... loading ...
نوجوان گڑبڑا سا گیا۔
اس نے اپنے دائیں جانب نشست فرما دوست کی جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ دوست فوراً سوال پوچھنے والے کی جانب براہ ِراست متوجہ ہوا۔
’’سریہ اردو اسپیکنگ ہے ‘‘۔ اس نے گویا اپنے دوست کی خلاصی کرائی۔
’’اوہو۔ اچھا اچھا تو ایسے بولو ناسائیں کہ مہاجر ہے ۔ چلو خیر ٹھیک ہے ،اچھا بتاؤ پھر کرنا کیا ہے ؟‘‘
گفتگو آگے بڑھ گئی مگر میری سوچیں اسی موڑ پر آکر ٹھٹھک گئیں۔
گزری تھانے میں ڈیوٹی افسر کے کمرے سے ملحق آٹھ بائی دس کی یہ کوٹھڑی ایک ایسا طویل دالان بن گئی جس میں نوجوان کی آواز گونجے جارہی تھی ، مجھے لگا جیسے میں اس آواز کے پیچھے دوڑتا چلا جارہا ہوں اورجاننا چاہتا ہوں کہ اس کا آخری سرا کہاں ہے ۔
نوجوان نے صرف ایک لفظ ہی تو کہا تھا ……
’’سندھی…..‘‘
میں جھنجھلاسا گیا ۔ یہ مکالمہ ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ سامنے بچھی میز کی دوسری جانب کرسی میں دھنسے میرے پولیس افسر دوست نے مجھے گم سم دیکھ کر ٹوکا۔
’’شاہ جی ۔ کہاں کھو گئے چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے ‘‘
اور میں واپس اسی آٹھ بائی دس کی کوٹھری میں لوٹ آیا ۔اس نوجوان نے اپنا نام غالباً خالدبتایا تھا۔یہ اور اسکا دوست ایک ریسٹورنٹ کے مشترکہ مالک تھے ، گزشتہ روز ریسٹورنٹ میں چوری ہو گئی تھی اور یہ دونوں اپنے ایک مشترکہ دوست کے ہمراہ تھانے آئے تھے اور ضروری کارروائی کے خواہشمند تھے ۔مجازافسر نے نام پو چھاپھر اسکے دوست سے اسکی قومیت پوچھی جس کے جواب میں اس نے اپنا تعارف ’’میمن‘‘کے طور پر کرایا ۔پھر افسرنے اس نوجوان سے پوچھا آپ کون ہو۔ اس نے کہا ‘‘سندھی‘‘۔
افسر کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوئے اور اس نے سندھی میں ہی اگلا سوال پوچھا ۔
’’سائیں کیرآیو تہاں پانٹر‘‘
(یعنی آپکی ذات کیا ہے ؟)
نوجوان گڑبڑا گیا ۔ ’’میری پیدائش یہیں کی ہے ‘‘ سندھی زبان سے ناواقفیت کے باوجود اس نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی مگراس کے دوست نے اسکا ہاتھ دھیرے سے دبایا اور دبے دبے لہجے میں اسے سمجھایا کہ یہ موقع محل اس بحث کیلئے موضوع نہیں۔چائے پی کر میں نے بھی رخصت کی اجازت چاہی اور اپنی گاڑی میں آبیٹھا ۔ میرا دوست مجھے چھوڑنے پیچھے پیچھے آیا، اسے میرے اچانک یوں کھو جانے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔ سمجھ تو خود میں بھی نہ پایا تھا کہ مجھے ہوا کیا شایداس نوجوان کے ’’سندھی‘‘ہونے کے مان کو ٹوٹتا ہوا دیکھنا میرے لئے نہایت ناخوشگوار تھا۔عصبیت کے شجر کی اس آبیاری پر میں کافی دیر دل گرفتہ رہا ۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں عصبیت کھل کر چوباروں پر رقصاں رہی ۔ 5؍دسمبر کو ہونے والے ان انتخابات میں کراچی میں ایم کیو ایم فاتح رہی، اب مئیر ’’اپنا‘‘ ہی آئے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنما علی زیدی پہلے زخم خوردہ بلّے کی مانندغرائے اور پھر ان کے منہ سے خالہ رشیدن والے طعنے بر آمد ہو نا شروع ہوئے ، بولے کراچی والوں کو شرم آنی چاہئے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیا ۔ اس بیان سے ثابت ہو ا کہ وہ سیاسی طور پر نا بالغ ہیں کیونکہ سیاستدان کا عوام سے لڑنا ایسے ہی ہے جیسے ملّا کا ٹیکنالوجی سے جھگڑا ، جیت ہمیشہ مؤ خر الذکر کی ہی ہو نی ہے ۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف انکی اپنی ہی جماعت کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج کئے جانے کی خبر پولنگ کے عمل کے دوران میں سامنے آئی مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ ڈی جی رینجرز نے ایک روز قبل عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بے خوف ہو کر اپنے گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ کراچی میں یہ پہلے بلدیاتی انتخابات تھے جن میں پولیس اور رینجرز کے جوان ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود تھے اور رینجرز حکام کو مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل تھے۔ کل 35ہزار پولیس اہلکاروں، رینجرزکے 7ہزار400 جوانوں اور آرمی کے 900سپاہیوں نے بلدیاتی انتخابات کے دوران خدمات انجام دیں، مگر یہ طے ہے کہ ایم کیوایم کو ووٹ کسی خوف یا دباؤ کے تحت نہیں بلکہ قوم پرستی کے نام پر ڈالے گئے۔ متحدہ کے قائد گزشتہ دو سالوں کے دوران میں فوج اور ریاستی اداروں سے تصادم پر آمادہ نظر آتے ہیں ، ایم کیو ایم پر ویسے بھی کراچی میں تشدد کی سیاست کو رائج کرنے ، نہ صرف مخالفین بلکہ اپنی جماعت کے ہی کئی افرادکو قتل کرنے اور بھتہ خوری وغیرہ جیسے الزامات ابتداسے ہی تواتر کے ساتھ لگتے رہے ہیں مگر اس کے باوجود اب شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی صرف ایم کیو ایم ہی کرتی ہے ۔
نوّے کی دہائی میں ایم کیو ایم نے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک کے سفر کیلئے اڑان بھری مگر2008کے بعد پھر پر سمیٹ کر عصبیت کے درخت پر واپس آبیٹھی۔ پیپلز پارٹی کی ’’برسرِ اقتدار‘‘ قیادت اور پی ٹی آئی او رجماعت اسلامی کے قائدین نے رات دن بھر پور مہم چلائی، اپنے اپنے پروگرام بڑھ چڑھ کر پیش کئے مگر 6دسمبر سے سوشل میڈیا پر انکی جانب سے جواد احمد کا گانا بار بار ’’ٹیگ‘‘ کیا جا رہا ہے کہ ’’تم جیتو یا ہارو سنو، ہمیں تم سے پیار ہے ‘‘۔ ان کے مقابلے میں الطاف حسین کا ایک پمفلٹ میدان میں تھا جس کا عنوان تھا ’’جاگ مہاجر جاگ‘’ بس یہی کافی تھا ۔’’آدھے مہاجر‘‘ ہار گئے اور ’’پورے مہاجر ‘‘جیت گئے۔
شکست خوردگان کی صفوں میں کچھ لوگ کراچی کے شہریوں میں ’’اسٹاک ہوم سنڈروم‘‘ تشخیص کر رہے ہیں جو ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں کسی متاثرہ شخص کو خود سے زیادتی کرنے والے سے ہی محبت ہو جاتی ہے ، چلیے اگر ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، کراچی کے عوام ضدی ثابت ہوئے مگر ناکام ہونے والوں کو وجوہات تلاش کرنے کیلئے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا ہو گا ۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے ووٹرز اب تک سب سے کمیٹڈ ووٹر ثابت ہوتے رہے ہیں مگر حالیہ بلدیاتی انتخابات میں یہ کمیٹڈ ووٹر اپنے گھر سے ہی نہیں نکلا جسکی بنیادی وجہ انکا پی ٹی آئی سے ہو نے والا اتحاد تھا ۔ جماعت اسلامی کے اکثر رائے دہندگان عمران خان کو ایک آزاد خیال اور مغرب زدہ رہنما سمجھتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی روشن خیالی بھی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ لہذا وہ اس اتحاد پر اپنی جماعت سے نالاں رہے اور نتیجتاً جماعت اسلامی دو ایسی یونین کونسلز میں بھی شکست سے دوچار ہوئی جہاں سے وہ پچھلے 30سالوں کے دوران ہر بلدیاتی انتخابات میں فتح یاب ہوتی رہی تھی اور کراچی استنبول بنتے بنتے رہ گیا۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف شاید اپنی مقبولیت کے زعم میں ایسی بے فکر تھی کہ اسے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو گلی محلّے کی سطح تک لیجانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، عمران خان ایک رات کراچی میں قیام پزیر ہوئے ، صبح دوست کے گھر ناشتہ کیا اور سڑک پر نکلے ، دو تقریبات سے خطاب کیا اور اسلام آباد کیلئے جہاز میں جا بیٹھے۔ وہ سمجھے تھے بس اب لوگ خود ہی گھرسے نکل کر بلّے پر ٹھپے لگا دیں گے جبکہ انہوں نے امیدواروں کے انتخاب میں بھی مطلوبہ محنت نہ کی تھی ۔ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ ان انتخابات میں ووٹنگ کا کل تناسب 25سے 30فیصد رہا یعنی 70سے 75فیصد لوگ انتخابی عمل سے لاتعلق ہی رہے، ریسٹورنٹس ، سینما ہالز اور شاپنگ مالز بھرے رہے ۔
استاد الاساتذہ مشتاق یوسفی نے اپنی معرکہ آرا کتاب ’’آب گم‘‘ میں کراچی کے حوالے سے بڑی دلچسپ بات لکھی جو بر محل ہے، انہوں نے لکھا کہ ’’کراچی کی ہوا میں اتنی رطوبت اور دِلوں میں اتنی رِقّت ہے کہ کُھلے میں ہاتھ پھیلاکر آنکھیں موند کر کھڑے ہو جاؤ تو پانچ منٹ میں چُلو پھر پانی اور ہتھیلی بھرپیسے جمع ہو جائیں لیکن اگر ہاتھ چھٹے منٹ بھی پھیلائے اور آنکھیں موندے رکِھیں تو پیسے غائب بھی ہو جائیں گے ‘‘۔تحریک انصاف کے ساتھ شاید کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔
افسوس ہمارے قومی رہنما کراچی کے لوگوں کی نفسیات سے واقف ہیں نہ ان کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں ۔کراچی کی سیاست میں لسانیت نے جو کردار ادا کیا وہ اتنے اچنبھے کی بات بھی نہیں ، حالیہ انتخابات کے تناظر میں ملک کے طول و عرض میں نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ دیہی سندھ سندھیوں کا ، بلوچستان بلوچوں کا ، پنجاب پنجابیوں کا اور پختو نخواہ پٹھانوں کا ۔ظاہر ہے پھرکراچی کس کا ہو ؟ جب آپ خود ہی ایسی شناخت اختیار کریں گے تو دوسروں سے شکایت کیسی۔ وفاقی جماعتوں اور قومی رہنما خود علاقوں کی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں تو عصبیت کیسے ختم ہو سکتی ہے ؟
6دسمبر کی شام میں گھر سے نکلا جونہی گاڑی مرکزی شاہراہ تک پہنچی ٹریفک کا ازدحام نظر آیا، چند گاڑیوں کا ایک قافلہ تھا جس میں الیکشن جیتنے کی خوشی میں مخمور ر کارکنان سوار تھے ، ایم کیو ایم کے جھنڈے گاڑیوں کے بونٹس پر بند ھے تھے اور زور سے ’’ساتھی، مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین ‘‘ بجایا جارہا ہے ، میری گاڑی کے قریب سے گزرتے ہوئے نئے ماڈل کی کرولا کے دروازے سے تقریباًآدھے باہر لٹکے ہوئے نوجوان نے نعرہ لگایا ، ’’چریا ہے مہاجر چریا ہے ‘‘،دیگر گاڑیوں میں سوار افراد نے ہم آواز ہو کر جواب دیا ’’الطاف کے پیچھے چریا ہے ‘‘۔میں نے غور سے دیکھا نعرہ لگانے والا نوجوان جانا پہنچانا لگا۔ ارے…… اچانک مجھے یاد آیا یہ تووہی گزری تھانے میں دبکے بیٹھا ہوا خالد تھا۔وہاں سے باہر نکلا تو اب وہ صرف خالد نہیں رہا، خالد چَریا بن گیا تھا ۔ میں نے سوچا کیا واقعی یہ اپنے نعرے کی مانند چَریا ہے بھی یا نہیں؟اگر یہ نہیں ہے تو پھر کون ہیں؟ میری نظروں میں گزری پولیس سے لے کر اس نظام کے تمام رکھوالوں کی تصویریں ایک ایک کرکے گھومنے لگیں۔
کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...
سندھ حکومت نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے حوالے سے اپنی ضد پر قائم ہے۔ سندھ حکومت کا الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے پولیس موجود نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے سندھ حکومت...
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...
کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...
حکومت سندھ نے ایک مرتبہ پھر بلدیاتی انتخابات میں روڑے اٹکاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی استدعا کر دی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو 3 ماہ کے لیے انتخابات ملتوی کرنے کا مراسلہ لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ...
کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...
بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...
کراچی کے علاقے سعود آباد سے جعلی ادویات بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی۔ پولیس نے لاکھوں روپے مالیت کی جعلی ادویات برآمد کرلیں۔ پولیس کے مطابق سعود آباد میں فیکٹری پر چھاپہ کارروائی کی گئی، اس دوران چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، غیر قانونی طور پر فیکٹری میں جعلی ادویات بنائی جا رہی تھ...
اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے شاہین فورس کے قیام اور گشت کے باوجود شہر میں لوٹ مار کی وارداتوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، نیو کراچی صنعتی ایریا میں موٹر سائیکل سوار ڈاکو فیکٹری ملازم سے 10 لاکھ روپے نقد لوٹ ک...
کراچی میں شدید گرمی کے باعث لوڈ شیڈنگ نے عوام کا بُرا حال کردیا۔ تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں درجہ حرارت میں اضافے کے بعد کے الیکٹرک نے بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا۔ نارتھ ناظم آباد بلاک ڈبلیو، کورنگی، لیاقت آباد، گلبہار، ابوالحسن اصفہانی روڈ ، پاک کالونی، پی ای سی ایچ ایس،...
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ بدھ کوسندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان، الیکشن کمیشن اور دیگر سے جواب طلب کرلیا۔ جسٹس جنید غفار نے نوٹیفکیشن فوری معط...