... loading ...
افغانستان میں داعش کے اثر و رسوخ کے تدارک کے حوالے سے روسی صدر ولاد میر پیوٹن کی امارت اسلامیہ افغانستان کے امیر ملا اختر منصور سے براہ راست ملاقات محض کسی کے منہ سے نکلی ہوئی بات لگتی ہے ،لیکن اسے قطعی رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس بابت گویا ہوئے ہیں۔ اور روس کے ایک خصوصی ایلچی’’ ضمیر کابلوف‘‘نامی شخص کی طرف سے بھی رابطے کی تصدیق ہوئی ہے۔البتہ امارت اسلامیہ نے تاجکستان میں ہونے والی اس ملاقات اور روسی حکام سے رابطوں کی تردید کر دی ہے۔ یہ ملاقات یارابطہ اگر ہو بھی تو اس میں کوئی قباحت نہیں،بلکہ بات چیت ہونی چاہئے۔
روس کا طالبان قیادت سے روابط کا افشاء ہونا اس امر پردلالت کرتا ہے کہ روس طالبان کو افغانستان کے اندر فی الواقع ایک بڑی سیاسی و مزاحمتی قوت تسلیم کر تا ہے۔ پیش ازیں امریکا اور افغان حکومت امارت اسلامیہ کو حز ب اختلاف کہہ چکی ہے۔عالمی سیاست رُخ بدل چکی ہے ،روس پھر سے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے۔ حالات اور سیاست کے اس بدلاؤ میں افغانستان کی اہمیت دو چند ہے، اور افغانستان میں طالبان ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔جبکہ اس حقیقت کو جھٹلانا حماقت ہے۔امارت اسلامیہ افغانستان داعش کے بارے میں کسی تردّد میں مبتلا نہیں بلکہ انہیں اپنی قوت پر یقین ہے اور سمجھتے ہیں کہ انہیں افغان عوام کی حمایت حاصل ہے۔ طالبان قرار دے چکے ہیں کہ انہیں داعش کے خلاف کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔اس فتنہ کو مٹانے پر وہ نہ صرف قادر ہیں بلکہ کافی حد تک ان کی سرکوبی بھی کر دی گئی ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کا پروپیگنڈہ بڑھا چڑھا کر کیا جا رہا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ افغانستان میں جہاں بھی داعش کے نام سے مسلح گروہ نے سر اُٹھایا ،ان کے خلاف طالبان نے قوت کا استعمال کیا ہے۔ اس گروہ میں طالبان سے منحرف ہونے والے افراد بھی شامل ہوئے ہیں،جنہوں نے لوگوں کو اپنا مطیع اور زیر دست بنانے کی خاطر عام افغانوں اور،علماء و معتبرین کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ ہزارہ قبائل کے افراد اور خواتین کا اغواء اور قتل جیسی وارداتیں بھی امارت اسلامیہ یعنی طالبان کو قبول نہ تھیں۔چنانچہ داعش سے منسلک ان افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ امارت اسلامیہ کا افغانستان کے اندر’’ مقاومت‘‘ غیر ملکی افواج کے انخلاء اور ایک خود مختار افغان حکومت کیلئے جاری ہے۔ طالبان کوئی بیرونی ایجنڈہ نہیں رکھتے۔ امارت اسلامیہ ہمسایہ ممالک اور روس کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا یقین دلا چکی ہے۔ طالبان ہمسایہ اور خطے کے دیگر ممالک سے پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر روابط اور تعلقات کے خواہاں ہیں۔یہ بات طے شدہ ہے کہ کوئی بھی ملک اگر افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومت اور نظام مسلط کرنے کی کوشش بزور طاقت کرے گا تو ان کے خلاف اسی شدت سے مزاحمت بھی ہو گی۔روس اس مداخلت کا مزہ چکھ چکا ہے۔ اپریل 1978ء کا انقلاب در اصل ایک فتنہ تھا جس نے ہنستے بستے افغانستان کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔روسی فوجی حکام اور دفاعی تجزیہ کار تسلیم کر چکے ہیں کہ افغان معاشرے کیلئے انقلابِ اپریل جیسی تبدیلی قبل از وقت تھی اور 1979ء میں سوویت افواج کو افغانستان بھیجنے کا فیصلہ اس سے بھی بڑی سیاسی و عسکری غلطی تھی۔افغانستان کھنڈرتو بن گیا مگر اس کا نقصان سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کی صورت میں سامنے آیا۔یہ اشتراکی فوجی یلغار افغانستان کے مذہبی ،سیاسی ،معاشی اور ثقافتی حالات کی یکسر ضد تھی۔روسی اعتراف کرتے ہیں کہ ایسے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت تھی جو افغان عوام کے ذہنی معیار کے لئے قابل قبول ہوتے۔اگر ان انقلابی اقدامات کو عوام کی اکثریت کی حمایت ہوتی تو جنگ کی نوبت آتی اور نہ ہی وہاں سویت فوج بھیجنے کی ضرورت پیش آتی۔جبکہ اس کے برعکس افغانوں پر سوشلسٹ نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک روسی جنرل ’’محموت احمدووِچ گارییف ‘‘کہہ چکا ہے کہ یہ طویل تاریخی المیہ افغان عوام پر غیر مرئی نظام میں زندگی بزور قوت مسلط کرنے کی کوشش کا شاخسانہ تھا۔امریکی حملہ اور قبضہ تاریخ کا ایک اور سیاہ باب بن چکا ہے۔ امریکی دانشور و اہل علم قبضے اور جارحیت کی اس پالیسی کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ روس اب اشتراکی نہیں رہا اس ملک کو افغان سیکولر اور اشتراکی لیڈروں کی وسعت و فکر ،سنجیدگی اور اخلاص کا بھی نا خوشگوار تجربہ ہو چکا ہے۔ افغان پولیس اور افواج روس کے دور میں بھی اخلاص،نظریاتی اور وطنی جذبہ سے عاری تھی۔ پیشہ وارانہ اہلیت حتیٰ کہ دفاعی مشینری استعمال کرنے کی بھی اہل نہ تھی۔آفیسرز عیش و عشرت میں مبتلا تھے اور عام سپاہی چوکیوں کے آلات و سامان چرانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔خندقوں اور مورچوں میں استعمال ہونے والی لکڑی ایندھن کے طور پر جلا ڈالتے ،یعنی ملک کے دفاع سے پوری طرح غافل تھے۔روسی فوجی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ افغان فوج سویت افواج کے شانہ بشانہ لڑنے میں ہمیشہ سرد مہری کا مظاہرہ کرتی تھی۔ ان کے مقابلے میں مجاہدین نہ صرف منظم تھے بلکہ خالص عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر لڑ رہے تھے ،افغان پولیس اور افواج کا آج بھی وہی عالم ہے۔
اشرف غنی کی حکومت بٹی ہوئی ہے ،فوج اور پولیس میں طالبان کے مقابلے کی سرے سے سکت اور اہلیت نہیں۔سنگین پر قبضہ طالبان کی قوت کا نمونہ ہے۔ اس نوعیت کی پیشرفت افغانستان کے طول و عرض میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کوئی قومی فوج ہوتی تو برطانوی افواج کی مزید کمک ہلمند میں طلب نہ کی جاتی۔روس کے سابق صدر ’’میخائل گور باچوف‘‘ تک نے افغانستان میں مداخلت اور انقلاب کو غلط اقدام قرار دیا۔حیرت ہمارے سیاستدانوں اور دانشوروں کی عقلوں پرہے جو اب تک ’’ثور انقلاب‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ذہنی خباثت دیکھئے کہ آج بھی افغانستان کو آزاد اور جمہوری ملک کہنے کی گردان کرتے رہتے ہیں۔گویا ولادمیر پیوٹن تو طالبان کو سیاسی قوت ماننے کو تیار ہو گئے ہیں ،پر ہمارے ہاں لوگوں کے قلب و نگاہ کو لا حق ضمیر فروشی جیسی مہلک بیماری کا علاج آج بھی نہ ہو سکا۔اقوام عالم کو ڈرانے کے بجائے سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھنے والی اسلامی تحریکات کے ساتھ تعاون اور روا داری پر مبنی تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بڑی طاقتوں کیلئے بھی سود مند ثابت نہیں ہوئی ہے۔ افغانستان میں داعش کی بیخ کنی کی خاطرطالبان بلا جھجھک روس سے بات چیت کریں۔ کیونکہ داعش کا قوت میں آنا در اصل امارت اسلامیہ سمیت افغانوں کے رسم و رواج اور دینی عقائد کیلئے سنگین خطرہ ثابت ہوگا۔
افغان طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ امریکی حکام نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں کسی عسکری گروہ کی مالی امداد نہیں کریں گے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں امریکی حکام س...
افغان طالبان نے ملک بھر کے تمام سرکاری دفاتر پر امارات اسلامیہ افغانستان کا سفید رنگ کا پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کی جگہ امارات اسلامیہ افغانستان کا پرچم لہرایا جائے۔ یاد رہے کہ طالبان کے افغ...
اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمداشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر چند روز قبل 15 فروری کو نظرثانی شدہ اور ترمیم شدہ فہرست میں افغانستان کی خاتون اول کے طورپر سابق صدراشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی(بی بی گل) کا نام بھی ہٹادیا گیا...
افغان طالبان کی مذہبی پولیس نے دارالحکومت کابل میں پوسٹرز آویزاں کر دیے جس میں افغان خواتین کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ طالبان کی جانب سے خواتین سے متعلق عائد کی گئیں حالیہ متنازع پابندیوں میں سے ایک ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پوسٹر، جس میں ایک چہرے کو برقع سے ڈ...
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی)نے سال 2021 کی کرپٹ ترین شخصیات کی فہرست جاری کردی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیگزینڈر جی لوکاشینکو کو منظم مجرمانہ سرگرمیوں اور بدعنوانی کو آگے بڑھانے پر 2021کا کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار دیا گ...
حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...
پاکستانی نمبر سے موصول ہونے والے ایک ٹیکسٹ میسج اور فون کال سے سابق مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب، سابق صدر اشرف غنی کے ساتھ اہلِ خانہ کے ہمراہ افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔امریکی میگزین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان جنگجوئوں کے کابل پر قبضے والے روز، 15 اگست کو تقریبا ایک...
امریکی حکومت کے ایک نگران ادارے نے امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون پر الزام عائد کیا وہ افغانستان کی سابق حکومت اور فوج کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کے ہنگامی انخلا سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کی جانب سے فراہم کرد...
سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔اشرف غنی حکومت کے افراد کو نئی حکومت میں شامل کیے جانے کا امکان تھا مگر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے سے سب ختم ہو گیا۔امریکی میڈیا کو انٹرویو میں زل...
سابق افغان صدر اشرف غنی کی سیکیورٹی عملے کے ایک سینئر رکن نے امریکا کی سرکاری ایجنسی کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس مبینہ چوری کے ویڈیو شواہد موجود ہیں۔امریکی ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق افغان صدر کابل سے فرار ہوتے وقت اپنے ساتھ 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لے گئے تھے...
افغانستان کے نگراں وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے کہا ہے کہ امریکی وفد سے نئی شروعات پر بات ہوئی ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان اور امریکا کے 2 روزہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔عرب میڈیا سے گفتگو میں مولوی امیر خان متقی نے کہا کہ امریکی وفد سے افغان امریکا تعلقات کی نئی شر...
افغانستان میں طالبان نے اپنی اسپیشل فورسز کو داعش کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے داعش کے جنگجوؤں کو چن چن کر نشانہ بنائیں۔جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے طالبان کے ایک ترجمان بلال کریمی کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان فورسز نے داعش کے متعدد اراکین...