... loading ...
کیا یہ قلبِ ایشیا (ہارٹ آف ایشیا) کانفرنس تھی یا پاک بھارت تعلقات کا منڈوا؟ آدمی حیران ہو جاتا ہے جب وہ ان حیا باختہ لوگوں کی قومی کردار پر دست درازی دیکھتے ہیں۔ ہمیں تب اُبکائی آتی ہے جب یہ جانتے ہیں کہ گزشتہ برس یہی کانفرنس ترکی میں منعقد ہوئی تو ہم ترکی سے اس پر احتجاج کر رہے تھے کہ اس میں بھارت کیوں مدعو ہے؟ آج یہی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کی گئی تو اس کا واحد مقصد سشماسوراج جیسی انتہا پسند خاتون کی دلداری بن کر رہ گیا۔
وزیراعظم نے رسان سے فرمایا کہ ایشائے قلب کانفرنس کا تصور علامہ اقبال کی فکر سے لیا گیا ہے۔ کیا واقعی یہ تصورِ اقبال کا نتیجہ ہے۔ افغانستان ایک اور طرح کا ملک ہے۔ نوازشریف تو بہت دور کی بات ہے اشرف غنی بھی بنیادی حقائق نظر انداز کرنے پر تُلے ہیں۔ افغانستان تاریخ کی آنکھ سے نہیں دیکھتا، یہ تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ زیادہ جانتے تھے۔ اللہ اُن کی قبر کو نور سے بھر دے۔ علامہ اقبال نے۱۹۲۸ء میں ایک مضمون خوشحال خان خٹک پر انگریزی میں تحریر کیا تھا۔ اس کا عنوان پورے مضمون کو بیان کردیتا ہے کہ ’’خوشحال خان خٹک ایک افغان مجاہد شاعر‘‘۔خوشحال خان خٹک مغل بادشاہ کے ہاتھوں ہندوستان میں نظر بند ہوئے تھے، ایک ایسے ملک میں جس سے افغان کہساروں میں ایک فطری غیریت موجود ہے۔ اقبال نے اپنے مضمون میں خوشحال خان کے اشعار کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ مضمون بتاتا ہے کہ خوشحال خان نے فرمایا :
’’جب ہندوستان میں پہاڑوں کا وہ ٹھنڈا شیریں پانی نہیں ملتا تو میری اس سے توبہ! خواہ یہ دنیا کی باقی تمام نعمتوں سے بھی بھرپور ہو۔‘‘
خوشحال خان خٹک نے ادبی پیرایہ اختیار کیا۔ افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی قسم کی مخلوق پیدا کرتے رہیں جو عالمی طاقتوں کے زیراثر بھارت سے تعلقات کے لئے دن کو رات کرتے رہیں۔ مگر ہوائیں اپنے ہی رخ پر بہتی ہیں ۔ اور پانی کا ذائقہ اس کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ پاکستان ابھی تک بھارت کے افغانستان میں کسی نوع کے کردار کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ اب بھارتی وزیرخارجہ اپنی ہتھیلی پر معلوم نہیں کیا سجا کر آئی تھی کہ اُس کا یہ مطالبہ بھی گوارا ہے کہ افغانستان سے تجارت کے لئے پاکستان زمینی راستہ دے۔ پاکستان کا معلوم نہیں مگر حضرت علامہ کے مضمون میں خوشحال خان خٹک کے کچھ اشعار کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے کہ
’’دنیا کی دولت اگر اچھی ہے، تو عزت اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور پھر عصمت و صداقت تو عزت وتوقیر سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ انسان کو غم سے نجات دلانے والی شے کوئی اور نہیں قناعت ہے۔ــ‘‘
حضرت علامہ اقبالؒ کو خوشحال خان خٹک کیوں پسند آئے تھے؟ شاید اُنہوں نے کبھی لسی نہ پی ہو، اُن کی فکر میں پیٹ نہیں عزت بولتی ہے، وہ افغانوں اور پشتونوں کے انفرادی اور اجتماعی کردار کی ترجمانی فرماتے ہیں۔ میاں نوازشریف تو بہت دورلسّی پی کر کہیں غنودہ کھڑے ہیں ، مگر اشرف غنی بھی اس قطار میں نہیں آتے۔ ایک عجیب بات کانفرنس میں افغان صدر نے کہی: ’’افغانستان میں تنازع کا پہلا سبب دہشت گرد گروپ ہیں۔ جو خطے اور بین الاقوامی برادری کے لئے بھی بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
عجیب بات یہ ہے کہ افغان صدر جنہیں دہشت گرد گروپ کہہ رہے ہیں وہ خود کو افغان عوام کااور افغانستان کا جائز وارث سمجھتے ہیں۔ اشرف غنی کی اس سے مراد طالبان اور افغانستان میں امریکا اور اُن کی حکومت سے نبر دآزما گروہ ہیں۔ ایک موقف طالبان کا بھی ہے۔وہ مسائل کے حل اور قیام امن کے لئے سب سے پہلے افغان سرزمین سے بیرونی قوتوں کا غیر مشروط اخراج چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کابل انتظامیہ اُن ہی قوتوں کے رحم وکرم پر ہے۔ دراصل تنازع کا بنیادی سبب یہ ہے۔ طالبان کے پاس اپنی ہی سرزمین پر مسلح جدوجہد کا جواز یہیں سے آتا ہے۔خوشحال خان خٹک نے افغان قوم کے کچھ عیوب و نقائص بھی بیان کئے ہیں ، پھر یہ بھی کہا ہے کہ
’’اے خوشحال! پھر بھی مقام شکر ہے کہ یہ غلام نہیں ، آزاد ہیں۔‘‘
افغانوں کا قومی کردار اِسی تصور سے تشکیل پاتا ہے۔ خود علامہ نے جاوید نامہ میں اس کی تشریح کردی، اور ایک نہیں دو کردار واضح کئے۔ علامہ زیادہ جانتے تھے۔ تب ہی اُنہوں نے خوشحال خان خٹک سے ماخوذ اشعار سے ایک کردار کی وضاحت کی:
’’وہ افغان قوم کا حکیم تھا اُس نے یہ راز بے خوفی سے افشا کیا کہ اگر آزاد افغان ایک اونٹ موتیوں کے انبار اور قیمتی سازو سامان کے ساتھ پالیتا ہے ، تو اپنی پستی سے موتیوں کے ڈھیر میں سے اونٹ کی گھنٹی پر بھی خوش ہو جاتا ہے۔‘‘
پھر آگے احمد شاہ ابدالی ہیں جو دوسرے کردار کی وضاحت کرتے ہیں۔ یہ کردار ایک ایسے تصور کے بطن سے جنم لیتا ہے جو علاقوں کی تفہیم اور شناخت کے تناظر سے نہیں بلکہ ملت کے مفہوم میں زندگی کرتا ہے۔ یہ کردار اپنے بچپن کے پہلے پنگھوڑے میں ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘ کی لوری سنتا ہے۔ پھر احمد شاہ ابدالی کی زبان اِسے ایک نغمہ بناتی ہے، وہی نغمہ جس میں مسلم ایشیا کے اتحاد کا پیغام ہے۔ اسی میں لاہور تا سمرقند و بخارا پر محیط زندہ و فعال ملتِ اسلامیہ کا محل وقوع موجود ہے۔ جی ہاں! ’’پیکر ایشیا کا دل‘‘بھی اسی مفہوم سے عبارت ہے۔جسے علامہ نے احمد شاہ ابدالی کی مستعار زبان سے یوں ادا کیا۔
(اگر ایشیا ایک جسم کی مانند ہے تو افغان قوم اُس کے دل کی مانند ہے۔ اس کے بگاڑ سے ایشیا کا بگاڑ ہے۔ اور اس کی خوش حالی سے ایشیا کی خوش حالی ہے۔جب تک دل آزاد ہے تن آزاد ہے ورنہ جسم ہوا کی راہ کا محض ایک تنکا ہے)
دونوں ہی کردار سامنے ہیں۔ قلبِ ایشیا کانفرنس اقبال کے تصور کے نام پر ہو سکتی ہے ،مگر اس کے تصور کے عین مطابق نہیں۔ اقبال کا تصور اشرف غنی اور نوازشریف کی قلب ایشیا کانفرنس کے لئے شاید سازگار نہ ہو۔البتہ اس کی لسّی شاندار ہو سکتی ہے۔
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...
2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...
سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...
٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...
عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...
یہ آج سے تقریباً دو سو ٗ سوا دو سو سال قبل انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے کہ کشمیری برہمنوں کے ایک خاندان نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت سے اس خاندان میں تقویٰ و طہارت اور خشیت و للہیت کا رنگ غالب ہوگیا تھا۔اسلام قبول کرنے کے بعد کشمیری بر ہم...
پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے اہم مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...