... loading ...
کہنہ صدیوں کی زبوں و آزردہ اور افسوں و افسردہ خموشیوں سے ہم بولتے ہیں، ہم شرمندہ ہیں! ہم شرمندہ ہیں! اپنی ہی نقدِ عمر سے تم نے زندگی اُدھار مانگی تھی، مگر روحِ فرعونیت کے فرزندوں نے تمہیں وہ بھی دان نہیں کی۔تمہارے اختیار کے دیئے سے حیاتِ اضطرارکی لَو وہ بجھا گئے، تو کیا ہوا؟ موت نے تمہیں ابدیت دی اور تمہیں مارنے والوں کو دائمی موت دی۔تم خوش و خورسند ہوئے۔ وہ خراب و خوار اور خستہ وخجل ٹہرے۔ بخدا! بخدا ! موت کے اِن وحشی سوداگروں کی جفائے برق ریز تمہاری نوائے نرم خیز کو کبھی بیدم نہ کر سکیں گی۔تمہارے رنگ رنگ چہرے اور سحرکار مکھڑے دائم ماہتابِ بام رہیں گے، ہمیشہ بلند نام رہیں گے۔اے پشاور کے بچو!مکتب کے فرزندو! تم ہماری ناتواں زیست کا مستحکم سہارا تھے۔ اب ہم تمہیں کہاں کہاں تلاش کریں؟ ہمارے یوسفو! تمہیں کارواں کارواں کہاں کہاں ڈھونڈیں۔اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!
اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!
وہ شیریں سپنے کتنے ہی دلخراش ہوتے ہیں جو تعبیر سے معذور ہو جائیں۔نسیمِ سحر کے لطیف جھونکوں سے چٹکتی، لٹکتی،اچھلتی کلیاں کس کرب سے گزرتی ہوں گی جب اُنہیں کوئی مسل دے۔وہ حسین الفاظ کیسے ماتم کناں ہوں گے جو ابھی توتلی زبانوں پر ادائی سے ہنر آشنا ہو رہے ہو۔ مہکتے غنچے، پھوٹتے شگوفے تب کیسے روتے ہوں گے جب اُنہیں مرگِ ناگہانی کا ذائقہ چکھنا پڑے۔ دل کی گہرائیوں میں دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتی وہ آرزو کس حسرت سے دوچار ہوتی ہوگی جب اُسے آخری لمحے اپنے ناتمام کا پتا چلتا ہوگا۔وہ کتاب کتنی بدقسمت ہے جو ابھی کھلی ہی نہ ہو کہ جل جائے۔ وہ پنسل کتنی کم نصیب ہے جو ’’الف ب ج‘‘ کے درسِ اولین کو لکھنے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے۔ وہ بستا کیسا غم رکھتا ہوگا جو بچے کے دوش پر فردا کا سفر کرنے سے محروم ہو جائے۔ ہائے! ہائے! یہ شیریں سپنے، چٹکتی کلیاں، مہکتے غنچے، پھوٹتے شگوفے، حسین الفاظ، ناتمام آرزو،پنسل، بستااور کتاب سانحہ پشاور میں کون لے گیا؟ کہاں لے گیا؟اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!
اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!
موت نے تمہیں زندہ کر دیا۔ مگر زندگی نے ہمیں مرُدہ بنا دیا۔ ہم روز اپنے کاندھوں پر اپنی ہی لاشوں کو اُٹھائے زندگی کرتے ہیں۔ اپنے سانسوں کی صلیب پر اپنا ہی دم گھٹنے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔اس اتھاہ غارِ زندگی میں طاری عمیق تیرگی میں چُھپی بلائیں ہمیں ڈراتی ہیں۔آنکھوں کے جلوہ زار میں تمہاری پھیلتی مسکراہٹوں سے اب ہمارے دل دہلتے ہیں۔ اے میرے پیارے بچو! تم تو دھماکوں میں مر گئے تھے، پھر ہماری آنکھوں میں مرتے کیوں نہیں۔ ہم تو اِن دھماکوں سے بچ گئے تھے۔ پھر ہم اِس زندگی میں جیتے کیوں نہیں۔میرے بچو تمہیں فرشتوں نے اپنے پروں میں چھپا کر اعلیٰ علیین پہنچایا۔ تم شاداں و فرحاں اپنے رب کے حضور پہنچے اور بلند بہشت ہوئے۔ مگر ہمارا گِرد و پیش ایک بہت بڑے مذبح میں بدل گیا۔ جہاں چاروں طرف چیلیں منڈلاتی ہیں۔ ایک بہت بڑے کُہرے نے ہمارا ہر منظر دُھندلا دیا۔ یہ کھاٹ کھٹولا، پات پھول، کھیت کھلیان سب ہی کچھ جھاڑ جھنکار، دھول خار ہوئے۔ ہم خون اور گوشت کے سرد وجامد بُت بنے اپنے زمینی آقاؤں کی ایما پر راہ گیروں کی طرح رستوں میں پڑے ہیں۔اپنے آقاؤں کے ارشاد کے منتظر دہائیوں سے بے منزل ہیں۔ چوراہوں پر منزل کو جانے والے سب ہی رستے کہیں کھو گئے ہیں۔ تمام سمتیں فسوں زدہ ہیں اور ہم وقت کی جادونگری میں دھماکوں، بموں، دہشتوں اور وحشتوں کے جنتر منتر سمجھنے سے عاجز ہیں۔اے میرے بچو! تم ہماری خود فروش زندگی کا ایک سودا بن گئے، مگر ہم ابھی خود شکارِ زندگی ہیں۔ اپنے عزیز اعتقادات کے ساتھ کسی کنارِ رہگزر پر نامعلوم انجام کے منتظر ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کج شعار اور شعلہ بار زندگی میں ہمارے اصلی محسن اور اصلی قاتل کون ہیں؟ آہ یہ خود فریب زندگی قاتلوں اور محسنوں کے امتیاز سے بھی لاچار ہو گئی۔ اے میرے بچو! ہم زندہ ہیں ! مگر ایسے مقتول بننے کے قریب ہیں، جس کے قاتل بھی ہم خود ہی کہلائیں گے۔ میرے مقتول بچو ! تمہارے لئے تو یہ فخر ہی بہت ہے کہ تم قاتل نہیں، مگر ہم ایسے مقتول بننے والے ہیں کہ اپنے قاتل نہ ہونے کا فخر بھی نہ پاسکیں گے!!!
اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!
آج بھی یہ وادی حیات پوری طرح دلفریب ہے۔ چاند شاداں چمکتا ہے اور مسرور تارے اُس کے گرد محوِ رقص ہیں۔ ابھی ابھی ایک شاداب کھیتی میں ایک بیج نے اِٹھلا کر سر اُٹھایا ہے۔ سردہواؤں نے لطیف پاتوں سے سرگوشی کی ہے۔چمن کے ایک غنچے کے گرد ایک بھنورا بے تابی سے طواف کر رہا ہے۔ نسیمِ سحر کے پہلے جھونکے میں کوئی گیت سنائی دیا ہے۔سنئے! کوئی کوئل کوک رہی ہے۔ایک پپیہے کی پی میں ہلکا سا گداز بھی محسوس ہوتا ہے۔یہ مسکنِ ماہ و انجم نیلگوں آسمان پوری طرح ہوا میں ایستادہ ہے۔ آفتاب کی رُوپَہلی کرنیں دریچوں سے آتی ہیں۔مگر اے میرے بچو! پھر بھی، پھر بھی، اب یہ زندگی پہلی سی نہیں رہی۔ سب کچھ جوں کا توں ہے۔ مگر کوئی چیز بھی اپنے مقام پر دکھائی نہیں دیتی۔ہر نغمۂ حیات اب نالۂ بے اختیار ہے۔ پپیہے کی پی اور کوئل کی کوک سوائے غم والم کے کچھ نہیں۔ بادلوں کی گرج مکتب سے اُٹھنے والی تمہاری چیخیں لگتی ہیں۔ شوریدہ سمندر روتا دھوتا لگتا ہے، گویا گریہ کناں لہریں اور ماتم کناں موجیں ہوں۔شہد سی زندگی، زہرِہلاہل کاگمان پیدا کرتی ہے۔اے میرے بچو!تم گئے ہو مگر ساتھ کیا کیا لے گئے ہو!
اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!
تم ہمارے حزنیہ کا کبھی نہ بھولنے والا چہرہ ہو۔ ہماری تہہ بہ تہہ تہذیب کا تبسم ہو۔ تم ہی ارسطو کی پوٹیکا ہو۔ اگر ارسطو کے المیے میں مقدرات، تاریخ پر حکمران ہیں تو ہمارے المیے میں تمہاری تاریخ ہمارے مقدرات پر حکمران ہوگی۔ہمارے غم زدہ قلوب سے پُھوٹنے والے بول دُعائیں بن کر ہونٹوں پر رہیں گے۔ آزادی کا دھوکا ہماری ذلت ورسوائی پر دائم نوحہ کناں رہے گا۔ہماری آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہمارے اعمال کی پیدا کردہ آلودگیوں کو دھو تو نہ سکیں گے،مگر پھر بھی یہ شرمندہ شرمندہ بہتے رہیں گے۔ہم جانتے ہیں کہ زندگی ایک ارادہ ہے، مگر یہی ارادہ ہمارے آقاؤں کے آگے ڈھیر ہے۔ موت روز ہمارے ہونٹوں کو بوسہ دیتی ہے اور خوف نے ہمارے رخساروں کو پیلا کر دیا۔ افسوس ہمارے حکمرانوں نے منافقت کو دین اور جھوٹ کو ہماری زندگی بنا دیا۔علم کا نور، زندگی کی حرارت اور تاریکیوں سے بغاوت ہمارا شعار ہی نہیں۔ پھر بھی،میرے بچو پھر بھی، ہم تمہارے لئے آنسو بہائیں گے۔ تمہاری موت کو پیش کرنے کے لئے ہمارے پاس یہی ایک خراج ہے۔ اور ہاں ایک دعا بھی کہ خدا تمہارے انجام کا ہم سے انتقام اس طرح لے کہ ہمیں تمہاری موت کا صبر کبھی نہ آئے!!! اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...