... loading ...
ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے بھی نئے خریدار بن نہیں رہے ۔ بتانے لگا کہ کسی زمانے میں انگریزی کی ریڈرز ڈائجسٹ دُکان پر دو سوکے لگ بھگ آتی اور ہاتھوں ہاتھ نکل جاتیں۔ طلبہ اورکم آمدنی والے نوجوان پرانے شمار ے سستے داموں فراہم کرنے کی درخواست کرتے۔ اب محض پچا س کاپیاں آتی ہیں اورہفتوں پڑی رہتی ہیں۔ ان کے خریدار وں میں نوجوانوں کی تعداد اکادکا ہے۔ استفسار کیا کہ نوجوان کیا خریدتے ہیں؟کہنے لگا کہ کھیلوں ، فیشن اور میک اپ والے رسائل اور جرائد نوجوان مردوں اور عورتوں میں مقبول ہیں۔ بچوں کے انگریزی ناول مثال کے طور پر Dairy of a Wimpy kid کچھ نہ کچھ نکل جاتے ہیں۔ شہرہ آفاق ادیب نسیم حجازی کے ناول، جن کے سحر میں کئی نسلیں گرفتار رہیں، کا اب کوئی خریدار نہیں۔
یا د آیا کہ کوئی گیارہ برس پہلے انٹرنیشنل ویزیٹر پروگرام میں امریکا کی چھ سات ریاستوں کی یاترا کا موقع ملا۔ پروگرام کے اختتام پر ایک ہفتہ پھوپھی زاد بھائی ڈاکٹر عاشق حسین کے ہاں قیام کیا۔ ان کے دونوں بچے چھٹی کے دن مسلسل کتابیں پڑھتے ۔ اسفند نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے ایک کتاب ختم کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ یہاں یہ معمول کی بات ہے۔ ہفتے کے دن والدین بچوں کو خود کتب خانوں میں لے کرجاتے ہیں۔ حکومت اور معاشرے کتب بینی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اس مشاہدے سے متاثر ہوکر اس طالب علم نے بھی اپنے بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی جو کہ کافی محنت طلب کام نکلا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کہانیاں پڑھیں ‘کتابیں خریدیں ۔ بچوں کے ساتھ کتب بینی کے تجربے سے یہ خیال مزید پختہ ہوا کہ انہیں انگریزی نہیں اردو پڑھانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ انگریزی تو وہ اسکول سے بھی سیکھ لیتے ہیں لیکن شستہ اردو سکھانے کا کوئی اہتمام نہیں۔
یاد آیا کہ برطانیا میں آباد میرپوریوں نے بچوں کو میرپوری اور انگریزی تو سکھادی لیکن اردو نہ سکھا پائے۔ پاکستان آتے ہیں تو گونگے بن جاتے ہیں کہ یہاں انگریزی کا چلن عام نہیں اور منگلا ڈیم سے پرے میرپوری بولی اجنبی ہے۔ انہوں نے اردو سیکھی ہوتی تو پاکستان ہی نہیں بھارت کے شہریوں سے بھی تبادلہ خیال کرسکتے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مادری زبان نہ سکھائی جائے۔ دھرتی ماں سے محبت تو ہماری گھٹی میں پڑی ہے لیکن کبھی کبھی مستقبل میں بھی تانک جھانک کرنی چاہیے۔
کتاب گھر والے عبدالشکور بتارہے تھے کہ کتابوں کی مانگ بھی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ اچھے لکھنے والے اپنی کتابیں بھارتی ناشروں سے چھپواتے ہیں۔ رائلٹی بھی معقول ملتی ہے اور وہ کتاب کی تشہیر بھی کمال کی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل خورشید محمود قصوری نے بھارت سے اپنی کتاب چھپوائی۔ بے شمار دوسرے مصنفین بھی بھارتی ناشرین کی جانب راغب ہورہے ہیں۔
کیوں نہ ہوں!چند دن قبل 100لفظوں کی ایک کہانی کے مصنف مبشر علی زیدی نے مصنفین کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا نوحہ رقم کیا۔ لکھتے ہیں: کتب فروش ہر کتاب آدھی قیمت پر خریدتے ہیں۔ 250 روپے کی کتاب 125 روپے میں لیتے ہیں۔ خریدار کو رعایت نہ دیں تو 125 روپے کماتے ہیں۔ چنانچہ بک ڈسٹری بیوٹر 40 فیصد پر پبلشر سے کتاب لیتا ہے۔ 50 فیصد پر بک سیلر کو دیتا ہے۔ 250 روپے کی کتاب ڈسٹری بیوٹر نے 100 روپے میں لی اور کتب فروش کو 125 روپے میں بیچ دی۔ پبلشر کی خفیہ رسیدیں دیکھ کر بتارہا ہوں کہ ’’100 لفظوں کی کہانی‘‘ نام کے پروجیکٹ میں کمپوزنگ، پیج سیٹنگ، پروف ریڈنگ، ٹائٹل بنوائی، 70 گرام کے انڈونیشیائی کاغذ اور پریس میں کتاب چھپائی پر ایک لاکھ دس ہزار روپے خرچ ہوئے ۔ یعنی ایک کاپی کتاب چھاپنے والے کو ایک سو دس روپے کی پڑی۔ اس نے ایک سو روپے میں ڈسٹری بیوٹر کے سپرد کی۔ کتنے پیسے کمائے؟یہ ہے حال اس قوم کا جو اکثر اپنی صبح کا آغاز ان آیات کریمہ کی تلاوت سے کرتی ہے: پڑھ اپنے پرودگار کے نام سے جس نے عالم کو پیداکیا۔
چند برس ہوئے‘ سپر مارکیٹ میں پرانے مسٹر بکس کے عقب میں کتابوں کی ایک شاندار دُکان کا افتتاح ہوا لیکن ایک سال کے اندر ہی درسی کتب اور سی ڈیز فروخت کرنا شروع ہوگئے۔ ایک دن ادھر سے گزر ہوا تو پوچھا کہ کتابوں سے دامن جھاڑ کرسی ڈیز اور کمپیوٹر کی اشیا (accessories) فروخت کرنے کاماجرا کیا ہے؟ افسردہ سی شکل بنا کر کہنے لگا کہ بھائی کتاب وہ جنس ہے جس کا اس بازار میں خریدار ہی نہیں۔
اسی کی دہائی کے آخری چند سال اس خاکسار کے کراچی میں بیتے۔ ہر پیر وجوان کو کتابوں کا رسیا پایا۔ نوجوان کے پاس ایک نہیں دو دو لائبریریوں کے کارڈ ہوتے۔ ملاقات کرنے اور گپ بازی کے لیے بھی نوجوان لائبریری کا ہی انتخاب کرتے۔ اکثر لیاقت میموریل لائیبریر ی جانا ہوتا۔ ایک دن حکیم محمد سعید کو یہاں مطالعہ میں غرق پایا۔ حیرت سے دیرتک انہیں تکتا رہا۔
کراچی یونیورسٹی کی بحری جہاز نما لائبریری میں اکثر طلبہ وطالبات کی بھیڑ کا یہ عالم ہوتاکہ جلسہ عام کا گمان ہوتا۔ یادآیا کہ کتابیں تلاش کرکے دینے والے ایک بابا جی بلاکی یاداشت کے مالک تھے۔ آپ کتاب کا نام لیں وہ جھٹ سے حاضر کردیتے ۔
راولاکوٹ جیسے دورافتادہ علاقے میں بھی کتب بینی کا رجحان عام تھا۔ عزیز کیانی نے پوسٹ آفس کے سامنے ایک چھوٹی سے دُکان میں ڈھیر ساری کتابیں جمع کررکھی تھیں۔ پچاس پیسے روزانہ کے حساب سے کتاب مستعار دیتے۔ مذہب، سیاست اور ادب پر بڑی نایاب کتابیں ان کے پاس جمع تھیں۔ اس طالب علم نے دسویں کا امتحان دیا تو سیاسیات پر کئی کتابیں ان سے لیں۔
اب زمانہ بدل گیا ہے۔ بچے اور نوجوان کہتے ہیں کہ ہم ان قصے کہانیوں پر اپناوقت کیوں برباد کریں؟انٹرنیٹ اور خاص کر سوشل میڈیا نے کتب بینی کا لگ بھگ خاتمہ ہی کردیا ہے۔ قارئین ہی نہیں ہوں گے تو اچھے لکھاری یا ادیب کہاں سے پیدا ہوں گے؟ چندروزقبل کسی نے ایک چٹکلاسنایا کہ کل تک بچوں کو سلانے کے لیے مائیں بتی بند کرتی تھیں آج کل وائی فائی بند کرنا پڑتا ہے۔
زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...
وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
دْر محمد کاسی کی شخصیت اور نام سے گویا بچپن سے آشنا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویڑن کوئٹہ مرکز سے وقتاً فوقتاً ان کی ڈاکیومینٹریز نشر ہوتیں اور ہم بڑے اشتیاق سے دیکھتے۔ پی ٹی وی سینٹر میں تو بہت ساری رپورٹس یا ڈاکیومینٹریز کئی لوگوں کی نشر ہوتیں اور میں کیوں ان میں محض دْر محمد کاسی کو ہی...
آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...
پاکستان اور ترکی کے درمیان ثقافتی تعاون اب ایک نئے سنگ میل پر پہنچ گیا ہے کیونکہ دونوں ملک ترکی میں اردو تدریس کے 100 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ 1915ء میں ترکی کی جامعہ استنبول کے دار الفنون، یعنی کلیہ ادبیات، میں اردو زبان و ادب کی تدریس کا باضابطہ آغاز ہوا تھا۔ اس تاریخی...
لسانی اعتبار سے امریکا کو دنیا پر ایک برتری حاصل ہے، ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں یعنی انگریزی اور ہسپانوی، دنیا بھر میں بھی سب سے زیادہ بولی جاتی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی طلباء کو نئی زبانیں سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ماڈرن لینگویج ایسوسی ایشن کی تحقیق...
بھارت کی مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی اپنے تیکھے تیوروں کے باعث مسلسل تنازعات میں رہتی ہیں۔ اب اُن کا تازہ تنازع ’’اردو دشمنی‘‘ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔تفصیلات کے مطابق یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ میں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی ایک اجلاس کے بعد جب ڈاکٹر منوہر میڈیکل یونیورسٹی سے نک...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس جوادایس خواجہ بطور چیف جسٹس اپنی بائیس روزہ تعیناتی مکمل کرکے ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ 18 ؍ اگست 2015 ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اُنہوں نے قوم کے ماضی کے حسین البم سے نغمہ عشق و محبت کی کہانی کے طور پر اردو زبان کو نطق و تکلم کے جواں عالم ...
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی میں میر کی ہم راز ہوں غالب کی سہیلی دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا میں داغ کے آنگن میں کِھلی بن کے چنبیلی اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی میں میر کی ہم راز ہوں غ...