... loading ...
ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگون پر حملے کے صرف تین دن بعد، جب دونوں عمارات ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی تھیں، تو کانگریس نے جلد بازی میں صدر کو “ان تمام اقوام، اداروں اور افراد کے خلاف طاقت کے ضروری اور مناسب استعمال کا اختیار” دیا جنہوں نے “دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی، نگرانی یا مدد کی۔”
کانگریس میں اس معاملے پر اتفاق رائے کے ساتھ فیصلہ ہوتا، لیکن باربرا لی نے اس کے خلاف بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی انتقام کی صورت میں یہ مت سمجھا جائے کہ امریکا یقینی طور پر محفوظ ہو جائے گا۔ “ایسا قدم اٹھاتے ہوئے خود ایسے نہ بن جاؤ کہ بعد میں تمہیں افسوس ہو۔”
ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنے ساتھی اراکین کانگریس کی جانب سے حد سے زیادہ محتاط رویے کے طعنے سننے پڑے ہوں، بلکہ بڑے پیمانے پر انہیں غیر محب وطن قرار دیا گیا ہو، لیکن ان کی غیر ارادی پیشن گوئی پر اگر دھیان دیا جاتا تو شاید آج لاکھوں افراد جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتے۔ آج 14 سال بعد امریکا نے کیا سیکھا؟ سوائے جنگجویانہ مزاج کے۔ اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج کیا ہوں گے؟ نہ اس پر غور کیا گیا اور نہ ہی کسی کو پروا تھی۔ امریکا کی غرور و نخوت کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے، کسی کے ذہن میں شائبہ بھی نہ تھا۔ آج بھی امریکا اپنی غلطی سے سیکھنے کو تیار نہیں اور یہی رویہ ہے جو شام اور مشرق وسطیٰ میں داعش جیسی قوتیں تخلیق کر رہا ہے۔ ماضی سے حاصل کیے گئے اسباق کو یاد کرنے سے انکار ہی ہے کہ نفرت خود امریکا کی سرحدوں کے اندر در آئی ہے۔
کیلیفورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں حملے کے بعد سے اب تک امریکی شہریوں کو ان کے مذہب اور آبائی قومیت کی بنیاد پر بدترین تعصب اور ہٹ دھرمی کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف حملے اپنے عروج پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد جیسی حرکتیں کی گئی ہیں وہ بالکل ویسی ہی جیسی بیسویں صدی کے وسط میں امریکا کی جنوبی ریاستوں میں سیاہ فاموں کے خلاف کی جاتی تھیں۔
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا میں باضابطہ نسل پرستی کس طرح اب بھی موجود ہے۔ امریکی طویل عرصے تک خود کو روادار اور متحمل مزاج کے روپ میں پیش کرنے پر مہارت رکھتے ہیں، اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر دوسرے گروہوں کے لیے بھی قبولیت کا عنصر رکھتے ہیں لیکن سان برنارڈینو جیسے واقعات ان کے چہرے پر موجود یہ نقاب نوچ لیتے ہیں۔
آئیے سان برنارڈینو واقعے کے بعد اگلے چند دنوں میں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پیش آنے والے واقعات پر ایک نظر دوڑاتے ہیں:
4 دسمبر: پام بیچ اسلامک سینٹر میں گھس کر مرکز کی نصف سے زیادہ کھڑکیاں توڑ دی گئیں اور اندر موجود فرنیچر الٹ دیا گیا۔
4 دسمبر: ایک شخص نے دھمکی دی کہ اگر مسلمان اس کے گھر پر آئے تو ان کا سر قلم کردوں گا، اور یہ دھمکی وائس میل کے ذریعے کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (کیئر) کے سینٹ لوئس میں واقع دفتر کو بھیجی گئی۔ گو کہ ایف بی آئی نے اس شخص کو گرفتار بھی کیا لیکن اب تک اس معاملے پر جیسی پیشرفت ہو رہی ہے اس سے نہیں لگتا کہ مجرم کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی ہوگی۔
5 دسمبر: نیو یارک کے علاقے کوئنز میں ایک شخص نے مسلمان دکاندار کو زدو کوب کیا اور اسے مکے مارتے ہوئے کہا کہ “میں مسلمانوں کو مار دوں گا!”۔
5 دسمبر: انڈیانا سے تعلق رکھنے والے مسلمان رکن کانگریس کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
5 و 6 دسمبر: نیو ٹمپا مسجد سے اپنے گھر جانے والی باحجاب خاتون کی گاڑی پر پتھراؤ کیا گیا، جس سے وہ بمشکل حادثے سے بچیں۔
6 دسمبر: کیلیفورنیا کے ایک سکھ گردوارے پر اسلام مخالف چاکنگ کی گئی۔
6 دسمبر: ایک عورت نے اسلام مخالف نعرے لگائے اور پارک میں نماز ادا کرنے والے مسلمانوں پر گرم کافی پھینکی۔
7 دسمبر: ایک استاد نے آٹھویں جماعت کی 13 سالہ مسلمان طالبہ سے سوال کیا کہ کہیں اس کے بستے میں بم تو نہیں۔
7 دسمبر: نیو یارک کے علاقے مین ہٹن میں ایک شخص نے ریستوران ملازمین سے سوال کیا کہ کہیں وہ مسلمان تو نہیں۔ اس کے بعد ایک ملازم کو تھپڑ بھی مارا اور شیشے کی چند چیزیں بھی توڑیں۔
7 دسمبر: نیو جرسی مسجد کو متعدد نفرت انگیز خطوط موصول ہوئے۔ ایک خط میں مسلمانوں کو “سراپا شر” قرار دیا گیا۔
8 دسمبر: فلاڈیلفیا کی الاقصیٰ اسلامی سوسائٹی میں سور کا کٹا ہوا سر پھینکا گیا۔ سی سی ٹی وے کیمروں کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوا کہ نصف شب کو چند افراد ایک پک اپ میں یہ سری لے کر آئے تھے اور اسے مسجد کے اندر پھینکا۔
9 دسمبر: نیو یارک شہر کے علاقے بروکلن میں ایک بس اسٹاپ پر موجود شخص قریب کھڑی مسلمان عورت سے الجھ پڑا۔ اس نے کہا کہ “میں انتظار کر رہا ہوں کہ کب امریکا کو تم جیسے گند سے چھٹکارا ملے”۔ یہی نہیں بلکہ وہ ہاتھا پائی پر بھی اترا اور عورت کو لات بھی ماری۔
10 دسمبر: کیئر کے دفتر میں ایک خط موصول ہوا جس میں سفید رنگ کا سفوف تھا اور ساتھ ہی لکھا تھا “اذیت ناک موت مرو، مسلمانو!”۔ دفتر کو خالی کروا لیا گیا البتہ بعد میں سفوف کے معائنے سے پتہ چلا کہ وہ خطرناک نہیں تھا۔
10 دسمبر: فینکس کے اسلامک کمیونٹی سینٹر کی کھڑکیاں اور روشنیاں توڑ دی گئیں۔
10 دسمبر: گرینڈ فورکس، نارتھ ڈکوٹا میں ایک صوموالی ریستوران کو آگ لگانے کی کوشش کرنے والے شخص کو گرفتار کیا گیا۔ چند روز پہلے ہی اس ریستوران کی دیوار پر نازی علامت بنائی گئی تھی اور یہ بھی لکھا گیا تھا “اپنے گھر واپس جاؤ!”۔
10 دسمبر: کیئر فلوریڈا کے مطابق ٹمپا کی ایک مسجد سے گھر جانے والی خاتون کی گاڑی پر گولیاں چلائی گئیں۔
10 دسمبر: پلانو، ٹیکساس میں ایک مسلمان گھرانے کے مکان کی کھڑکیاں دو دن میں دو مرتبہ توڑی گئیں۔ اس خاندان کے علاقے میں آئے ہوئے چھ ہفتے ہی ہوئے ہیں۔
11 دسمبر: کوچیلا، کیلیفورنیا میں مسجد ابراہیم کو نذر آتش کرنے کی کوشش کرنے والا 23 سالہ شخص گرفتار ہوا۔
12 دسمبر: ڈیلاس ٹیکساس کی ایک مسجد کے باہر 20 افراد نے مسلح ہو کر مظاہرہ کیا۔
12 دسمبر: گرینڈ ریپڈز میں ایک مسلح ڈکیتی کے دوران پنجابی ملازم کے چہرے پر گولی ماری گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ افراد نے نسلی تعصب پر مبنی گالیاں بکیں اور اسے دہشت گرد تک کہا۔ ایک نے یہ بھی کہا کہ “میں نے عراق میں تم جیسے کئی بندے مارے ہیں، تمہیں مارنا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔”
یہ وہ فصل ہے، جو آج سے 14 سال قبل بوئی گئی تھی اور آج امریکا میں لہلہا رہی ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے نسل پرست اس قوم کی قیادت کے لیے منتخب ہو جائیں۔
پاکستان اور او آئی سی کی اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کے عالمی دن پر منیر اکرم نے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) "اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن" کے موقع پر قرارداد کا مسودہ پیش...
یونیورسٹی آف برمنگھم اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی کمپنی یوگووف کی اسلامو فوبیا پر شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یونیورسٹی آف برمنگھم اور ڈیٹا تجزیہ کرنے والی فرم نے برطانی...
اسپین کے شہر بارسلونا میں ایک حاملہ مسلمان خاتون کو اس وقت نامعلوم افراد نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ برقعہ پہن کر اپنے بچے کے ساتھ باہر جا رہی تھیں۔ واقعہ شہر کے قدیم علاقے میں پیش آیا جہاں دو افراد نے خاتون کے نقاب پر آوازے کسنے شروع کیے۔ جب ان کے شوہر نے گالیاں دینے...
متحدہ عرب امارات نے ایک سینئر امریکی سفارت کار کو طلب کرکے اس واقعے پر سخت احتجاج کیا ہے جس میں ایک اماراتی شہری کو امریکا میں غیر مہذبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا، صرف اس لیے کیونکہ اس نے عربوں کا روایتی لباس پہن رکھا تھا۔ اماراتی وزارت خارجہ نے امریکی سفارت خانے کے نائب چیف آ...
امریکا کے شہر ہیوسٹن میں نامعلوم افراد نے ایک مسلمان پر حملہ کرکے اس پر گولیاں برسائیں اور شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ واقعہ اتوار کی صبح ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کی مسجد نور کے باہر پیش آیا جب ڈاکٹر ارسلان تجمل فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے آ رہے تھے۔ انہوں نے ملح...
امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک سفید فام گروہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے تربیت لے رہا ہے، جن کا کہنا ہے کہ کسی بھی "بغاوت" کی صورت میں وہ مسلمانوں کو گولی سؤر کے خون میں ڈبو کر ماریں گے تاکہ وہ "سیدھا جہنم میں جائیں۔" نام نہاد بیورو آف امریکن اسلامک ریلیشنز (بیئر) کے ترجمان ڈیوڈ...
اگر برطانیہ میں، بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے یہاں تک کہ پاکستان میں رہنے والے کسی مسلمان سے بھی پوچھا جائے کہ وہ پہلے مسلمان ہے یا برطانوی یا پاکستانی؟ تو اس کا جواب کیا ہوگا؟ جس شخص کے دل میں ایمان کی ہلکی سی رمق بھی باقی ہے، اس کا سیدھا سا جواب یہی ہوگا، مسلمان! اپنے...
امریکا میں دو مسلمان خواتین کو "گھورنے" کے الزام میں پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ یہ دونوں خواتین امریکا کی جیٹ بلیو ایئرلائن کے ایک جہاز سے بوسٹن سے لاس اینجلس جا رہی تھی۔ پرواز تو بغیر کسی مسئلے کے منزل تک پہنچ گئی لیکن عملے کے ایک رکن نے پولیس کو بتایا کہ انہیں مسلسل ان دو خو...
شام اور خانہ جنگی کے شکار دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے یورپ کی ہجرت کیا کی، نسل پرست اور اسلام مخالف گروہ بلوں سے نکل کر باہر آ گئے ہیں۔ گزشتہ روز مہاجرین کے سب سے بڑے مسکن جرمنی سمیت یورپ کے مختلف ملکوں میں اسلام مخالف مظاہرے کیے گئے جن کی سرخیل جرمن تنظیم پگیڈا تھی۔ پ...
”ہم نسل پرست ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے“۔ یہ وہ الفاظ تھے جو حرا کی سماعت سے ٹکرائے جب وہ ٹرین میں سفر کررہی تھی۔ مردوں کا ایک گروہ پہلے ہی کہہ چکا تھا تھا کہ "اسکارف کے نیچے بم تو نہیں چھپایا ہوا؟"۔ ساتھ ہی سور کھانے اور شراب انڈيلنے کی باتیں بھی کر چکے تھے لیکن ان باتوں سے زیادہ...