وجود

... loading ...

وجود

اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

بدھ 16 دسمبر 2015 اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

کہنہ صدیوں کی زبوں و آزردہ اور افسوں و افسردہ خموشیوں سے ہم بولتے ہیں، ہم شرمندہ ہیں! ہم شرمندہ ہیں! اپنی ہی نقدِ عمر سے تم نے زندگی اُدھار مانگی تھی، مگر روحِ فرعونیت کے فرزندوں نے تمہیں وہ بھی دان نہیں کی۔تمہارے اختیار کے دیئے سے حیاتِ اضطرارکی لَو وہ بجھا گئے، تو کیا ہوا؟ موت نے تمہیں ابدیت دی اور تمہیں مارنے والوں کو دائمی موت دی۔تم خوش و خورسند ہوئے۔ وہ خراب و خوار اور خستہ وخجل ٹہرے۔ بخدا! بخدا ! موت کے اِن وحشی سوداگروں کی جفائے برق ریز تمہاری نوائے نرم خیز کو کبھی بیدم نہ کر سکیں گی۔تمہارے رنگ رنگ چہرے اور سحرکار مکھڑے دائم ماہتابِ بام رہیں گے، ہمیشہ بلند نام رہیں گے۔اے پشاور کے بچو!مکتب کے فرزندو! تم ہماری ناتواں زیست کا مستحکم سہارا تھے۔ اب ہم تمہیں کہاں کہاں تلاش کریں؟ ہمارے یوسفو! تمہیں کارواں کارواں کہاں کہاں ڈھونڈیں۔اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

وہ شیریں سپنے کتنے ہی دلخراش ہوتے ہیں جو تعبیر سے معذور ہو جائیں۔نسیمِ سحر کے لطیف جھونکوں سے چٹکتی، لٹکتی،اچھلتی کلیاں کس کرب سے گزرتی ہوں گی جب اُنہیں کوئی مسل دے۔وہ حسین الفاظ کیسے ماتم کناں ہوں گے جو ابھی توتلی زبانوں پر ادائی سے ہنر آشنا ہو رہے ہو۔ مہکتے غنچے، پھوٹتے شگوفے تب کیسے روتے ہوں گے جب اُنہیں مرگِ ناگہانی کا ذائقہ چکھنا پڑے۔ دل کی گہرائیوں میں دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتی وہ آرزو کس حسرت سے دوچار ہوتی ہوگی جب اُسے آخری لمحے اپنے ناتمام کا پتا چلتا ہوگا۔وہ کتاب کتنی بدقسمت ہے جو ابھی کھلی ہی نہ ہو کہ جل جائے۔ وہ پنسل کتنی کم نصیب ہے جو ’’الف ب ج‘‘ کے درسِ اولین کو لکھنے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے۔ وہ بستا کیسا غم رکھتا ہوگا جو بچے کے دوش پر فردا کا سفر کرنے سے محروم ہو جائے۔ ہائے! ہائے! یہ شیریں سپنے، چٹکتی کلیاں، مہکتے غنچے، پھوٹتے شگوفے، حسین الفاظ، ناتمام آرزو،پنسل، بستااور کتاب سانحہ پشاور میں کون لے گیا؟ کہاں لے گیا؟اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

موت نے تمہیں زندہ کر دیا۔ مگر زندگی نے ہمیں مرُدہ بنا دیا۔ ہم روز اپنے کاندھوں پر اپنی ہی لاشوں کو اُٹھائے زندگی کرتے ہیں۔ اپنے سانسوں کی صلیب پر اپنا ہی دم گھٹنے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔اس اتھاہ غارِ زندگی میں طاری عمیق تیرگی میں چُھپی بلائیں ہمیں ڈراتی ہیں۔آنکھوں کے جلوہ زار میں تمہاری پھیلتی مسکراہٹوں سے اب ہمارے دل دہلتے ہیں۔ اے میرے پیارے بچو! تم تو دھماکوں میں مر گئے تھے، پھر ہماری آنکھوں میں مرتے کیوں نہیں۔ ہم تو اِن دھماکوں سے بچ گئے تھے۔ پھر ہم اِس زندگی میں جیتے کیوں نہیں۔میرے بچو تمہیں فرشتوں نے اپنے پروں میں چھپا کر اعلیٰ علیین پہنچایا۔ تم شاداں و فرحاں اپنے رب کے حضور پہنچے اور بلند بہشت ہوئے۔ مگر ہمارا گِرد و پیش ایک بہت بڑے مذبح میں بدل گیا۔ جہاں چاروں طرف چیلیں منڈلاتی ہیں۔ ایک بہت بڑے کُہرے نے ہمارا ہر منظر دُھندلا دیا۔ یہ کھاٹ کھٹولا، پات پھول، کھیت کھلیان سب ہی کچھ جھاڑ جھنکار، دھول خار ہوئے۔ ہم خون اور گوشت کے سرد وجامد بُت بنے اپنے زمینی آقاؤں کی ایما پر راہ گیروں کی طرح رستوں میں پڑے ہیں۔اپنے آقاؤں کے ارشاد کے منتظر دہائیوں سے بے منزل ہیں۔ چوراہوں پر منزل کو جانے والے سب ہی رستے کہیں کھو گئے ہیں۔ تمام سمتیں فسوں زدہ ہیں اور ہم وقت کی جادونگری میں دھماکوں، بموں، دہشتوں اور وحشتوں کے جنتر منتر سمجھنے سے عاجز ہیں۔اے میرے بچو! تم ہماری خود فروش زندگی کا ایک سودا بن گئے، مگر ہم ابھی خود شکارِ زندگی ہیں۔ اپنے عزیز اعتقادات کے ساتھ کسی کنارِ رہگزر پر نامعلوم انجام کے منتظر ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کج شعار اور شعلہ بار زندگی میں ہمارے اصلی محسن اور اصلی قاتل کون ہیں؟ آہ یہ خود فریب زندگی قاتلوں اور محسنوں کے امتیاز سے بھی لاچار ہو گئی۔ اے میرے بچو! ہم زندہ ہیں ! مگر ایسے مقتول بننے کے قریب ہیں، جس کے قاتل بھی ہم خود ہی کہلائیں گے۔ میرے مقتول بچو ! تمہارے لئے تو یہ فخر ہی بہت ہے کہ تم قاتل نہیں، مگر ہم ایسے مقتول بننے والے ہیں کہ اپنے قاتل نہ ہونے کا فخر بھی نہ پاسکیں گے!!!

اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

آج بھی یہ وادی حیات پوری طرح دلفریب ہے۔ چاند شاداں چمکتا ہے اور مسرور تارے اُس کے گرد محوِ رقص ہیں۔ ابھی ابھی ایک شاداب کھیتی میں ایک بیج نے اِٹھلا کر سر اُٹھایا ہے۔ سردہواؤں نے لطیف پاتوں سے سرگوشی کی ہے۔چمن کے ایک غنچے کے گرد ایک بھنورا بے تابی سے طواف کر رہا ہے۔ نسیمِ سحر کے پہلے جھونکے میں کوئی گیت سنائی دیا ہے۔سنئے! کوئی کوئل کوک رہی ہے۔ایک پپیہے کی پی میں ہلکا سا گداز بھی محسوس ہوتا ہے۔یہ مسکنِ ماہ و انجم نیلگوں آسمان پوری طرح ہوا میں ایستادہ ہے۔ آفتاب کی رُوپَہلی کرنیں دریچوں سے آتی ہیں۔مگر اے میرے بچو! پھر بھی، پھر بھی، اب یہ زندگی پہلی سی نہیں رہی۔ سب کچھ جوں کا توں ہے۔ مگر کوئی چیز بھی اپنے مقام پر دکھائی نہیں دیتی۔ہر نغمۂ حیات اب نالۂ بے اختیار ہے۔ پپیہے کی پی اور کوئل کی کوک سوائے غم والم کے کچھ نہیں۔ بادلوں کی گرج مکتب سے اُٹھنے والی تمہاری چیخیں لگتی ہیں۔ شوریدہ سمندر روتا دھوتا لگتا ہے، گویا گریہ کناں لہریں اور ماتم کناں موجیں ہوں۔شہد سی زندگی، زہرِہلاہل کاگمان پیدا کرتی ہے۔اے میرے بچو!تم گئے ہو مگر ساتھ کیا کیا لے گئے ہو!

اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

تم ہمارے حزنیہ کا کبھی نہ بھولنے والا چہرہ ہو۔ ہماری تہہ بہ تہہ تہذیب کا تبسم ہو۔ تم ہی ارسطو کی پوٹیکا ہو۔ اگر ارسطو کے المیے میں مقدرات، تاریخ پر حکمران ہیں تو ہمارے المیے میں تمہاری تاریخ ہمارے مقدرات پر حکمران ہوگی۔ہمارے غم زدہ قلوب سے پُھوٹنے والے بول دُعائیں بن کر ہونٹوں پر رہیں گے۔ آزادی کا دھوکا ہماری ذلت ورسوائی پر دائم نوحہ کناں رہے گا۔ہماری آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہمارے اعمال کی پیدا کردہ آلودگیوں کو دھو تو نہ سکیں گے،مگر پھر بھی یہ شرمندہ شرمندہ بہتے رہیں گے۔ہم جانتے ہیں کہ زندگی ایک ارادہ ہے، مگر یہی ارادہ ہمارے آقاؤں کے آگے ڈھیر ہے۔ موت روز ہمارے ہونٹوں کو بوسہ دیتی ہے اور خوف نے ہمارے رخساروں کو پیلا کر دیا۔ افسوس ہمارے حکمرانوں نے منافقت کو دین اور جھوٹ کو ہماری زندگی بنا دیا۔علم کا نور، زندگی کی حرارت اور تاریکیوں سے بغاوت ہمارا شعار ہی نہیں۔ پھر بھی،میرے بچو پھر بھی، ہم تمہارے لئے آنسو بہائیں گے۔ تمہاری موت کو پیش کرنے کے لئے ہمارے پاس یہی ایک خراج ہے۔ اور ہاں ایک دعا بھی کہ خدا تمہارے انجام کا ہم سے انتقام اس طرح لے کہ ہمیں تمہاری موت کا صبر کبھی نہ آئے!!! اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر