... loading ...
نام ڈاکٹر ظفر الطاف۔
تعلق سی ایس پی۔1965 Batch
چند دن پہلے بقید حیات تھے۔اب نہیں رہے
میرے فون پر ان کا نام فیورٹ کانٹکیٹس میں اہل خانہ کے اسمائے گرامی کے ساتھ درج ہے۔ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے اب ایک ہفتہ ہوچلا ہے پھر بھی عادتاً کئی دفعہ انگلی ان کے نام کے محفوظ حروف Z.A کو چھولیتی ہے ۔میں تکلفاً اس فون کو کانوں تک بھی لے جاتا ہوں تو ایک خاتون فون Switched off کی ناقابل یقین سناؤنی دیتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ پورے 38 برس کا ساتھ یوں دیکھتے دیکھتے ٹوٹ جائے گا!
میرے بیٹے کو جب میں نے ایم۔ بی ۔اے کی بجائے سی ایس ایس پی کرنے کا مشورہ دیا تو اس کے اس تجویز پر عمل نہ کرنے کا صرف ایک ہی بہانہ رہا کہ ’’ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ مجھے بھی اس کیریئر میں آپ کی طرح ظفر الطاف جیسا رول ماڈل ملے گا؟‘‘ میرے نزدیک کسی شخص کو اپنی عزت و احترام کا معیار اپنی زندگی میں ہی جانچنا ہو تو یہ دیکھے کہ سامنے والے دوست یا ملنے والے کے گھر والے بالخصوص اس گھر کے بچے بالکے اور ملازمین اسے کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔یوں وہ میرے اور میرے اہل خانہ کی زندگی میں بہت باعزت اوردیوتا سمان انسان تھے۔ ان کے باعزت ہونے کا ایک مظاہرہ اس وقت بھی ہوا جب میں اپنی ایک پرانی وکیل دوست سے ملنے یونہی اس کے پاسپورٹ آفس کے قریب واقع دفتر میں جاپہنچا۔ان کی چائے کی دعوت بہت دنوں سے اُدھار تھی۔خاتون دوست ملیں تو بہت خندہ پیشانی سے، مگر ظالم نے پہلے پانچ منٹ تک اپنے سامنے رکھی تحریر سے نظر نہ اٹھائی ۔پنسل سے جابجا کانٹ چھانٹ کرتی رہیں۔جب میرے لیے چائے آئی تو معذرت کرکے کہنے لگی کہ’’ یار ایک کیس کا بریف تیار کررہی تھی ۔ صبح سیف الرحمن (چئیرمن احتساب بیورو ) کو دینا ہے۔ انگریزی میں کہنے لگی کہ He wants to shred some one to pieces. کچھ دیر کے بعد اس نے خودہی یہ عقدہ کھول دیا کہ’’ Someone called Zafar Altaf . A doctor of some sortsـ‘‘ (وہ کسی کے پرخچے اڑانا چاہتا ہے۔ کوئی شخص ہے ظفر الطاف ۔ایک طرح کا کوئی ڈاکٹر) اسے وکیل صاحبہ کو کیس کے محرکات اور اس کے پس پشت سندھ کے ایک کڑوے کسیلے شدید احساس کمتری اور حسد کی آگ میں سلگتے ایک افسر کی اس حوالے سے سازش کے بارے میں سمجھانے میں صرف دو منٹ لگے۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ اس انا پرست اور خود غرض ا فسر کی ظفر الطاف صاحب نے مشرقی پاکستان میں جان بچائی تھی۔ جیپ الٹنے کے باعث وہ شدید زخمی حالت میں سڑک کے کنارے پڑے تھے ۔ڈاکٹر صاحب کو اطلاع ملی تو فوراً پہنچے تھے ۔ وکیل صاحبہ نے میری وضاحت سن کر بہت آہستگی سے جتلایا کہ مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے۔اگلے ہی لمحے انہوں نے احتساب بیورو میں فون کرکے کسی افسر کو کہا کہ چیئرمین صاحب کو بتادیں ، اس کیس میں ذاتی دشمنی کا بہت غلبہ ہے وہ اس سے باز آجائیں اور اگر وہ باز نہ آئے تو وہ مقدمے میں ظفر الطاف کی جانب سے پیروی کریں گی اور اس کی وجہ سے دیگر مقدمات کا جو حال ہوگا وہ بھی سوچ لیں۔
اگلے دن جب وکیل صاحبہ سیف الرحمن سے ملیں تو بہت بحث ہوئی اور موصوف مان گئے۔اس وقت جوائنٹ سیکریٹری مرحوم قیصر علی شاہ بھی وہاں موجود تھے ۔انہوں نے بہت دن بعد ڈاکٹر صاحب کو یہ واردات سنائی تو ڈاکٹر صاحب ایک عرصے تک مجھے کریدتے رہے۔ وہ اپنے اجنبی مہربان کے بارے میں مجھ سے جاننا چاہتے تھے ع ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا
ڈاکٹر صاحب کا عام سی ایس پی افسران سے موازنہ کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور اس قبیلے پر غیر ضروری عنایت۔ ان کے ہم رکاب اور مقابلے کی دوڑ میں سبقت رکھنے والے ان افسران کی ایک خاصی بڑی تعداد اپنے ڈومیسائل اور مادری زبان کی قیدی ، ہر طرح کے تعصب میں لتھڑے ہوئے، خود غرض، لالچی ، احسان فراموش ،مصلحت پسند ،کام چور اور گریڈ کی غلام گردش میں بھٹکتی دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اﷲ نے ان تمام علتوں سے بلند اور پاک رکھا تھا ۔وہ بے حد غریب پرور، سادہ لوح ،علم دوست، محنتی اور باصلاحیت افسر تھے، کئی بین الاقوامی اداروں کے سربراہ بھی رہے ۔
کرکٹ تو خیر ان کا پہلا عشق تھا ہی اور کیسا عشق ، ایک طویل عرصے تک وہ اس کھیل سے وابستہ ہر چھوٹے بڑے عہدے پر بغیر تنخواہ کام کرتے رہے۔پاکستان کے پہلے کپتان کاردار صاحب اور عمران خان اور ڈاکٹر ظفر الطاف ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک تھے جو اس کے اسرار و رموزسے بھی خوب واقف تھے ۔ایک شام مجھے قذافی اسٹیڈیم لے گئے ۔کاردار صاحب براہ راست ان کی درخواست پر پہنچے تھے اور جاوید برکی بھی ۔30-35 بیٹسمین موجود تھے جن میں سے دو کا انتخاب کرنا تھا۔ڈاکٹر صاحب چیئرمین سلیکشن کمیٹی تھے۔کاردار صاحب نے کہا وہ ہر بیٹسمین کو صرف دو گیندیں کھیلتا دیکھ کر اپنی رائے دیں گے۔یہ کھیل ایک گھنٹہ دس منٹ تک جاری رہا۔ کاردار صاحب فرمانے لگے’’ ان میں ڈیڑھ بیٹسمن ہیں باقی ایویں ڈنگ ٹپاؤ ہیں‘‘۔جب ہم کاردار صاحب کو ان کی رہائش گاہ پر چھوڑ کر آرہے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ’’ ایک کا نام عامر سہیل ہے اور دوسرا شاہد انور۔‘‘عامر سہیل تو کافی دن دنیائے کرکٹ سے وابستہ رہے مگر شاہد انور جلد ہی فارغ ہوگئے۔
معاشیات میں دو سال کے اندر انہوں نے برمنگھم یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ انسانوں کو پہچاننے میں اپنے Judgement سے زیادہ اپنے حسن ظن پر دار و مدار رکھتے تھے۔ ان کی دسترس نفسیات پر بھی بہت تھی، اس لیے کہ وہ اس میں ایم۔ اے تھے ۔ زراعت ، بالخصوص پانی کے استعمال پر انہیں بہت علم تھا۔ اپنے علاوہ وہ اس میدان میں جنرل حمید گل مرحوم کی معلومات کے بہت قائل تھے۔اکثر کہتے تھے کہ جنرل صاحب کے خیالات اور رجحانات سے کوئی لاکھ اختلاف کرسکتا ہے مگر جس میدان میں وہ علم رکھتے ہیں وہ کمال کا ہے۔اسی طرح وہ ڈاکٹر قدیر خان کی سائنس سے متعلق یادداشت کے بھی بہت متوالے تھے ۔ایک دن کہنے لگے اس شخص کا کمال یہ ہے کہ مشکل سے مشکل سرکٹ ایک دفعہ دیکھنے کے بعد وہ ہو بہو ویسا ہی سرکٹ محض اپنی یاداشت کے سہارے دوبارہ تخلیق کرسکتے ہیں۔
ہماری پہلی ملاقات کی لباس اور تاریخ یاد ہے ۔ سرخ دھاری دار قمیص، گرے پتلون ، ایک سادہ سا کوٹ سترہ نومبر 1977ء ۔ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر براجمان تھے ہم کوئی سات افسران ان کے پاس تربیت کے لئے بھیجے گئے تھے۔خیال تھا بہت طمطراق اور دبدبہ ہوگا۔ وہاں ان کی سادگی اور الفاظ کا عالمانہ چناؤ دونوں سے بہت مایوس ہوئے۔یہ پہلا داغ داغ اجالا تھا۔جس کی وجہ سے ہمارے افسرانہ خواب چکنا چور ہوگئے۔
دو دن ڈپٹی کمشنر کے گھرکھانے پر کمشنر ملتان اور چار عدد ڈپٹی کمشنر بھی تھے۔ دال سلاد قیمہ اور پھلکے دہی کے ساتھ۔ اسی شام تھانہ کے ایس ایچ او نے بھی ان سات عدد افسران کو تھانہ معائنے کے بعدشام کی چائے پر ضد کرکے روک لیا تو تین بڑی میزوں پر اس قدر کھانے کے آئٹم تھے کہ لگتا تھا کہ اک بحر طعام سجا دیا گیا ہے ، ہر کاب ، ہر ڈش کنار تک لبریز ۔ اس فکر میں غلطاں کہ بڑے افسر ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر صاحب ہیں کہ سٹی پولیس تھانے کے عالی مقام ایس ایچ او۔ہماری رفیق کار افسر نے جب لجاتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ ’’ایس ایچ او کہ اختیارات کیا ہوتے ہیں؟‘‘ تو انسپکٹر بہادر گویا ہوئے کہ’’ انگریز بہادر نے ایک کتاب لکھی سی اجکل نہ او کتاب ملدی ا ے نہ انگریز ورگے افسر اج کل دے افسراں نوں ایدا کوئی علم نئیں کہ جس طرح سمندر دی لہراں دا کوئی شمار نئیں ہوسکدا اس طرح ایس ایچ او بہادر دے اختیارات دا وی کوئی حساب نئیں۔ــ‘‘
اس دور کی بہت یادیں ہیں۔مجھ سے انہیں اس پورے گروپ میں خصوصی انسیت اس لئے ہوگئی کہ باقی افسران تو جلد رخصت ہوگئے ان کا خیال تھا کہ ساری عمر نوکری ہی کرنی ہے تو دوران تربیت کیوں نہ مزے لوٹیں۔خاکسار کا تعلق چونکہ سندھ سے تھا، لہذا اس کے پاس وہاں قیام کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔ سب چلے گئے تو ڈاکٹر صاحب مجھے عارف والا کے کنال ریسٹ ہاؤس سے اپنے گھر لے آئے۔ اگلے دن اُنہوں نے مجھے ساہیوال جیل تین دن کے لئے بھیج دیا اُنہیں شکایت ملی تھی کہ وہاں کا عملہ جیل میں مقید خواتین کے ساتھ بہت بدسلوکی اور اُنہیں جنسی طور پر ہراساں کرتا تھا۔ بالخصوص انہیں جو طویل المدت کی قیدی یا سزائے موت کی منتظر تھیں۔ الزامات درست ثابت ہوئے تو اس رپورٹ کی بنیادپر جیل کا متعلقہ عملہ شدید عتاب کا شکار ہوا۔ ضیاء الحق کا مارشل لا تازہ تھا اور سویلین افسران کے لئے ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پر بچنا بہت محال تھا۔
پہلی ملاقات سے بہت پرے تقریباً اڑتیس سال بعد مجھے ان کی وہ آخری فون پر کی گئی، آخری گفتگو بھی یاد ہے۔میں نے ان کی آخری کتاب Economic Ground Realities کا پیش لفظ ’’Silly Midown‘‘لکھا تھا۔ کرکٹ کے حوالے سے انہیں مضمون اور عنوان دونوں ہی بہت پسند آئے تھے ۔یہ ان کا تشکر کا فون تھا ۔ دوران گفتگو وہ مجھے کراچی کے بارے میں پوچھنے لگے۔ان کا خیال تھا کہ جب تک آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ حالات کا درست ہونا مشکل ہے۔عدالتی نظام بھی بڑی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ Law of Torts بھی بڑی شد و مد سے لانا ہوگا ۔ ہتک عزت کے دعووں کے مقدمات کو جلد اور موثر انداز میں نمٹانا ہوگا۔ میڈیا پر ہر شخص مادر پدر آزاد ہوکر دوسروں کی پگڑیا ں اچھال رہا۔این بوتھم کے عمران خان نے کیسے باجے بجادئے کہ ا ب کوئی کھلاڑی دوسرے پر کم از کم انگلستان میں بیٹھ کر الزام نہیں لگا رہا ۔کم بخت کا گھر بھی بک گیا اور بیوی بھی چھوڑ گئی۔ پھر اچانک کہنے لگے یار وہ پرویز مسعود ( سابق چیف سیکرٹری پنجاب) بھی چلا گیا ، میں نے پوچھا ’’کہاں؟‘‘ کہنے لگے’’ امریکا گیا تھا بیٹیوں کے پاس، وہاں سے سیدھا اﷲ میاں کے پاس۔‘ لگتا ہے سب دوست وہاں جمع ہورہے ہیں‘
میں نے کہا ’’ سر تو پھر ہم بھی چلتے ہیں ـ‘‘
جواب ملا نہیں’’ یار تم تو چھوٹے ہو‘‘
پانچ دسمبر کو جب وہ اسلام آباد میں دم توڑ رہے تھے میں وہاں ہوتا تو انہیں جتلاتا کہ وہ بھی کوئی ایسے خاص بڑے نہیں ۔کل 74 برس ہی کے تو ہیں اور ملک الموت سے غالبؔ کے لہجے میں ضرور احتجاج کرتا کہ ع کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور!
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...