... loading ...
مولانا روم ؒ کی حکایتوں میں چھ نابیناؤں کا ایک قصہ بھی ملتا ہے۔ ایک بار اُنہیں پتہ چلتا ہے کہ اُن کے علاقے میں ایک ہاتھی آیا ہے۔ اُنہیں ہاتھی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ اُنہیں تجسّس ہوا کہ وہ جانیں کہ آخر یہ کیسا ہوتا ہے؟چنانچہ وہ ہاتھی کے بارے میں جاننے کے لئے اُس کے پاس پہنچے۔ نابینا افراد چونکہ دیکھ نہیں سکتے لہذا لمس ہی اُن کی شناخت کا ذریعہ تھا۔ نابینا جب ہاتھی کے قریب پہنچے تو ایک نے ہاتھ بڑھا یا ، اُس کا ہاتھ ، ہاتھی کے پیٹ کو چھو رہا تھا۔اُس نے کہا کہ ہاتھی ایک دیوار کی طرح ایک مسطح کی شکل کا ہے۔ دوسرے نابینا نے ہاتھ بڑھا یا تو اس کا ہاتھ پیر کو چھونے لگا۔ اُس نے کہا یہ دیوار کی طرح کا نہیں بلکہ درخت کے تنے کی طرح ہے۔ تیسرے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے نوکیلے دانتوں پر گیا تو اُس نے کہا کہ نہیں یہ تو نیزے کی طرح ہے۔ چوتھے نابینا کا ہاتھ کان پر جانے کے باعث اُسے لگا کہ یہ پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔پانچویں نابینا کے ہاتھ میں سونڈ لگ گئی اُس نے سونڈ ٹٹول کر اعلان کیا کہ ہاتھی تو دراصل ایک موٹے سانپ کی طرح ہوتا ہے۔ اور چھٹے نے اس کی دُم پکڑ کر باقی پانچوں نابیناؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہاتھی دراصل ایک رسی کی طرح کا ہوتا ہے۔
کراچی آپریشن بھی ہاتھی کی شناخت کا آپریشن بن گیا ہے۔ مگر مولانا روم کی حکایت کے برعکس کراچی کے ہاتھی کو ٹٹولنے والے نابینا نہیں ، بلکہ عام آنکھوں سے زیادہ دور اور دیر تک دیکھنے والے ’’دیدہ ور‘‘ ہیں ، جسے چمن نے بڑی مشکل سے پیدا کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس مشکل کے باعث خود چمن مشکلات کا شکار ہوگیا ہے۔ ان دیدہ وروں کے لئے مسئلہ ہاتھی کی شناخت کا نہیں بلکہ ہاتھی کے مختلف حصوں کی پسند ناپسند کا ہے۔
کراچی میں آپریشن کسی بھی طرح خالص ومطلق اور غیر مشروط (absolute) پیرائے میں نہیں ہورہا۔ کراچی مسئلے کے تمام تعلق دار (اسٹیک ہولڈر) دراصل اپنے مفادات کے تناظر میں آپریشن کے حق اور مخالفت میں ٹکروں ٹکروں میں آراء رکھتے ہیں۔ کسی کو آپریشن کے ہاتھی کی سونڈ اچھی لگتی ہے، کسی کو اس کا پیٹ اچھا لگتا ہے، کسی کو اس کا بھاری بھرکم جثہ اچھا لگتا ہے، کسی کو ہاتھی کے کام سے زیادہ اس کا وجود بھلا لگتا ہے۔ اور کسی کو اس کے وجود کو سنبھالنا مشکل مگر اس سے کوئی کام کرانا زیادہ مفید لگتا ہے۔ یہ تمام تعلق دار رینجرز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کے بارے میں ایک مطلق اور غیر مشروط رائے کے بجائے ایک اضافی اور متعلقہ رائے (RELATIVE) رکھتے ہیں۔ چنانچہ کراچی کے تمام کے تمام تعلق دار کراچی آپریشن کے حامی بھی ہیں اور متوازی طور پر اس کے مخالف بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو وہ رینجرز قبول ہے جو ٹارگٹ کلنگ کے اُن مجرموں کی سرکوبی کرتی ہو جن کا تعلق ایم کیوایم سے ہے، یا پھر لیاری کی جتھہ بند لڑائی میں اُن کے مخالف جتھوں سے ہیں۔اُسے بھتہ خوری کے خلاف آپریشن بھی ساز گارہے۔اُسے دہشت گردی کی وارداتوں میں پکڑے جانے والے افراد چاہے گناہ گار ہو یا بے گناہ، کوئی سروکار نہیں۔ وہ اغوا برائے تاوان کی بھی ایک قسم کی سرکوبی چاہتی ہے۔ اس میں کچھ وہ گروہ بھی ہیں جن کے تار چھیڑے جائیں تو چیخیں پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کی نکلتی ہیں ، اغوا برائے تاوان کی یہ قسم پیپلزپارٹی کو گوارا نہیں۔ خوشی کی بات پیپلز پارٹی کے لئے یہ ہے کہ اس قسم کو ابھی تک رینجرز نے چھیڑا بھی نہیں۔لیکن اگر رینجرز ڈاکٹر عاصم کے پیٹ کو پرکھے ،سلطانی گواہ کے طور پر شرجیل میمن کی سونڈ حرکت میں لانے کے لئے ہنر آزمائے، عزیر بلوچ کی دُم کو ہلائے، خالد شہنشاہ کے قتل کی واردات کے حقیقی دانت دیکھنے کی کوشش کرے ، بلال شیخ پر خود کش حملے کو خود کش کے بجائے، پہلے سے گاڑی میں موجود بم دھماکے کے تناظر میں نئی تفتیش کے کان ہلائے ، تو پھر سندھ کی سائیں سرکار بدکنے لگتی ہے۔ اس کے سر پر بیٹھی دبئی سرکار گالیاں دینے پر اُتر آتی ہے۔ اتنا ہی نہیں پھر سندھ میں اچانک احساسِ محرومی کا سویا ہوا اژدھا بھوک سے جاگنے لگتا ہے۔ اچانک سندھ کو پتہ چلتا ہے کہ وفاق صوبوں میں نفاق ڈال رہا ہے۔ اچانک آئین کی روح کلام کرنے لگتی ہے۔ اچانک سندھ کے عوام کو پتہ چلتا ہے کہ اُس نے ’’شہید بھٹو اور شہید رانی‘‘ کی شکل میں کتنی قربانیاں دی ہیں۔ اور اُس کے ساتھ پتا نہیں کیا کیا جارہا ہے؟ اگر رینجرز عزیر بلوچ کی ویڈیو، ڈاکٹر عاصم کی بدعنوانیوں اور بلال شیخ کی کہانیوں کو منظر عام پر نہ لانے کا وعدہ کرے تو پھر احساسِ محرومی کے اژدہے اچانک پیٹ بھر خوراک لے کر نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی کا نغمہ بلند ہوتا ہے۔آئین کی روح شاہین کی طرح کسی اونچی پرواز پر نکل جاتی ہے۔ ’’شہید بھٹو اور شہید رانی‘‘کے اجسام ِ لافانی ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کی کھٹی ڈکار لے کر خاموشی سے گڑھی خدا بخش میں سستا نے کے لئے اُتر جاتے ہیں۔
ایم کیوایم کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ اُسے وہ رینجرز قبول ہے جودہشت گردی کے نام پر دوسروں کو نشانا بنائے۔ چاہے وہ دہشت گردی میں ملوت ہو یا نہ ہو۔ اُنہیں مالیاتی بدعنوانیوں کی ڈاکٹر عاصم کی قسم کے افراد کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں ، چاہے اس کی گنجائش قانون میں نکلتی ہو یا نہ ہو۔ اگر بڑی سرکار خوش ہے تو وہ بھی خوش ہے۔ مگر ایم کیوایم کو نشانہ کشی (ٹارگٹ کلنگ) کی کارروائیوں پر بڑے شدید تحفظات ہیں۔اُنہیں چائنا کٹنگ کی تحقیقات کا ماجراقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اُجلے دامن پر ایک داغ کی طرح لگنے لگتا ہے۔ پھر اس سے اچانک کراچی کو صوبہ بنانے کی مہم جاگتی ہے۔ پتہ نہیں کہا ں سے مہاجردیوار سے لگ جاتے ہیں۔ اچانک مکانوں والوں کو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو خانہ بدوش ہیں۔ پُرانی فائلوں کے کرم خوردہ کاغذوں پر سے لاپتہ افراد کا معاملہ اُبھرتا ہے۔ پھر مہاجروں کے ساتھ ستر اور اسی کی دہائی میں ہونے والے سلوک کی تاریخ تقاریر ، بیانات ، اور انٹرویوز کے نصاب کا حصہ بن جاتی ہے۔ اگر رینجرز چائنا کٹنگ اور نشانہ کشی(ٹارگٹ کلنگ) کے معاملات سے آنکھیں موند لے، مائنس ون (منہا الطاف) کی اندرونِ خانہ گفتگو کو ہوا نہ دے تو پھر رینجرز عاصم حسین کے ساتھ غیر قانونی سلوک بھی کرے تو گوارا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نام پر جس کو چاہے پھڑکائے، کوئی اعتراض نہیں۔تب مہاجر دیوار سے لگتے ہیں نہ لاپتہ لوگوں کے ورثاء تنگ کرتے ہیں۔
اگر کراچی آپریشن کا ہاتھی پوری طرح حرکت میں آتا ہے تو ایک دوسرے کے خلاف اقدامات گوارا کرنے والے یہ گروہ اچانک ایک ہو کر جمہوریت کی بقا اور نظام کے تحفظ کے نام پر متحد ہو جاتے ہیں۔ پھر ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان کا فاصلہ بھی مٹنے لگتا ہے۔ مولانا روم کی حکایت میں موجود ہاتھی کو شناخت کرنے والے نابینا تھے ۔ مگر کراچی آپریشن کے ہاتھی کوسمجھنے والے نابینا نہیں بلکہ زیادہ دیکھتے ہیں ۔ اسی لئے وہ ہاتھی کو بھی اونٹ کی کروٹ بٹھا دیتے ہیں۔ ہاتھی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ رہا ہے بس دیکھتے جائیں!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...
کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...
بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...