... loading ...
جس وقت اسلام آباد میں ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس جاری تھی ٹھیک اسی وقت افغان طالبان قندھار میں افغانستان کے سب سے بڑے ائیر پورٹ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور شدید جنگ جاری تھی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے اور سی آئی اے کے آپریٹر یہاں بھی موجود ہیں۔اس لئے اسے امریکا اور نیٹو کے حوالے حساس ترین علاقہ کہا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد اور افغانستان میں ان واقعات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔
بہرحال اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے دو سو کے قریب فوجیوں کو ٹھکانے لگا کر بے شمار جنگی نقصان کیا اور امریکا اور اشرف غنی حکومت کو واضح پیغام دے دیاکہ اس خطے میں افغانستان کے حوالے سے حقیقی فریق کون ہے۔یوں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران افغانستان پوری طرح ’’ہارٹ اٹیک‘‘ کی صورتحال سے دوچار رہا۔یوں اسلام آباد میں یہ کانفرنس سب سے زیادہ بھارت افغان میلہ ثابت ہوئی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔باوجود کہ یہ سب معاملات امریکاکی خواہش پر ہورہے تھے جس کا اگلا حصہ تاپی گیس پائپ لائن کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا ہے جس کے ترکمانستان میں افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے بھی حصہ لیا۔اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا دورہ بھارت اور وہاں مودی سے ملاقات کے بعد ان کے تاثرات کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔اس دورے کی کیا افادیت ہے؟ اس کے بارے میں عمران خان ہی کچھ بیان کرسکتے ہیں بہرحال یہ ایک ایسا سیاسی فلر تھا جس کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کے بارے میں پھر کسی وقت بات ہوگی۔۔۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ترکمانستان کی یہ گیس پائپ لائن افغانستان میں ہرات، قندھار، چمن، ژوب، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور وہاں سے فاضلکہ کے مقام سے بھارت میں داخل ہوجائے گی ۔ اس کے بعد یہ بھارت میں کہاں کہاں جائے گی اس سلسلے میں بھارت نے کبھی پاکستان کو اعتماد میں لینے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔اس سے پہلے بھی بھارت نے براستہ پاکستان ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا تھا، تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے ساتھ وہ کیا کرے گا یا امریکاکیا کروائے گایہ تو مستقبل میں ہی پتا چل سکے گا ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کہ امریکا کی ضمانت میں شروع ہونے والے اس منصوبے پر پاکستانی وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان افغان طالبان سے بھی مذاکرات کرے گا۔ لیکن کیا اس کی سیکورٹی ذمہ داری کو افغان طالبان پر ڈالنا صحیح رہے گا۔ ان کے علاوہ ان افغان علاقوں میں جو دیگر چھوٹے لیکن بھارتی سرپرستی میں چلنے والے ہزارہ اور تاجک گروپ ہیں، کیا وہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کے مفاد پر ضرب لگانے کی کوشش نہیں کریں گے؟یہ بھی یاد رہے کہ اس گیس منصوبے کی پائپ لائن نے ایرانی صوبوں کے قریب سے گزرنا ہے۔۔۔
امریکا افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ کو کس پہلو سے اپنے حق میں پلٹنے کے لئے بے چین ہے ، یہ کسی سے اب پوشیدہ نہیں۔ کہیں جمہوریت اور کہیں آمریت کے ذریعے وہ کسی طرح اپنا الو سیدھا کررہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کی کیفیت اس شکست خوردہ فرعون کی سی ہوچکی ہے جو قدرتی آفات کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ایک طرف مصر سے نکلنے کی اجازت دینے پربھی تیار تھا اور دوسری جانب ان کا تعاقب بھی کرنے سے بھی باز نہیں آرہا تھا۔
جدید تاریخ کے جدید فرعون امریکا بھی اﷲ کی مخلوق پر اﷲ کا قانون نافذ نہیں ہونے دے رہا اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا طرز سیاست یعنی نام نہاد جمہوریت اور معاشی اور معاشرتی نظام اختیار کیا جائے۔ یعنی ایک ایسا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام جس میں خدا کا تصور نہ ہو اور اسی دجالی تصور کی ترویج کے لئے اس نے اسلامی دنیا پر جنگوں کی آگ بھڑکا دی ہے۔مغربی جمہوری نظام کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نام نہاد جمہوریت اور آمریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔اس مغربی طرز سیاست کا مزا پاکستانی قوم کیسے چکھ رہی ہے اس کا احوال سب کے سامنے ہے ۔پاکستانی قوم زرداری گروپ کے ہاتھوں جمہوریت کے وہ’’ثمرات‘‘ سمیٹنے کے بعدجس کا گمان کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں کیا تھا۔ اب موجودہ حکمرانوں کو بھگت رہی ہے قوم اس وقت جن حالات کا شکار ہے اگر اس کے ہوش مند طبقے اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اﷲ رب العزت سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ کاش یہ قوم بلکہ امت مسلمہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتی ۔
پاکستانی حفاظت کے ضامن اداروں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس اور اب تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے معاملات خطے میں اس وقت ہورہے ہیں جب دنیا میں ایک آگ لگ چکی ہے اور اﷲ کے فضل وکرم اور پاکستانی سیکورٹی اداروں کی ان تھک محنت سے وطن عزیز بڑی حد تک اس آگ سے محفوظ تصور کیا جارہا ہے۔ ورنہ اس خطے کی بغل میں واقع مشرق وسطی حالات کی جس نہج تک پہنچ چکا ہے وہاں سے واپسی فی الحال ناممکن نظر آرہی ہے۔
یہ بات اب واضح ہوچکی کہ سکندر اعظم کے خواب کی مانند دنیا کو فتح کرنے کا امریکی خواب بھی چکناچور ہوچکا ہے۔ لیکن میسوڈینیا کی مانند واشنگٹن بھی اپنی دجالی جنگ کو مختلف جہات میں پھیلائے جارہا ہے تاکہ اسے یک نکاتی ایجنڈے کی حامل دنیا بنا سکے لیکن حالات امریکا کے ہاتھ سے تقریبا نکل چکے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں کو اب روس ایک بڑی سپر طاقت کی طرح نظر آرہا ہے اور وہ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ جلد ہی وہ شام میں اسے دوبارہ سوویت یونین والے انجام سے دوچار کردیں گے۔
ایک امریکی محقق ڈاکٹر تھامس ایف لائنچ جو جنوبی ایشیا کے موضوع پر امریکا کے ایک ممتاز ریسرچ فیلو ہیں انہوں نے امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ میں ایک مقالہ تحریر کیا ہے ۔ ’’فارن پالیسی‘‘ زیادہ تر جنوبی ایشیا میں پاکستان کے حوالے سے رپورٹیں شائع کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی اور مغربی ایشیا میں امریکی عسکری اور سیاسی روابط پر تحقیقی مواد بھی مہیا کرتا ہے ۔ ڈاکٹر تھامس نے اپنے مقالے میں امریکیوں کو مشورہ دیا تھا کہ’’ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کرے کیونکہ افغانستان کے زمینی حقائق وہ نہیں ہیں جو بظاہر نظر آرہے ہیں۔ اسامہ کے بعد ’’القاعدہ‘‘ سے منسلک دیگر افراد اس تنظیم کا دائرہ دوبارہ وسیع کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ طالبان کی قوت میں بھی مزید اضافہ ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جس قدر زیادہ ہوگی اس کا سب سے زیادہ فائدہ ’’القاعدہ‘‘ اٹھائے گی۔ امریکا کو چاہئے کہ وہ افغانستان کو ’’انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پراکسی وار‘‘ کا میدان نہ بننے دے۔ بلکہ اسے چاہئے کہ وہ ہر سطح کی القاعدہ لیڈر شپ کو نشانہ بنائے‘‘۔ڈاکٹرتھامس نے اپنے مقالے میں مزید لکھا تھا کہ ’’اسلام آباد افغان نیشنل آرمی کو بھارتی فوج کی توسیع سمجھتا ہے ۔ اسلام آباد کے اس خوف کو دور کرنے کے لئے امریکا کو چاہئے کہ وہ اس کا یہ خوف اعلی سفارتکاری کے ذریعے دور کرے اور اسے یہ باور کرائے کہ افغان نیشنل آرمی کوئی بھارتی خنجر نہیں جو اس کی پیٹھ میں گھونپ دیا جائے گابلکہ اس فورس کو پاکستان اور بھارت انتہا پسندی کے مقابلے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ اگلی ایک دہائی تک انہیں اس کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر تھامس امریکا کو مشورہ دیتا ہے کہ ’’امریکاکو چاہئے کہ وہ افغانستان میں اپنے قیام کو مزید طول دے ،کم از کم اس دہائی کے آخر تک اسے افغانستان میں اپنا قیام بڑھانا چاہئے اور یہ قیام نیٹو کی شکل میں زیادہ نظر آنا چاہئے جبکہ اہداف کے حصول کے لئے بھی نیٹو کا اس دہائی کے آخر تک افغانستان میں رہنا انتہائی ضروری ہے۔اس سلسلے میں پاکستان اور بھارت کوبھی مکمل طور پر اعتماد میں لیا جائے۔ اس لئے امریکاکو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اس بات کا اہتمام کرے کہ اب افغانستان کی سرزمین بھارت اور پاکستان کی ’’پراکسی وار‘‘ کا حصہ نہ بن سکے۔ اسی صورت میں امریکا اور نیٹو افغانستان میں ’’انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر تھامس کا کہنا ہے کہ ان اہداف کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان، بھارت، افغان طالبان لیڈرشپ اور شمالی افغانستان کے قوم پرست گروپوں سے مذاکرات کئے جائیں۔ اب ان چیزوں کے سوچنے کا نہ صرف وقت آن پہنچا ہے بلکہ اسے کرگزرنا چاہئے‘‘۔
ڈاکٹر تھامس کی اس رپورٹ کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا یہ مقالہ واشنگٹن میں موجودصیہونی لابی کی ان کوششوں کا آئینہ دار تھا جو امریکا اوراس کے صیہونی صلیبی اتحاد نیٹو کو ابھی افغانستان سے انخلا کی اجازت نہیں دے رہی۔اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد امریکا کی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اس کا معاشی ڈھرن تختہ ہوچکا ہے اور امریکی عوام کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے امریکی جرنیل اور صیہونی سیاستدان عالمی سطح پر دہشت گردی کا ایک بازار گرم کرچکے ہیں جو جنوبی ایشیا سے لیکر مشرق وسطی تک دراز ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما کے الیکشن کے دوران’’ تبدیلی‘‘ کا نعرہ امریکی عوام کو دھوکا دینے کے لئے لگایا گیا تھا۔ لیکن درحقیقت وہی کچھ ہوتا رہا جو عالمی صیہونیت کا ایجنڈا تھامگر جب دوبارہ امریکا اور یورپ میں امریکی جنگ کے خلاف عوامی رائے عامہ میں ردعمل ظاہر ہونا شروع ہوا تو اوباما نے افغانستان سے انخلاء کی تاریخ دیتے ہوئے اعلان کردیا تھا کہ 2014ء تک امریکی فوج افغانستان سے واپس چلی جائے گی لیکن درحقیقت یہ بھی ایک دھوکا تھا تاکہ امریکا اور یورپ کی عوام کو بتی کے پیچھے لگاسکے ۔ اس سلسلے میں ہم بھی اپنے تجزیات میں ذکر کرتے رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا صرف امریکیوں کی مرضی سے نہیں ہوسکتا اور نہ ہی امریکا کو افغانستان سے انخلا کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اگر امریکیوں کا یا نیٹو کا جانی ومالی نقصان ہوتا ہے تو ہوا کرے ،اس سے عالمی صیہونیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ان کے نزدیک امریکی اور یورپین فوجی اور سیاستدان ان کی عالمی بساط کے اہم مہرے ہیں ۔ہمارے اندازے کے مطابق جس وقت امریکیوں کو اس بات کی ضرورت ہوئی کہ 2011ء تک افغانستان میں اپنے قیام کا کوئی ’’ثمر‘‘ امریکا اور یورپی عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو ’’ایبٹ آباد‘‘ آپریشن کی شکل میں اس کا نتیجہ سامنے آتا ہے ۔۔۔
دنیا کے سامنے اسامہ کو موت سے ہمکنار کرنے کا سہرا امریکیوں نے اپنے سر سجاکر امریکی عوام کو باور کرا دیا کہ تمہارے ٹیکس کے پیسے رائیگاں نہیں گئے۔۔۔۔اس ڈرامے میں کون کون مقامی سطح پر امریکیوں کی اعانت کررہا تھا، یہ راز بھی شاید آئندہ برسوں میں کسی ’’وکی لیکس‘‘ میں ظاہر ہوجائے۔ ورنہ اکثریت تو یہی رائے رکھتی ہے کہ اسامہ تو اس آپریشن سے بہت پہلے ہی اس دنیا کو خیر باد کہہ چکے تھے، اب تو یہاں ان کے صرف اہل خانہ ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکی جنہوں نے صدام حسین کو گرفتار کرنے کے بعد اس کا منہ کھلوا کر اس کے دانت اور داڑھیں تک عالمی میڈیا کو دکھا دی تھیں۔ وہ امریکی جنہوں نے قذافی کو مقامی باغیوں کے ہاتھوں گرفتار کروا کر اس کا تماشا تمام دنیا میں دکھا دیا تھا۔۔۔ اسامہ کی موت کے بعد اس کی ایک تصویر بھی دنیا کو پیش کرنے سے قاصر رہے۔۔ ۔۔!؟ اور اسامہ کے اہل خانہ کو گرفتار کرنے کے بعد بھی آزاد میڈیا کے سامنے پیش نہیں ہونے دیا گیا۔۔۔مبادا وہ دنیا کو اس حقیقت سے باخبر نہ کردیں کہ یہاں تو اسامہ تھا ہی نہیں۔۔یہاں تو صرف ہم قیام پزیرتھے ۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطی میں ایک بڑی جنگ کرنے جارہا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل یا اس کے عالمی صیہونی سرپرست کسی طور بھی امریکا کو افغانستان سے نکلنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ اگر امریکا اور نیٹو افواج افغانستان سے نکلتی ہیں تو اس کا بہت بُرا اثر مشرق وسطی میں اسرائیل کی آنے والی جنگ پر پڑے گا۔ دوسرے وہ امریکا اور اسرائیل مخالف قوتیں جو اس وقت مشرق وسطی خصوصا شام میں روس اور بشار الاسد اور اس کے اتحادی ایران اور عراق کے خلاف برسرپیکار ہوچکی ہیں، انہیں خاصی تقویت حاصل ہوجائے گی یہی وجہ ہے کہ اب امریکی اور یورپی عوام کا ذہن تیار کرنے کے لئے اس قسم کے ’’تحقیقی ‘‘ مقالے مغربی میڈیا میں آنا شروع ہوگئے تھے کہ اگر امریکاجلد افغانستان سے نکلا تو القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروپ ایک مرتبہ پھر قوت پکڑ لیں گے اور پاکستان سے لیکر بھارت تک ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ پھر سے جڑ پکڑ جائے گی۔دوسری اہم بات مدنظر رکھناہوگی کہ مودی سرکار کسی حادثے کی بنا پر اقتدار میں نہیں لائی گئی تھی بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے عالمی صیہونی ایجنڈے کے تحت دہلی کے تخت پر بٹھایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ہم نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابات میں ’’کامیابی‘‘ سے بہت پہلے آگاہ کردیا تھا کہ بھارت میں وہی اقتدار میں آسکتا ہے جسے وہاں کی برہمن اشرافیہ چاہئے وہ اپنے مقاصد کے لئے کبھی کانگریس کو آگے کرتے ہیں اور کبھی انتہا پسند ہندو جماعت جنتا پارٹی کو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا امریکا میں صہیونی لابی کبھی ری پبلکن کے ساتھ اور کبھی ڈیموکریٹک کے ساتھ کرتی ہے۔ پاکستان کی حکومتیں اور کرتا دھرتا کچھ بھی کرلیں مودی سرکار ایک طے شدہ ایجنڈے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے جو بہت سے واسطوں سے تل ابیب اور واشنگٹن سے جا ملتا ہے۔ مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو خطے کی صورتحال میں پھنسائے رکھنا اس ایجنڈے کا اہم پہلو ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو پاکستان کو بھی اس سے بھرپور فائدہ ہوگا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس منصوبے کو کہیں افغانستان میں پاکستان کے ہاتھ باندھنے کے لئے استعمال تو نہیں کیا جائے گا؟ بھارت اس منصوبے کے ساتھ آگے جاکر کیا کرے گا اس کی ضمانت کسی کے پاس نہیں۔ پاکستان کو یہاں کی فراڈ اور کرپٹ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے جس صورتحال سے دوچار کردیا گیا ہے اس میں لگتا نہیں کہ اس وقت پاکستان افغانستان کے علاوہ اس سے آگے تک کچھ کرنے کے لئے موثر ہوگاکیونکہ یہاں حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کی صلاحیت شاید سب سے کم رہ گئی ہے دوسری جانب اس ایک بات کو بھی یاد رکھا جائے کہ شام ایک زہر کا پیالہ ہے جسے روس سمیت خطے کے کئی ممالک اپنے اندر انڈیل چکے ہیں حالات تیزی کی طرف مزید بگاڑ کی طرف جارہے ہیں حالات کا کوئی پرامن حل نظر نہیں آرہا ایسے حالات میں اگر پاکستان کو محفوظ رکھنا ہے تو یہاں کرپشن کو بے دردی سے جڑ سے اکھاڑ کر کرپٹ افراد کو نشانہ عبرت بنانا ہوگا اس عمل میں مزیدتاخیر وطن عزیز کے لئے نقصان دے ہوگی۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے طالبان کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ان کے ساتھ کیا معاہدہ توڑا تو طالبان کے شریک بانی کو "مٹا دیا" جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دھمکی دینے کے ساتھ طالبان کے امیر کو ان کے ٹھکانے کی تصویر بھیجی تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ہم ایسا کر سکتے ...
طالبان حکومت نے افغانستان میں نیا وزیر تعلیم مقرر کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نور اللہ منیر کی جگہ قندھار کی صوبائی کونسل کے موجودہ سربراہ حبیب اللہ آغا کو افغانستان کا نیا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی طرف س...
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 طالبان رہنماؤں کو حاصل سفری پابندیوں کا استثنیٰ ختم کر دیا۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق چین اور روس کی جانب سے طالبان رہنماؤں کی سفری پابندیوں کے استثنیٰ میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل نے 2011 میں 135 طالبان رہنماؤں پر پابندیا...
ایک سینئر طالبان رکن نے کہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حساس معاملہ ہے کہ اس پابندی کے خاتمے کے فیصلے پر طالبان ہی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد خود سپریم لیڈر کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک سینئر طالبان رکن نے بات چیت میں کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حس...
افغان حکام نے طالبات کیلئے بدھ سے ہائی اسکول دوبارہ کھولنے کا حکم واپس لے لیا، بدھ کی صبح صبح اسکول پہنچنے والی طالبات کو گھر جانے کا حکم دیا گیا۔غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق افغان وزارت تعلیم نے طالبات کیلئے ہائی اسکول تاحکم ثانی بند رکھنے کانوٹس جاری کردیا۔نوٹس میں کہا گیا کہ اسل...
طالبان نے کہا ہے کہ جب تک بیرون ملک موجود افغان شہریوں کے حالات بہتر نہیں ہوجاتے وہ مزید شہریوں کو انخلا کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے تو جب تک اس بات کی ضمانت نہ مل جائے کہ ان کی زندگی...
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...
٭داعش کا افغانستان میں محدود علاقے پر کنٹرول ہے جس نے مربوط حملے کرنے کی مسلسل صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے ٭طالبان نے ملک میں غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں اقتدار میں آنے وا...
ضلع کرم میں پاک افغان بارڈر پر سرحد پار سے دہشت گردوں کی فائرنگ میں پاک فوج کے 5جوان شہید ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ضلع کرم میں افغانستان سے دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 5جوان شہید ہوگئے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فورسز کی بھرپور جوا...
افغانستان کے حکمران طالبان نے قطر چھوڑنے والی نیوزی لینڈ کی حاملہ مگرغیرشادی شدہ صحافیہ کو پناہ کی پیش کش کردی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق صحافیہ شارلٹ بیلس کو یہ معلوم ہونے کے بعد قطر چھوڑنا پڑا تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں حاملہ ہیں جہاں بغیرشادی سے بچے کو جنم دینا غیرقانونی ہے۔ بیلس...
امارت اسلامیہ افغانستان میں امریکی شہری کرسٹوفر نے اسلام کی حقانیت کا اقرار کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ہاتھوں اسلام قبول کرلیا۔افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق طویل عرصے سے افغانستان میں مقیم امریکی شہری کرسٹو فر نے اسلام کے آفاقی پیغام کی حقانیت کو پہچ...
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس مارچ سے ملک بھر میں لڑکیوں کے تمام اسکول کھول دیئے جائیں گے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات اور ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے انٹرویو میں بتایا کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے انت...