... loading ...
پاکستان کی کشمیر پالیسی ویسے تو من حیث المجموع تضادات کا مجموعہ رہی ہے ۔لیکن 1999ء سے ،اس نے ایک نئی شکل اختیار کی ،جسے کشمیر کش پالیسی کا نام دینا زیادہ بہتر محسوس ہورہا ہے۔ٹریک سے چڑھتی اُترتی اس پالیسی کا نقصان سب سے زیادہ ان مجاہدین کو ہوا جنہوں نے چند ہی سالوں میں دہلی کی چو لیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔دہلی کے سنجیدہ حلقے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اگر جہادی ،کشمیر کے منظر نامے میں اسی طرح چھائے رہے تو بھارتی معیشت بیٹھ جائیگی اور ایک ارب سے زائد آبادی کو سنبھالنا مشکل ہوجائیگا۔ اس دوران پاکستانی وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف کو مزاکرات اور پیس پروسیس کے ذریعے سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا خیا ل آیا۔اس سلسلے میں دہلی لاہور بس سروس قائم کرنے اور پھر اس بس سروس کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان لانے اور لاہور میں بیٹھ کے مزاکرات کرنے کا پروگرام طے ہوا۔
20 فروری 1999ء کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کے درمیان اعلان لاہور ہوا،جس میں پر امن ذرائع سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کا اعادہ کیا گیا ، تاہم اس اعلان نامے کی گونج ابھی فضا میں ہی معلق تھی کہ پتہ چلا کہ بھارت کے زیر انتظام کارگل کی چوٹیوں پر پاکستانی افواج نے قبضہ کر لیا ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ اس چڑھائی کو حریت پسندوں کے کھاتے میں ڈالتی رہی ۔لیکن جب بھارتی فورسز نے کارگل کی چوٹیوں پر بوفورس توپوں سے گولے برسانے شروع کئے اور جیٹ طیاروں سے بمباری شروع کی تو اس کا جواب دینا پاک آرمی کیلئے مشکل ہوگیاکیونکہ انہوں نے وہاں لڑ رہے فوجی جوانوں کو مجاہدین کشمیر قرار دیا تھا۔ ا گرچہ بھارت کا بھی اس میں کافی جانی نقصان ہورہا تھا لیکن معاملہ اب کھلی جنگ کی طرف بڑھنے لگا۔اُس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو (جو اس کیلئے تیار نہیں تھے اوربقول ان کے وہ اس آپریشن سے قطعی بے خبر بھی رکھے گئے تھے) واشنگٹن جانا پڑا اور یوں امریکی مداخلت سے ان چوٹیوں کو پھر بھارت کے حوالے کیا گیا اور ا س طرح جنگ تو ٹل گئی لیکن آپریشن نہ صرف ناکام ہوا بلکہ جو سیز فائر لائن ،کنٹرول لائن میں شملہ سمجھوتے کی وجہ سے تبدیل ہوئی تھی ،کلنٹن نواز سمجھوتے کے نتیجے میں اسے بین الاقوامی سرحد جیسا تقدس فراہم ہوگیا۔کارگل آپریشن کی ناکامی سے اس پورے علاقے کی حریت پسند تحریکوں پر منفی اثرات پڑے۔پاکستانی عوام اور پاکستانی دانشوروں نے اس آپریشن کی ناکامی پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔
محمد نواز شریف کو اس ناکامی کے انجام کا سامنا کرنا پڑا ،اور اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔اگرچہ وہ بار بار اس بات کی وضاحت کررہے ہیں کہ وہ اس آپریشن سے لاعلم تھے ،لیکن جس شرمناک انداز میں انہوں نے اپنی افواج کو یہ آپریشن ختم کرنے کیلئے امریکا سے مدد لی ،وہ ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے حکمران کے شایان شان نہیں تھا۔
ممتاز تجزیہ نگار اور دانشور نسیم زہرہ اپنے کالمAn Assessment of Pakistanis Kargil Diplomacy
(The Daily News 12.07.99)میں لکھتی ہیں کہ
ـ’’صحیح یا غلط پاکستانیوں کی اکثریت نے کلنٹن نواز شریف معاہدے ،جس میں حکومت پاکستان کو مکلف ٹھہرایا گیا ہے کہ مجاہدین کے انخلا کو وہ ممکن بنائے اپنی تحقیر اور ہتک عزت سمجھا۔امریکاکے سامنے اس طرح سر بسجود ہوکر اپنی خودی کو پاش پاش کرنیکے اس عمل سے پاکستانی شرمندگی محسوس کررہے ہیں،لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اس معاہدے سے ہماری غیرت کو للکارا گیا ہے۔۔۔کیا ہم واقعی امریکی پیادے ہیں اور سوچنے ، سمجھنے سے عاری ہیں اور کیا ہم خود فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔کشمیر کے حوالے سے ہماری کوششیں اس شہاب ثا قب سے مماثلت رکھتی ہیں جو کچھ دیر کیلئے آسمان میں چکا چوند پیدا کرتا ہے لیکن پھر کچھ دیر بعداچانک نیچے آگرتا ہے ۔۔۔بھارتی اب ہمارے مرحلہ وار انخلا کو ہماری ایک اورشکست سے تشبیہہ دے رہے ہیں جو 1971سے زیادہ شرمناک اور ذلت آمیز ہے‘‘
معروف دانشور ،تجزیہ نگارڈاکٹر رفعت حسین نواز کلنٹن معاہدے کو اپنے کالمImplications of the July 4 deal جو 11جولائی99 اخبار ڈیلی نیوز میں شائع ہوا ،کے اثرات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
’’کلنٹن نواز ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا،اس پر پورے ملک میں ایک سخت رد عمل دیکھنے میں آیاہے۔اعلامیہ میں لائن آف کنٹرول کے تقدس کو شملہ سمجھوتے کی روشنی میں بحال کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے اور پوری طرح کنٹرول لائن کے تقدس کی بحالی کے بعد یہ وعدہ کہ صدر کلنٹن خود بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات میں دلچسپی لیں گے کو سفارتی حلقے جلد بازی میں لیا گیا اقدام اور اس پر شدید ناراضگی اور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں”
معروف اسٹریٹجسٹ اور تجزیہ نگار ڈاکٹر شیریں مزاری اپنے کالمIndia’s New Kashmir Offensiveجو12اگست 99کو ڈیلی نیوز میں شائع ہوا ،پاکستانی حکمرانوں کی عقل پر ماتم ہی کرتی ہیں۔لکھتی ہیں۔۔”پاکستان کشمیر کے معاملے پر ایک اچھی اورمضبو ط حیثیت رکھنے کے باوجود دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے،اس کے برعکس بھارت جس کو اخلاقی اور نہ سیاسی جواز حاصل ہے وہ جارحانہ سفارتی مہم چلا رہا ہے۔ہم اپنی روش بدل تو سکتے ہیں لیکن کیا ہم بدلنا چاہتے ہیں۔۔۔”
معروف صحافی اور تجزیہ نگار شاہین صہبائی ڈیلی ڈان اخبار 13جولائی 99کے شمارے میں اپنے کالم Blair House to Kargilمیں نواز شریف کو کنٹرول لائن کو بین الا قوامی سرحد بنانے اور قومی موقف ترک کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ،لکھتے ہیں:
’’یہ نشست اور اسکا نتیجہ دونوں ہی تاریخی تھے۔پاکستان ایسے اقدامات اٹھانے پر رضامند ہو گیا جن پر اگر مکمل طور پر عمل درآمد ہو جائے تو کشمیر کی تاریخ کا دھارا ہی بدل جائے گا اور نواز شریف ایک پچاس سالہ تنازعہ حل کرنے والے لیڈر کے طور پر تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ اب وہ پاکستان کے حق میں ہو یا نہیں یہ بھی ہمیشہ کے لیے متنازع اور بحث طلب ہوگا‘‘
کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کا خواب دیکھنے والوں کیلئے اس کا یہ سمجھوتہ حوصلہ افزا تھا ،لیکن آزادی کے متوالوں کیلئے اس میں مزید غلامی برداشت کرنے کا پیغام تھا۔ کارگل آپریشن کی ناکامی سے نہ صرف کشمیری قوم بلکہ کشمیری قیادت پر بھی منفی اثرات پڑے۔یہ ناکام آپریشن نہ صرف نواز شریف کو لے ڈوبا بلکہ کشمیریوں کی مقامی طاقتور تنظیم حزب المجا ہدین کی قیادت میں بھی انتشار ڈالنے کا باعث بنا ۔حزب کے اہم رہنما عبد المجید ڈار اسی روز سے عملاََ عسکریت سے تائب ہوگئے ۔اور مشرف نے ڈار صاحب کی اس سوچ کو پروان چڑھاکر اسے بھی تاریخ کا ایک حصہ بنادیا اور خود بھی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوگئے۔
جنرل مشرف جو کارگل کی مہم جوئی کا کریڈٹ لینے میں کبھی ہچکچا تے نہیں تھے۔ 9/11کے حملوں کے بعد امریکی جارحانہ عزائم کے سامنے بالکل سر بسجود ہوچکے تھے۔وہ اب ہر وہ اقدام اُٹھانے کے لئے تیار تھے ،جس سے نہ صرف امریکا بلکہ بھارت کی خوشنودی انہیں حاصل ہوجائے۔
نومبر2003ء کو وزیر اعظم پاکستان ظفراﷲ خان جمالی نے صدر مشرف کی ہدایات کے عین مطا بق ،بھارت کو کنٹرول لائن پر سیز فائر کی پیشکش کی ،جسے بھارت نے قبول کیا اور باقاعدہ 25نومبر 2003ء کو سیزفائر کے نفاذکا اعلان ہوا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ 17جولائی 1972ء کو دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا تھا اور جسکے نتیجے میں سیزفائر عمل میں آیا تھا اور وہی سیز فائرلائن 11دسمبر1972ء کو کنٹرول لائن میں تبدیل ہوئی تھی۔
تب سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نہ کوئی جنگ ہوئی اور نہ ہورہی تھی تو اب سیز فائر کا کیا مطلب تھا۔اصل میں اس سیز فائر کے ذریعے بھارت کو ایک مکمل آہنی باڑھ کھڑی کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔سیز فائر کی آڑ میں دو خطوں کے درمیان ایک دیوار قائم کی گئی اوراس دیوار کے بعد نہ صرف مجاہدین کی نقل و حرکت کو روکا گیا بلکہ ان لوگوں کاراستہ بھی بند کیا گیا جو بھارتی مظالم سے تنگ آکر مہاجر ین کی حیثیت سے یہاں داخل ہونا چاہتے تھے۔کیا مضحکہ خیز صورتحال ہے، ایک طرف دیوار برلن گرائی جاچکی تھی اور دوسری طرف دیوار کشمیرکھڑی کی جارہی تھی۔ عسکریت پسند اس صورتحال کے نتیجے میں تنہائی اور مشکلات و مسائل کا شکار ہورہے تھے ۔حیرت کی بات یہ تھی کہ حریت کانفرنس کے بعض مایوس لوگوں کو ٹنل کے اس پار روشنی کی کوئی کرن نظر آرہی تھی۔ادھر دوسری طرف پاکستانی فوجی حکمران پرویز مشرف کوایسے ہی لوگوں کی تلاش تھی جو اس کی ہاں میں ہاں ملادیں۔
25اکتوبر2004 ء کوسابق صدر مشرف نے ایک افطار پارٹی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اپنے چار نکاتی فارمولے کا اعلان کیا ۔ جن کے مندرجات اس طرح تھے۔
1۔جموں و کشمیر کو سات ضلعی خطوں ڈسٹرکٹ ریجنز میں تقسیم کر دیا جائے۔
2۔ان خطوں کی نشاندہی کی جائے جن میں فوجی انخلا ء شروع کیا جائے۔
3۔جموں وکشمیرمیں سیلف گورننس ہو۔
4۔بھارت اور پاکستان ، ریاست کا مشترکہ انتظام سنبھالنے پر اتفاق کریں۔
مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سابق صدر کا چار نکاتی فارمولا پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ یہ حق خود ارادیت کی تحریک کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا کیونکہ اس کو مسلمہ دو قومی نظریے اور بین الاقوامی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر پیش کیا گیا تھا۔ اس میں کشمیریوں کے مفادات کی نہیں بلکہ مغربی اور مشرقی حکمرانوں کے مفادات کی عکاسی ہو رہی تھی۔
بھارت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے مشرف فارمولہ کو مثبت قرار دے کر مزید اقدامات کرنے کی تجاویز پیش کیں ۔اُنہوں نے 24 مارچ2004 کو اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:
1 ۔سرحدوں کو دوبارہ نہیں کھینچا جاسکتالیکن ان کو غیر موثر Irrelevent بنایاجاسکتا ہے ۔
2 ۔ ایل او سی کے دونوں طرف رہنے والوں کو آر پار نقل و حرکت اور تجارت کی آزادی دی جانی چاہیے۔
3 ۔اس طرح ایک ایسی صورت حال کا تصور سامنے آسکتا ہے جس میں بھارت اور پاکستان کی عملی حوصلہ افزائی سے ان منصوبوں پر کام ہو گا تاکہ باہمی تعاون کے فوائد خطے کی سماجی اور معاشی ترقی کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال میں لائے جائیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے ان نکات کا بھی خیر مقدم کیا ، حالانکہ یہ خالص تجارتی نکات ہیں اور وہ بھی مسئلہ کشمیر کے لحاظ سے بھونڈے قسم کے۔ سیاسی اغراض و مقاصد کے پردوں میں چھپے ان تجارتی نکات میں سیاسی مسئلے کے حل کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔۔
جنرل مشرف کی کشمیر پالیسی کو پاکستانی صحافیوں اور دانشوروں نے کس نظر سے دیکھا۔چند اقتباسات آپ بھی ملاحظ فرمائیں۔
معروف کالم نگاراور ٹی وی اینکرجاوید چودھری مشرف کی کشمیر پالیسی پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے روزنامہ ایکسپر یس کے کالم “زیرو پو ائنٹ”میں یوں رقمطراز ہیں۔۔
” پاکستان کے لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی یہ اس جنرل پرویز مشرف کا ملک ہے جس نے کشمیر کیلئے دو جنگیں لڑی تھیں اور ان جنگوں میں بہادری اور شجاعت کے تمغے حاصل کئے تھے۔ لوگ حیران ہیں یہ اسی جنرل مشرف کاملک ہے جس نے 99ء میں کشمیر کیلئے کارگل کی جنگ لڑی تھی اوراس جنگ میں اپنے دو شہیدوں کو نشان حیدر دیا تھا ۔لوگ پوچھتے ہیں کیا یہ اسی قائد اعظم محمد علی جناح ؒکا ملک ہے جس نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیاتھا۔۔۔کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے لوگ ساٹھ برس سے اس پتھرتک پہنچناچاہتے ہیں جس کے بطن سے دریائے جہلم نکلتا ہے”
معروف شاعر ،کالم نگار اور دانشور خالد مسعود خان اس صورتحال پر خون کے آنسوبہارہے ہیں ۔اپنے کالم “کٹہرا”میں اس طرح صورتحال پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ک ہیں ” بھارت سے بات چیت اور مذاکرات سے مسائل کو حل کر نے کے شوق نے ہمیں اپنے بنیادی موقف سے اتنی بار ہٹایا کہ اب حقیقت میں ہمارے پاس کوئی بنیادی موقف ہی نہیں رہا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کشمیری قیادت ہم پر مزید اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ۔مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج سے برسرپیکارمجاہدین تو ہماری بے وفائی اور یو ٹرن کا مزہ اچھی طرح چکھ ہی چکے ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کی جنگ لڑنے والے سیاسی رہنما انفرادی طور پر پاکستانی حکمرانوں کی کشمیر پر اوپر کے اشاروں پر روز تبدیل ہونے والی پالیسیوں کے طفیل مایوسی کی آخری حدوں تک پہنچ چکے ہیں۔یہ پاکستانی حکومت کی کشمیر پالیسیوں پر آئے روز کی تبدیلیوں ،یو ٹرنز اور گومگو کا نتیجہ ہے کہ آج حریت کانفرنس کی قیادت بھی اس گومگو اور بے سمتی کے باعث دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔۔اس بات چیت اور مذاکرات کے فریب میں ہم نے پایا تو کچھ نہیں البتہ کھویا بہت کچھ ہے اور اس میں سب سے قیمتی چیز جو ہم نے کھوئی ہے وہ کشمیری عوام اور قیادت میں اپنا اعتبار کھویا ہے۔اپنا اعتماد کھویا ہے اور عالمی سطح پر ہم نے اپنا اصولی موقف کھویا ہے”
معروف دانشور و کالم نگار عرفان صدیقی بھی جنرل مشرف کے اقدامات کو سرینڈر کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔اپنے کالم “نقش خیال” میں لکھتے ہیں
” افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ خا صا کمزور ہوچکا ہے ۔ہم بہ ر ضا و رغبت کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دستبرداری کا عندیہ دے چکے ہیں۔ہم جنگ آزادی کو در اندازی تسلیم کرچکے ہیں ۔ہم عملاـََ کشمیر میں بپا تحریک حریت سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں ۔ہم خود ہی رنگا رنگ آپشنز دیکر اپنے دیرینہ موقف کی دھجیاں اڑا چکے ہیں۔۔۔جنوری 2004ء کے اعلان اسلام آباد”پر دستخط کرتے ہوئے بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ وہ باہمی دوستی اور اعتماد افزاء اقدامات کی پھلجڑیاں چھوڑتا رہے گا ۔ لاری اڈوں اور بسوں کے تماشے لگاتا رہے گا ،کشمیر میں خون کی ہولی کھیلتا رہے گا ،چینی ،پیاز ،ٹماٹر اور لہسن بیجتا رہے گا ،مذاکرات کا سرکس سجاتا رہے گا لیکن جونہی بات کشمیر کے مدار میں داخل ہوگی،وہ کوئی بہانہ بناکر دور جا کھڑا ہوگا ۔یہ بات پاکستان کے کے وہ لوگ کہہ رہے تھے جو برہمنی سامراج کی نیت سے آگاہ ہیں۔نامرادی کا یہ بانجھ سفر جلتے دہکتے صحراؤں تک آن پہنچا ہے اور آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے”
معرف کالم نگار ،وصحافی حامد میرنے “یہ قوم اتنی بھی کمزور نہیں “کے عنوان سے روزنامہ جنگ میں 6اگست 2009 کواپنے کالم میں لکھا کہ
” جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاکھوں کشمیر یوں کی قربانیوں کا سوداکرنے کے علاوہ پاکستان کوامریکا کی جنگ میں جھونک کر جگہ جگہ آگ لگادی گئی۔”
نا مورکا لم نگار،دانشور اور صحافی ،ہارون الرشید پاکستان کی کشمیرپالیسی پر بر انگیختہ ہیں۔اپنے کالم بعنوان دشمن سے درخواست میں لکھتے ہیں
“جنرل مشرف ہر روز ایک نیا منصوبہ پیش کرتے ہیں اور ایک ایک زینہ کرکے نیچے اترتے چلے جارہے ہیں۔حتیٰ کہ دفتر خارجہ کی ترجمان نے بھی کہہ دیا کہ پاکستان کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں رکھتا۔اگر پاکستان کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں رکھتا تھاتو1948ء1965,ء1971ء کی جنگیں کیوں لڑی گئیں؟۔۔۔۔جنرل پرویز مشرف کے مسلسل اظہار خیال سے پاکستان کی پوزیشن کمزور تر ہوتی جارہی ہے،گستاخی معاف کی جاسکے تو عرض کیا جائے کہ صدر صاحب غیر ضروری اور طویل اظہار خیال کے عادی ہوتے جارہے ہیں”
معروف دانشور ومصنف پروفیسرخورشید احمد ماہنامہ ترجمان القرآن میں مشرف صاحب کی کشمیر کے حوالے سے سوچ اور اپروچ کو ان الفاظ میں بیان کررہے ہیں۔
” ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک انچ زمین کی حفاظت کیلئے جان دیں ،جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور امت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہے ”
سید علی گیلانی کی قیادت والی حریت کانفرنس نے جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کو مسترد کردیا،لیکن اسی سودے کو میر واعظ حریت نے فوراً قبول کرکے جدوجہد آزادی کی تحریک کو شیخ عبد اﷲ کے راستے پر گامزن کرنے کا باقاعدہ بیڑا اٹھایا۔
کشمیری قیادت تقسیم
میر واعظ حریت مشرف کی آنکھ کا تارہ بن گئے ۔انہیں 2005ء میں پاکستان آنے کی دعوت دی گئی۔اگرچہ یہ دعوت گیلانی صاحب کو بھی دی گئی تھی ،لیکن انہوں نے اس دعوت کو مسترد کیا۔میرواعظ حریت کانفرنس کا وفد 2جون 2005 کوبراستہ کنٹرول لائن آزاد کشمیر میں داخل ہوا۔وفد میں اور لوگوں کے علاوہ میر واعظ عمر فاروق،پروفیسر عبد الغنی بٹ،محمد یٰسین ملک اور بلال غنی لون شامل تھے۔اس طرح حریت رہنماؤں کو پاکستان دیکھنے اور ساتھ ساتھ یہاں کی قیادت سے ملنے کا موقع بھی فراہم ہوا۔دورے کے دوران ان کی اس بات کو مان لیا گیا کہ ان کی حریت ہی اصلی اور خالص حریت ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے فوراََ اپنے نیوز بلیٹنز میں میر واعظ کو حریت چیئرمین کی حثییت سے متعارف کروایا۔حریت کانفرنس کے زعماء خوشی خوشی جب واپس اپنی سرزمین پر پہنچے تو ان کے پاس قوم کو سنانے کیلئے یہی ایک خوشخبری تھی کہ انکی حریت کانفرنس ہی اصلی اور حقیقی حریت کانفرنس ہے اور میرواعظ صاحب ہی اصل میں چیر مین آل پارٹیز حریت کانفر نس ہیں۔جون 2005 کے بعد اب حریت رہنما جب بھی پاکستان آنا چاہیں آسکتے ہیں اور اب ان کے آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
میر واعظ گروپ کا حریت آئین سے انحراف ،ان کیلئے مہنگا سودا ثابت ہوا۔کشمیری عوام کی اکثریت نے چار نکاتی فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے ،گیلانی صاحب کے موقف کی تائید کی۔پاکستانی فوجی حکمران نے گیلانی کو دیوار سے لگانے کی تمام کوششیں کیں لیکن ،کشمیری عوام نے سید علی گیلانی کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ان کی اپنی تنظیم تحریک حریت جموں و کشمیر نے عملاََ وہاں تحریک مزاحمت کا محاذسنبھال لیا ہے۔پوری ریاست میں اس کے یونٹس قائم ہوچکے ہیں ۔ تاہم اس صورتحال کو صرف اسی حد تک محدود کرنا ،حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔معروف دانشور اور بزرگ کشمیری صحافی زیڈ جی محمد اس خطرناک صورتحال کا ان الفاظ میں احاط کرتے ہیں”یہ بعید از فہم بات ہے کہ موجودہ صوتحال کا 1971ء سے موازنہ کیا جائے جس نے ہمارے رہنماؤں کو حواس باختہ کیا تھا۔ حواس باختگی کے عالم میں اْن کا ایک کے بعد ایک قدم غلط پڑتا گیا۔بالآخر وہ گرپڑے۔ یہ کسی فرد یا گروپ کا گرنانہیں تھا۔ اْن کا موزوں وقت پر ایک صحیح قدم نہ پڑنا بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی نیوکلیائی تنصیب کا انچارج غلط بٹن دبائے او رتباہی پھیلائے۔صحیح تناظر میں نظر ڈالتے ہوئے خطے میں 1971ء کی صورتحال کے ردعمل اور ہماری سیاسی قیادت کی بے عملی کی وجہ سے ریاست میں 1973ء کے بعد عوام پر مصائب وآلام کا آسمان ٹوٹ پڑا۔ میں اْس وقت کی قیادت کی بے عملی کو اس کی جماعتی وابستگی سے قطع نظر مجموعی طورپر 1990ء کے مابعد واقعات کے لئے ذمہ دارٹھہراتا ہوں جس کی وجہ سے لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں اور ریاستی عوام کو تباہی اور مصائب کے ایک لامتناہی دورسے گزرنا پڑا۔ اگر اْس وقت کی قیادت نے حواس باختگی کے عالم میں اپنے ہی بیانیہ سے دغا نہ کی ہوتی تو شاید نوجوانوں کا پیمانہ صبرلبریز نہ ہوتا او رایک پوری نسل آگ وآہن کا شکار ہونے سے بچ جاتی ؟1973کی صورتحال عصر حاضر کے لیڈروں کے لئے سبق ہے کہ یہی صورتحال ایک بڑی ،اچھی منظم اور مستحکم سیاسی تنظیم کو تواریخ کے صفحات میں دھکیلنے کا باعث بن گئی اور سیاسی ناکامی کی کہانی کے طور پر تاریخ میں درج ہوگئی”بہر صورت کشمیری عوام کی اکثریت نے مشرف فامولے اور میر واعظ گروپ کی طرف سے بھارتی آئین کے اندر مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوششوں کی مزاحمت کی اور اسے مسترد کیا۔جسکا ثبوت 2008,2009، 2010،2015میں بھارت کے خلاف بھر پور عوامی احتجاج ہیں۔جنہوں نے نہ صرف بھارتی پالیسی سازوں بلکہ پاکستانی ارباب اختیار کو بھی حیرت زدہ کردیا۔کیا نواز شریف بھی عالمی استعمار کی ایما پر 2016میں مشرف والا کردار دُہرانا چا ہتے ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتا دے گا ۔ تاہم انہیں یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ مشرف نے تحریک آزادی کشمیر کو بے وقعت کرکے کچھ حاصل نہیں کیا بلکہ اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھاہے۔یہ شا ید سزائے موت سے بھی خطرناک سزا ہے۔
امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...
بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...
بھارتی ریاست گجرات میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند مظاہرین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیرسے اظہار یکجہتی کی پاداش میں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت والے اسٹورز کو بند کرادیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ فروری (یوم کشمیر) کے موقع پر پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ہنڈائی موٹرز...
جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...
امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب عل...
بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...
مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 60 سے زائد بے گناہ ک...
بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے جسد خاکی لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خود دور دراز مقامات پر دفنانا شروع کر دیے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریدے ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق ا...
بھارتی فوجی کی بیوہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حمایت میں میدان میں آگئیں اور کہا کہ وزیروں کی اولادوں کو ایک مرتبہ ضرور سرحد پربھیجیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پونچھ سیکٹر میں ہلاک ہونے والے بھارتی ...
بھارت نے اپنے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے سرکردہ ماہرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیج دیا ہے تاکہ جاری مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کو ختم کرنے کیلئے مقامی پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ''ہندوستان ٹائمز'' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت بھارتی وزی...
یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک تحقیقی دستاویز جاری کی ہے ،اس دستاویز میں مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیوکے نفاذ سے ابتک کے تمام واقعات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی یہ ...