... loading ...
پاکستان میں عوام بلدیاتی انتخابات اور اس سے ظاہر ہونے والے نتائج میں بری طرح مدہوش ہیں ۔ مگر خطے میں کئی اہم واقعات نے جنم لے لیا ہے۔جس میں سب سے پہلے افغان طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی جھوٹی خبر پھیلانا، اس سے پہلے نواز حکومت کی جانب سے اے این پی کے رہنماوؤں پر مشتمل ایک وفد کو عازم کابل کرنا تاکہ اشرف غنی حکومت کو قائل کیا جاسکے کہ وہ افغان طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ نواز حکومت کو ترجیح دے۔ اس کے کچھ نتائج چند دنوں بعد پیرس کی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی نظر آگئے تھے لیکن یہ اثرات اس وقت ضائع ہوتے محسوس ہوئے جب افغان حکومتی نمائندوں کی جانب سے ملا اختر منصور کی موت کی خبر پھیلائی گئی۔اس سارے معاملے کی حساسیت کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کی نشاندہی پاکستانی شہر کوئٹہ کے مضافات میں کی گئی اور خبر کابل سے افشاء کی گئی۔۔۔!! یعنی پاکستانی ادارے اس اہم ترین واقعے سے بالکل بے خبر تھے۔۔۔ بہرحال اس خبر سے کیا مقاصد حاصل کئے جانے تھے وہ اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ مشرق وسطی سے لیکر ہمارے اس خطے میں دنیا کے تیزی سے بدلتے سردو گرم کے حوالے سے کیا کچھ تغیر پذیر نہیں ، لیکن ہماری قوم ہے کہ سیاسی رسہ گیروں کے ہتھے چڑھ کر گلی محلے کی سیاست میں الجھ چکی ہے ۔ دوسری جانب حکومتی اداروں کا یہ حال ہے کہ ریاستی اداروں کی عسکری دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر تو واہ واہ کرتے ہیں لیکن جب ہاتھ ’’معاشی دہشت گردوں‘‘ پرپڑتاہے تو یہی حکومت اوراُس کے بزرجمہرجمہوریت خطرے میں آجانے کا شور مچانے لگتے ہیں اس میں کیا حکومتی اور کیا اپوزیشن کے ارکان سب ایک ہیں کیونکہ اس میں کھرا حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کی جانب جا نکلتا ہے۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں کیلیفورنیا کے واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی ابتدا کی جاچکی ہے کیونکہ مبینہ طور پر اس حملے میں ملوث خاتون کے خاندان کا تعلق تیس برس قبل جنوبی پنجاب کے علاقے لیہ سے تھا۔ ایک تصویر کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ وہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے ساتھ ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق مولانا عبدالعزیز نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔ بہرحال اس واقعے کے ملزمان امریکی سیکورٹی فورس کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں، ا س لئے جو کہانی بھی گھڑ لی جائے مردے اپنے صفائی میں تو بول نہیں سکتے۔ باقی رہی سہی کسر نکالنے کے لئے پاکستان کا ’’آزاد میڈیا‘‘ کافی ہے جس نے اجمل قصاب کے معاملے میں ـ’’دیگ سے زیادہ چمچہ گرم‘‘ کے مصداق کردار ادا کیا تھا۔اس لئے اب اس ’’نئے کھیل‘‘ کی اٹھان دیکھیں کہاں جاکر کر ختم ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مشرق وسطی کے حالات دوبارہ اسی نہج پر آسکیں گے جو دو دہائیوں پہلے تھے؟ یقینا نہیں۔۔۔ دو دہائیوں پہلے کا مشرق وسطی مضبوط حکومتی نظام کی وجہ سے خاصا مستحکم تصور کیا جاتا تھا ۔ تیل اور دیگر معدنیات کی بہتات نے اس خطے میں ایسی صورتحال پیدا کردی تھی جیسے زمین سونا اگل رہی ہو۔صدام حسین، حسنی مبارک، بشار الاسد، بن علی اور عبداﷲ صالح جیسی مضبوط میخیں اس استحکام میں گڑی ہوئی تھیں ۔اس لئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تغیر کی ہوا کا اس خطے سے گزر ہی ممنوع ہے لیکن پھر اچانک کیا ہوا کہ مضبوط نظام کی یہ میخیں باری باری ایسی اکھڑیں کہ سارا نظام تلپٹ ہوگیا۔ عراق اور شام کھنڈر بن گئے، یمن میں نہ بجھنے والی آگ نے سر اٹھا لیا تیونس اور مصر سیاسی ناہمواری کا بری طرح شکار ہوگئے۔ لیبیا حکومت سے نکل کر تنظیموں کی باہی رشہ کشی کا شکار ہوگیا۔ ان ملکوں پر حکومت کرنے والے آمر کس انجام کو پہنچے وہ سب کے سامنے ہے۔ وہ روس جس نے امریکا اور نیٹو کو عراق اور لیبیامیں الجھ جانے کی خواہش پر خاموشی اختیار کی تھی اسی امریکا اور اسرائیل نے اسے شام کے معاملے میں عملًا کود جانے پر مجبور کردیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شام پر تمام دنیا کی توجہ بشار الاسد کے خونی اقتدار سے زیادہ داعش پر مرکوز ہوچکی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے ہی ایران اور ایران نواز تنظیموں کے ساتھ مل کر داعش کو نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ اس میں اب روس، فرانس اور برطانیا بھی عملًا شامل ہوچکے ہیں جبکہ خطے کے وہ عرب ممالک جو پہلے عالمی اتحاد کا حصہ بنے ہوئے تھے خاموشی کے ساتھ الگ ہوچکے ہیں اور بشار مخالف تنظیموں کو امداد دے کر اس پراکسی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں بہت پہلے یہ کہا تھا کہ امریکا ، برطانیا اور اسرائیل کسی طور بھی بشار کے اقتدار کو آرام سے ختم نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اسی کی وجہ سے مشرق وسطی کے آتش فشاں کو ہوا دی جائے گی ۔ورنہ کیا ان مغربی طاقتوں نے مل کر صدام حسین کے عراق کو اسیر نہیں بنا لیا تھا؟
2011ء میں نائن الیون کا ڈرامہ درحقیقت امریکا اور صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کو مسلم دنیا پر یلغار کی خاطر دھکیلنے کے لئے تھا۔سو یہ مرحلہ کامیابی سے پورا کیا گیا۔مشرف دور میں پاکستان نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے اور اب اس پاکستان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے یہ بات بعد میں کریں گے لیکن اس سارے کھیل میں روس اور چین کا کردار بڑا عجیب اور پراسرار رہا۔ جس وقت افغانستان میں امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحاد نیٹو نے حملہ کیا تو روس اور چین کی جانب سے ذرا بھی جنبش نہ کی گئی۔ اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران ہیں جن میں سے تین ممالک صیہونی ہیں یعنی امریکا، برطانیا اور فرانس جبکہ دو ارکان روس اور چین غیر صیہونی ریاستیں ہیں۔ لیکن جس وقت امریکا نے اقوام متحدہ جیسے صیہونی ادارے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر چڑھائی کا اعلان کیا تو ان دو غیر صیہونی ریاستوں روس اور چین نے زیادہ مزاحمت نہیں کی غالباًیہ امریکااور اس کے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کے افغانستان میں حشر سے واقف تھے اس کے بعد امریکا اور اس کے صیہونی یورپی اتحادیوں نے عراق کو نشانے پر لیا اور پھر اقوام متحدہ کو اس کام کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس وقت بھی روس اور چین نے زیادہ مزاحمت نہ دکھائی اور پھر وہی ہوا جو روس اور چین نے پہلے سوچ رکھا تھا امریکا اور اس کے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کی چولیں افغانستان اور عراق میں بری طرح ہل گئیں۔ افغان مجاہدین اور عراقی مجاہدین نے امریکا اور نیٹو کی عسکری برتری کو خاک چٹا دی۔عراق ماضی میں بھی روس کے خاصا قریب رہا ہے لیکن امریکا کی تمام تر بربریت کے باوجو د روس نے امریکا کو عراق کی دلدل میں پھنسنے دیا اور اس کے لئے اپنے پرانے اتحادی صدام حسین کی قربانی تک دے دی نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جب تک امریکا اور نیٹو افغانستان اور عراق میں جارحیت کا ارتکاب کرتے رہے ۔اس دوران میں روس نے سوویت یونین کے زمانے میں تباہ ہونے والی اپنی اقتصادیات کو سنبھالا دیا اور چین تیزی کے ساتھ ایشیا اورامریکا ویورپ کی مارکیٹ پر چھاتا چلا گیابلکہ اس نے شمالی اور وسطی افریقا میں بھی اپنا اقتصادی اثرورسوخ قائم کرلیا۔نائن الیون کے بعد سے لیکر اب تک اس سارے کھیل کو پندرہ برس ہوچکے ہیں اور اب یہ کھیل ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ایران روس اور چین کے لئے امریکا اور مغرب کی جانب ایک ’’بفر اسٹیٹ‘‘ بن چکا ہے ۔اس لئے وہ ایران پر ہونے والے امریکا اور اسرائیل کے کسی بھی اقدام کے لئے بھرپور تیاری رکھتے ہیں۔ امریکی صیہونی دانشور ہنری کسنجر اور بریزنسکی کے خیال میں ماسکو اور بیجنگ کا راستہ اب تہران سے ہوکر کر گزرتا ہے۔ برزنسکی اور کسنجر کا شمار امریکا کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ روس اور چین کو زیر کرنے کا خواب دیکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایران کو دھمکیاں لگانا درحقیقت روس کو پیغام دینے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ جس طرح ہم پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں کہ عالمی صہیونی دجالی قوتیں اب اپنے منصوبے کے آخری مرحلے میں عالمی حکمران ریاست کا اسٹیٹس واشنگٹن سے یروشلم منتقل کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل عالمی سطح پر یہ منصب حاصل کرنے سے پہلے ہمسایہ عرب ریاستوں پر اپنا تسلط جمانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی جانب سے شمالی افریقا میں لیبیا کے خلاف نیٹوکی کارروائی سے نئے کھیل کا آغاز کیا گیا۔ قذافی کا لیبیا بھی سوویت یونین کے زمانے سے موجودہ روس تک کا قریبی حلیف تصور ہوتا رہا ہے لیکن جس وقت امریکا اور نیٹو کے صیہونی عسکری اتحاد نے سلامتی کونسل میں لیبیا کے خلاف قرارداد منظور کروائی تو روس اور چین نے اس میں بڑی رکاوٹ نہیں ڈالی جبکہ اصولی طور پر روس کو قذافی کے تحفظ کے لئے آگے آنا چاہئے تھا لیکن روس اور چین اس بات سے واقف تھے کہ نیٹو کو لیبیا میں پھنسانے کے لئے قذافی کی قربانی دینا پڑے گی اور فی الواقع ایسا ہی ہوا ۔ لیبیا میں نیٹو کی موجودگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ جس وقت مصر میں انتہاپسند اسلام کا بہانہ بناکر مشرق کی جانب سے زمینی حملہ کیا جائے تو لیبیا میں موجود نیٹو فورسز اسے مغرب کی جانب سے فضائی کور دیں گے جبکہ روس اور چین کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو نیٹو لیبیا اور مصر کی دلدل میں اس بری طرح سے پھنسے گا کہ اس کی مثال شاید افغانستان اور عراق میں بھی نہ مل سکے۔دوسری جانب جس وقت شام کی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ میں رائے شماری کرائی گئی تو روس اور چین نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔۔۔!! ایسا کیوں ہوا؟ اور اس کے کیا عوامل تھے ؟کہ عراق اور لیبیا کے معاملے میں خاموش رہنے والے روس اور چین شام کے معاملے میں حرکت میں آگئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس اور چین شام کو عالم عرب کی جانب ایران کی ایکسٹینشن سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں شامی حکومت کا کمزور پڑ جانا خطے میں ایران کو ایک بڑے محاذ پر شکست سے دوچار کردینے کے مترادف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شام کے معاملے میں روس نے آخری وقت تک پورا زور لگانے کا عندیہ دیا تھا اور بعد میں اس نے عملی طور پر شام میں مداخلت کرکے اسے ثابت بھی کردیا۔ اسرائیلی اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ روس نے جارجیا میں امریکی اور اسرائیلی فوجی مشیروں کی موجودگی میں ہونے والی عسکری بغاوت کو بری طرح کچل دیا تھا ۔اس سے پہلے پولینڈ میں امریکا کے میزائل شیلڈ پروگرام کو پوری قوت کے ساتھ ناکام بنوایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے توکھیل شروع ہوچکا، امریکا اور اسرائیل کی پوری کوشش تھی کہ روس کو کسی طور بھی شام میں عسکری طور پر الجھا دیا جائے تاکہ بشار کی حمایت میں اسے عرب حکومتوں اور عرب عسکری تنظیموں سے واسطہ پڑ جائے۔
اس ساری صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے وطن عزیز میں کیا تیاریاں ہوئی ہیں تو افسوس صد افسوس تاریخ عالم کے اس نازک ترین دور میں ہمیں جس قسم کے دور اندیش اور مخلص حکمران درکار تھے وہ سزا کے طور پر اس قوم کو میسر نہ آسکے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے روپ میں نوسرباز اس قوم کے حاکم بن چکے ہیں جو نہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور نہ آئین کی پاسداری ان کا شیوا ہے۔امریکا اور اس کا صیہونی عسکری اتحاد نیٹو اس ملک کی سرحدوں کی پامالی کرتا رہا لیکن ڈررون حملوں میں بے گناہ پاکستانیوں کی ہلاکتوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی جاتی رہی کیونکہ بدلے میں ڈالر ملتے رہے۔۔۔
بابل کا حکمران بخت نصر کوئی مومن بندہ نہیں تھا بلکہ اس وقت کی متمدن اور طاقتورترین ریاست کا مشرک حکمران تھا لیکن قدرت نے کوڑے کی طرح اسے بنی اسرائیل کی پیٹھ پر دے مارا تھا۔ کیا آج امریکا بخت نصر کی مانند ہماری پیٹھ پر کوڑے کی طرح نہیں برسا رہا؟ اﷲ کے نام لیواؤں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے زندگی تنگ کی جارہی ہے اور امریکا کی کھلی حمایت کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔ کیا ہم اﷲ تعالی کے بیان کے مطابق خود ان یہود ونصاری کی مانند نہیں ہوگئے ہیں جو آپس میں امت مسلمہ کے خلاف اتحاد کرچکے ہیں اور اﷲ رب العزت نے ڈیڑھ ہزار برس قبل ہمیں آج کے اس شیطانی اور دجالی دور سے خبردار کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ اس وقت اس دجالی اتحاد سے بچنا ورنہ ان میں ہی شمار کئے جاؤ گے۔ جس قوم کے امور رسہ گیروں کے ہاتھ میں آجائیں تواس کا حال کیا ہوگا۔۔ہم نے شمالی افریقا اور مشرق وسطی سے لیکر جنوبی ایشیا تک کے حالات میں تیزی کے ساتھ تغیر پذیری کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں ہر خطے کے حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں نے اپنی اپنی جگہ قیمت ادا کرنا ہے۔۔۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...