... loading ...
راجھستان کی بھانوری دیوی جسے 1992 ء سے انصاف نہیں ملا اور جیوتی سنگھ نربھیا یہ وہ دو مظلوم خواتین ہیں جن کے بلاتکار نے ایک نئی جنتا جاگرتی (عوامی بے داری) کی لہر اٹھا دی ۔اس تحریک نے اس جرم پر سابقہ عدالتی رویوں اور قانون میں اس حوالے سے پائی جانے والی بے پناہ لچک اور ملزمان کی جانب شدید التفات کو اتھل پتھل کردیا ہے۔ یہ سب کیسے ہوا؟
ہندوستان کے سیاست دانوں میں خاص طور پر اور عوام میں عام طور پر یہ بہت بڑی خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ حالات اور واقعات سے بہت سبق سیکھتے ہیں۔ یہ جو آپ کو بھارتیوں کی مشرق وسطیٰ اور یورپ بالخصوص امریکا میں بھرمار نظر آتی ہے وہ ان کی حالات اور ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لینے کی بے پناہ صلاحیت ہے ۔ وہ دن دور نہیں کہ اب نیویارک کے مئیر اور گورنر بھارتی نژاد پریت بھرارا اور بوبی جندل (خوف زدہ مت ہوئیے ان کی ہمارے من چاہے ساجن جندل اور نوین جندل سے کوئی رشتہ داری نہیں) بن جائیں۔امریکا کی تین مشہور ملٹی نیشنل کارپوریشنز پیپسی ، گوگل اور مائکروسوفٹ کے انتظامی سربراہ بھارتی نژاد باشندے ہیں۔انفرادی سطح پر یہ کامیابی ان کی شدید غربت کے باوجود ان تھک محنت اور بے پناہ قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھنے کا ایک درس ہمیں آڈانی گروپ کے مالک گوتم آڈانی کی زندگی سے بھی ملتا ہے۔ ان کی نریندر مودی کی بی جے پی میں وہی اہمیت ہے جو پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین کی ہے، مودی جی نے اپنی تین ماہ کی الیکشن مہم میں بھارت کو کونے کھدرے میں پہنچانے کے لیے انہیں کا ویمان( ہوائی جہاز ) استعمال کیا۔گوتم آڈانی کے ایک ملازم نے ایک فون کال پر نوے کی دہائی میں ایسی غلطی کی کہ کمپنی کو براہ راست بیس کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ ملازم خجالت سے لتھڑا ہوا ان کے سامنے اپنے استعفے سمیت حاضر ہوا تو صاحب موصوف نے اس کا استعفیٰ یہ کہہ کر پھاڑ دیا کہــ’’ جاؤ میاں اپنا کام جاری رکھو۔ آپ کی ایک غلطی سے ساری کمپنی نے سبق سیکھ لیا ہے۔ آپ ہمارے مہنگے استاد تو ہو مگر ہم نہیں چاہتے کہ غلطی کی قیمت تو ہم ادا کریں اور اس کا لابھ(فائدہ) دوسرے کمپنی والے اٹھائیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
صحافی عمر چیمہ نے بے نظیرسے بسمہ تک اپنے ایک کالم میں اسی غفلت شعاری اور حالات سے سبق نہ سیکھنے کے بارے میں ایک بہت دل آزار مگر بہت سچا موازنہ کیا ہے کہ ـ’’ وزیر اعظم بے نظیر صاحبہ کو قاتلانہ حملے کے بعد سے لیاری کی دس ماہ کی بسمہ جو ان کے صاحبزادے کی شہیدِ پروٹوکول ہے ۔وہ چیخ چیخ کر صرف ایک ہی اعلان کررہی ہے کہ گو یہ دو ہستیاں یعنی بے نظیر صاحبہ اور بسمہ کی دنیا ایک دوسرے سے بہت جداتھی لیکن ان دونوں کی ہلاکت کا باعث وہی ایک جان لیوا پروٹوکول اور صحت کا تباہ حال نظام ہے۔ بسمہ کی پیدائش ایک شکستہ حال خاندان میں ہوئی تو سابق وزیر اعظم کی موت ایک شکستہ نظام صحت کی وجہ سے ہوئی جس نے انہیں علاج کے وقت سے تابوت اور تدفین تک ہر مرحلے پر شرمندہ الزام کیا۔ان کا بوسیدہ تابوت ہسپتال میں پہلے سے موجود کسی غریب کی میت کے لئے کسی خیراتی انجمن کی جانب سے آیا تھا اور نو ڈیرو (لاڑکانہ )لے جانے سے پہلے انہیں جس اسٹریچر پر سوار کیا گیا تھا اس کے پہیے ٹوٹے ہوئے تھے۔یہ وہاں دستیاب سب سے بہترین انتظام تھا۔ اتنا بہترین کہ کسی وی آئی پی نے آج تک نہیں سوچا کہ ہنگامی حالت میں جو اس کا وقت نزع بھی ہو سکتی ہے، اسے ایک ہسپتال لے جایا جاسکتا ہے جو سرکاری بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
جب کہ مہذب معاشرے اپنے باشندوں کا اس قدر خیال کرتے ہیں کہ ہالینڈ میں ہر پولیس موبائل میں ٹیڈی بئیر بھی رکھے جاتے ہیں کہ مبادا کسی وقت انہیں ایک بے کل بچے کو تسلی دینی پڑے اور اس کے لیے یہ کھلونا باعث تسکین ہوگا۔
بھارت میں جب اونچی ذات کے چند ٹھاکروں نے پھولن دیوی کا سن اسی کی دہائی میں بلاتکار کیا تو اس نے اپنی ایک ڈاکو گینگ بنائی اور ان ٹھاکروں کے علاوہ اور بھی سہولت کاروں کو جن کی کل تعداد سب ملا کر بیس کے قریب تھی، ان کے خاندان کی عورتوں کے سامنے لائن سے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹھاکر سبق سیکھ گئے اور اب ان علاقوں میں جہاں کی پھولن دیوی تھی یعنی بیہمائی اور مرزا پور (یو۔پی )وہاں اب اس طرح کی اپرادھی گھٹنائیوں( مجرمانہ واقعات ) میں نمایاں کمی آئی ہے۔ان گولیوں کی گھن گرج چونکہ بھاٹیری راجھستان کے چھوٹے سے گاؤں میں سنائی نہ دی تھی لہذا وہاں بھانوری دیوی کا بلاتکار تو سن 1992 میں ہوا مگر فاضل جج نے اس تعصب کو بنیاد بناکر کہ اعلیٰ ذات کے مرد ایک نچلی ذات کی عورت کے ساتھ بلاتکار تو کیا اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے ،یہ مقدمہ خارج کردیا۔بھانوری دیوی کے اس واقعے نے بھارت میں تحریک نسواں کو بہت تقویت بخشی ،راجھستان جہاں کم سنی کی شادیاں عام ہیں، وہاں بھانوری دیوی کی اس تحریک سے عملی وابستگی کی بنیاد پر لڑکیوں کی کم از کم عمر سولہ سال تک جاپہنچی ہے۔ اسی جرم کو بنیاد بنا کر اور اس میں عدالت کے مشاہدات اور ایسے جرائم میں میڈیکل رپورٹ کی خامیوں کو اجاگر کرکے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک عوامی مفاد کی اپیل فائل کی گئی۔یہ اپیل خواتین انجمن کی جانب سے فائل کی گئی تھی ۔
چیف جسٹس جے۔ ایس۔ ورما نے اس سلسلے میں ایک ایسا قانونی رہنما فریم ورک بنادیا جسے Vishakha Guidelines کہا جاتا ہے ۔جسٹس ورما نے جیوتی سنگھ والے واقعے پر تشکیل دی جانے والی نامزد کمیٹی کے سربراہ کے طور پر اپنی ریٹائرمنٹ کے دنوں میں جو کام اپنے پرانے ٹائپ رائٹر پر کیا (ان کی غریبانہ پنشن میں سیکرٹری کی گنجائش نہ تھی ) وہ اب ایک قانون کی شکل میں
The Sexual Harassment of Women at Workplace (Prevention, Prohibition and Redressal) Act, 2013
کے نام سے موجود ہے۔ یہ بھارت میں جنسی استحصال کے خلاف پہلی بڑی ڈھال ثابت ہوا ہے اور اس اور سابقہ رہنما اصولوں کی بنیاد پر بھارت کے چار مشہور مرد بے حد رسوا ہو کر عدالتوں میں دھول چاٹنے پر مجبور ہوئے ۔ان میں سے د و تو اداکار تھے جن کا نام شکتی کپور اور سائی بلال، ایک ایسے اعلی ماہر معاشیات تھے جن کا نام راجند پچوری تھا اور ان کا ادارہ نوبل پرائز کے لیے نامزد بھی ہوا تھا۔ دوسرے ترن تیج پال جو تہلکہ ڈاٹ کام کے روح رواں تھے اور خود بھی ہر وقت لوگوں کے عیب ڈھونڈتے رہتے تھے۔ ان پر اپنی ساتھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا۔
ان قوانین اور اس گھناؤنے جرم کی روک تھام کے موقع پر ایک یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی کہ سونیا گاندھی جیسی روشن خیال اور بادشاہ گر بی بی اپنی حکومت کے دنوں میں ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم سے ملنے تو عوام میں پہنچ جاتی ہے مگر جیوتی سنگھ کے بلاتکارکے موقع پر ان کا اور دہلی کی خاتون چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کا کردار محض ایک خاموش تماشائی کا تھا۔بھارت میں اب یہ بھی خیال عام ہے کہ ایک خاتون سیاست کار اپنی خود غرضی، ہوس ، انا پرستی میں اپنے رفقائے کار مردوں سے قطعی مختلف نہیں ہوتی۔بھارت میں ان سیاست کار مہیلاؤں کو امریکا اور یورپ کی نسبت زیادہ آزاد خیال اور قابل سمجھا جاتا ہے۔ امریکا نے تو آج تک کسی غیر شادی شدہ عورت کو صدر نہیں بنایا اور ان مغربی معاشروں میں مرد کے حوالے سے عورت کی شناخت ہے جب کہ بھارت میں غیر شادی شدہ، مردوں سے کھلی وابستگی رکھنے والی ، مطلقہ، بیوہ ہر طرح کی خواتین جن میں سروجنی نائیڈو ، وجے لکشمی پنڈت ، اندرا گاندھی پرتیھبا پاٹل (پہلی خاتون صدر) اوما بھارتی، سشماسوراج، شیلا ڈکشٹ مایا وتی اور جے للیتاکی زندگی میں مردوں کی موجودگی ہاتھیوں، لگڑبگوں(Hyena) اور شہد کی مکھیوں جیسی ہے۔ ایسے مرد جنہیں چچا غالب نے گور غریباں کا چراغ ِمردہ کہا تھا۔جو اہل انجمن سے بے نیاز اپنی ہی آگ میں چپ چاپ جلتا رہتا ہے۔
اس میں جیل یافتہ، کرپٹ ترین چنائے کی جے للیتا نے تو بندگی کی ایک ایسی زمین نکالی ہے کہ ان کے وزیر صاحبان انہیں ملتے وقت سجدہ بھی کرتے ہیں۔اور انہیں اماں بھی کہتے ہیں۔ اماں تامل زبان میں بھی ماں کو ہی کہتے ہیں۔
بھارت کی موجودہ پارلیمنٹ میں نصف سے کچھ ہی کم مرد ممبران ایسے ہیں جن پر جنسی بے راہ روی اور استحصال کے حوالے سے الزامات اور مقدمات ہیں مگر آج تک کسی خاتون ممبر نے ان پر اس حوالے کبھی کوئی حرف زنی نہیں کی۔دکھ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تعداد ان پارٹیوں سے منتخب ہوئے ممبران کی ہے جن کی سربراہ خود خواتین ہیں یعنی کانگریس کی سونیا گاندھی اور بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی ( پرائمری اسکول کی سابقہ استانی جس نے چالیس کروڑ روپے انکم ٹیکس دیا ) ہیں ۔ جو بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور جس طبقے کی سب زیادہ خواتین اس بربریت کا ماضی میں شکار ہوتی رہی ہیں۔قانون بناتے وقت بھارتی مقننہ نے اپنے مفاد کے لیے یہ فیصلہ ضرور کیا کہ جسٹس ورما کی سفارشات پر مٹی ڈالتے ہوئے ان ممبران پر جن پر بلاتکار کا الزام ہو، ان کو اسمبلی کا ممبر نہ بنایا جائے۔ان دنوں بھارتی لوک سبھا سب سے بااثر بلاتکاروں کا سمیلن( اجتماع ) ہے۔ان میں سے چھ عدد ممبران تو ایسے بے خوف اور بے شرم ہیں کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کو انتخابی حلف نامے میں جرم کی نوعیت بالکل وہی درج کی ہے جس کا ان پر الزام ہے۔
جمہوریت کی جے ہو۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...