... loading ...
ابہامات اور طویل بے چینی و بے قراری کے بعد آخر کارزہری قبیلے کے سربراہ اور چیف آف جھالاوان نواب ثناء اﷲ زہری نے بلوچستان کی کمان سنبھال لی۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی اڑھائی سال کی مدت ختم ہوئی۔ اندیشوں میں مزید اضافہ تب ہوا جب اقتدار کے ایوانوں سے نکلی باتیں محو گردش تھیں، کہ اول تو ڈاکٹر عبدالمالک کو اگلی مدت بھی دی جائے گی یا فیصلہ چھ ماہ بعد کیا جائے گا لیکن ان باتوں کو سر مو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاتھا ۔در و دیوار کے پیچھے کچھ نہ کچھ کھچڑی تو پک ہی رہی تھی ۔ خلا ف توقع10دسمبر2015ء کو وزیراعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں بیٹھک لگ گئی اور مری معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنایا گیا۔ اس فیصلے نے سیاسی افرا تفری جو مسلم لیگ ن کے اندر یقینی تھی، کا در بند کردیا ۔ نواب زہری وزارت اعلیٰ کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کے میزبان نے مجھ سے تجزیہ مانگا ، پوچھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور نواب زہری میں کیا فرق ہے اور کیا تبدیلی آئے گی۔ میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا وزیراعلیٰ تھا ۔ان تک رسائی قدرے آسان تھی جبکہ ثناء اﷲ زہری ایک نواب ہیں ،عوام سے فاصلہ البتہ ہو گا ۔ رہی بات تبدیلی کی تو حکومت کی گاڑی اُسی طرح چلتی رہے گی جیسے گزشتہ اڑھائی سالوں میں چلتی رہی۔ البتہ نواب زہری جلا وطن بلوچ رہنماؤں سے بات چیت بہتر طور پربڑھا سکتے ہیں۔ تین جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت آئندہ بھی قائم رہے گی۔ مسلم لیگ قائداعظم اپنے پانچ ارکان کے ساتھ گویا مسلم لیگ نواز کی اتحادی ہے اور حکومت میں شامل ہے۔ کوئی بڑی اور جوہری تبدیلی نہ پہلے اور نہ ہی آئندہ اڑھائی سالوں میں آنے کا امکان ہے ۔دراصل اہمیت اس مری معاہدے کی تھی ۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا اول روز سے قائل اور متمنی تھا کہ جو عہد ہے اس کو عملی صورت دینا ضروری ہے۔ اگر چہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا، مگر بعض فیصلوں اور معاہدوں سے نگاہ چرانے کے منفی اثرات سامنے آجاتے ہیں ۔ میاں نواز شریف نے سردار اختر مینگل کی حکومت گرانے پر تاسف کا اظہار کیا۔ اپنی اس حرکت کو غلطی تسلیم کیا ۔ چنانچہ اگر مری معاہدہ سبوتاژ ہوتا تو لا محالہ مسلم لیگ کو بلوچستان میں مشکلات کا سامنا ہوتا۔ لشکری رئیسانی پہلے ہی علیحدہ ہوگئے ہیں۔
نواب زہری سخت مزاج کا شہرہ تو رکھتے ہیں ،مگر سیاست کے طویل تجربے نے بہت کچھ سکھایا بھی ہے۔ فرزند، بھائی اور بھتیجے کے قتل کے مقدمے میں نامزد نواب خیر بخش مری، سردارعطاء اﷲ مینگل اور سردار اختر مینگل کے نام واپس لے لئے ۔چند دن قبل محمود خان اچکزئی سے ملاقات کی ۔ یہ اشارے ثابت کرتے ہیں کہ آئندہ وہ ایک معاملہ فہم سیاسی اور عوامی قائد کے طور پر اپنی شناخت قائم کریں گے۔نیشنل پارٹی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے پاس اب بھی اڑھائی سال کا عرصہ ہے۔ اس مدت میں اچھی حکمرانی کی نمایاں مثالیں قائم کرنا ممکن ہر گز نہیں ہے۔ پچھلے اڑھائی سال اتحادیوں کے درمیان تلخیوں میں گزرے ۔ نواب زہری کو سیاست ورثہ میں ملی ہے ۔ ان کے والد سردار دودا خان زہری مغربی پاکستان اسمبلی اور مجلس شوریٰ کے رکن ،معروف قبائلی شخصیت تھے۔ نانا نواب نوروز خان نے ایوبی دور میں مسلح مزاحمت کی ، گرفتار ہوئے اور جیل میں ہی انتقال کر گئے۔ بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسیاں ہوگئیں۔ نواب زہری کے سوتیلے بھائی میر اسرار زہری بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے سربراہ ہیں۔ دوسرے بھائی ظفر زہری بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں ۔ تاہم بھائیوں میں نہ صرف قربت کی کمی ہے بلکہ ترجیحات میں بعد المشرقین ہیں۔ ایک بھائی نعمت اﷲ زہری مارچ2015ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ نواب زہری نے سیاسی سفر کا آغاز اسی کی دہائی کے آخر میں میر غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی سے کیا،بزنجو ملک گیر اور قومی سیاست کے قائل تھے۔ زہری1990اور1993میں مسلسل دو مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزیر بلدیات کا قلمدان سنبھالا ۔1997سے مارچ2000تک سینیٹ کے ممبر رہے۔ پرویزمشرف کے کرائے گئے2002کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر تیسری مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، وزارت ملی ۔ اس اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کامنصب میر جام یوسف مرحوم کے پاس تھا اور پانچ سال کی مدت پوری کرلی۔ یہ دور بلوچستان میں بے چینی کا تھا۔ نواب زہری کے پاس جیل خانہ جات اور قبائلی امور کا قلمدان تھا۔ بوجوہ وزارت سے مستعفی ہوگئے۔ اکتوبر2003میں جب بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچستان نیشنل موومنٹ باہم ضم ہوگئیں،تو نیشنل پارٹی کے نام سے نئی قائم ہونے والی جماعت میں بھی نواب زہری شامل تھے اور سینئر نائب صدر کے عہدے پر کام کیا۔ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ نے2008کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ چونکہ مقاطعہ کے اس فیصلے میں نیشنل پارٹی شامل تھی چنانچہ نواب زہری نے پارٹی فیصلے سے اختلاف کیا اورعلیحدگی اختیار کرکے نیشنل پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے اپنی جماعت قائم کرلی ۔انتخابات میں حصہ لیکر خضدار سے بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔ نواب رئیسانی کی حکومت میں تاوقت گورنر راج، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی وزارت ساتھ رہی۔ میاں برداران سعودی عرب سے پاکستان پہنچے تو مسلم لیگ کو دوبارہ سے منظم کیا۔ جنوری2010 میں نواب زہری مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے ۔ یہ دور بلوچستان میں ابتری اور بدامنی کا تھا ۔ حالات کے اس آشوب میں مسلم لیگ میں بحیثیت صوبائی صدر سرگرم ہوئے۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے بھر پور حصہ لیا۔ بلوچستان میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ کئی آزاد ارکان کو شامل کرایا۔ قائداعظم لیگ کے ارکان کو ہمنوا بنایا۔ الیکشن مہم کے دوران نواب زہری کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ ہوا ۔ جواں سال بیٹا ، بھائی اور بھتیجا جاں بحق ہوگئے۔ یہ صدمہ شدید تھا۔ بلوچستان کے ناخوشگوار اور پرتکلیف سانحات میں سے ایک سانحہ یہ بھی ہے ۔پانچ مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن اور اتنی ہی مرتبہ وزیر رہ چکے ہیں۔ گویا اسمبلی کی تاریخ اور کارروائی حافظہ میں محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔10دسمبر2015ء کے اجلاس (جس میں مری معاہدے کی پاسداری کی گئی ہے) میں میاں نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد، وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق، وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید شامل تھے۔ میاں نواز شریف نے اس سے قبل ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، نیشنل پارٹی کے صدر میاں حاصل بزنجواور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ملاقا ت کی تھی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے23سے29اپریل تک چین کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کے قائد تھے۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی اور وفاقی سیکرٹری مواص...