... loading ...
درونِ دل میں ایک گدگداہٹ ہے، ایک مضطرب تمنا بھی!پھر ایک سوال بھی!
اب صدیاں بیتتی ہیں، ستاروں کواپنی گزرگاہ بنا دینے والا ’’انسان‘‘ الم چشیدہ ، ستم رسیدہ اپنی عمرِ رائیگاں کا نوحہ لکھنے لگا ہے!جلووں کی بہتات میں وہ نظروں کی محدودیت کا ماتم کرنے لگاہے۔ اب اُسے سیاہ سفید ایک لگنے لگا ہے۔ اُس کی صبح کھوئی کھوئی ہے ، اُس کی شام انبوہِ آلام ہے۔ ژولیدہ افکار میں پیچیدہ جذبات کی پرپیچ کہانی کا وہ اب انجام دیکھنے لگا ہے۔ وحشت کا راج ، دہشت کا ناچ ،ہرطرف آلام و آفات !کیا حضرت ِ انسان کی نوعِ انسان پر حکمرانی کا یہی انت ،یہی آخر ہے؟رازورموز کے شغل اور حیلہ وتاویل کی لذتوں میں یہ سوال کہیں گم کیوں نہیں ہوتا؟
یوں ہی روزنِ خیال سے ایک تصور جھانکتا ہے!کہیں انسان اپنے انسان ہونے کی وجہ سے ہی تو الم چشیدہ اور ستم رسیدہ نہیں ہوا؟ کیا خالق کون ومکاں نے اسے انسان کی صورت میں تخلیق کیا تھا؟ یا یہ خود انسان کی اپنی دریافت ِ فکرہے کہ وہ انسان کہلائے؟ اس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو خود اپنی خالق ہو۔ سائنس کسی خالق کا علم نہیں مخلوق کا علم ہے۔ یہ علم کائنات کو پیدا نہیں کرتا ، بلکہ ایک پیدا شدہ دنیا کو دریافت کرنے یا اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک غیر حتمی علم کے شید ا اُسے کے غیر حتمی اور قابل تغیر نتائج پر کتنے حتمی انداز سے اِتراتے ہیں۔بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ انسان کیا ہے؟ انسان اپنی اصل میں ایک ہی ہے مگر اس کو سمجھنے کے حوالے سے دورِ جدید کے خدا بیزار مغربی مفکرین نے ایک کامیاب مغالطہ پیدا کردیا ہے، جسے مغربی فلسفے سے لے کر دستوری جمہوریت تک ہر جگہ تسلیم کر ا لیا گیاہے۔ یہ مغالطہ انسان کے ایک آزاد یعنی ’’AUTONOMOUS‘‘انسان کے طور پر اس کی شناخت کے تصور کا ہے۔ ایک آزاد انسان کا مطلب کیا ہوتا ہے؟یہ ایک ایسا تصور ہے جس میں حضرتِ انسان خود کو خدا کے مقام پر خود بخود فائز کرلیتا ہے۔ کیونکہ ایک آزاد انسان دراصل ہر اعتبار سے خو د مختار اور اپنے ہی نفس کا پیروکار ہوتا ہے۔ وہ خود قائم بالذات ہے یعنی’’ اللہ الصمد‘‘ کے بجائے وہ ’’انسان الصمد‘‘ پر یقین رکھتا ہے۔ ایک انسانی معاشرے کی تشکیل میں انسانیت کو قدرِ مشترک قرار دینا مغربی فکر وفلسفے کی سب سے بڑی کاریگری ہے جو اُس نے اس کائنات کی غلط تفہیم کے ساتھ مسلم معاشروں تک پر مسلط کردی ہے۔اسی تصور کی ماتحتی میں انسانی معاشرے کو سیکولر اور خود انسان کو لبرل بنایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت معاشروں کی تشکیل میں انسانی ارادے کو آزادرکھا جاتا ہے اور معاشرے کو اسی آزادی کے شکار انسان کی اعلیٰ ترین قدر یعنی انسانیت کی بنیاد پر تشکیل دیا جاتا ہے۔ یہ دورِ جدید کی مغربی فکر کا سب سے بڑا منتر ہے جس نے انسانوں کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔دنیا کے تما م حقوقِ انسانی کے چارٹر ، بنیادی انسانی حقوق کے منثور اور قوانین دراصل مغربی فکروفلسفے کی اسی کجی کے آئینہ دار ہے۔
مگر اس انسان کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ یہ انسان بطور نوع انسان اپنی تخلیق کا فیصلہ خود نہیں کرتا،وہ اپنی تخلیق کے بعد اپنے وجود میں آنے کا فیصلہ بھی خود نہیں کرسکتا۔ پھروہ اپنے وجود میں آنے کے بعد اپنے مرنے کا فیصلہ بھی خود نہیں کر تا۔ بطور انسان اُس کا وجود اور بعد ازوجود اپنی زندگی اور موت کے بنیادی فیصلوں سے لاچار انسان اپنی آزاد حیثیت ، اپنے قائم بالذات ہونے کا اصرار اور اپنے خودمختار ہونے کا اعلان کیسے کر سکتا ہے؟ وہ ان تمام اعتبارات سے کسی کی بندگی میں ہے۔ اس طرح وہ ہر اعتبار سے مغربی فکر وفلسفے کا انسان نہیں الٰہی منصوبے کا ایک بندہ یعنی عبد ہے۔ انسان اپنے آزاد ہونے کا جھوٹا بھرم پال سکتا ہے مگر ایک عبد اپنے ارادے کی مہیا کی گئی آزادی میں بھی اپنی لاچاری کا اعتراف واعتبار رکھتا ہے۔ عبد کی حیثیت میں انسان کسی بھی منصوبے میں جا کر اپنا اظہار کرے ، وہ مخلوق ہی ہوگا۔ رہنمائی کا محتاج ہوگا، روشنی کا طالب ہوگا، عاجز اور مجبور ہوگا۔ وہ نہ جانتا ہو مگر اس کا خالق جانتا ہے ۔ اسی لئے وہ اُن کے درمیان اپنے منصوبے سے اپنے بندوں کو ہی برگزیدگی دے کر اُنہیں ممتاز حالت میں اُن کے درمیان بھیجتا ہے۔ رسالت اسی الٰہی منصوبے کی شکل ہے جس میں انسان کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اپنے تصورات کا انسان نہیں اپنے خالق کے ارادے کا عبد ہے، مخلوق ہے، تابع اور پیروکار ہے۔ سائنس انسانوں کاعلم ہے مگر رسالت اللہ کا علم ہے جس کے ذریعے رب دوعالم انسان کے مادی وروحانی وجود میں ایک یکجہتی پیدا کردیتا ہے۔ اُس کے انسانی ارادوں کو عبد کے ضابطہ اخلاق کی تہذیب دیتا ہے۔الہیٰ علم و منصوبے کی آخری کڑی کے طور پر جب بنی نوعِ انسان کو عبدیت کا مفہوم بتانے کے لئے حضرت محمدمصطفیٰﷺ دنیا میں تشریف لائے تو کائنات کے رب نے وضاحت سے فرما دیا کہ
وَمَایَنطِقُ عَنِ الھَوٰی،اِن ھُوَ اِلّاوَحی یُوحٰی
(سورہ النجم ۔۔آیات ۳، ۴)
(اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو صرف وحی ہے جواتاری جاتی ہے۔)
بات کہاں ختم ہوئی ! عالم کے پروردگار نے یہ دوٹوک اعلان بھی کردیا کہ اگر انسان سے عبدیت کے سفر کو طے کرنا چاہتے ہو، نفس کی پیروی کے بجائے ارادہ الہی کی اتباع میں رہنا چاہتے ہوتو پھر
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
(سورہ الاحزاب ۔۔آیت ۲۱)
(درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔)
رسالت ِ ماب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے’’ انسان ‘‘کو اُس کے ہمہ وقت ’’عبد‘‘ ہونے کا شعور دیا۔انسان ہونے کا مغربی شعور آزادی کے نام پر نفس کی پیروی سکھاتا ہے مگر خاتم النبیﷺ کا اُسوہ حسنہ بیداری کی حالت میں عبد کے تقاضوں میں ضبطِ نفس کی تعلیم کرتا ہے۔ جمہوریت کے فرعونوں ، آمریت کے نمرودوں، حقوقِ انسانی کے تخت پر بیٹھنے والے شدادوں اور انسانیت کی تسبیح پڑھ کر چنگیزیت کی شمشیریں لہرانے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑئیے! اُس پیغمبر ﷺ پر درود بھیجئے جس نے ہمیں عبد آشنا بنا کر مفتخر کیا۔ پیغمبر کا اسوہ حسنہ انسان کو خود اپنی خدائی کے زعم ِ باطل سے نکال کر اُسے حقیقی خدا کی بندگی میں دینے کا واحد راستہ ہے۔ عبدیت کا یہی سفر انسان کی ابدیت کا بھی سفر ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...