... loading ...
چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔بسااوقات توآپ پیپلزپارٹی کو بھی سرہاتے ہیں۔بھائی دوکشتیوں کے سوار کبھی سرخرو نہیں ہوتے۔معرکہ حق وباطل میں کسی ایک پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔
یادآیا کہ جدہ سے میرے ایک قاری ڈاکٹر خورشید ہرہفتے مجھے ای میل کے ذریعے بھاشن دیتے ہیں کہ بدعنوان حکمرانوں کی کھال اُتارو۔انہیں آئینہ دکھاؤ۔تم حکومت کے خلاف کھڑے کیوں نہیں ہوتے۔ ماٹھی ماٹھی تحریریں کیوں لکھتے ہو۔ان سے ملتے جلتے سوالات بہت سارے اور دوست اور ہمدرد بھی کرتے ہیں ۔میں اکثر انہیں طرح دے جاتاہوں بلکہ سینئر صحافی ہارون الرشید کے پیرائے میں جواب دیتاہوں کہ ہر شخص اپنی افتادِطبع کے مطابق زندگی کے فیصلے کرتاہے۔
گزشتہ کالم ــ’’یقین نہیں آتا‘‘کی سوشل میڈیا پرایسی دھوم مچی کہ دنگ رہ گیا۔چار ہزار کے لگ بھگ قارئین نے اسے شیئر کیا اور پسند کرنے والوں کی تعداد سولہ ہزار سے تجاویز کرگئی۔ یہ کوئی سیاسی تجزیہ نہ تھا بلکہ ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھی گئی ایک تحریرتھی۔ کالم کو ذائقہ دار بنانے کے لیے اسے ڈرامائی انداز میں بھی نہیں لکھا گیااس کے باوجود اس قدر پزیرائی پر خوشگوار حیرت اور مسرت ہوئی۔ایک بار پھر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ سچائی کے اندر اپنی طاقت ہوتی ہے۔اسے جھوٹ کے پہیہ لگانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔
صحافت میں گروہ بندی تو روزاوّل سے ہے اور شاید تاقیامت برقرار رہے لیکن پاکستان میں ایک عجیب تماشایہ ہوا کہ اکثر صحافی سیاسی جماعتوں ،شخصیات اور حتیٰ کہ عسکری اداروں کے ترجمان بن گئے۔بڑے بڑے جغاداری لکھاریوں نے ذاتی عداوتیں پال رکھی ہیں بلکہ وہ اخبارات کے صفحات پر اور ٹی وی اسکرینوں پر معرکہ حق وباطل برپا کیے رکھتے ہیں۔ کوئی تحریک انصاف کا نام سننا نہیں چاہتااور کوئی نون لیگ کو بُرای کی جڑ قراردیتاہے۔کچھ صحافیوں کو پیپلزپارٹی اُم لخبائث نظرآتی ہے اور کچھ عسکری اداروں کو ملکی مسائل کی جڑقراردیتے تھکتے نہیں۔ٹی وی چینلز کا حال بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ناظرین کواینکرز کا نقطہ نظر پہلے سے معلوم ہوتاہے ۔ سوالات اور مہمانوں کے انتخاب میں بھی چینل مالکان اورمیزبان کے سیاسی رجحانات کی چھاپ نظر آتی ہے۔بعض کا عالم یہ ہے کہ وہ گزشتہ پانچ عشروں سے کسی نہ کسی گروہ کے دم چھلے بننے ہوئے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے ان کی وکالت کرتے ہیں۔مفاد نکل جائے یا انا کو ٹھیس پہنچے تو قبلہ بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔سیاسی جماعتیں برسراقتدارآتی ہیں تو میڈیا میں اپنے حامیوں کو نوازتی ہیں۔سفارت ،وزارت اور اعلیٰ مناصب عطاکیے جاتے ہیں۔آج کل نون لیگ صحافیوں کو اعلیٰ عہدے دینے میں کافی فراخ دل واقع ہوئی ہے۔
اس طالب علم کا نقطہ نظر یہ رہاہے کہ صحافی یا تجزیہ کار کی کسی جماعت ،گروہ یا شخصیت سے مستقل وابستگی نہیں ہوتی۔قرآن کریم میں اﷲ تعالے نے فرمایا ہے :نیکی اور پرہیزگاری کے (کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔گناہ اور ظلم (کاموں)میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔یہ آیت کریمہ تجزیہ کاروں کے لیے ایک واضح راہ متعین کرتی ہے کہ وہ محض اہل ثروت اور برسراقتدارطبقے کے گیت نہ گائیں بلکہ سچائی کا ساتھ دیں۔عوامی فلاح وبہبود کے کاموں میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں اور غلط کاموں میں تعاون نہ کریں ۔اگر اس نکتے کو اصول مان لیا جائے تو پھر تجزیہ کار کی کوئی پارٹی نہیں ہوسکتی۔ جو بھی اچھا کام کرے وہ تحسین کا مستحق ہوتاہے اور جو وعدوں کو پورا نہیں کرتا۔امانتوں کو برتنے میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔وہ کسی روورعایت کا مستحق نہیں۔
اس طالب علم نے اس نقطہ نظر کو اپنایا اور گزشتہ کئی برسوں سے تجزیہ کاری میں غیر جانبداری کو اپنانے کی کوشش کی۔ پارٹیوں، گروہوں یا شخصیات کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے کے بجائے ان کے اچھے کاموں کی تعریف اور غلط اقدامات پر گرفت کی۔ جذبات سے مغلوب تحریریں لکھنے سے گریز کیا کہ قوم کو مزید بخار میں مبتلا کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اس طرزعمل کاانجام یہ ہوا کہ احباب کہتے ہیں کہ دوٹوک بات نہیں کرتے۔عرض کیا کہ سیاست میں حق وباطل کا معرکہ برپا نہیں ہوتابلکہ سیاست نام امکانات کی تلاش کاہے۔تجزیہ کاروں اور وقائع نگاروں کو یہ دیکھنا ہوتاہے کہ عوامی مفاد میں کون زیادہ مخلص اور خدمت خلق کا اہل ہے۔
افسوس! ملک میں معروضی تحریریں زیادہ مقبول نہ ہوسکیں تاہم اب سوشل میڈیا کے آنے سے صورت حال بدل رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں لکھنے والے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ ابھررہی ہے جوغیر جانبداری اور بہادری سے لکھتی ہے ۔ ان کی تحریروں سے عصبیت کی بو نہیں بلکہ سچائی کی خوشبو آتی ہے۔وہ مروجہ معنوں میں کسی گروہ یا شخصیت کے سحر میں گرفتار نہیں۔ان نوجوان خواتین وحضرات کی کافی پزیرائی ہورہی ہے۔ہزاروں لوگ انہیں پڑھتے اور داد دیتے ہیں۔موضوعات کا تنوع اورتازگی بھی ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے اور طنز ومزاح کے نشتر بھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اخبارات کے برعکس سوشل میڈیا پر قارئین کو تحریروں پر آزادانہ تبصرے اور انہیں پسند کرنے کا بھی اختیار ہے لہٰذا جن تحریروں میں دم ہوتاہے لوگ ان پر بحث کرتے ہیں ورنہ بڑے بڑے نامور کالم کاروں کی تحریروں کو قارئین سونگھ کو پرے کردیتے ہیں۔
اچھا ہوا کہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فار م فراہم کیا ورنہ انمول صلاحیتوں سے مالامال نوجوان ضائع ہوجاتے کیوں کہ اخبارات میں نئے لکھنے والوں کے لیے جگہ نہیں۔ معمر قلمکاروں کو احساس نہیں کہ وہ جو سازشی تھیوریاں بیچتے اور قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اپنی دُکان چمکاتے ہیں لوگوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔
نئے لکھنے والے نوجوانوں کومیرا مشورہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مسلسل لکھتے رہیں کہ اب ابلاغ کا یہی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ وقت آئے گا کہ ان کی آواز کو نظرانداز نہ کیاجاسکے گا۔بتدریج معروضیت اور حقائق پر مبنی تحریروں کے لیے معاشرے میں جگہ بنے گی کیونکہ نئی نسل اب چٹکلوں اور واعظوں سے عاجز آچکی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...
رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...
اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات او...
چند دن قبل فرانس کے شمال مشرقی شہرا سٹراس برگ کے ایک وسیع وعریض ہال میں یورپی پارلیمنٹ کے چار ارکان سمیت کوئی ایک سو بیس کے لگ بھگ مندوبین جمع تھے۔ پاکستان میں ’’چین:انسانی حقوق کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات‘‘ موضوع سخن تھا ۔اس مجلس میں جاوید محمد خان نامی ایک شخص نے بلوچستان کا م...
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے واشنگٹن کے پے درپے دورے بے سبب نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حوالے سے لچک دار پالیسی اختیار کی۔افغانستان میں اس کے نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کیا۔اس کے خلاف عالمی بیان بازی جو معمول بن چکی تھی کو روکا گیا۔پاکستان کا جوہری پ...
چار برس پہلے باب وڈورڈنے ’’اوبامازوارز‘‘نامی تہلکہ خیز کتاب لکھی تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھونچال سا آگیا کہ کیا کسی صحافی کو خفیہ معلومات تک اس قدر رسائی بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کتا ب کو The Pulitzerانعام بھی ملا۔یہ ایوارڈ ایسے مصنفین کو ملتاہے جو کوئی غیر معمولی تحقیقی یا ادبی...
اگرچہ حکمران نون لیگ کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کی نشست پر فتح یاب ہوچکے ہیں لیکن اس ضمنی الیکشن نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور پنجاب میں مسلسل حکمران رہنے کے باعث درآنے والی کمزوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔پارٹی کے اند ر بالائی سطح پر پائی جانے والی کشمکش نے عوامی ف...