... loading ...
معاشرے میں مثالیں قائم کی جاتی ہیں۔ یہ مثالیں ہی معاشروں کے لئے زندگی کا کام کرتی ہیں۔ تحریک پیدا کرتی ہیں۔ بسمہ کا معاملہ ایسی کوئی مثال قائم نہیں کر سکا۔ پیپلز پارٹی سے بڑھ کر ایسی کوئی جماعت نہیں جسے لاشوں سے کھیلنا اور لاشوں سے کھلواڑ کرنا آتا ہو۔ چند روز قبل وزیراعلیٰ کے قاتل پروٹوکول سے مرنے والی بسمہ کامسئلہ اب نسیان کی نذر ہو چکا۔ اور آٹھ برس قبل بی بی کی موت کا ماتم بپا ہے۔ زندہ ہے بی بی زندہ ہے کا ہنگامہ جاری ہے۔ کیا ہماری یادداشتیں بھی جمہوریت کی نمائندہ جماعتوں کے آمرانہ اور سفاکانہ اُسلوب سیاست کی طفیلی بن چکیں۔ جی نہیں! اس مسئلے کو اس طرح دریا بُرد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف بسمہ کا مسئلہ نہیں اور بسمہ کا وارث محض اس کا باپ نہیں۔ شہر کراچی پورا سراپا سوال ہے۔ بلاول اور اب زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی گونگلوؤں سے مٹی نہ جھاڑیں۔
پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ پروٹوکول اس پورے مسئلے کی محض ایک جہت ہے، جس کا یہ معاشرہ نہایت نفرت انگیز طور پر سامنا کر رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ زندگی جینے کے پورے ڈھنگ سے جڑا مسئلہ ہے جو بلاتفریق طبقہ اشرافیہ سے مخصوص ہے۔ اور اس میں سیاسی اور عسکری اشرافیہ کی کوئی تفریق نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت سرمایہ پرستی اور سرمایہ داری کا ایک مکروہ کھیل ہے۔ اور سرمائے کاایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی طوائف کی طرح اپنی نمائش چاہتا ہے۔ مگر جمہوریت اور سرمائے کی اس تال میل میں اس طبقے کا اصل ہدف صرف نمائش نہیں بلکہ طاقت اور اثرو رسوخ کی یافت ہے۔ پروٹوکول کوئی سیکورٹی نہیں ہوتی، حکمرانوں نے سیکورٹی کو پروٹوکول کا ہم معنی بنا دیا ہے۔ دراصل پروٹوکول طاقت اور اثرورسوخ کی نمائش کا ایک وسیلہ ہے۔ بلاول بھٹو، مریم نواز اور عمران خان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں مگر ان کا معاملہ یہ ہے کہ یہ اپنے اثرو رسوخ کی طاقت کو سرکاری طاقت کے مظاہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور سرکار کے باضابطہ وجود سے وہ یہ اپنے لئے بے ضابطہ طور پر کرانے میں کامیاب رہتے ہیں کیونکہ وہ سیاسی عہدوں میں سرکاری عہدوں پر فائز لوگ سے زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔ اور یہ اُسی منحوس گرداب کی وجہ سے ہے جس میں خاندانی جاگیرکی مانند سیاسی جماعتیں، دولت کی بے پناہ ریل پیل اور سرمایہ پرستی کی تحویل میں کارگزار مکروہ جمہوریت موثر طور پر دکھائی پڑتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرکار کے باضابطہ ادارے ان بے ضابطہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں ہمیشہ ایک الجھن سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف سڑک پر انہیں پروٹوکول دینے کا نہیں، بلکہ کسی سرکاری اجلاس میں احکامات دینے تک یکساں طور پر ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتا ہے۔ کبھی یہ سوال ہی نہیں اُٹھا کہ عمران خان اور کچھ عرصے قبل اُن کی اہلیہ رہنے والی ریحام خان خیبر پختون خواہ میں پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے اجلاس کی صدارت کیسے فرمایا کرتے تھے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ مریم نواز اپنے باپ کے ساتھ سرکاری اجلاس میں کیسے شریک ہو سکتی ہیں، وہ نوجوانوں کے مختلف پروگراموں کے لئے باقاعدہ سرکاری ہدایات کیسے دیتی ہیں؟ کوئی سوال تک اُٹھا نہیں سکتا کہ بلاول زرداری کس طرح سندھ حکومت کے مختلف اجلاسوں میں شریک ہو کر فیصلوں کے اعلان کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ساتھ وہ جس اسپتال کے ایک منصوبے کا افتتاح کرنے گئے تھے، اُسے قائم علی شاہ نے بلاول کی طرف سے سندھ کے عوام کے لئے ایک تحفہ قرارددے دیا۔ کیسے بھائی؟ کیا یہ بلاول زرداری کی جیب ِ خاص سے بنایا گیا کوئی منصوبہ ہے؟ اپنی بدعنوانیوں کے میلے ہاتھوں سے بچ جانے والے عوامی پیسوں سے کچھ منصوبے بنا کر بھی یہ اسے اس طرح مشتہر کرتے ہیں جیسے یہ اُنہوں نے اپنی ذاتی جاگیروں سے بنا کر عوام کو دیئے ہو۔ پنجاب میں تو یہ معاملہ اور زیادہ بھیانک دکھائی دیتا ہے۔ کسی بات پر انہیں کوئی شرم ہی نہیں آتی!
بسمہ کی موت نے دراصل ایک بڑے مسئلے کی طرف قوم کو متوجہ کیا۔ مگر کسی نے اس پر دھیان نہیں دیا اور کوئی کیوں دیں؟ جب عمرکوٹ میں تین سو بچے بھوک سے مرگئے اورکسی کویاد نہیں رہا تو ایک بسمہ کس کو یاد رہے گی؟
بسمہ کا قاتل کوئی اور نہیں وی آئی پی کلچر ہے۔ پروٹوکول اس کا ایک تکبر آمیز اظہار ہے۔ حکمرانوں کے لئے ہی نہیں ہر بااثر شخص کے لئے پروٹوکول عام سی بات بن گئی ہے۔ مگریہ موذی مرض شہر اور ملک کے لئے اب ایک مستقل مصیبت اور ناقابل برداشت حادثات کا باعث بن رہا ہے۔ ۲۳؍ دسمبرکو بسمہ کی موت اسی قاتل پروٹوکول کے باعث ہوئی۔ مگر اس سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ اس معاملے پر سندھ کے وزراء کا گھناؤنا ردِ عمل تھا۔ شہلارضا اور نثار کھوڑو کے الفاظ لوگوں کے دلوں میں برچھی بن کر اُتر گیے۔ مگر اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس معاملے کو حل کرنے کا طریقہ کیا نکالا؟ اُنہوں نے خاموشی سے بچی کے باپ کو سرکاری نوکری دینے کا یقین دلایا۔ انتہائی غریب پس منظر کے لوگوں سے جب وزیراعلیٰ اور بلاول بھٹو جاکر ملیں گے تو غربت ویسے بھی ایک شرمناک سناٹے کی شکار ہو جاتی ہے۔ کیا یہ کوئی ایسا حل ہے جس پر عوام کے اجتماعی ضمیر اور اجتماعی دانش کو مطمئن کیا جا سکے؟حکمرانوں کے ذاتی گناہوں کا کفارہ سرکاری نوکریوں کی صورت میں کیسے دیا جاسکتاہے؟ کیا لوگ سرکاری نوکری کا حصول اب ایسے حادثات کی توقعات سے وابستہ کر لیں ؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ بلاول زرداری یا قائم علی شاہ کی ذاتی دولت سے انہیں کچھ ادا کیا جاتا؟ دراصل ایسے تمام معاملات کا حل صرف قانونی نکلنا چاہئے۔ قانون اور انصاف کے ادارے ایسے معاملات میں مختلف مثالیں قائم کرکے عوام کا اعتماد اپنے اوپر برقرار رکھتے ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسی مثالیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔
یہاں حکومت اپنے لامحدود اختیارات اور مراعات کے بل بوتے سے ایسے واقعات کے کچرے کو قالین کے نیچے چھپانے میں کامیاب رہتی ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بیس کروڑ کے ملک میں کسی کا ضمیر انگڑائی بھی نہیں لیتا اور کوئی شہری بھی عدالت کے دروازے پر نہیں جاتا۔ کیا اس ملک میں کسی کی بھی دس ماہ کی بیٹی نہیں۔ یا پھر اس ملک میں کسی کوبھی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں۔ اگر عوام اس پر جاگ نہیں رہے تو یہ خطرناک بات ہے اور اگر وہ اس درد کو محسوس کرتے ہیں اور عدالت نہیں جارہے تو یہ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات ہے۔ مگر حکمران اشرافیہ کو یہ بات ابھی بھی سمجھ میں نہیں آئے گی!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
وفاقی کابینہ نے قومی احتساب بیورو( نیب )کی سفارش پر پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔ نجی ٹی وی کے مط...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...