... loading ...
وہی روز کی توُ توُ میں میں، اور غوروفکر کا لگا بندھا اَمرِت دھارا!کاش ہمیں کچھ غوروفکر کرنے والے لوگ میسر ہوتے، جو ہمارے معمولات اور قیمتی اوقات پر بے وقعت تصرّف نہ کرپاتے۔
شاہ زیب خانزادہ نے سینیٹر سعید غنی سے ایک عجیب سوال پوچھا:
’’اگر رینجرز کے اختیارات سے تجاوز کا مسئلہ ہے تو اختیارات سے تجاوز سیاست دان بھی تو کرتے ہیں۔سیاست دانوں کو مینڈیٹ (انتداب) بدعنوانیوں کا تھوڑی ملتا ہے۔ ‘‘
بظاہر یہ سوال نک سک سے بالکل درست لگتا ہے، مگر کیا درست بھی ہے؟سوال ایک دوسرا بھی ہے۔ شاہ زیب خانزادہ سیاست دانوں کی طرف سے اختیارات اور بدعنوانیوں پر اُن کی جس طرح توہین کر سکتے ہیں، ویسی ہی توہین کیا وہ اختیارات سے تجاوز کرنے والی رینجرز کی بھی کر سکتے ہیں؟ اگر یہ ایک ہی جیسے مسئلے ہیں،تو کیا دونوں فریقین کے خلاف ایک ہی جیسے سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ذرا تصور کیجئے! ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر سے شاہ زیب خانزادہ یہ سوال کچھ یوں کر رہے ہوں کہ ’’اگر سیاست دانوں کے اختیارات سے تجاوز کا مسئلہ ہے تو اختیارات سے تجاوز تو آپ بھی کرتے ہیں، آپ کو اختیارات قانون کے نفاذ کے ملتے ہیں ، قانون سے تجاوز کے تو نہیں؟‘‘کیا شاہ زیب خانزادہ یہ سوال اپنی جگمگاتی ٹیلی ویژن کی جلوہ گاہ پر یوں ہی کر سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر دونوں طرف سے اختیارات کے تجاوز کا معاملہ ویسا نہیں ہے ، جیسا کہ سوال میں اُبھارا گیا۔ شاہ زیب خانزادہ یہ سوال کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ دراصل پاکستان کے ایک بنیادی مسئلے سے جڑا ہوا سوال ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور سماجی بُنت (انجینئرنگ) دراصل طاقت کے مزاج پر ہے۔ یہاں سچائی طاقت نہیں بلکہ طاقت سچائی ہے۔ اس اُصول کوسطح شعور پر کوئی بھی مانتا نہیں مگر اس اُصول پر سطح لاشعور میں سب ہی عمل پیرا رہتے ہیں۔ کمزور لوگوں کو طاقت ور صرف ذہین ہی نہیں دیانت دار بھی لگتے ہیں۔ جس طرح بندگانِ حرص وہوس اگر پی ایچ ڈی بھی کر لیں تو اُنہیں سیٹھ سے زیادہ ذہین اور ایماندار کوئی نہیں لگتا ۔ پاکستان میں آمریت اسی مزاج کے راستے حملہ آور ہوتی ہے۔
طاقت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قانون سے بے پرواہ ہوتی ہے۔ اُس کی نہاد میں قانون کی تحقیر ہوتی ہے۔ چنانچہ پاکستانی معاشرہ جو مکمل طاقت کے رحم وکرم پر ہے ، وہاں تمام فریقین کی طرف سے ایک عجیب وغریب لڑائی طاقت کے حصول کی ہو رہی ہے۔ سیاست دان جو کسی بھی اُصول سے اُتنے ہی گریزاں ہیں اور ہمارے تصورات میں موجود بدعنوانیوں سے بھی کہیں زیادہ بدعنوان ہیں، اب ایک اور محاذ پر خود کو سرگرم کر چکے ہیں۔ اُنہیں اپنی بقا کا مسئلہ دراصل اجتماعی طور پر لاحق ہو چکا ہے اور وہ ایک دوسرے کو بچاتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ اُنہیں اندازا یہ ہو چکا ہے کہ اُنہیں کسی بھی وقت طاقت سے روندا جا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ طاقت کے متبادل ذرائع کے تحت خود کو متحد کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔اور بلاخوف ِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاست دان اس معاملے میں زیادہ ذہانت کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ اور نری طاقت پر انحصار کرنے والی قوتیں اس کھیل میں پسپائی کی طرف دھکیلی جا رہی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیاست دان یہ جنگ اتنی مہارت سے لڑ رہے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے کھلے گھناؤنے جرائم کے لئے بھی عوامی ہمدردیاں سمیٹ لی ہیں۔ اس کا سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سماج سے بے خبری اور نری طاقت پر انحصار کا متکبرانہ رویہ ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی مثال سامنے کی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈاکٹر عاصم حسین کے مسئلے کو جس طرح برتا ہے اُس نے ڈاکٹر عاصم حسین کے تمام مکروہ اعمال کو پیچھے دھکیل کر اُن کے حوالے سے ایک ہمدردی پیدا کردی ہے۔ یہ حسُن اتفاق سے زیادہ حُسن انتظام لگتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت جب پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ، کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر گورنر ہاؤس کراچی میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ملک کی اعلیٰ ترین سول قیادت کے ساتھ شریک تھے تو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے منتظم منصف نعمت اللہ پھلپوٹو کے سامنے ڈاکٹر عاصم حسین پھٹ پڑے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تو ابھی اُن پر کوئی فردِ جرم (چارج شیٹ) عائد نہیں کر سکے، مگر اُنہوں نے اُن پر ایک زبردست فردِ جرم عائد کردی۔اُنہوں نے کہا کہ’’ اُن (رینجرز اور عسکری اداروں ) کا جھگڑا کسی اور (آصف زرداری) سے ہے اور پھنسایا مجھے جا رہا ہے،اگر میں مر گیا تو الزام اس نظام پر ہوگا۔ مجھے قتل کرنا ہے تو مار دیں ، میرا انکاونٹر کر دیں۔کبھی مجھے لولی پاپ دیا جاتا ہے اور کبھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عاصم حسین مسلسل بولتے گئے اور اُن کا ایک ایک لفظ ہر جگہ سند ِ اعتبار پاتا رہا۔ ایک ذراسی دیر میں اس خبر نے پہلی خبر کی حیثیت حاصل کر لی اور جس اجلاس میں ملک کی فوجی اور تمدنی قیادت سر جوڑے بیٹھی تھی ، وہ دوسری خبر بن گئی ۔ اس معاملے نے ڈاکٹر عاصم حسین پر عائد اُن سنگین الزامات کو پیچھے دھکیل دیا جو ابتدا میں اُن کے خلاف ملک بھر میں باعثِ نفرت بن چکے تھے۔
یہ واقعہ دراصل اداروں کے طاقت پر انحصار اور خود کو بے قید سمجھنے کی نفسیات کے خلاف ایک تازیانۂ عبرت ہے۔ کوئی سو دن کے قریب ڈاکٹر عاصم حسین کو اپنی تحویل میں رکھنے کے باوجود رینجرز نے کسی بھی قابل ذکر معاملے کو قانونی انجام دینے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ یہ فراموش کر گئی کہ مریض کے آپریشن میں تاخیر آپریشن کی ناکامی کا شک پید اکرتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین ہی نہیں رینجرز اور اداروں نے اب تک جتنے بھی مسائل پر ہاتھ لگائے ہیں اُن میں سی کسی بھی مسئلے کو اب تک کسی قانونی انجام سے دوچار نہیں کیا۔ ہر جگہ شکوک کی ایک تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ اور ایک طویل خاموشی طاقت کے آگے سجدہ ریز ہونے کے باعث پائی جاتی ہے۔اختیارات سے تجاوز سب ہی کرتے ہیں کیونکہ سیاسی اور عسکری تمام قوتیں قانون کے سائے میں نہیں طاقت کی مچان میں خود کو رکھتے ہیں۔ ان قوتوں کی ساری جدوجہد ملک کو قانون کے زیر سایہ لانے کی نہیں بلکہ خود کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنانے کی ہیں۔ یہ ساری بدکاریاں اور بداعمالیاں اسی طاقت کے مدار میں گردش کے باعث ہیں۔ اس میں کسی بھی فریق کے لئے صحیح اور غلط کی بحث سرے سے ہی غیر متعلق ہے۔ ایسی بحث اور سوالات دراصل توہین کی تعظیم کرنے کے مترادف ہیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
سندھ یونائٹیڈ پارٹی نے ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سرچ کمیٹی کا مجوزہ سربراہ بنانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سینئرنائب صدرروشن برڑو کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیاہے کہ ڈاکٹر عاصم پہلے بھی دو مرتبہ چیئر...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...