... loading ...
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات کو، لاہور آکر ایک نئی جہت دی ہے اور رسومات اور تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نئی شروعات کی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس دورے کو خوشگوار حیرت کے ساتھ دیکھاجارہاہے کیونکہ دس برس تک سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ پاکستان آنے کے ارادہ کا اظہار کرتے رہے لیکن داخلی مجبوریاں اور سیاسی عزم کی کمی نے انہیں اسلام آباد نہ آنے دیا۔
چند ماہ پہلے تک نریندر مودی نے پاکستان کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ بولی نہیں اب گولی چلے گی اور سرحدوں پر کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اب انہوں نے نوے ڈگری کا یوٹرن لیا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے وزیراعظم نوازشریف سے دوقدم آگے بڑھ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کایا کلپ کیوں ہوئی؟
نریندر مودی کو گزشتہ چھ ماہ کے دوران کانگریس سمیت ہر عقل مند شخصیت نے یہ باور کرایا کہ وزیراعظم نوازشریف بھارت کے ساتھ تعلقات کو ایک نیا رخ دینا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی اورعلاقائی سالمیت کے لیے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا قیام ناگزیر ہے۔ کانگریس کے سابق وزیرخارجہ سلمان خورشید چند ہفتے قبل اسلام آباد تشریف لائے جہاں انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر مودی سرکارکو پاک بھارت کشیدگی کا ذمہ دار قراردیااور وزیراعظم نوازشریف کے جذبہ خیر سگالی کی تعریف کی۔
بہار کے الیکشن میں عبرت ناک شکست نے بھی مودی کو اپنے سخت گیر رویہ پر ازسرنو غور پر مجبورکیا جہاں نیتش کمار، لالو پرساد اور کانگریس کے اشتراک نے مودی کی کرشماتی شخصیت کے سحر کو پارہ پارہ کردیا۔ وہی مودی جو پورے بھارت کو فتح کرنے نکلے تھے ‘ لالو پرساد اور ان کے اتحادیوں نے ان کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
گزشتہ کئی برسوں سے مودی ملک کو تیزی سے ترقی دینے کا سپنا ووٹروں کو دکھاتے رہے لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال میں شرح نمو کے اشاریئے میں اضافہ نہ ہوسکا۔ اربوں ڈالر کی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط تو ضرور ہوئے لیکن عام آدمی کی زندگی میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آسکی۔ اب سوا سال بعدآبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ جہاں لگ بھگ بیس فیصد مسلمان ووٹر آباد ہیں جو بھارتیہ جنتاپارٹی کے برعکس حکمران سماج وادی پارٹی کو اپنا ہمدرد وغمگسار خیال کرتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ جو پارٹی اترپریش فتح کرلیتی ہے، وہ بھارت پر راج کرتی ہے۔ اترپردیش میں شکست کا مطلب ہے بھارت کی راج دھانی دہلی سے بھی چھٹی۔ بی جے پی اگلے بیس برس تک برسراقتدار رہنے کے خواب دیکھ رہی ہے وہ اتنے جلدی اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتانہیں دیکھ سکتی۔
بھارت نریندر مودی کی قیادت میں عالمی سطح پر ایک اہم کردار اداکرنا چاہتاہے۔ سلامتی کونسل کی رکنیت ہی پر اس کی نظر نہیں بلکہ بھارتی سیاستدان یہ کہتے تھکتے نہیں کہ ترقی کی موجودہ رفتار برقراررہی تو ان کا ملک اگلے بیس برسوں میں دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی قوت ہوگا۔ چنانچہ یہ ناگزیر ہے کہ وہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات سے جان چھڑائے، جہاں آئے روزانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور نریندر مودی جہاں بھی جاتے ہیں، ان کا استقبال کالی جھنڈیوں اوراحتجاج سے کیاجاتاہے۔
پاکستان میں اس وقت ایک آئیڈیل حکومت موجود ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے سبب 1999میں اقتدار کھویاتھا۔ آج ملک کی عسکری قیادت ان کی ہمنوا ہے جو باربار ملکی سلامتی کو لاحق خطرات میں داخلی دہشت گردی کو سب سے بڑا خطرہ قراردیتی ہے اور علاقے میں قیام امن کے لیے کردار اداکرنا چاہتی ہے۔ اس کا علاقائی سلامتی کا روایتی تصور بدل چکاہے۔ اب وہ افغانستان میں طالبان کے بجائے منتخب حکومت کے ہاتھ مضبوط کررہی ہے۔ طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے کی کوششوں کا حصہ ہے تاکہ افغانستان میں دیر پا امن قائم ہوسکے۔ بھارت کے ساتھ افغانستان میں مسابقت کے بجائے تعاون کی راہیں کشادہ کرنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان کے جائز مفادات کا تحفظ کیاجاسکے۔ اسی پس منظر میں بھارتی وزیرخارجہ افغانستان کے حوالے سے ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائی تھیں۔ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائز مقررکیاگیا تاکہ وہ فوج اور حکومت کے درمیان محض رابطہ کار کا کردار ادا نہ کریں بلکہ مذاکراتی عمل کو منطقی انجام کی جانب لے جانے میں کلیدی کرداراداکریں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جس لیول کی تلخی اور کشیدگی پائی جاتی ہے اسے محض سرکاری افسروں کے درمیان مذاکرات سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ بریک تھرو ممکن بنانے کے لیے سیاسی قیادت کو بڑاقدم اٹھانا ہوگا۔ مودی اور نوازشریف کے درمیان ذاتی سطح پر اعتماد کا رشتہ قائم ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ غیر رسمی مذاکرات اور میل ملاقاتوں سے تعاون اور مفاہمت کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر بڑے تجارتی گروپ اور شخصیات اس ضمن میں کردار اداکریں۔ دنیا بھر میں تجارتی ادارے اور شخصیات تنازعات کے حل میں کلیدی کردار اداکرتی رہتی ہیں۔
اگلے اٹھارہ ماہ پاکستان اور بھارت کے لیے میک یا بریک والی کیفیت کے حامل ہیں کیونکہ ستمبر میں سلام آباد میں سارک کانفرنس ہونے والی ہے۔ جس میں وزیراعظم مودی شرکت کررہے ہیں۔ اگلے ماہ بھارتی سیکرٹری خارجہ اسلام آباد تشریف لائیں گے تاکہ مذاکرات کا لائحہ عمل طے کریں۔ امید ہے کہ ستمبر تک بہت سارے معاملات طے ہوجائیں گے تاکہ سارک کانفرنس کے موقع پر کچھ معاہدوں پر دستخط کیے جاسکیں۔ اس کے بعد اترپریش میں الیکشن شروع ہوجائیں گے اور پھر جولائی 2017 میں پاکستان میں عام الیکشن کا بگل بج جائے گا لہٰذا لے دے کردونوں ممالک کے پاس اگلے اٹھارہ ماہ ہیں جن میں کچھ پیش رفت ہوسکتی ہے۔
کشمیر اور دہشت گردی دوایسے ایشوزہیں جن پر پیش رفت دقت طلب کام ہے لیکن دونوں ممالک کے پاس اٹل بہاری واجپائی اور نوازشریف کے درمیان طے پانے والا فریم ورک موجود ہے جس پر پرویز مشرف او رمن موہن سنگھ کے دورحکومت میں کافی پیش رفت ہوئی۔ اس فریم ورک میں معمولی ردوبدل کرکے اسے کشمیری قیادت اور دونوں ممالک کے لیے قابل قبول بنایاجاسکتاہے۔
یہ تلخ حقیقت پیش نظر رہے کہ دونوں ممالک میں سخت گیر او ربے لچک سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک طاقت ور گروہ پایاجاتاہے جسے دوستانہ پاک بھارت تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وہ کوئی بھی حادثہ کرسکتے ہیں تاکہ موجودہ دوستانہ فضا الٹ جائے۔ ان کی پشت پر ریٹنگ کے پیچھے بھاگنے والا میڈیا بھی کھڑاہے۔ چنانچہ دونوں ممالک کو کوئی ایسا نظام وضع کرنا ہوگا کہ کسی حادثے کی صورت میں ساری پیش رفت کا بوریا بستر گول نہ ہوجائے۔
بھارت میں مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، حکومت نے دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کا الزام لگا کر مسلم مذہبی گروپ پر 5 سال کی پابندی لگا دی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مذہبی گروپ کے عسکریت پسند گروپوں سے تعلقات ہیں، گروپ اور اس ک...
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جنتا کو ایک بار پھر ماموں بنادیا۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارتی وزیراعظم دہلی کے ایک مندر کے دورے پر مہمانوں کی کتاب میں تاثرات لکھنے گئے تاہم وہ پہلے سے ہی لکھے ہوئے تھے۔ نریندر مودی لکھے ہوئے تاثرات کے اوپر صرف ہوا میں قلم چلاتے رہے لیکن انہوں...
جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...
بھارتی ریاست پنجاب میں وزیراعظم نریندر مودی کے قافلے کو کسانوں نے راستے میں روک دیا۔ بھارتی وزیراعظم کو فیروزپور شہر میں کئی منصوبوں کا افتتاح اور ریلی سے خطاب کرنا تھا تاہم وزیراعظم کے قافلے کے راستے میں بھٹنڈا کے فلائی اوور پر کسانوں نے احتجاج کیا اور سڑک کو ٹریفک کیلئے بند کرد...
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...
2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے طیارے نے دو روز قبل اٹلی کے شہر روم پہنچنے کیلئے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی اجازت سے پاکستانی فضائی حدود استعمال کی۔ سی اے اے ذرائع کے مطابق بھارتی وزیراعظم کے طیارے نے پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنے کے لیے اجازت حاصل کی تھی۔بھارتی وزیراعظ...
سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...
٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...
عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...