... loading ...
بلوچستان کے بلو چ شدت پسندوں نے قومی اور اجتماعی مفادات کا تعین کرنے کی بجائے کئی محاذ کھول رکھے ہیں ،جو انہیں مقاصد کے قریب تو نہ لے جا سکے البتہ انہیں کوسوں دور ضرور کر دیا ہے ۔شدت پسند اپنی تحریک کو مرحلہ وار بنانے میں اول روز سے ناکام اورمنتشر الفکر دکھائی دئیے ہیں ۔اپنوں سے جنگ کی ابتدا ان کی جانب سے ہوئی ہے ۔ بلوچ قبائلی و سیاسی معتبرین ،سرکاری ملازمین و اعلیٰ حکام، عالی دماغ اساتذہ،ڈاکٹروں اور ججوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔کئیوں پر جان لیوا حملے کئے۔سیاسی حق اور اظہار رائے پر قدغن کا ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔گویا یہ جارحانہ اور بے رحم رویہ خود ان کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہوا،مقصد کے حصول میں ان کی پیشرفت کمزور پڑ گئی۔معروف سیاسی و سماجی تنظیمیں،سول سوسائٹی،تاجراور بلوچ مشاہیر متنفر و بد ظن ہو گئے۔اس اندازِ مزاحمت نے انہیں ایک خاص حد و خول میں مقید کر دیا۔
افغانستان کے اندر امریکا دنیا جہان کی افواج اور وسائل کے ساتھ موجود رہا۔سالوں سیاہ و سفید کا مالک تھا جو کہ اب بھی افغانستان کے ذرے ذرے پر اپنا حق جتاتا ہے۔اپنے تئیں ترقیاتی کام کروائے اور افغانستان کو ترقی یافتہ ممالک سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش اور اعلانات کا دعویٰ کیا۔مگر اس سب کے باوجود افغان عوام کا اعتماد ،تعاون اور حمایت میں کلی طور پر ناکام و نا مراد رہا۔اس کی سب سے بڑی وجہ افغان طالبان اور حزبِ اسلامی کا سیاسی اور عسکری طرز سیاست ہے ۔وہ افغان عوام میں اپنا اعتماد اور اہمیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔نہ تعلیم پر قدغن ،نہ علاج معالجے کی سہولیات میں رکاوٹ بنے اور نہ ہی شاہراہوں کی تعمیر پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔حتیٰ کہ پولیو قطرے پلانے والی ٹیموں تک کو کبھی ہراساں نہ کیا۔طالبان کی قیادت نے باضابطہ طور پر اعلامیہ جاری کیا کہ جس میں افغان والدین سے اپنے بچوں کو قطرے پلانے کی تاکید کی گئی ۔نام نہاد افغان حکومت شاید ملکی ادارے فعال کر چکی ہو ،پر سچی بات یہ ہے کہ افغان عوام اپنے معاملات کے فیصلے اب بھی طالبان سے کرواتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اُن سے نا انصافی کی توقع نہیں۔طالبان اپنا وسیع اور مربوط نظامِ جاسوسی رکھتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ افغان عوام بھی انہیں خارجیوں کی نقل و حرکت سے آگاہ رکھتی ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کا ہدف معلوم ہے ۔بلوچستان کے اندر شدت پسندوں نے سیاسی جماعتوں کے خلاف جنگ میں پہل کی، میں بات نیشنل پارٹی کی کروں گا، جو ان کی جارحیت کی وجہ سے اب دفاع پر مجبور ہے ۔نیشنل پارٹی خود تو کوئی مسلح جتھہ نہیں۔ چنانچہ سرکار کا تعاون ان کا انسانی اور قانونی حق ہے ۔نیشنل پارٹی ایک عوامی جمہوری جماعت ہے، ان سے سیاسی اختلاف کی بہت گنجائش موجود ہے پر انہیں مارنا ہرگز ’’روا‘‘ نہیں۔لغزشوں ،کوتاہیوں ،تضادات اور ناکامیوں پر گرفت درست پر سیاسی اور قومی مسائل پر ان کی تگ و دو سے انکار بھی نہیں اور وہ ایک بڑی بلوچ جماعت ہے ۔ان کے رہنماؤں کا بلا شبہ بلوچ قبائل سے تعلق ہے اور ہر ایک اپنے اپنے قبیلوں میں معزز ہے۔تو کیا اس (ہدفی قتل)طرزِ عمل سے بلوچ معاشرے کے اندر نفرتوں اور انتقام کے جذبات سرا یت نہیں کریں گے؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے پولیٹیکل سیکرٹری خیر جان بلوچ کے بھائی ڈاکٹر شفیع بلوچ کا قتل 15(دسمبر2015ء )کسی سانحے سے کم نہیں،در اصل یہ حملہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد پر تصور کیا جاتا ہے ۔آواران جیسے شوریدہ علاقوں میں کوئی سرکاری ملازم اول تو جانے کا رسک نہیں لیتا اورجو وہاں موجود ہیں اُن کی زندگیوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے ۔ڈاکٹر شفیع بلوچ ایک معا لج اور میڈیکل آفیسر تھے۔ اسی روز ایک اہم فریضہ نبھانے کے بعد یعنی پولیو مہم سے واپسی پر نشانہ بن گئے۔افغان طالبا ن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ افغان بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں حالانکہ وہاں بھی اس مہم پرمامور عملہ سرکار سے تعلق رکھتا ہے جو افغان حکومت یا عالمی اداروں سے تنخواہیں لیتے ہیں اور طالبان کیلئے ان کو ہدف بنانا مشکل بھی نہیں۔مگر وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ ان کی ترجیحات معین ہیں۔ یقیناقاتلوں نے یہ وار نیشنل پارٹی سے بغض کی بنا پرکیا۔اس بنیاد پر ان کے کئی رہنما ،ہمدرد اور رفقا ء نشانہ بن چکے ہیں ۔ ڈاکٹر شفیع کے قتل کو ’’نیشنل پارٹی‘‘کا روگ سمجھنے کے بجائے سبھی سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلاف کی اس مردم کش صورت پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے ۔شفیع بلوچ کے قتل کا ارتکاب خواہ کسی نے بھی کیا ہو ، لیکن یہ عمل قومی ، معاشرتی اور سیاسی مفاد کی ضد اور صریح خلاف ہے ۔بندوق کی نوک ،زور اور جبر بالآ خر انتشار اور افتراق پر ہی منتج ہو گا۔چنانچہ واپسی کا راستہ مسدود کرنے کے بجائے کھلا چھوڑنا دراصل حکمت اور دانائی ہے ۔
سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر پر نیب چھاپے کے بعد 75 کروڑ روپے کی نقد برآمدگی نے جہاں قومی حلقوں کو ہکا بکا کردیا ہے ، وہیں خودبلوچستان کی منتخب اسمبلی میں بھی عجیب وغریب فضا پیدا کردی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی حکومتوں کی بدعنوانیوں کے قصے زباں زد عام وخاص رہے ہیں۔ اور بلوچست...
کوئٹہ اور بلوچستان کے بلوچ اضلاع میں 26 ؍اگست2015ء کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی نوویں برسی منائی گئی۔ شہر کوئٹہ میں کہیں کہیں دُکانیں بند نظر آئیں۔ البتہ بعض بلوچ اضلاع میں کاروبار احتجاجاً بند رکھے گئے تھے۔ یہ دن تعزیتی ریفرنسوں میں گزرا۔ احتجاج کی شدت گزشتہ سالوں کی نسبت کم ر...