وجود

... loading ...

وجود

لٹیرے بیچارے!

بدھ 23 دسمبر 2015 لٹیرے بیچارے!

طاقت کی نفسیات سے امورِ ریاست طے کرنے والے یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ اس کا ہر ردِ عمل ریاست کے خلاف اُبھرتا ہے، حکومت کے خلاف نہیں۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت ملک کے خلاف نفرت میں نہیں ڈھلتی۔ مگر جب ریاست کے محافظ کسی غلطی سے دوچار ہو جائیں تو اس کا سیدھا نتیجہ مملکت کے خلاف جذبات کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ کیونکہ فوج کا پورا بیانیہ حب الوطنی اور ریاست کے محافظین کی واحد طاقت کا ہے۔

ریاست پر اس نوع کا اجارہ خود ریاست کے لئے کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ ملک کے جن حصوں میں بھی ریاست سے بغاوت کی تحریکیں طاقت یاسیاست کی بنیا دپر چل رہی ہیں وہاں اصل جذبات فوج مخالف پیدا کئے جانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سیاسی حکومتوں کو بے اختیار باور کرایا جاتا ہے۔ کیا فوج نے اس باطل تصور کو کبھی بھی اورکسی بھی سطح پر تحلیل کرنے کی کوشش کی؟ سیاست دان یہ باور کرانے میں کیوں کامیاب ہیں کہ اُنہیں حکومت کرنے نہیں دی جاتی؟ کیا وہ مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت نہیں کرتے؟ حیرت ہے کہ سیاست دانوں کو بدعنوانی کرنے کی تو پوری آزادی ہوتی ہے مگر ملک کی تعمیر وترقی میں وہ اپنی لاچاری کی کٹ حجتی کا سہارا لیتے ہیں۔ فوج کسی بھی سطح پر اپنے متعلق منفی خیالات کی اصل وجوہات پر غور نہیں کر پاتی اور ’’شکریہ راحیل شریف ‘‘جیسی مہمات کو ہی کامیاب سمجھ لیتی ہے۔ ٹیلی ویژن کے چند اینکرز ، اخبارات کے چند کالم نگار اور کچھ رپورٹرز کے ذریعے مملکت کی فضا کو اپنے حق میں ہموار نہیں کیا جاسکتا ۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کی تجزیہ کاری اور اخبارات و ٹیلی ویژن کو دباؤ کی حرکیات سے منظم کرنا اس میں ایک اور طرح کا تڑکا لگاتا ہے۔ مگر کیا اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں؟ جب یہ کام مخصوص لوگ ، مسلسل کرنے لگتے ہیں تووہ لوگ ہی نہیں ، یہ موقف بھی بیزاری کا باعث بن جاتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے اس پورے عمل نے تمام نتائج منفی پیدا کئے ہیں جس کا پورا پورا فائدہ سیاست دانوں اور اُن کے زیر سایہ چلنے والے سوشل میڈیا کے اداروں نے اُٹھایا ہے۔

عسکری ادارے اپنے’’ رٹے باز طوطوں‘‘ کے ذریعے ٹیلی ویژن اور اپنے منشی کالم نگاروں کے ذریعے اخبارات میں یہ سمجھانے میں ناکام رہے کہ امن وامان کے مسئلے کو ادارے ماورائے سیاست دیکھ رہے ہیں،اور سیاسی حکومتیں اِسے سیاست کی ذیل میں رکھ کر جمہوری مقدمے میں اُلجھا رہی ہیں

کراچی میں رینجرزکی مدتِ قیام اور اختیارات میں توسیع کا مسئلہ پوری طرح اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ایک بوجھ بن چکا ہے۔ اُن کے پاس ذہانت سے فیصلے کرنے اورخود کے پاس پہل کاری کا اختیار رکھنے کا موقع اب وفاقی حکومت سے اختیارات ملنے کے باوجود ضائع ہو چکا ہے۔رینجرز کے اختیارات ۶؍ دسمبر کو ختم ہوئے تو ایپکس کمیٹی کا ایک اجلاس ۷؍ دسمبر کو ہوا۔ اُسی روز ڈاکٹر عاصم حسین کی گونگی زبان کو قوت ِ گویائی مل گئی۔ اور وہ عدالت کے روبرو قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ایک فردِ جُرم عائد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تب وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی کسی رعایت کے بغیر دبئی کی اصلی سرکار (زرداری حکومت) کے حکم کے مطابق اپنا پورا مقدمہ کامیابی سے لڑا ۔اور کسی بھی مرحلے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کوئی رعایت نہیں دی۔ عسکری ذہن یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے پروپیگنڈے کی طاقت سے عوام کے ذہنوں میں یہ انڈیل دیا تھا کہ فوجی جمہوری حکومت کے خلاف کارروائی کے لئے خود جمہوری حکومت سے اختیارات مانگ رہے ہیں۔ تب وہ کیسے دیں گے؟ ٹھیک اُسی وقت عسکری ادارے اپنے’’ رٹے باز طوطوں‘‘ کے ذریعے ٹیلی ویژن اور اپنے منشی کالم نگاروں کے ذریعے اخبارات میں یہ سمجھانے میں ناکام رہے کہ امن وامان کے مسئلے کو ادارے ماورائے سیاست دیکھ رہے ہیں،اور سیاسی حکومتیں اِسے سیاست کی ذیل میں رکھ کر جمہوری مقدمے میں اُلجھا رہی ہیں۔ اس دوران میں ایک فوج مخالف پروپیگنڈا محفلوں اور مجلسوں میں چابک دستی کے ساتھ جاری تھا۔ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ۷؍دسمبر کو یہ موقع تھا کہ وہ اعلان کرتے کہ وہ خود کے دامن کوخارزارِ سیاست میں الجھانا نہیں چاہتے۔ اس لئے اس کھیل کی آلودگی میں پڑنے کے بجائے وہ واپس جارہے ہیں۔ اس طرح وہ قیام امن کے مقصد کے ساتھ مخلص نظر آتے۔ اور اُن کے حق میں ایک فطری اور جذباتی ردِ عمل جنم لیتا ۔ جو باقی ملک سے زیادہ خود کراچی میں زیادہ تیز اور موثر ہوتا۔ مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پورے کھیل میں سیاست کے اندر کیسے رگیدے جائیں گے،وہ اس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ اور اب اُن کے پاس یہ اختیار بھی نہیں رہا۔ کیونکہ وہ اختیارات کی طلب میں خود کو بے چین ظاہر کر چکے ہیں۔رینجرز کے اختیارات کا معاملہ اسی لئے کسی بڑی عوامی پزیرائی سے محروم رہا ۔ اور اس کے حق میں جتنی بھی مہمات کراچی میں اُٹھائی گئیں وہ بے ساختہ نہیں تھیں ، بلکہ کچھ اشاروں کی پیدا کردہ تھیں ۔ یہ عمل کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔ اب اُنہیں اختیارات مل بھی گئے تو اُن کے لئے سب سے بڑا مسئلہ عوام کے اندر اُس چھوی کا ہوگا جس کا اُنہوں نے مقبولیت کے چکر میں پڑ کر بہت زیادہ اب تک خیال رکھا ہے اور جس کا اُنہیں بالکل خیال نہیں کرنا چاہئے۔ وہ یہ کیسے ثابت کریں گے کہ اُنہوں نے سیاسی حکومتوں سے کچھ محدودات کے سمجھوتے کے ساتھ اختیارات نہیں لئے؟

سیاسی حکومتوں نے اُنہیں اس پورے معاملے میں پہلے سے ہی حدود آشنا بنا دیا ہے۔ یاد کیجئے! بلدیاتی انتخابات سے پہلے ملک میں کیا باتیں ہو رہی تھیں ؟ یہ کہا جارہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد بڑی مچھلیوں کو شکار کیا جائے گا۔ احتساب کا بے رحم عفریت پنجاب میں اپنی چھب دکھلائے گا۔ ایک وفاقی وزیر کے منی لانڈرنگ کے معاملات تفتیش کی چکی میں پیسیں جائیں گے۔ ماڈل ٹاؤں کا سانحہ بھی کرم خوردہ مسلوں کی نذر نہیں ہو گا۔ مگر اب کیا ہے؟ اب یہ پورا عمل صرف کراچی میں رینجرز کے اختیارات کا مقدمہ بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ اس کا اثر کراچی میں کتنا منفی پڑ رہا ہے اور اِسے کیسے ایک بڑے مقدمے میں تبدیل کیا جارہا ہے؟ ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنی پیشی میں اس کا ذکر کیا ہے مگر کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اس پر غور اگلی تحریر کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔مگر طاقت کی نفسیات سے امورریاست نمٹنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک جائز احتسابی عمل بھی پورے کا پورا آلودہ ہو گیا ہے۔ اوراس کے بدترین نتیجے کے طور پر ظالم ،مظلوم اور لٹیرے ، بے چارے نظر آنے لگے ہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ وجود - جمعه 04 نومبر 2022

کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...

دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی وجود - بدھ 05 اکتوبر 2022

کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری وجود - پیر 19 ستمبر 2022

کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا وجود - پیر 19 ستمبر 2022

بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر