وجود

... loading ...

وجود

دہشت گردی کے خلاف کثیر الملکی عسکری اتحاد: پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟

بدھ 30 دسمبر 2015 دہشت گردی کے خلاف کثیر الملکی عسکری اتحاد: پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟

saudia and apakistan

ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔یہ معاملات چاہے مشرق وسطی کے ہوں یا افغانستان سمیت جنوبی ایشیا کے ہوں۔مغربی قوتوں نے ان خطوں میں انتشار کی جو فصل نائن الیون کے بعد بوئی تھی وہ اب پوری ’’بہار‘‘ دکھارہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حالات کے جبرنے ان ملکوں کو بھی مستقبل کی صف بندی پر مجبور کردیا ہے جہاں چند برس قبل جنگ کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ انہی حالات کے جبر میں سعودی عرب نے چونتیس ملکوں کے عسکری اتحاد کا بھی اعلان کردیا جس میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستانی وزارت خارجہ نے شروع میں اس اتحاد کے وجود سے لاعلمی کا اظہار کردیا تھا لیکن بعد میں اس اتحاد میں پاکستانی شمولیت کا اعتراف بھی کیا۔اسی سے قوم اندازہ لگا لے کہ ہماری وزارت خارجہ عالمی تاریخ کے اس نازک ترین دور میں ’’ــمعرفت کی کیسی معراجـ‘‘ پر فائز ہے۔اس کثیر التعداد اتحاد کے نتائج کیا نکلتے ہیں اس کا اندازہ تو آنے والے وقت میں ہی لگایا جاسکے گا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ امریکا اور مغربی ملکوں نے سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ملکوں کو حالات کے جس دوراہے پر لا کھڑاکیا ہے ان حالات میں اس قسم کے اتحاد کی تشکیل کی کوششیں ان کی مجبوری ہی کہی جاسکتی ہے۔ کیونکہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے وہ دفاعی حکمت عملی کوکیسے استعمال کرتا ہے اور کس کس کو اپنے ساتھ شامل کرتا ہے یہ بھی اسی پر منحصر ہے۔

لیکن اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ معنی خیز بیان امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کا تھا جنہوں نے اس اتحاد کو امریکی حکمت عملی کے عین مطابق قرار دیا۔

آصف زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچو نے سندھ اسمبلی میں سعودی عرب کے نوتشکیل شدہ اتحاد کے خلاف دھواں دھار تقریر کی تویار لوگوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ریاض میں زرداری صاحب کے ساتھ ہوا کیا ہے؟

اس امریکی ’’حکمت عملی‘‘ کے خدوخال وہ حلقے اچھی طرح جانتے ہیں جو امریکا کی اس ’’دجالی حکمت عملی‘‘کے تاریخی پس منظر سے پوری طرح واقف ہیں۔ امریکا اپنے مغربی صلیبی صیہونی اتحادیوں کے ساتھ جب بھی کسی خطے یا ملک پر حملہ آور ہونے کی تیاری کرتا ہے تو اس کے لئے وہاں کے دو متحارب فریقوں کے درمیان پہلے جنگ کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے تاکہ یہ فریق پہلے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو نیم جاں کردیں ۔اس کے بعد امریکا بہادر کی قیادت میں مغرب کا سارا دجالی ٹولہ اس خطے پر حملہ آور ہوکر ’’کشور کشائی‘‘ کرکے یہاں کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔تاریخ میں تو اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی لیکن زیادہ دور کیوں جاتے ہیں، نائن الیون کے بعد پہلے افغانستان اور پھر عراق کے حالات ہی اس ’’دجالی حکمت عملی‘‘ کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ پہلے ایک دشمن کو عفریت بنایا جاتا ہے اور اس سے دوسرے فریق کو ڈرایا جاتا ہے پھر یہ دونوں فریق آپس میں دست وگریباں ہوتے ہیں بعد میں جب میدان صاف ہوتا ہے تو مغرب کے یہ دجالی صیہونی گدھ مسلمانوں کے وسائل نوچنے پہنچ جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا سمیت مغرب کے اسلحہ ساز کارخانے دن رات دولت سمیٹنے کے لئے اسلحہ سازی شروع کردیتے ہیں یہ وہی کارخانے ہیں جن کی ملکیت کے تانے بانے مغربی حکومتی شخصیت سے ہوکر دجالی نظام کی تجوریوں تک جاپہنچتے ہیں۔

صدر ناصر کے عرب ازم نے دم توڑا تو دوسری جانب صدر سادات نے باقی ماندہ صحرائے سینا کے حصول کے لئے جنگ کی بجائے سفارتکاری کا راستہ اختیار کرلیا۔

اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ القاعدہ کے وجود میں آنے کا سبب اسرائیل کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں تھا ۔اس سلسلے میں صحرائے سینا سے جڑے اسرائیل کے ہمسائی ملک مصر کے مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے کیونکہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے وجود میں آنے والے برس یعنی 1948ء میں ہی مصری مسلمانوں نے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی نصرت کے لئے اسرائیل کے خلاف علم جنگ بلند کردیا تھا۔بعد میں دیگر عرب ملکوں نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن عالمی صیہونیت کی بین الاقوامی سفارتکاری کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ تھا۔

اس کے بعد عربوں نے مصر کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف 1967ء اور 1973ء میں دو بڑی جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ میں اسرائیل نے امریکا اور یورپی ممالک کی مدد سے عربوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا،یہ جنگ ’’عرب ازم‘‘ کے جھنڈے تلے لڑی گئی تھی، جس کے نتائج سب کے سامنے تھے۔ اس جنگ میں عربوں نے مجموعی طور پر صحرائے سینا کا وسیع علاقہ، شام کی جانب گولان کا پہاڑی علاقہ اور بیت المقدس جیسے اہم ترین شہر کو اسرائیل کے ہاتھوں گنوا دیا تھا۔ لیکن چند برس بعد ہی شاہ فیصل کی سیاسی اور سفارتی قیادت میں عرب ملکوں نے مصر کی عسکری قیادت کی کمان میں رمضان کے مہینے 1973ء میں اسرائیل پر حملہ کرکے بارلیف لائن عبور کرکے نصف صحرائے سینا تک کے علاقے میں کامیاب پیش قدمی کرکے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو پاش پاش کردیا تھا۔ یہ جنگ چونکہ عرب ازم کی بجائے اسلام کے جھنڈے تلے لڑی گئی تو عالم عرب کی کثیر تعداد پر یہ عقدہ کھلا کہ عالمی صیہونی قوت کی سازشوں کا مقابلہ اسلام کی صحیح پیروی کرکے کیا جاسکتا ہے۔

داعش کا بڑا حصہ صدام دور کی سنی عراقی فوج پر مشتمل ہے جس نے امریکی یلغار کے جواب میں شمال کی جانب تیزی سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے جدید اسلحے کے بڑے بڑے ذخائر زمین میں دفن کرکے محفوظ بنا لئے تھے۔

اس دور میں صدر ناصر کے عرب ازم نے دم توڑا تو دوسری جانب صدر سادات نے باقی ماندہ صحرائے سینا کے حصول کے لئے جنگ کی بجائے سفارتکاری کا راستہ اختیار کرلیا۔سابق سوویت یونین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مصر سوویت بلاک سے نکل کر امریکا کے بلاک میں شامل ہوگیا اور روسی مشیروں کو قاہرہ سے نکل جانے کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔اس مرحلے پر امریکا نے صدر سادات کو سفارتکاری کا راستہ اختیار کرنے کی راہ سجھائی، یہی وہ مرحلہ تھا جب عربوں میں جدید تاریخ میں پہلی بڑی پھوٹ پڑی۔ سادات نے کیمپ ڈیوڈ کی راہ لی اور شاہ فیصل ؒنے مصر کو عرب لیگ سے باہر کردیا۔امریکا اور اسرائیل کو اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر سادات کی شکل میں ترپ کے پتے کو کامیابی سے نہ کھیلا گیا تو عالم عرب کی جہادی اور اسلامی تحریکیں اسرائیل کے ساتھ ساتھ مغرب کی ہمنوا عرب حکومتوں کو بھی تلپٹ کردیں گی اور سارا خطہ انتشار میں مبتلا ہوجائے گا۔ اس لئے اسرائیل اور امریکا نے جان بوجھ کر باقی صحرائے سینا کی قربانی دیتے ہوئے اسے مصر کے حوالے کردیا تاکہ عرب حکومتیں اپنے عوام کو اس بات پر قائل کرسکیں کہ سفارتکاری کے ذریعے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ایک طرح سے یہ عربوں کو بے وقوف بنانے کا صیہونی حربہ تھا جسے عرب عوام نے یکسر مسترد کردیا تھا کیونکہ صحرائے سینا کے علاوہ جن عرب علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ جمایا تھا، وہاں سے اسرائیل نے کبھی پسپائی اختیار نہیں کی تھی۔یہ وہ حالات تھے جب تمام عالم عرب میں بغاوت کا لاوہ پک رہا تھا اور ’’عرب بہار‘‘ کی شکل میں وہ انقلابات جو اب خطے میں سامنے آئے تھے اگر سوویت یونین افغانستان میں گھسنے کی غلطی نہ کرتا تو شاید یہ عرب بہار 1979ء میں ہی آجاتی۔۔ ۔ لیکن حالات نے عجیب رخ اختیار کیا اور عالم عرب میں سر اٹھانے والی حریت پسندی نے افغانستان کا رخ کرلیا اور کامل سولہ برس تک اس سرزمین پر اپنے ہاتھ سیدھے کئے۔1991ء تک سوویت یونین کی تحلیل کے وقت ایک مرتبہ یہ خدشات پھر سر اٹھانے لگے کہ اب افغانستان میں کامیابی حاصل کرنے والی جہادی تنظیمیں پھر اسرائیل کا رخ کریں گی، اس لئے نئے کھیل کی ابتدا کی جاتی ہے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں نے افغانستان میں جو جدوجہد کی اس کے تناظر میں مغرب کے کارپوریٹیڈ میڈیا نے انہیں مغرب کے لئے نیا خطرہ قرار دینا شروع کیا، مسلم دنیا کا بہت بڑا حصہ ایسا تھا جس کا اسامہ سے تعارف مغربی میڈیا کے ذریعے ہوا ۔ اب خطرات صرف مغرب یا اسرائیل کو ہی نہیں تھے بلکہ عالم عرب کی حکومتوں کو بھی اس سے مکمل خوفزدہ کردیا گیا۔ صیہونی مغرب اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ القاعدہ میں انتہا پسند عرب نوجوانوں کے ساتھ ساتھ وہ غیر عرب مسلمان بھی شامل ہورہے ہیں جو افغان جہاد کا کسی نہ کسی طرح حصہ رہے ہیں، اسلئے مشرق وسطی میں اسرائیل کے لئے کسی وقت بھی بڑی مشکل دوبارہ کھڑی ہوسکتی ہے۔ اس لئے مصر، اردن اوراسرائیل کے گرد واقع دیگر عرب ریاستوں میں ان کے خلاف کارروائیاں کروائی گئیں گرفتاریوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ بپھرے ہوئے عرب نوجوان کسی بھی انتہا پسند کارروائی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے لگے۔ یہی وہ موقع تھا جب عالمی صیہونیت کو مسلم ممالک پر چڑھ دوڑنے کا جواب ملا اور نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر پہلے افغانستان اور اس کے بعد عراق پر چڑھائی کردی گئی۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ نائن الیون سے پہلے جب ساری دنیا افغانستان کے معاملات میں الجھی ہوئی تھی، انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ ایران عراق جنگ کروائی گئی تھی ،اس آٹھ سالہ بے مقصد جنگ نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کی کمر توڑ دی وہاں خطے میں شیعہ سنی تفریق کے لئے بھی راہ نکال لی گئی جس نے آگے چل کر خطے میں تقسیم کے لئے کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ آٹھ برس کی ایران عراق جنگ میں دونوں فریقوں کو مغرب اور اسرئیل نے خفیہ اور ظاہری طور پر کھل کر مدد دی اور اپنے جنگی کارخانوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچایا۔ اس دور میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو بھی کسی ایک ملک کا فریق بننے کے لئے بہت زور لگایا گیا لیکن پاکستان نے انتہائی دانشمندی کے ساتھ فریق بننے کی بجائے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان اس سلسلے میں آخری دم تک کوششیں کرتا رہا۔

سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے دوران پاکستان نے اپنی جوہری صلاحیتوں کو ترقی دی اور آخر کار جوہری قوت کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔اس لئے عالمی دجالی صیہونیت کے مستقبل کے منصوبوں میں پاکستان کی جوہری صلاحیت کو بڑی رکاوٹ کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس کو کاؤنٹر کرنے کے لئے ایک طرف افغانستان میں پاکستان دشمن بھارت کو وسیع کردار سونپا گیا تو دوسری جانب پاکستان کے اندر انتہاپسندی کے بیج بوکر اسے انتشار سے دوچار کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں ۔ جنرل مشرف نے ان حالات کو اپنے اقتدار کو طول دینے کا سبب سمجھ کر ناعاقبت اندیشی کی انتہا کردی جس نے ملک کو مزید انتشار سے دوچار کیا۔ دوسری جانب عراق پر تباہی مسلط کرنے کے بعد وہاں جان بوجھ کر ایران کو بڑا کردار ادا کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تاکہ مشرق وسطی میں شیعہ سنی تفریق پیدا کرکے اسرائیل کے راستے کے کانٹوں کودور کرکے اس کی عالمی دجالی سیادت کا راستہ صاف کیا جاسکے۔عراق کے بعد اس سلسلے میں شام کا انتخاب کیا گیادوسری جانب مصر میں ایک برس تک اخوانیوں کو حکومت کرنے دینے کے بعد وہاں پر ایک صیہونیت نواز جنرل سیسی کے ہاتھوں ظلم وستم کی نئی تاریخ رقم کرکے وہاں انتہا پسندی کے نئے بیج بودیئے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تمام شمالی افریقہ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں ایک آگ سی لگا دی گئی ہے۔ شام میں روس کو گھسیٹنے کا خواب پورا ہوچکا ہے۔

القاعدہ کی ہی تاریخ دہراتے ہوئے شمالی عراق میں ’’داعش‘‘ کی گنجائش پیدا کی گئی ،اس سلسلے میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ داعش کا بڑا حصہ صدام دور کی سنی عراقی فوج پر مشتمل ہے جس نے امریکی یلغار کے جواب میں شمال کی جانب تیزی سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے جدید اسلحے کے بڑے بڑے ذخائر زمین میں دفن کرکے محفوظ بنا لئے تھے۔ اس کے علاوہ پندرہ برسوں کے دوران ایک جلا وطن عراقی نسل اردن اور شام کے کیمپوں میں جوان ہوچکی تھی جس نے ایران اور ایران نواز شیعہ ملیشیاؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے داعش میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اب دوسرے عالمی صیہونی ڈرامے کا اسٹیج پوری طرح تیار تھا۔ داعش نے شمالی سے یلغار کرکے امریکا کی حمایت اور تربیت یافتہ فوج اور ایران نواز ملیشیا کی دوڑ لگوا کر ایک بڑے خطے پر قبضہ جما لیا تو دوسری جانب اس یلغار نے شام کے شمالی علاقوں کا رخ اختیار کرلیا۔ یوں برطانیا کے مجموعی رقبے سے بڑے رقبے پر داعش نے اپنی اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کردیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جس وقت داعش ان علاقوں پر اپنے قبضے جما رہی تھی اس دوران نہ تو امریکا کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ ہی اسرائیل کو کسی قسم کے خدشے کا اندیشہ ہوا اور نہ ہی یورپی ممالک اور نیٹو کو اس میں کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوا۔ سب خاموشی سے جیسے تماشا دیکھ رہے تھے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف اگر ایک طرف القاعدہ اور اخوان سمیت متعدد اسلامی جہادی تحریکیں برسرپیکار تھیں تو دوسری جانب داعش ایک طرف بشار حکومت تو دوسری جانب اس کے خلاف تحریکیوں کے خلاف بیک وقت صف آراء تھی حربی حکمت عملی کے تحت دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے لیکن داعش کے لئے دشمن کا دشمن بھی دشمن ہی تھا۔ دوسری جانب ایران براہ راست بشار کی حمایت میں کود چکا تھا تو ایرانی حمایت یافتہ لبنانی حزب اﷲ نے بھی پوری قوت کے ساتھ اس جنگ میں شمولیت اختیار کرلی۔

داعش اور القاعدہ کے بنیادی نظریہ میں یہ فرق واضح تھا کہ القاعدہ نے نہ تو کبھی خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا اور نہ ہی کبھی کسی علاقے پر قبضہ جماکر وہاں اپنے ٹھکانے بنائے تھے یہ تنظیم مارو اور دوڑو کے نظریہ پر کام کرتی رہی لیکن اس کے برعکس داعش نے نہ صرف علاقے پر قبضہ جماکر وہاں اپنی حکومت قائم کی بلکہ اپنے سکے سمیت پورا حکومتی نظام وضع کرڈالا۔یہ صورتحال عرب ملکوں کے لئے انتہائی خطرناک تھی مسلکی لحاظ سے داعش ایران اور اس کی مختلف شیعہ ملیشیات کی مخالف تو تھی لیکن دوسری جانب وہ عرب اور غیر عرب سنی ممالک بھی اس کے نزدیک غیر اسلامی تھے جہاں پر سنیوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ ان حالات نے سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک اور پاکستان جیسے غیر عرب ممالک میں خطرے کی ایک لہر دوڑادی۔یہی وہ مرحلہ تھا جب امریکا اور اس کے حواریوں نے سعودی عرب دیگر خلیجی ممالک کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے دفاع میں ایک کثیر التعداد اتحاد تشکیل دیں۔ پاکستان نے بھی بادل نخواستہ اس میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اس اتحاد میں پہلے اپنے کردار کا تعین کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان کی ہیں۔ ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانی شہری فوجی جوان اور افسران اس جنگ میں شہید ہوچکے ہیں ۔اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے سیاستدانوں نے موقع سے فائدہ اٹھاکر جس طرح کرپشن کی ہے وہ نقصانات اپنی جگہ ہیں۔ اب جس پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تو جہاں ایک طرف عسکری انتہاپسندی کو بڑی حد تک شکست دی گئی ہے تو وہاں معاشی دہشتگردوں پر بھی ہاتھ ڈال دیا گیا ہے ۔ معاشی دہشت گرد اس کرپشن کے پیسے کو دہشت گردی کے خلاف بھی استعمال کرتے رہے ہیں جس کے واضح ثبوت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ اس میں سندھ کی پی پی کی حکومت سے ابتدا ہوئی ہے جس کے لئے اب یہ سیاستدان کسی سمجھوتے کی شکل میں راہ فرار اختیار چاہتے ہیں اس سلسلے میں پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے عمرہ کے لئے اپنی ٹیم کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق زرداری صاحب عرب امارات کی سفارش پر سعودی حکام سے یہ کہنے گیے تھے کہ آپ کے نو تشکیل شدہ اتحاد کی ہم پاکستان میں حمایت کریں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پاکستان میں جس بحران کا شکار ہوچکے ہیں، اس سلسلے میں آپ ثالثی کریں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں جب یہ کوششیں جاری تھیں، عین اسی وقت زرداری کے صاحبزادے بلاول اسلام آباد میں سعودی سفیر سے ملاقات کرکے خیر سگالی کا پیغام دے رہے تھے لیکن ذرائع کے مطابق سعودی عرب پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ان کی اس میں کوئی دلچسپی ہے ،یوں کہا جاسکتا ہے کہ زرداری صاحب کو ریاض سے جواب مل چکا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس ملاقات کے اگلے روز آصف زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچو نے سندھ اسمبلی میں سعودی عرب کے اس نوتشکیل شدہ اتحاد کے خلاف دھواں دھار تقریر کردی تھی۔ اسی تقریر سے یار لوگوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ریاض میں زرداری صاحب کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ بہرحال تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر پاکستان کے دفاعی اداروں کو انتہائی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہے کیونکہ دشمن ہر طرف سے پاکستان کو گھیرنے کے چکر میں ہے۔ پہلے پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی کی شکل میں ایک حریف پیدا کیا گیا تھا۔ اس سے نمٹنے کے بعد بھارت اور افغان حکومت نے انہیں افغانستان میں ٹھکانے مہیا کئے اور اب ذرائع کے مطابق پاکستان کی سرحد کے قریب داعش کو منظم کیا جارہا ہے اور ٹی ٹی پی کے افراد کو اس میں ضم کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں پاکستان کو ایک نئے خطرے سے دوچار کیا جاسکے ۔ان حالات میں پاکستان کے مقتدر حلقوں کو انتہائی دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے قدم اٹھانا ہوں گے تاکہ جس طرح مشرف دور میں وطن عزیز میں موجود فاشسٹ لبرل حلقوں کی باتوں میں آکر لال مسجد جیساواقعہ کراکر ملک کو انتہاپسندوں کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا ،وہ غلطی دوبارہ نہ دہرائی جاسکے کیونکہ اس وقت امریکا اسرائیل اور ان کے مغربی حواری پہلے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے بڑے دجالی ہدف کو حاصل کیا جاسکے۔


متعلقہ خبریں


کابل سے القدس تک محمد انیس الرحمٰن - پیر 03 اکتوبر 2016

سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...

کابل سے القدس تک

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں محمد انیس الرحمٰن - جمعرات 29 ستمبر 2016

عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں

لیڈراور کباڑیا محمد انیس الرحمٰن - هفته 24 ستمبر 2016

ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...

لیڈراور کباڑیا

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 18 ستمبر 2016

جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری محمد انیس الرحمٰن - هفته 03 ستمبر 2016

دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات محمد انیس الرحمٰن - منگل 16 اگست 2016

ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں محمد انیس الرحمٰن - جمعه 22 جولائی 2016

گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش محمد انیس الرحمٰن - بدھ 13 جولائی 2016

امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 26 جون 2016

گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟ محمد انیس الرحمٰن - جمعه 17 جون 2016

خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟

افغان مسئلے کا حل۔۔۔ جنگ یا مذاکرات؟ محمد انیس الرحمٰن - هفته 11 جون 2016

ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...

افغان مسئلے کا حل۔۔۔ جنگ یا مذاکرات؟

جزیہ محمد انیس الرحمٰن - پیر 30 مئی 2016

میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...

جزیہ

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر