... loading ...
اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات اور پیش رفت کو آئندہ مذاکرات میں پیش نظر رکھاجائے گا بلکہ کچھ نئے اُموریا مسائل کو بھی زیر بحث لایاجائے گا ۔چنانچہ اب جو مذاکرات ہونے جارہے ہیں انہیں جامع دوطرفہ مذاکرات کا عنوان دیا گیاہے۔
اگرچہ ابھی سیکرٹری خارجہ کے مابین مذاکرات شروع ہوں گے جو مختلف امور پر ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات اور تاریخیں طے کریں گے لیکن غالب امکان ہے کہ اگلے برس ستمبر میں جب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائیں گے تو اس وقت تک کچھ مسائل پر کافی پیش رفت ہوچکی ہوگی تاکہ مودی اور نوازشریف کوئی معاہد ہ کرسکیں۔
مذاکرات کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ دونوں ممالک نے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر ایک طرح کا سرکاری لیکن عملاً خفیہ سفارت کاری کا ایک نظام کار بھی طے کردیا ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں حساس موضوعات بالخصوص دہشت گردی کے معاملات پر قومی سلامتی کے مشیروں کوبات چیت جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔مسئلہ کشمیر پوری طرح مذاکرات کا حصہ ہے اس طرح دونوں حکومتوں کو کوئی سبکی نہیں اٹھانا پڑی۔زبردست سفارتی مہارت سے دونوں ممالک کے خدشات اور تحفظات کو مشترکہ اعلامیہ میں جگہ دی گئی۔
اس وقت پاکستان اور بھارت میں مذاکرات کو کسی سمت لے جانے کے لیے ایک آئیڈیل نظام موجود ہے جس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ کو عسکری لیڈرشپ میں غیرمعمولی صلاحیتوں اور اعتماد کی حامل شخصیت تصورکیا جاتاہے۔وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام کے صدر رہے اور پھر بلوچستان میں جنوبی کور کی دوسال تک سربراہی کر چکے ہیں۔سیاستدانوں کے ساتھ کام کا انہیں خوب تجربہ ہے اور دانشورانہ تبادلہ خیال اور شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے میں عسکری لیڈرشپ کو سب سے زیادہ اندیشے رہتے ہیں اور وہ سیاستدانوں کے فہم وفراست پر کم ہی اعتماد کرتی ہے۔اس پس منظر میں جناب ناصر جنجوعہ کی بطور سلامتی کے مشیر کے تقرری ایک صائب قدم ہے۔وہ سویلین حکومت اور عسکری قیادت کے مابین اسٹریٹیجک امور پر پل کا کردار اداکرسکتے ہیں۔علاوہ ازیں چونکہ وہ ایک ذہین اور دوراندیش شخصیت ہیں لہٰذا ان سے یہ بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ محض روایتی حساب کتاب میں قید ہونے کے بجائے نئے آئیدیاز پر کام کریں گے تاکہ پاک بھارت تعلقات کے بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی پیش رفت ہوسکے ۔ جنرل ناصر جنجوعہ کے بھارتی ہم منصب اجیت ڈول کا تعلق بھی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہے۔وہ سخت گیر لیکن نتائج پیدا کرنے سے دلچسپی رکھے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اگرچہ حالیہ چند ماہ میں انہوں نے پاکستان کے خلاف کافی منفی گفتگو کی ہے لیکن وہ وزیراعظم مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے حقیقی نمائندے تصور کئے جاتے ہیں۔
یہ کہاجاسکتاہے کہ دونوں ممالک کی موجودہ لیڈرشپ پاک بھارت مسائل کے حل میں نمایاں بہتری لانے کی پوزیشن میں ہے۔پاکستان میں ایک بھی ایسی بڑی سیاسی جماعت نہیں جو پاک بھارت تعلقا ت میں بہتری کی مخالف ہو۔بھارت کی حزب اختلاف کی قیادت بالخصوص کانگریس بھی پیش رفت کی حامی ہے۔حال ہی میں سابق کانگریسی رہنما سلیمان خورشید نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور وزیراعظم نوازشریف کی کوششوں کو سراہا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو پاکستان سے تعلقات میں کشیدگی کا ذمہ دار قراردیا۔
مسلسل فروغ پزیر انتہا پسندی، دہلی کے بعد بہار کے الیکشن میں شکست اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک میں پیدا ہونے والی تیزی نے بھی مودی سرکار کو اپنے رویہ پر نظر ثانی پر مجبور کیا ہے۔علاوہ ازیں انہیں توقع تھی کہ بھارت کے بے لچک رویہ سے پاکستان خوف زدہ ہوجائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔پاکستان میں زیادہ اتحاد اور یکجہتی پیدا ہوئی۔شورش پسندوں کے جاری آپریشن میں زبردست کامیابیاں ملیں اور داخلی طور پر پاکستان مستحکم ہوتاگیا۔
بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اورتناؤ میں کمی پاکستان کے اپنے حق میں ہے۔اس طرح پاکستان کو داخلی معاملات سدھارنے کا موقع ملتاہے۔بلوچستان میں شدت پسندوں کو ملنے والی بیرونی آشیر باد میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔قبائلی علاقہ جات اور کراچی میں جاری تخریبی کارروائیوں میں بھی جو بیرونی ہاتھ ہے وہ مذاکراتی عمل کے دوران کم ازکم وقتی طور پر ہی حمایت سے دستکش ہوجاتا ہے۔
افغانستان بھی ایک ایسا مدعا ہے جہاں دونوں ممالک کو تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیاجاسکے۔آج کل عالم یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔نتیجتاً افغانستان میں سیاسی اور سماجی استحکام پید انہیں ہورہا جس کے منفی اثرات پورے خطے پر مرتب ہوتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنے سے پاکستان میں جمہوری اداروں میں بھی استحکام پیدا ہونا شروع ہوجاتاہے۔منتخب حکومت کے اختیارات اور طاقت میں نمایاں اضافہ ہوجاتاہے۔بجٹ کا بڑا حصہ ترقیاتی کاموں اور انسانی وسائل کی ترقی پر خرچ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔دوسری صورت میں وسائل کا بہت بڑا حصہ محض امن وامان برقرار رکھنے پر خرچ ہوتاہے۔گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ جناب حفیظ الرحمان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حیرت انگیز اور دردناک انکشاف کیا کہ گلگت بلتستان میں امن وامان کو برقرار رکھنے پر سالانہ بارہ ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔پیش نظر رہے کہ اس علاقے کا کل بجٹ اکتیس ارب روپے ہے۔یہی حال باقی علاقوں کا بھی ہے۔یہ وہ اخراجات ہیں جو فوج کے مستقل اخراجات کے علاوہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔پاکستان اور بھارت کے مابین ماضی میں ہونے والے مذاکرات میں کئی ایک مشکل مسائل پر معقول حد تک پیش رفت ہوچکی ہے۔سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے
Neither a hawk nor a doveکے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں ان نکات کی وضاحت کی ہے جن پر دونوں ممالک مفاہمت کے قریب پہنچ چکے تھے۔اسی مفاہمت کی بنیاد پر دونوں ممالک مذاکرات کی میز سجا سکتے ہیں او رتیزی سے پیش رفت کرسکتے ہیں۔
دونوں ممالک کو جامع مذاکرات کی کامیابی کے لیے موجودہ کشیدہ ماحول سے باہر نکلنا ہوگا جو کہ کوئی سہل کام نہیں۔عالمی برادری ، پاکستان اور بھارت کے اندر موجود اعتدال پسند عناصر اور شخصیات کو دونوں ممالک کی مدد کرنا ہوگی تا کہ وہ کشیدگی اور محاذ آرائی سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرسکیں۔
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
پاکستان کے چار روزہ دورے پر آئے امریکی وفد کے سربراہ جان مکین نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کردار کی تعریف کرتے ہوئےشمالی وزیرستان اور اس کے اطراف کے علاقوں کی سلامتی کی صورت حال کو اطمینا ن بخش قرار دیا ہے۔امریکی سینیٹر جان مک کین نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سیاسی و عسکری قیاد...
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پاکستان میں انتہائی متنازع حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے نوازشریف کی حکومت مسلسل خارجہ پالیسی کی ناکامیوں پر تنقید کی زد میں ہے۔انتہائی اہم عالمی واقعات کے ہنگام پاکستان ایک مستقل وزیر خارجہ سے محروم ہے۔ جبکہ ایک مشیر...
بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے اپنی سفارتی ناکامی کو چھپاتے ہوئے مودی حکومت کی دوسالہ کارکردگی پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نیوکلئیر سپلائر گروپ میں پاکستان سمیت کسی ملک کی شمولیت کی مخالفت نہیں کرے گا۔ سشما سوراج نے امید ظاہر کی کہ بھارت رواں برس کے اختتام تک نیوکل...
پاکستان کی سیاسی حکومت بھارت سے ہرقیمت پر مذاکرات کی خواہاں دکھائی دیتی ہے، اس کے لیے حکومت نے بھارت کی پاکستان میں عریاں مداخلت پر بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کرنے سے گریز کیا تاکہ مذاکرات کا ماحول خراب نہ ہو ں۔ یہاں تک کہ را ایجنٹ کل بھوشن کی گرفتاری پر بھی نواز حکومت نے زیادہ لب...
پٹھان کوٹ حملہ کے بعد موخر ہونے والی پاک-بھارت خارجہ سیکریٹریز ملاقات اگلے ماہ متوقع ہے۔ پاکستان اور بھارت کے امن مذاکرات کا عمل دو سال قبل لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔ لیکن چند ماہ قبل پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی پیر...
پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کے بعد بھارت کی جانب سے جو معلومات پاکستان کو مہیا کی گئی تھی، وہ کسی بھی اقدام کے لئے انتہائی ناکافی اور نامکمل تھیں ۔ وجود ڈاٹ کام کو انتہائی ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو فون کے بعد اُنہو...
پاک-بھارت تعلقات کی فوری بحالی کی امید پیدا ہوتے ہی پٹھان کوٹ حملے نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذاکراتی عمل سے فرار کی راہ دکھا دی ہے۔ بھارت نے کل یعنی جمعے سے شروع ہونے والے مذاکرات ملتوی کردیے ہیں اور ان کی کوئی آئندہ تاریخ بھی نہیں تھی۔ گزشتہ ماہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مود...
چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے ق...
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...
رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...
پاکستان کے جو ہری پروگرام اور بھارتی جوہری پروگرام کے حوالے سے مختلف پہلو مسلسل بے نقاب ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تازہ ترین انکشاف اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل سفیر ضمیر اکرم کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے امریکی دباؤ میں کس طرح بھا...