ چپ سی لگ گئی۔ ایسا لگا کہ ہرطرف سناٹا چھا گیا ہو۔ مزید سننے کی تاب نہ تھی۔ فقیر محمد کو ہماری بے چینی کا احساس تھا۔ اچانک اس کے ہونٹوں پر بے نام سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ آنکھوں میں اچھلتے ہوئے آنسو دور سے دکھائی دے رہے تھے۔ جاتے جاتے اس نے میرے کندھے پر تھپکی دی اورکہا آئندہ دبئی آناہو تو غریب خانے پر ضرورتشریف لائیں۔