... loading ...
ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔یہ معاملات چاہے مشرق وسطی کے ہوں یا افغانستان سمیت جنوبی ایشیا کے ہوں۔مغربی قوتوں نے ان خطوں میں انتشار کی جو فصل نائن الیون کے بعد بوئی تھی وہ اب پوری ’’بہار‘‘ دکھارہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حالات کے جبرنے ان ملکوں کو بھی مستقبل کی صف بندی پر مجبور کردیا ہے جہاں چند برس قبل جنگ کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ انہی حالات کے جبر میں سعودی عرب نے چونتیس ملکوں کے عسکری اتحاد کا بھی اعلان کردیا جس میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستانی وزارت خارجہ نے شروع میں اس اتحاد کے وجود سے لاعلمی کا اظہار کردیا تھا لیکن بعد میں اس اتحاد میں پاکستانی شمولیت کا اعتراف بھی کیا۔اسی سے قوم اندازہ لگا لے کہ ہماری وزارت خارجہ عالمی تاریخ کے اس نازک ترین دور میں ’’ــمعرفت کی کیسی معراجـ‘‘ پر فائز ہے۔اس کثیر التعداد اتحاد کے نتائج کیا نکلتے ہیں اس کا اندازہ تو آنے والے وقت میں ہی لگایا جاسکے گا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ امریکا اور مغربی ملکوں نے سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ملکوں کو حالات کے جس دوراہے پر لا کھڑاکیا ہے ان حالات میں اس قسم کے اتحاد کی تشکیل کی کوششیں ان کی مجبوری ہی کہی جاسکتی ہے۔ کیونکہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے وہ دفاعی حکمت عملی کوکیسے استعمال کرتا ہے اور کس کس کو اپنے ساتھ شامل کرتا ہے یہ بھی اسی پر منحصر ہے۔
لیکن اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ معنی خیز بیان امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کا تھا جنہوں نے اس اتحاد کو امریکی حکمت عملی کے عین مطابق قرار دیا۔
اس امریکی ’’حکمت عملی‘‘ کے خدوخال وہ حلقے اچھی طرح جانتے ہیں جو امریکا کی اس ’’دجالی حکمت عملی‘‘کے تاریخی پس منظر سے پوری طرح واقف ہیں۔ امریکا اپنے مغربی صلیبی صیہونی اتحادیوں کے ساتھ جب بھی کسی خطے یا ملک پر حملہ آور ہونے کی تیاری کرتا ہے تو اس کے لئے وہاں کے دو متحارب فریقوں کے درمیان پہلے جنگ کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے تاکہ یہ فریق پہلے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو نیم جاں کردیں ۔اس کے بعد امریکا بہادر کی قیادت میں مغرب کا سارا دجالی ٹولہ اس خطے پر حملہ آور ہوکر ’’کشور کشائی‘‘ کرکے یہاں کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔تاریخ میں تو اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی لیکن زیادہ دور کیوں جاتے ہیں، نائن الیون کے بعد پہلے افغانستان اور پھر عراق کے حالات ہی اس ’’دجالی حکمت عملی‘‘ کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ پہلے ایک دشمن کو عفریت بنایا جاتا ہے اور اس سے دوسرے فریق کو ڈرایا جاتا ہے پھر یہ دونوں فریق آپس میں دست وگریباں ہوتے ہیں بعد میں جب میدان صاف ہوتا ہے تو مغرب کے یہ دجالی صیہونی گدھ مسلمانوں کے وسائل نوچنے پہنچ جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا سمیت مغرب کے اسلحہ ساز کارخانے دن رات دولت سمیٹنے کے لئے اسلحہ سازی شروع کردیتے ہیں یہ وہی کارخانے ہیں جن کی ملکیت کے تانے بانے مغربی حکومتی شخصیت سے ہوکر دجالی نظام کی تجوریوں تک جاپہنچتے ہیں۔
اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ القاعدہ کے وجود میں آنے کا سبب اسرائیل کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں تھا ۔اس سلسلے میں صحرائے سینا سے جڑے اسرائیل کے ہمسائی ملک مصر کے مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے کیونکہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے وجود میں آنے والے برس یعنی 1948ء میں ہی مصری مسلمانوں نے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی نصرت کے لئے اسرائیل کے خلاف علم جنگ بلند کردیا تھا۔بعد میں دیگر عرب ملکوں نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن عالمی صیہونیت کی بین الاقوامی سفارتکاری کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ تھا۔
اس کے بعد عربوں نے مصر کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف 1967ء اور 1973ء میں دو بڑی جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ میں اسرائیل نے امریکا اور یورپی ممالک کی مدد سے عربوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا،یہ جنگ ’’عرب ازم‘‘ کے جھنڈے تلے لڑی گئی تھی، جس کے نتائج سب کے سامنے تھے۔ اس جنگ میں عربوں نے مجموعی طور پر صحرائے سینا کا وسیع علاقہ، شام کی جانب گولان کا پہاڑی علاقہ اور بیت المقدس جیسے اہم ترین شہر کو اسرائیل کے ہاتھوں گنوا دیا تھا۔ لیکن چند برس بعد ہی شاہ فیصل کی سیاسی اور سفارتی قیادت میں عرب ملکوں نے مصر کی عسکری قیادت کی کمان میں رمضان کے مہینے 1973ء میں اسرائیل پر حملہ کرکے بارلیف لائن عبور کرکے نصف صحرائے سینا تک کے علاقے میں کامیاب پیش قدمی کرکے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو پاش پاش کردیا تھا۔ یہ جنگ چونکہ عرب ازم کی بجائے اسلام کے جھنڈے تلے لڑی گئی تو عالم عرب کی کثیر تعداد پر یہ عقدہ کھلا کہ عالمی صیہونی قوت کی سازشوں کا مقابلہ اسلام کی صحیح پیروی کرکے کیا جاسکتا ہے۔
اس دور میں صدر ناصر کے عرب ازم نے دم توڑا تو دوسری جانب صدر سادات نے باقی ماندہ صحرائے سینا کے حصول کے لئے جنگ کی بجائے سفارتکاری کا راستہ اختیار کرلیا۔سابق سوویت یونین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مصر سوویت بلاک سے نکل کر امریکا کے بلاک میں شامل ہوگیا اور روسی مشیروں کو قاہرہ سے نکل جانے کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔اس مرحلے پر امریکا نے صدر سادات کو سفارتکاری کا راستہ اختیار کرنے کی راہ سجھائی، یہی وہ مرحلہ تھا جب عربوں میں جدید تاریخ میں پہلی بڑی پھوٹ پڑی۔ سادات نے کیمپ ڈیوڈ کی راہ لی اور شاہ فیصل ؒنے مصر کو عرب لیگ سے باہر کردیا۔امریکا اور اسرائیل کو اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر سادات کی شکل میں ترپ کے پتے کو کامیابی سے نہ کھیلا گیا تو عالم عرب کی جہادی اور اسلامی تحریکیں اسرائیل کے ساتھ ساتھ مغرب کی ہمنوا عرب حکومتوں کو بھی تلپٹ کردیں گی اور سارا خطہ انتشار میں مبتلا ہوجائے گا۔ اس لئے اسرائیل اور امریکا نے جان بوجھ کر باقی صحرائے سینا کی قربانی دیتے ہوئے اسے مصر کے حوالے کردیا تاکہ عرب حکومتیں اپنے عوام کو اس بات پر قائل کرسکیں کہ سفارتکاری کے ذریعے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ایک طرح سے یہ عربوں کو بے وقوف بنانے کا صیہونی حربہ تھا جسے عرب عوام نے یکسر مسترد کردیا تھا کیونکہ صحرائے سینا کے علاوہ جن عرب علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ جمایا تھا، وہاں سے اسرائیل نے کبھی پسپائی اختیار نہیں کی تھی۔یہ وہ حالات تھے جب تمام عالم عرب میں بغاوت کا لاوہ پک رہا تھا اور ’’عرب بہار‘‘ کی شکل میں وہ انقلابات جو اب خطے میں سامنے آئے تھے اگر سوویت یونین افغانستان میں گھسنے کی غلطی نہ کرتا تو شاید یہ عرب بہار 1979ء میں ہی آجاتی۔۔ ۔ لیکن حالات نے عجیب رخ اختیار کیا اور عالم عرب میں سر اٹھانے والی حریت پسندی نے افغانستان کا رخ کرلیا اور کامل سولہ برس تک اس سرزمین پر اپنے ہاتھ سیدھے کئے۔1991ء تک سوویت یونین کی تحلیل کے وقت ایک مرتبہ یہ خدشات پھر سر اٹھانے لگے کہ اب افغانستان میں کامیابی حاصل کرنے والی جہادی تنظیمیں پھر اسرائیل کا رخ کریں گی، اس لئے نئے کھیل کی ابتدا کی جاتی ہے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں نے افغانستان میں جو جدوجہد کی اس کے تناظر میں مغرب کے کارپوریٹیڈ میڈیا نے انہیں مغرب کے لئے نیا خطرہ قرار دینا شروع کیا، مسلم دنیا کا بہت بڑا حصہ ایسا تھا جس کا اسامہ سے تعارف مغربی میڈیا کے ذریعے ہوا ۔ اب خطرات صرف مغرب یا اسرائیل کو ہی نہیں تھے بلکہ عالم عرب کی حکومتوں کو بھی اس سے مکمل خوفزدہ کردیا گیا۔ صیہونی مغرب اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ القاعدہ میں انتہا پسند عرب نوجوانوں کے ساتھ ساتھ وہ غیر عرب مسلمان بھی شامل ہورہے ہیں جو افغان جہاد کا کسی نہ کسی طرح حصہ رہے ہیں، اسلئے مشرق وسطی میں اسرائیل کے لئے کسی وقت بھی بڑی مشکل دوبارہ کھڑی ہوسکتی ہے۔ اس لئے مصر، اردن اوراسرائیل کے گرد واقع دیگر عرب ریاستوں میں ان کے خلاف کارروائیاں کروائی گئیں گرفتاریوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ بپھرے ہوئے عرب نوجوان کسی بھی انتہا پسند کارروائی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے لگے۔ یہی وہ موقع تھا جب عالمی صیہونیت کو مسلم ممالک پر چڑھ دوڑنے کا جواب ملا اور نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر پہلے افغانستان اور اس کے بعد عراق پر چڑھائی کردی گئی۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ نائن الیون سے پہلے جب ساری دنیا افغانستان کے معاملات میں الجھی ہوئی تھی، انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ ایران عراق جنگ کروائی گئی تھی ،اس آٹھ سالہ بے مقصد جنگ نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کی کمر توڑ دی وہاں خطے میں شیعہ سنی تفریق کے لئے بھی راہ نکال لی گئی جس نے آگے چل کر خطے میں تقسیم کے لئے کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ آٹھ برس کی ایران عراق جنگ میں دونوں فریقوں کو مغرب اور اسرئیل نے خفیہ اور ظاہری طور پر کھل کر مدد دی اور اپنے جنگی کارخانوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچایا۔ اس دور میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو بھی کسی ایک ملک کا فریق بننے کے لئے بہت زور لگایا گیا لیکن پاکستان نے انتہائی دانشمندی کے ساتھ فریق بننے کی بجائے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان اس سلسلے میں آخری دم تک کوششیں کرتا رہا۔
سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے دوران پاکستان نے اپنی جوہری صلاحیتوں کو ترقی دی اور آخر کار جوہری قوت کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔اس لئے عالمی دجالی صیہونیت کے مستقبل کے منصوبوں میں پاکستان کی جوہری صلاحیت کو بڑی رکاوٹ کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس کو کاؤنٹر کرنے کے لئے ایک طرف افغانستان میں پاکستان دشمن بھارت کو وسیع کردار سونپا گیا تو دوسری جانب پاکستان کے اندر انتہاپسندی کے بیج بوکر اسے انتشار سے دوچار کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں ۔ جنرل مشرف نے ان حالات کو اپنے اقتدار کو طول دینے کا سبب سمجھ کر ناعاقبت اندیشی کی انتہا کردی جس نے ملک کو مزید انتشار سے دوچار کیا۔ دوسری جانب عراق پر تباہی مسلط کرنے کے بعد وہاں جان بوجھ کر ایران کو بڑا کردار ادا کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تاکہ مشرق وسطی میں شیعہ سنی تفریق پیدا کرکے اسرائیل کے راستے کے کانٹوں کودور کرکے اس کی عالمی دجالی سیادت کا راستہ صاف کیا جاسکے۔عراق کے بعد اس سلسلے میں شام کا انتخاب کیا گیادوسری جانب مصر میں ایک برس تک اخوانیوں کو حکومت کرنے دینے کے بعد وہاں پر ایک صیہونیت نواز جنرل سیسی کے ہاتھوں ظلم وستم کی نئی تاریخ رقم کرکے وہاں انتہا پسندی کے نئے بیج بودیئے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تمام شمالی افریقہ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں ایک آگ سی لگا دی گئی ہے۔ شام میں روس کو گھسیٹنے کا خواب پورا ہوچکا ہے۔
القاعدہ کی ہی تاریخ دہراتے ہوئے شمالی عراق میں ’’داعش‘‘ کی گنجائش پیدا کی گئی ،اس سلسلے میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ داعش کا بڑا حصہ صدام دور کی سنی عراقی فوج پر مشتمل ہے جس نے امریکی یلغار کے جواب میں شمال کی جانب تیزی سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے جدید اسلحے کے بڑے بڑے ذخائر زمین میں دفن کرکے محفوظ بنا لئے تھے۔ اس کے علاوہ پندرہ برسوں کے دوران ایک جلا وطن عراقی نسل اردن اور شام کے کیمپوں میں جوان ہوچکی تھی جس نے ایران اور ایران نواز شیعہ ملیشیاؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے داعش میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اب دوسرے عالمی صیہونی ڈرامے کا اسٹیج پوری طرح تیار تھا۔ داعش نے شمالی سے یلغار کرکے امریکا کی حمایت اور تربیت یافتہ فوج اور ایران نواز ملیشیا کی دوڑ لگوا کر ایک بڑے خطے پر قبضہ جما لیا تو دوسری جانب اس یلغار نے شام کے شمالی علاقوں کا رخ اختیار کرلیا۔ یوں برطانیا کے مجموعی رقبے سے بڑے رقبے پر داعش نے اپنی اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کردیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جس وقت داعش ان علاقوں پر اپنے قبضے جما رہی تھی اس دوران نہ تو امریکا کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ ہی اسرائیل کو کسی قسم کے خدشے کا اندیشہ ہوا اور نہ ہی یورپی ممالک اور نیٹو کو اس میں کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوا۔ سب خاموشی سے جیسے تماشا دیکھ رہے تھے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف اگر ایک طرف القاعدہ اور اخوان سمیت متعدد اسلامی جہادی تحریکیں برسرپیکار تھیں تو دوسری جانب داعش ایک طرف بشار حکومت تو دوسری جانب اس کے خلاف تحریکیوں کے خلاف بیک وقت صف آراء تھی حربی حکمت عملی کے تحت دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے لیکن داعش کے لئے دشمن کا دشمن بھی دشمن ہی تھا۔ دوسری جانب ایران براہ راست بشار کی حمایت میں کود چکا تھا تو ایرانی حمایت یافتہ لبنانی حزب اﷲ نے بھی پوری قوت کے ساتھ اس جنگ میں شمولیت اختیار کرلی۔
داعش اور القاعدہ کے بنیادی نظریہ میں یہ فرق واضح تھا کہ القاعدہ نے نہ تو کبھی خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا اور نہ ہی کبھی کسی علاقے پر قبضہ جماکر وہاں اپنے ٹھکانے بنائے تھے یہ تنظیم مارو اور دوڑو کے نظریہ پر کام کرتی رہی لیکن اس کے برعکس داعش نے نہ صرف علاقے پر قبضہ جماکر وہاں اپنی حکومت قائم کی بلکہ اپنے سکے سمیت پورا حکومتی نظام وضع کرڈالا۔یہ صورتحال عرب ملکوں کے لئے انتہائی خطرناک تھی مسلکی لحاظ سے داعش ایران اور اس کی مختلف شیعہ ملیشیات کی مخالف تو تھی لیکن دوسری جانب وہ عرب اور غیر عرب سنی ممالک بھی اس کے نزدیک غیر اسلامی تھے جہاں پر سنیوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ ان حالات نے سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک اور پاکستان جیسے غیر عرب ممالک میں خطرے کی ایک لہر دوڑادی۔یہی وہ مرحلہ تھا جب امریکا اور اس کے حواریوں نے سعودی عرب دیگر خلیجی ممالک کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے دفاع میں ایک کثیر التعداد اتحاد تشکیل دیں۔ پاکستان نے بھی بادل نخواستہ اس میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اس اتحاد میں پہلے اپنے کردار کا تعین کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان کی ہیں۔ ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانی شہری فوجی جوان اور افسران اس جنگ میں شہید ہوچکے ہیں ۔اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے سیاستدانوں نے موقع سے فائدہ اٹھاکر جس طرح کرپشن کی ہے وہ نقصانات اپنی جگہ ہیں۔ اب جس پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تو جہاں ایک طرف عسکری انتہاپسندی کو بڑی حد تک شکست دی گئی ہے تو وہاں معاشی دہشتگردوں پر بھی ہاتھ ڈال دیا گیا ہے ۔ معاشی دہشت گرد اس کرپشن کے پیسے کو دہشت گردی کے خلاف بھی استعمال کرتے رہے ہیں جس کے واضح ثبوت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ اس میں سندھ کی پی پی کی حکومت سے ابتدا ہوئی ہے جس کے لئے اب یہ سیاستدان کسی سمجھوتے کی شکل میں راہ فرار اختیار چاہتے ہیں اس سلسلے میں پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے عمرہ کے لئے اپنی ٹیم کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق زرداری صاحب عرب امارات کی سفارش پر سعودی حکام سے یہ کہنے گیے تھے کہ آپ کے نو تشکیل شدہ اتحاد کی ہم پاکستان میں حمایت کریں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پاکستان میں جس بحران کا شکار ہوچکے ہیں، اس سلسلے میں آپ ثالثی کریں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں جب یہ کوششیں جاری تھیں، عین اسی وقت زرداری کے صاحبزادے بلاول اسلام آباد میں سعودی سفیر سے ملاقات کرکے خیر سگالی کا پیغام دے رہے تھے لیکن ذرائع کے مطابق سعودی عرب پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ان کی اس میں کوئی دلچسپی ہے ،یوں کہا جاسکتا ہے کہ زرداری صاحب کو ریاض سے جواب مل چکا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس ملاقات کے اگلے روز آصف زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچو نے سندھ اسمبلی میں سعودی عرب کے اس نوتشکیل شدہ اتحاد کے خلاف دھواں دھار تقریر کردی تھی۔ اسی تقریر سے یار لوگوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ریاض میں زرداری صاحب کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ بہرحال تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر پاکستان کے دفاعی اداروں کو انتہائی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہے کیونکہ دشمن ہر طرف سے پاکستان کو گھیرنے کے چکر میں ہے۔ پہلے پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی کی شکل میں ایک حریف پیدا کیا گیا تھا۔ اس سے نمٹنے کے بعد بھارت اور افغان حکومت نے انہیں افغانستان میں ٹھکانے مہیا کئے اور اب ذرائع کے مطابق پاکستان کی سرحد کے قریب داعش کو منظم کیا جارہا ہے اور ٹی ٹی پی کے افراد کو اس میں ضم کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں پاکستان کو ایک نئے خطرے سے دوچار کیا جاسکے ۔ان حالات میں پاکستان کے مقتدر حلقوں کو انتہائی دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے قدم اٹھانا ہوں گے تاکہ جس طرح مشرف دور میں وطن عزیز میں موجود فاشسٹ لبرل حلقوں کی باتوں میں آکر لال مسجد جیساواقعہ کراکر ملک کو انتہاپسندوں کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا ،وہ غلطی دوبارہ نہ دہرائی جاسکے کیونکہ اس وقت امریکا اسرائیل اور ان کے مغربی حواری پہلے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے بڑے دجالی ہدف کو حاصل کیا جاسکے۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...