... loading ...
پاکستان بھارت میں ان دنوں مذاکرات کا غلغلہ بلند ہوا ہے۔ بھارت کے مزاج اور تاریخی رویئے کو صرفِ نظر کرتے ہوئے پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور دانشور جنتا میں بھارت سے تعلقات کی ایک عجیب و غریب ہو ک سی اُٹھی ہے۔ مگر بھارت سے کشمیر متعلق کوئی بھی بات کرنے سے قبل یہ ازبس ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ کشمیری کیا سوچتے ہیں۔ اور وہ مختلف ادوار میں اپنی تحریک آزادی کی حفاظت اور فروغ کے لئے کیا کیا قربانیاں دیتے آئے ہیں۔شیخ امین کی یہ تحریر 2010ء کے ایک واقعے کے تناظر میں ہے جس نے موجودہ تحریک آزادی کے فروغ میں بہت زیادہ حصہ لیا ہے ۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے سنگِ میل کے طور پر اس واقعے سے اُبھرتے حالات کا مطالعہ آج کی مقبوضہ وادی کے تیور سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مرضی کے بغیر مذاکرات کا غلغلہ کسی نتیجے پر پہنچا نہیں سکے گا۔۔۔(ادارہ)
کشمیری عوام کی جدوجہد سیاسی و عسکری محاذ پر جاری ہے۔کبھی اس میں تیزی آجاتی اور کبھی رفتار کم ہوجاتی ہے لیکن 11 جون 2010کو سرینگر کے راجوری علاقے میں ایک احتجاجی مظاہرے کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کی فائرنگ سے شہید ہونیوالے طفیل متو کی شہادت سے مظاہروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ اس مظاہرے کومنتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس کے گولے سیدھے مظاہرین کی طرف فائر کیے اور ایک گولہ سترہ سالہ نوجوان طفیل متو کے سر میں لگنے کی وجہ سے وہ موقع پر ہی شہید ہوا۔ طفیل کی موت کی خبر پھیلتے ہی سرینگر اور گردونواح کے علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پولیس نے کشیدگی پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر علاقے میں فوری کرفیو نافذ کر دیا۔ لیکن 12 جون کو کرفیو کے باوجودلاکھوں افراد نے احتجاجی جلوس نکالے اور اس بے رحمانہ قتل کے ذمہ دار اہلکاران کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔بھارتی سرکار کی کشمیریوں کے تئیں جو روش 47ء سے چلی آرہی ہے اسی پر عمل درآمد کرکے تحقیقات کرنے کے بجائے ،نہتے جوانوں ،بچوں اور خواتین پر بھارتی فورسز نے بندوقوں کے دہانے کھول دئیے۔اور115 اور بچوں اور بچیوں کو شہید کیا گیا۔ ریاستی جبر اور گرفتاریاں احتجاج کی اس لہر کو دبانے کی بجائے مشتعل کرنے کا باعث ثابت ہوئیں۔
تحریک آزادی کشمیرکی اس تحریک کے روح رواں بچے اور خواتین رہے جن میں غالب اکثریت کی عمریں 20 سال سے کم ہیں۔ اس تحریک میں کشمیری خواتین اور نوعمر بچوں اور بچیوں نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کی بنیاد رکھی۔انہوں نے ہر ظلم اور ہر زیادتی کے جواب میں صرف آزادی کا نعرہ لگایا۔ ایک لاکھ 90 ہزار مسلح پولیس اور نیم فوجی دستے جب کرفیو، گرفتاریوں، تشدد اور قتل و غارت کے باوجود تحریک کو کچلنے میں ناکام رہے تو بالآخر حکمران طبقے نے شکست تسلیم کرتے ہوئے 6 جولائی کو فوج طلب کر لی۔ سرینگر میں تحریک کو کچلنے کے لئے ریپڈ ایکشن فورس (Rapid Action Force ) کے 30,000 فوجی تعینات کیے گئے۔ دوسری جانب فوج کی طلبی کو نوجوانوں نے درست طور پر ریاست کی شکست اور اپنی تحریک کی فتح سمجھا۔
پوری وادی میں غیر معینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ کر دیا گیا اور تقریباً 1500 نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں بیشمار کم سن بچے بھی تھے، جن کی عمریں 13 یا 14 سال تھیں۔یہ تحریک اس لحا ظ سے پرامن انداز میں چلی کہ اس میں بچوں یا جوانوں کی طرف سے اسلحہ استعمال نہیں ہوا ،اور عسکری تنظیموں نے اپنی کارروائیاں اس سارے عرصے کے دوران معطل کیں۔تاہم ’’سی آر پی ایف ‘‘کے ترجمان کی یہ تاویل کہ پتھر مارنا بھی ایک نئی دہشت گردی ہے ،بندوق اور پتھر میں فرق نہ کرنے کی بھارتی روش کی واضح عکاس ہے۔اس عوامی تحریک کو بھارت کے اندر اور باہر سول سوسائٹی اور میڈیا نے بھارت کے خلاف کشمیریوں کی شدید نفرت کے اظہار کے مترادف قرار دیا۔
20 اگست کے روزنامہ ڈان میں کلدیپ نیئر لکھتے ہیں ’’یہ تحریک ایک حوالے سے پرتشدد بھی ہے، چونکہ احتجاج کرنیوالے نوجوان پولیس پر پتھراؤ کرتے ہیں،لیکن یہ ماضی کی پرتشدد تحریک سے مختلف اس لئے ہے کہ انہوں نے نہ تو پاکستان سے اسلحہ لیا نہ ہی ان سے انکے رابطے ہیں۔ ان روایت شکن اور غم و غصے سے بھرپور نوجوانوں کی کوئی جانی پہچانی قیادت نہیں ہے۔ تحریک کی تمام باگ ڈور نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہے، جو چیز ان کو متحد رکھے ہوئے ہے ،وہ سرینگر اور دلی کے حکمرانوں کے خلاف ان کی مشترکہ نفرت ہے‘‘
انسٹیوٹ آف پالیسی سٹیڈیزکے سربراہ پروفیسر خورشید احمد،ستمبر 2010کے ترجمان القرآن میں ،یوں بیان کرتے ہیں ـ”مزاحمت کی عسکری تحریک نے بھارتی جبر کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ البتہ اپنی حکمت عملی میں حالات اور وسائل کی روشنی میں ضروری تبدیلیاں کیں اور ایک بار پھر اوّلیت کا مقام سیاسی مزاحمت اور غیرعسکری جدوجہد نے لے لیا، اور اس طرح یہ تحریک اپنے چوتھے دور میں داخل ہوئی جس میں بندوق کے مقابلے بندوق اور گولی کے جواب میں گولی کی جگہ نعرہ، جھنڈے، ہڑتال اور پتھر نے لے لی۔
برطانوی اخبار دی گارڈین نے اس صورتحال کا 13اگست 2010کے شمارے میں اس طرح کا نقشہ کھینچا ہے۔
” بھارت مخالف مظاہرے عروج پر ہیں ۔مظاہرین آزاد مملکت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں ۔پچھلے کئی ہفتوں سے ان مظاہروں نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ان مظاہروں کو دیکھ کر اسی کی دہائی کا گمان ہوجاتا ہے ،ایسے مظاہروں کو طاقت کے بل پر نئی دہلی نے ماضی میں دبانے کی کوشش کی ،جس کے نتیجے میں نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں میں بندوق تھام لی اور بھارتی فورسز کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔”
واشنگٹن پوسٹ کی17جولائی 2010ء کے شمارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ” 11جون کو سترہ برس کے طفیل متو فورسز کی طرف سے پھینکے گئے آنسو گیس شیل کے سر میں لگنے سے موت واقع ہوئی۔فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے کشمیر میں شہید کا خطاب حاصل کرتے ہیں،اور یہ سلسلہ کشمیر میں مدتوں سے جاری ہے تاہم بہت سارے لوگوں کا کہنا ہے کہ نئی نسل نے نئے انداز اور نئے سرے سے جدوجہد شروع کی۔واضح رہے کہ کشمیری نوجوان آبادی کا 70%حصہ ہیں”
کرسچن مانیٹر نے اس انتفادہ بھارت کے خلاف نئی نسل کا اعلان جنگ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ـــ” دو مہینے سے جاری عوامی احتجاج کے نتیجے میں اور 46 لوگوں کی پولیس اور فوجی دستوں کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد پوری وادی میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے اور اس طرح پچھلے پوری وادی پنجرے میں قید ہوکے رہ گئی ہے۔مارے جانے والوں میں اکثریت 9سال سے لے کے 17سال کے بچوں کی ہے جو بھارت سے مکمل آزادی کا مطالبہ کررہے تھے۔،سری نگر میں اکثرعلاقے کرفیو کی زد میں ہیں اور بالکل قید خانے کا منظر پیش کررہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود جمعہ کو لاکھوں لوگ ،کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتے رہے”
عرب نیوز نے 16جولائی 2010ء کے شمارے میں بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ” وہ کشمیر کو وار زون نہ سمجھے ،اپنی 6لاکھ سے زائد افواج کو وہاں سے باہر نکالے،کشمیری اور پاکستانی لیڈرشپ کے ساتھ مذاکرات شروع کرے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکالے۔مذاکرات با مقصد ہوں نہ کہ روایتی مذاکرات جن کا فوٹو سیشن کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے۔یہ وہ واحد راستہ ہے ،جس سے اس بد قسمت خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے ”
معروف دانشور اور جنوبی ایشیاء و مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر یسریٰ وائی فاضلی نے “From Fire to Facebook In Kashmir” میں بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیریوں کے اس انتفادہ کا تجزیہ کچھ یوں کیا ہے۔”کشمیریوں نے گولی کا جواب پتھرسے دینا سیکھ لیا۔انہوں نے عسکریت سے پر امن مزاحمت کی طرف اپنی جدوجہد کا رخ موڑا،لیکن بھارت نے ابھی تک اپنی سابقہ پالیسی برقرار رکھتے ہوئے،اپنی طاقت کے بل پر جدوجہد دبانے کا سلسلہ جاری رکھا جو انتہائی خطرناک ہے”
تین مہینوں کے ،بغیر کسی وقفے کے احتجاجی مظاہروں اور بھارتی فورسز کی طرف سے بے تحاشا مظالم کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی بھی کوششیں کی گئیں۔معروف صحافی مرتضیٰ شبلی صحافیوں کے تئیں بھارتی جمہوری حکومت کے فوجی طریقہ حکومت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں”مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ،حکومت نے صحافیوں کے خلاف ان مظاہرون کی کوریج کو روکنے کیلئے بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا۔بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں نے کئی صحافیوں کو بری طرح سے زدو کوب کیا ،ان کے کرفیو پاسز کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔کئی اخبارات کو زبردستی بند کرایا گیا۔جولائی میں ایک موقع پر 12فوٹو جرنلسٹس جو مقامی ،قومی اور بیرونی اخبارات کیلئے کام کررہے تھے کو بری طرح مارا پیٹا گیا ،جس سے ان میں بعض صحافی شدید زخمی ہوئے۔ عوامی مظاہروں کی موجودہ لہر نے جو بغیر کسی بیرونی مدد کے جاری ہے نے بھارتی چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔بھارت لشکر طیبہ ،یا پاکستان پر جو الزامات عائد کررہا ہے،اس کی ان مظاہروں نے قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔اور یہ حقیقت بھارتی عوام بھی اب سمجھنے لگے ہیں”
معروف بھارتی مصنفہ اور انسانی حقوق کی علمبردار ارون دتی رائے اس انتفادہ کو متوقع کا میابی قرار دے رہی ہیں ۔(6-12) فروری 2012،کو تکبیرکراچی کو ایک انٹرویو میں کہتی ہیں کہ’’ 2008ء سے چند مہینے پہلے بھارتی حکام کی طرف سے یک طرفہ یہ پرو پیگنڈا اتنا موثر تھا کہ غیر جانبدار حلقے بھی یہ یقین کرچکے تھے کہ تحریک آزادی کشمیر کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔لیکن اچانک ہم نے دیکھا کہ پچھلے تین سال سے مسلسل کشمیرکے گلی کوچوں میں ایک ایسی تحریک ابھری ہے اور جو مناظر ہم نے دیکھے وہ مصر میں التحریر چوک کے ہم مشابہ ہیں ۔اور یہ مناظر اب بھی دہرائے جارہے ہیں۔فوج نے نوجوانوں پر گولیاں چلائیں۔اور پھر بھی آزادی کے جذبات تھمنے میں نہیں آرہے ہیں۔سچ تو یہی ہے کہ جدوجہد آزادی کشمیر سے وابستہ نوجوانوں کے گروہ کے گروہ اپنے اظہار کی شکل بدل بدل کر ہمارے سامنے آکر اپنا مدعا بیان کررہے ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ بہت ہی مشکل راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے لیکن ان کی جدوجہد آزادی کو اب کوئی ختم نہیں کرسکتا۔عام پڑھے لکھے بھارتی اب بہلائے نہیں جاسکتے کہ یہ جنگجو ہیں ،طالبان یا بنیاد پرست مسلمان ہیں ۔بھارت میں اٹوٹ انگ والا موقف کابھرم اب دم توڑہا ہے”
غیر جانبدار اور آزاد ذرائع کے مطابق 11جون2010سے 30ستمبر2010تک 115بچے شہید ہوئے۔3000مظاہرین زخمی ہوئے۔جن میں کئی عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے۔52طلباء اور 35سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔بھارتی ظلم و تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں اگر چہ انتفادہ کی یہ تحریک کسی حد تک کمزور ہوئی ، لیکن پوری دنیا تک یہ پیغام دینے میں کا میاب ہوئی کہ جب تک کہ مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا،کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔2008 ،2009اور 2010کی یہ تحریک بھارتی غاصبیت کے خلاف ایک پر امن تحریک جو استبداد اور جارحیت کے خلاف ایک مضبوط ترین رد عمل ہے۔اس کی جڑیں دانشورانہ شعور میں پیوست ہیں۔یہ تحریک 89-90سے اس لحاظ سے مماثلت رکھتی ہے کہ ان مظاہروں میں ہزاروں نوجوانوں کوعسکریت کے خلاف جنگ کے نام پرشہید کیا گیا ۔لیکن آج کی اس تحریک میں شامل نوجوان ایک طرف تو جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں وہیں دوسری طرف روزمرہ زندگی کے مسائل کو بھی addressکرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔دلوں میں آزادی کا جنون موجود ہے ،اور ایک معمولی چنگاری بھی اس جنون کو مشتعل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہیگی۔جہاں کل تک دلّی والے ہندوستانی عوام کو کشمیر کے بنیادی مسئلہ سے بے خبر رکھ رہے تھے وہیں اس تحریک کے نتیجے میں اس ملک سے بھی آوازیں اْٹھنے لگی ہیں، بیرونی دنیا میں بھی بڑی بڑی طاقتیں محسوس کرنے لگی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی دبے لفظوں میں ہی سہی مسئلہ کشمیر پر لب کشائی کرنے لگا ہے۔فروری 2012 ء میں کراچی میں ادبی فیسٹول میں شرکاء کی طرف سے آزادی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عالمی ایوارڈ یافتہ ناول Collaboratorsکے مصنف اور بی بی سی اردو آن لائن سروس کے سابق ایڈیٹر مرزا وحید جن کا تعلق سری نگر سے ہے نے اس حقیقت کو صرف چند الفا ظ میں یوں سمویا ہے کہ ہے کشمیر میں میر واعظ عمر فاروق،یٰسین ملک اور دیگر حریت رہنماؤں کا حلقہ اثر ضرور موجود ہے لیکن نوجوان نسل ان میں سب سے بزرگ سید علی گیلانی کے لئے ایک خاص احترام رکھتی ہے ،جو اپنے موقف پر نہایت بہادری کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس وقت جو سکوت نظر آرہا ہے یہ سکوت ایک باریک چادر ہے جو اپنی تہہ میں بھڑکتے ہوئے شعلوں کو دبائے ہوئے ہے۔جب تک کشمیری عوام کی تمناؤں کو تعبیر نصیب نہیں ہوگی ،یہ آتش فشاں کسی نہ کسی صورت پھٹتا ہی رہے گا۔اور اگر نوجوان نسل کی اس جدوجہد کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا تو پھر وہ بندوق کو ہی واحد آپشن کے طور پر دیکھیں گے ،وہ بندوق جو 90کی دہائی سے مختلف ہوگی،انہیں روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہو گا ۔2015ء نے یہ حقیقت پھر ایک بار ثابت کردی۔جوان با لعموم اور اعلیٰ تعلیمافتہ با لخصوص تیزی سے عسکریت کی طرف ما ئل ہورہے ہیں۔اور وہ اب پولیس ،بی ایس ایف اور دیگرسیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں سے دن دھاڑے ہتھیار چھین رہے ہیں اور یہ رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔دونوں ممالک کے حکمران اور عالمی برادری جان لے کہ آزادی کے بغیر کشمیر مسئلے کا کوئی حل نہیں۔اور آزادی کی تشریح معروف خاتون رہنما زمرد حبیب نے بھارت کی سابق صدر پرتیبھا پاٹل کے سامنے ان الفاظ میں بیان کی۔’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘۔ اور جب صدر ہند نے پوچھا:’’ کس قسم کی آزادی؟‘‘ تو زمرد نے جواب دیاـ’’ ویسی ہی آزادی جیسے آپ نے انگریزوں سے حاصل کی۔‘‘ یہ گفتگو ہندستانی صدر اور ایک خواتین وفد کے درمیان 29؍ستمبر2010ء کو Women’s Initiative of Peace for South Asia کے اہتمام سے ہوئی تھی ۔ بھارتی موقر جریدے فرنٹ لائن میں اس ملاقات کی رپوٹ ان الفاظ میں موجود ہے :
“ہمیں آزادی چاہیے، راشٹر پتی بھون میں ۱۲سالہ شہید وامق کی چاچی زمرودہ ملک نے سیدھے سادھے الفاظ کہہ کے صدارتی محل میں ایک ارتعاش پیدا کیا۔واضح رہے کہ 12سالہ وامق 31؍جنوری2010ء کو سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہوا تھا۔زمرودہ ملک نے پرزور اور غصیلے لہجے میں صدر پریتیبھا پاٹل سے مخاطب ہوکے کہا کہ ان کا خاندان ابھی بھی انصاف کا منتظر ہے۔ہم اپنے معصوم بچوں کا خون ۵لاکھ روپے میں نہیں بیچیں گے۔ہم صرف آزادی کے متلاشی ہیں۔اسی ملا قات کے دوران مسلم خواتین مرکز کی سربراہ زمرد حبیب جو سید علی گیلانی کی قیادت والی حریت کانفر نس کی ایک اہم رہنما ہیں نے بھی آزادی کا مطالبہ کیا ۔زمرد حبیب علیحدگی پسندوں کو فنڈزپہنچانے کے جرم میں تہاڑ جیل میں 5سال کی قید با مشقت بھی کاٹ کے آئی ہیں۔جب صدر ہند نے اسے پوچھا آزادی کا مطلب کیا ہے تو زمردہ نے جواب دیا،وہی آزادی جس آزادی کا مطالبہ آپ نے انگریزوں سے کیا تھا”۔۔۔۔۔
بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...
مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی کے رکن اور نیشنل کانفرنس کے رہنما جسٹس ریٹائرڈ حسنین مسعودی نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ جلد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کردے گی۔مقامی ویب سائٹ کو دیئے گے انٹرویو میں جسٹس حسنین مسعودی نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کشمیریو...
ترک پارلیمنٹ کے اسپیکرمصطفی سینٹوپ نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دینا ترکی کی ذمہ داری ہے ۔ ترک پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر مصطفی سینٹوپ نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ترکی اس مسئلے پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا اپنی ذمہ داری ...
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو مزید نظرانداز نہیں کر سکتا۔ مودی کے اقدامات نے کشمیریوں کی زندگی مزید اجیرن کر دی ہے ۔ اخبار نے پاکستان کی امن پسند کوششوں کو بھی سراہا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بور...
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی پوری طرح عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین دشمنی کی مثال قائم کررہا ہے،رپورٹ میں یہ چشم کشا انکشاف بھی کیاگیا ہے کہ بھارتی فوجی اس...
تاریخ گواہ ہے کہ 2002 ء میں گجرات میں سنگھ پریوار کے سادھو نریندر مودی (جو اس وقت وہاں وزیر اعلیٰ تھے) کی ہدایات کے عین مطابق کئی ہزار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ عورتوں کی عزت کو داغدار کرنے کے علاوہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے۔ ہزاروں رہائشی مکا...
سقوط ڈھاکا ہوا۔ کشمیری درد و غم میں ڈوب گئے۔ ذولفقار علی بھٹو کو سولی پر چڑھایا گیا تو کشمیری ضیاء الحق اورپاکستانی عدالتوں کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے۔ پاکستان نے ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کی تو کشمیر یوں نے کئی روز تک جشن منایا۔ جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں شہید ہوئے تو کشمیر یوں ...
مقبوضہ کشمیر میں اتوار کو مسلسل44ویں روز بھی ہڑتال ، دن ورات کرفیو اور بندشوں کا سلسلہ سختی کے ساتھ جاری رہنے کے باعث معمول کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔جبکہ شمال وجنوب میں فورسز کے ہاتھوں شبانہ چھاپوں، توڑ پھوڑ ، مارپیٹ اور گرفتاریوں کے بیچ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جار ی ر...
وزیراعظم نوازشریف نے لندن سے واپسی کے بعد بھی طبی جواز بناکر خود کو دارالحکومت اسلام آباد سے دور رکھنے اور لاہور میں قیام کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور ناگزیر حالات میں وفاقی کابینہ کا اجلاس گورنر ہاؤس لاہور میں طلب کیا۔ اگرچہ اس اجلاس میں کم وبیش 113 نکاتی ایجنڈا تھا، مگر بنیادی ط...
[caption id="attachment_38309" align="aligncenter" width="621"] وزیر خزانہ حسیب درابو[/caption] 22جون 2016ء کوجموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ جی نے علماءِ کرام اور خطباء حضرات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہو ئے کہا کہ یہ لوگ ماحولیات کے بگاڑ،سماجی بدعات اور سنگین مسائل کے خلاف ا...
آل پارٹیز حریت کا نفر نس (گیلانی)نے حکومتِ ہند کے آبادکار پنڈتوں کے لیے کمپوزٹ ٹاؤن شپ قائم کرنے کے منصوبے پر بضد رہنے کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کشمیریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے اور پنڈتوں کو سماج سے الگ تھلگ کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی او...
دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے ڈپٹی ہائی کمشنر سید حیدر شاہ اور سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری نے جموں و کشمیرلبریشن فرنٹ کے علیل چیئرمین محمد یاسین ملک سے فورٹس ہسپتال دہلی میں ملاقات کی ہے۔ہائی کمشنر نے اس موقع پر محمدیاسین ملک کو پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف کا خط بھی پہنچا...