... loading ...
طاقت کی سب سے بڑی کمزوری اس کے اظہار سے ہوتی ہے۔ اس کا استعمال اُس سے وابستہ خوف کو دھیرے دھیرے ختم کر دیتا ہے۔ اور طاقت کی طاقت خوف کے اندر ہوتی ہے، اُس سے باہر نہیں۔ دنیا بھر میں فوج کا روایتی طاقت کا تصور شہ مات کے مرحلے میں ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں کا فروغ اور غیر روایتی اور غیر ریاستی طاقتور گروہوں کا ظہوراور فروغ دراصل یہ بات واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ ریاستی سطح پر فوجی طاقت کے نمونے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو رہے۔ اس معاملے کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ نمونہ ریاستی دائرے میں بھی اپنی اثر پزیری کو کھونے لگا ہے۔ عالمی سطح پر اس کے اسباب بہت مختلف ہیں اور پاکستان میں یہ موضوع الگ محرکات کا حامل ہے۔
پاکستان میں ریاستی بُنت کو طاقت کی نہاد پر اُٹھایا گیا ہے۔ چنانچہ یہاں طاقت کا استعمال(جائز وناجائز کی بحث سے قطع نظر) اس قدر برہنہ طریقے سے ہوا ہے کہ اس کا خوف اب بزدل سے بزدل لوگوں کے دلوں سے بھی نکل گیا ہے۔ تھپڑ کا خوف اس کے مارنے سے پہلے ہوتا ہے ، اگر وہ کسی رخسار پر جڑ دیا جائے تو پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہاں یہ تھپڑ کھایا جاسکتا ہے۔ بس تب سے جس معاملے میں تھپڑ پڑتی ہے وہ معاملہ کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس لئے ریاستی کی آئینی طاقت بھی جُرم روکنے کے لئے جتنی کارگر ہو سکتی ہے اُتنی ہی یہ جُرم کے فروغ میں معاون بھی ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ماجرا یہی ہے۔
پاکستان میں ان دنوں قانون نافذ کرنے والے ادارے تصورات کی سطح پر نہایت کمزوردور سے گزررہے ہیں۔ اُن کی ذمہ داریاں بہت زیادہ اور اُن سے اُمیدیں تو اس سے بھی زیادہ وابستہ کر لی گئی ہیں۔ مگر وہ بعض بنیادی نوعیت کے مغالطوں سے دوچار ہو چکے ہیں۔ جس کے باعث اُنہیں اُن سے زیادہ کمزور لوگ شکست سے دوچار کر رہے ہیں۔ پہلے بھی عرض کیا جاجاچکا کہ سرجن مریض کے آپریشن میں اگر تاخیر کا شکار ہو جائے تو پہلا تاثر اُس کی ناکامی کا پڑتا ہے۔ میکاؤلی کوئی مثال نہیں مگر قابلِ ذکر ضرور ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’دی پرنس‘‘ میں لکھتا ہے کہ اگر سزا اور سختی کرناناگزیر ہو تو یہ فوراً اور تیز رفتاری سے کرناچاہیے جبکہ کرم فرمائی دھیرے دھیرے کرناچاہیے۔میکاؤلی کی پوری کتاب سختی کے جوہری نکتے کے گرد ایک بنیادی تصورِ حکمرانی کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ مگر کتاب کا سترہواں باب اسی کی پوری وضاحت کرتا ہے۔میکاؤلی نہیں ہمارے لئے ایک شانداراور اصل مثال امام غزالیؒ کی’’ نصیحتہ الملوک‘‘ ہے۔ جس میں ریاست میں ظلم کے خاتمے اور قیام ِ انصاف کی پوری تشریح کی گئی ہے۔ وہ قلم اور تلوار کی اہمیت کے الگ الگ ادوار کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں ۔ اور غیر محسوس طور پر ظلم کی سزاؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ مگر اس کی بنیاد تصورِ انصاف پر اُٹھاتے ہیں۔
سندھ میں رینجرز کی مدتِ قیام اور اُس کے اختیارت میں توسیع کا معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے کوئی خوش ذائقہ معاملہ نہیں رہا۔ رینجرز کو اس صورتِ حال سے کیوں دوچار ہونا پڑا؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امن وامان کی بحالی اور نفاذِ قانون کے بجائے مقبولیت کی جنگ اور سیاسی اہداف کے جھمیلوں میں پڑجاتے ہیں۔ اور اپنے اصل دائرے کی محدودات پر غور نہیں کرتے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اُن کا کام سرجن کا ہے، اسپتال کے انتظام کا نہیں۔ اُنہیں سختی اور طاقت کے استعمال میں اس اُصول کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ اس میں وہ جتنا طول دیں گے، اپنے بھرم کو خود اپنے ہاتھوں سے کھونے کا باعث بنیں گے۔ ہر ضدِ نامیہ (اینٹی بائیوٹک) کا یہ مسئلہ ہے کہ جب بھی اس کا استعمال مریض پر ہوتا ہے اور اُسے افاقہ ہوتا ہے تو اگلی بار پہلی والی مقدار کی دوا کارگر نہیں ہوتی ۔ مرض کا بیکٹریا اُس اینٹی بائیوٹک کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے۔ کراچی میں ہی نہیں پورے ملک میں فوجی طاقت کے معاملے میں یہ مثال موثر طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ دہشت گرد وں نے پہلے پولیس کا خوف دل سے نکالا۔ پھر رینجرز اور ایف سی کا اور اب وہ فوج سے بھی نبرز آزما ہے۔ فوج کو مستقل طاقت آزما رکھنا ریاست کے لئے کوئی جانداز اور موثر حکمتِ عملی نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مقبولیت کی جنگ نہیں لڑ رہے وہ نفاذِ قانون کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اُنہیں اس کے تقاضے پورے کرنے ہیں ، سیاست کے نہیں۔
سیاسی قیادت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اسی کج ادا تصور کے باعث رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے پر اِنہیں تھکا تھکا کر پیچھے دھکیلاہے۔ اور اب تمام سیاسی جماعتیں دھیرے دھیرے اُن پر برتری حاصل کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں یہی ہوا۔ قانونی طاقت کا فوری استعمال اور اس کا فوری نتیجہ رینجرز کی توقیر میں اضافے کا باعث بنتا مگر سرجن نے مریض کو آپریشن ٹھیٹر میں لٹا کر تاخیر کردی تو مریض سے موت والی ہمدردی پید اہوگئی۔ اور آپریشن سے ناکامی والی بیزاری نے جنم لیا۔ آصف علی زرداری کواسی تاخیر کے باعث یہ موقع ملاکہ رینجرز ڈاکٹر عاصم کو شاہی گواہ (crown witness)بنانے کے لئے جس نرمی اور تاخیر کا مظاہرہ کررہی تھی ، اُسی کا فائدہ اُٹھا کر ڈاکٹر عاصم کو ہی مظلوم اور اس پورے عمل کو ظالم ثابت کردے۔ ڈاکٹر عاصم کے ذریعے عدالت میں یہی کیا گیا۔ اور اُس کے نفسیاتی اثر میں رینجرز کے اختیارات کے مسئلے کو الجھا دیا گیا۔ ایم کیو ایم نے بھی اسی حکمت عملی کو اختیار کیا۔ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات چیت کے لئے وسیم اختر کا نام بطور میئر آگے بڑھا رہی تھی مگر جب قانون نافذ کرنے والے ادارے رینجرز کے مسئلے میں مسلسل گریہ کناں نظر آئے تو اُنہوں نے بھی اپنے کان بند کرلئے اور وسیم اختر کو ہی میئر نامزد کر دیا۔ اب وسیم اختر سے قانون کی دست درازی ایک نامزد میئر کے خلاف نظر آئے گی۔
طاقت ور اداروں کی پوری تاریخ یہی ہے کہ وہ پہلے کسی شخص کو الزامات کے سائے میں زندہ رکھ کر اتنا بڑا ہونے دیتی ہے کہ اُس کے خلاف قانون کی تحریک دراصل سیاسی اہداف کی بازی گری لگنے لگتی ہے اور پھر اس میں خاموشی اُن کی پسپائی لگنے لگتی ہے۔ باکسنگ کی مشق میں ایک لڑائی ’’شیڈو فائٹنگ‘‘ کی بھی ہوتی ہے۔ جس میں باکسر اپنی حرکات کو درست کرنے کے لئے خود اپنے ہی سائے سے لڑتا ہے۔ رینجرز کے اختیارات میں تو سیع کے معاملے میں بس یہی’’ شیڈو فائٹنگ‘‘ جاری ہے۔ مگر اس میں باکسر فوج نہیں سیاست دان ہیں ۔جنہوں نے اس مسئلے پر اپنی طاقت کی حرکات کو درست اور سیاسی حرکیات کو اپنے فائدے میں لانے کے لئے کچھ مشقیں کی ہیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کی طاقت کو کھودیا ہے جو خوف کے اندر ہے۔ اور جو تب ہی برقرار رہتی ہے جب وہ مختصر وقت کے لئے تیزرفتاری سے استعمال ہو!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
سابق صدر آصف علی زرداری نے چیئرمین تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شخص ملک میں انتشار چاہتا ہے لیکن ہم اداروں پر حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایک شخص ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے ہر لائن عبور کر رہا ہے، اس شخ...
کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...
کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...
بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...