... loading ...
یوں ہی بس یک بیک خیال آتا ہے! پھر میں پاکستانی کیوں ہوں؟
اگر عمران خان درست کہتے ہیں اور نوازشریف بھی، کہ پاکستان بھارت میں کوئی فرق نہیں ، تو پھر میں کون ہوں؟ مجھ سے میری شناخت سے وابستہ سوالات کیا ہیں؟ میری حب الوطنی کا امتحان بھارت سے نفرت کے ساتھ کیوں لیا جاتا ہے؟ پھر! پھر ! وہ نامقبول و ناپسندیدہ الطاف حسین بھی کیا غلط کہتاہے؟ پھر یہ بحث میانِ من وتُوکیوں پھیلی ہے؟ عمران خان واپس بھارت سے پلٹ آئے ہیں ،مگر ایک سوال ساتھ لائے ہیں۔ اُن میں اور میاں نوازشریف میں آخر بنیادی فرق کیا ہے؟ جب بھی یہ دونوں بھارت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کی روح ایک دوسرے میں حُلول کیوں کر جاتی ہے؟
عمران خان گزشتہ دنوں بھارت گئے!پتا نہیں کیوں گئے اور کیوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملنا ضروری خیال کیا۔ یہ کافی نہ تھا کہ وہاں ذرائع ابلاغ کے سامنے فرمایا:
’’لیکن میں( نے) جب ہندوستان میں کرکٹ کھیلی ،میں نے جب کپیل دیو ، سنیل گواسکر سے دوستیاں کیں میرا جو آج بیسٹ فرینڈ آکسفورڈ میں تھا وہ ہندوستانی تھا، وکرم مہتہ تھے۔تو جب ہم نے کونٹیکت (contact) کیا تو رئیلائز (realise)کیا کہ ہماری تو تاریخ ایک ہے۔ہمارے لوگ ایک ہے، کلچر ایک ہے۔ ہم گانے ایک سنتے ہیں۔فلمیں ایک دیکھتے ہیں۔ تو اس کے بعد تب چینج آتا ہے۔ ‘‘
ہمیں علامہ اقبالؒ کے اس جعلی شیدائی کے قصے گھڑ گھڑ کے سنائے گئے۔ ان کی نظریاتی گہرائی کے افسانے تراشے گئے۔ مگر کچھ فرق نہ نکلا!وہ اقبالؒ نہ رہے ہوں گے جنہوں نے کہا تھا کہ
وہ بھی کوئی سیالکوٹی ہی ہوگا مگر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نہیں جو فرما گئے تھے کہ
حضرت علامہ اقبال ؒ کا وہ سچا عاشق بھی مرگیا۔ رحمان کیانی نے تحریک پاکستان کے تاریخ ساز نعروں کو فہم اقبال کی روشنی میں منظوم کردیاتھا۔ مگر وہ نعرے کب تھے، نظریئے کی ایک باڑھ تھی جو ہندو انتہاپسندی کے آگے باندھی گئی تھی۔فرمایا:
تم نے پڑھا قرآن ہے لوگو! اس پر اگر ایمان ہے لوگو!
سب جیسے انسان نہیں تم دو پائے حیوان نہیں تم
احمق مادر زاد نہیں تم بندر کی اولاد نہیں تم
مکھن ہولی، ٹکے پسیری گڑبڑ گھپلا ہیرا پھیری
موتی، کنکر ایک نہیں ہیں ہیرا، پتھر ایک نہیں ہیں
دن سے جیسے رات الگ ہے پھول سے جیسے پات الگ ہے
گامے سے گھنشام الگ ہے
کفر الگ اسلام الگ ہے
کپتان ان خیالات میں تنہا نہیں۔ قائداعظم ثانی اپنے انتخابی مینڈیٹ (انتداب) کی طرح اس میں بھی اُن سے سبقت رکھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان تصورات کی سطح پر ایسی یکسانیت ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ کہیں یہ بھارت کے بارے میں یک جان دوقالب تو نہیں۔ ذرا الفاظ تو دیکھیں !نوازشریف نے ۱۳؍ اگست ۲۰۱۳ء کو سیفما کے ایک اجلاس میں بھارت سے آئے وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ
’’ہمارا ایک ہی کلچر تھا، ایک ہی ہیرٹیج ہے ، ایک ہی معاشرے کے ہم لوگ تھے، یہ جو بیچ میں ایک بارڈر آیا ہے ، بس وہی بارڈر آیا ہے ، ورنہ تو آپ اور ہم لوگ ایک ہی سوسائٹی کے لوگ ہیں۔‘‘
یہ قائداعظم ثانی کے الفاظ ہیں ، چونکہ قائداعظم ثانی کتابوں وغیر ہ سے زیادہ دستر خوان سے میل مناسبت رکھتے ہیں ۔ لہذا ایک موقع پر تو اُنہوں نے دونوں طرف کے مشترکہ کھانوں کی فہرست بھی گنوارکھی ہے۔ یہ گائے کے گوشت پر ہونے والے حالیہ ہنگاموں میں مسلمانوں کے قتل سے ذرا پہلے کا ماجرا ہے۔ مگر قائداعظم ثانی نوازشریف کے ان الفاظ کے بعد اب قائداعظم محمد علی جناح کے یہ الفاظ پرانے مال کی دُکان اولیکس پر بیچ دینے چاہئے۔ جو اُنہوں نے گاندھی کو ایک خط میں لکھے تھے :
’’ہم کہتے ہیں اور یہ ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ مسلمان اور ہندو ہرتعریف اور ہر معیار قومیت کی رو سے دو بڑی اقوام ہیں۔ ہم مسلمان دس کروڑ نفوس پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ ۔۔۔۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ایک مخصوص و منفرد کلچر کے مالک ہیں۔ ہم ایک خاص تمدن کے وارث ہیں۔ ہماری زبان، ہمارا ادب، ہمارا فن، تعمیری اسالیب، نام اور نظام اسماء ، شعورِ اقدار وتناسب، قوانین، اخلاقی ضوابط، رسوم ورواج، تقویمی سلسلہ، تاریخ، روایات، مزاجوں کی ساخت وصلاحیت، آرزوؤں اور اُمنگوں کی نوعیت۔۔۔۔۔۔۔ غرض زندگی کے بارے میں اور خود زندگی میں ہمارا اپنا خاص نقطۂ نظر ہے۔ اور بین الاقوامی قانون کی ہر تعمیر کے مطابق ہم ایک مستقل قوم ہیں۔‘‘
شاید کپتان کے لئے قائدِ اعظم کے یہ الفاظ کوئی دھاندلی ہو، یا قائد اعظم ثانی کو یہ لسی سے زیادہ اہم نہ لگتے ہوں۔مگر دونوں طرف کے لوگ صرف سرحد کی ایک لکیر سے الگ نہیں ہیں۔ وہ ایک ہی جغرافیے میں رہتے ہوئے بھی الگ الگ تھے۔ اوراب جب الگ الگ جغرافیے میں رہتے ہیں تو بھی ان کی علیحدہ شناخت کے مناظر روز ہی واقعات کی صورت میں تجسیم ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں مسلمان روز ہندوؤں سے پاکستان چلے جانے کا طعنہ سنتے ہیں۔ اور تو اور ابھی بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج پاکستان سے گئی ہے تو بھارتی پارلیمنٹ میں اُن سے سوال پوچھے گئے ہیں کہ اُنہوں نے دورۂ پاکستان میں سبز رنگ کی ساڑھی کیوں زیب تن کی اور اردو زبان میں کیوں بات کی؟ سشماسوراج ایسی انتہا پسند خاتون کو یہ سوال حزب اختلا ف کے جن اراکین نے پوچھے ہیں وہ بھارت میں ہندوؤں کی معتدل یا لبرل جماعتیں کہلاتی ہیں۔اگر کپتان اور قائد اعظم ثانی ٹھیک فرماتے ہیں تو الطاف حسین کی بھارت میں تقریر میں غلط بات کیا رہ جاتی ہے؟ اور پھر کسی بھی پاکستانی کے لئے یہ سوال غیر متعلق کیوں رہے گا کہ وہ پاکستانی کیوں ہے؟ کپتان اور قائداعظم ثانی کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ہمارا حال بدلنے کی کوشش کریں ، ہمارے ماضی کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ براہِ کرم !براہِ کرم!!
ضروری بات: آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہمارے سینوں میں خنجر کی طرح پیوست ہے اور سانحہ سقوطِ ڈھاکا ،برچھی کی طرح اُترا ہواہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے محبین کو ملنے والی پھانسیاں بھی ہمارے دلوں میں پھانس بن کر اُتری ہوئی ہے۔ مگر مجھے دونوں سیاسی رہنماؤں کے تاریخ کے ساتھ اس کھلواڑ پر لکھنا زیادہ ضروری محسوس ہوا
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...