وجود

... loading ...

وجود

بابری مسجدکی شہادت :جمہوریت زندہ باد !

پیر 07 دسمبر 2015 بابری مسجدکی شہادت :جمہوریت زندہ باد !

Babri_Masjid

کراچی کے انتخابی نتائج پر لوگ حیران ہیں! حالانکہ اس میں کوئی چیز بھی غیر منطقی نہیں۔ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں، وہ دنیا میں رائج اس مخصوص نوعیت کی انتخابی جمہوریت میں ایسے ہی آسکتے ہیں۔ یہ مسئلہ حالات یا سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ دراصل اس جمہوری نظام سے جڑا ہے جس میں جمہوریت کو کُل انتخابی جمہوریت کے رحم وکرم پر چھوڑد یا گیا ہے۔ اور اس کے دیگر اجزا کو مکمل فراموش کردیا گیا ہے۔

معلو م نہیں کیوں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ قتل وغارت گری کا جمہوریت کے ساتھ ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ انتخابی مہمات دراصل جنگوں کی طرح ہوتی ہیں۔ بھارت سمجھنے کے لئے ایک زبردست مثال ہے۔تقسیمِ ہند کے دوران میں تقریباً دس لاکھ انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بھارت میں کانگریس نے کبھی بھی قتل وغارت گری کے اِن زخموں کو بھرنے نہیں دیا۔ بلکہ اس نفرت کو تاریخ میں زندہ رکھتے ہوئے انتخابی جمہوریت کا ایک اثاثہ بنائے رکھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس دونوں ہی ہندوکارڈ کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ جو کام بی جے پی دن کے اجالے میں کرتی ہے وہی کام کانگریس رات کی تاریکی میں کرتی ہے۔ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے بعد ۱۹۸۴ء میں کانگریس نے فتح کا تاج سر پر پہنا۔ گجرات میں نریندر مودی نے قتل وغارت گری کے بعد ناقابل تسخیر ہونے کا مقام حاصل کیا۔ اورپے درپے انتخابات جیتتا رہا۔

بابری مسجد کی شہادت کو آج ۲۳ برس گزرگیے۔ بھارتی شہر ایودھیا میں ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو ہزاروں ہندو جنونیوں نے سولہویں صدی کی عظیم ترین مسجد کو شہید کردیا تھا۔ مگر کم لوگ اس پر دھیان دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ بھارت کی انتخابی جمہوریت سے کس طرح جڑا ہوا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے وقت بھارت میں کانگریس کے پی وی نرسہماراؤ وزیراعظم تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کا بوجھ اور بھارتی جمہوریت کا اس پر انحصار اس قدر مکروہ ترین انداز میں تھا کہ اُنہیں اس مسئلے پر ایک مستقل کتاب لکھنی پڑی ۔ جو اُن کی ۲۰۰۴ء میں وفات کے بعد شائع ہو سکی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اُن کے دور میں ہی بابری مسجد میں رام کی جنم بھومی کا تنازع اُٹھا کر ایک سیاسی جماعت کے طور پر کانگریس کی متبادل جماعت کے طور پر خود کو اُبھار ا۔ تب گجرات میں نریندر مودی اور اُتر پردیش میں کلیان سنگھ ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے رہے تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دونوں منتخب وزرائے اعلیٰ تھے۔ عام طور پر بھارت میں مسلم کش فسادات کے ذکر میں گجرات کا بھی ذکر آتا ہے مگر اُس پیش منظر، پسِ منظر اور تہِ منظر کو فراموش کردیا جاتا ہے جو جمہوریت کے ساتھ اس قتل وغارت گری اور بابری مسجد کی چلی آتی مسلسل تاریخ سے مربوط ہے۔

دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے بعد ۱۹۸۴ء میں کانگریس نے فتح کا تاج سر پر پہنا۔ گجرات میں نریندر مودی نے قتل وغارت گری کے بعد ناقابل تسخیر ہونے کا مقام حاصل کیا۔ اورپے درپے انتخابات جیتتا رہا۔

دراصل فروری ۲۰۰۲ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی یوپی میں انتخابی دنگل میں اُترنے کی تیاریاں کر رہی تھی۔تب انتخابی مہم کے لیے ایک بار پھر ایودھیا میں (جہاں بابری مسجد کو ۱۹۹۲ء میں شہید کیا گیا تھا) رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ چھیڑ دیا گیااور اسے ایک انتخابی ایجنڈا بنا دیا گیا ۔ اُن دنوں بی جے پی کی حکومت صرف گجرات میں تھی۔ ٹھیک اُن ہی دنوں فروری کے اواخر میں گودھرا اسٹیشن کے باہر اُس ریل گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل کے وہ مسلح جتھے سوار تھے جو رام مندر کی تعمیر کے لئے گھروں سے باہر نکلے تھے۔ اُس ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں اچانک اور پراسرار طور پر آگ لگا دی گئی ، جس میں ۵۸ افراد زندہ جلا دیئے گیے۔ اس کے فورا بعد ہندو انتہا پسند گجرات کے صوبے میں گھروں سے باہر نکلے۔ بھارتی دانشورارون دھتی رائے اس کے بعد کا جو نقشہ کھینچتی ہے وہ اُن کے الفاظ میں دیکھتے ہیں:
’’چند گھنٹو ں کے اندر مسلمانوں کے قتل عام کا ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا گیا، منصوبہ بندی میں انتہائی باریک
بینی سے کام لیا گیا، دوہزار کے قریب مسلمانوں کی جانیں لے لی گئیں۔ ڈیڑھ لاکھ افراد کو اُن کے گھروں سے
بے دخل کر دیاگیا۔بے شمار عورتوں کی سرِعام آبروریزی کی گئی، والدین کو اُن کے بچوں کے سامنے موت کے
گھاٹ اتارد یا گیا۔ اس ہجوم کے پاس کمپیوٹرائزڈ فہرستیں موجود تھیں، جن میں اُن گھروں اور دُکانوں کی نشاندہی
کی گئی تھی جو مسلمانوں کی ملکیت تھے۔ ان سب کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا تقدس پامال
کیا گیا۔ ہجوم ٹرکوں سے لیس تھاجن پر ہزاروں کی تعداد میں ایسے گیس سلنڈر لدے تھے، جن کو کئی ہفتوں قبل
ذخیرہ کیا گیا تھا۔پولیس نے نہ صرف ہجوم کو تحفظ دیا بلکہ کورنگ فائر(covering fire ) بھی فراہم کیا۔‘‘

یہ اُترپردیش کی انتخابی مہم تھی، مگر اس نے گجرات میں نریندر مودی کو بھی ناقابل شکست بنا دیا۔ چنانچہ اس بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے کھلے قتل عام سے مودی کی انتہا پسند ہندوؤں میں جو زبردست پزیرائی ہوئی اُس کی وجہ سے گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر اُس نے اعلان کیا کہ وہ انتخابات قبل از وقت کرانا چاہتے ہیں۔ انتخابی جمہوریت دراصل عصبیت کے فروغ ، گروہوں کی اپنی بقاسے متعلق نفسیات اور مفروضہ دشمنوں کے خوف پر انحصار کرتی ہے۔ یہ سوال بھارت میں نہیں خود پاکستان میں بھی انتہائی اہم ہے کہ جمہوریت کی اس قسم میں ایسا کون سا بنیادی اور عملی خلا ہے جس کے باعث سیاست دان رائے دہندگان کو طبقاتی ، علاقائی، لسانی، اور ذات پات کے خانوں میں تقسیم کرنے کے لئے اُکساتے ہیں۔ بھارت میں نرسہماراؤ کے زمانے میں اسی قتل وغارت گری سے ہندو انتہاپسندی کو اس قدر فروغ ملا کہ بی جے پی اس قابل ہوئی کہ وہ کانگریس کو اکھاڑ کر تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک جاپہنچی۔ آج بھی یہی انتہاپسندی نریندر مودی کی طاقت ہے۔ اور وہ بھارت کے سب سے بڑے منصب پر انتخابی طاقت سے براجمان ہیں۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے ملبے پر کھڑی ایسی جمہوریت پر مسلمان ایمان بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کی متھرا کی تاریخی عیدگاہ پرقبضے کی دھمکی وجود - هفته 11 دسمبر 2021

بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے متھرا کی عید گاہ پرقبضے کی دھمکی دے دی۔ بھارتی شہرمتھرا میں ہندو انتہا پسندوں نے 17 ویں صدی میں بنائی گئی شاہی عیدگاہ پرقبضہ کرنے اور پوجا کرنے کا اعلان کیا ہے۔متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد میں متھرا کے مسلمان پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ نمازجمعہ اور عید...

بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کی متھرا کی تاریخی عیدگاہ پرقبضے کی دھمکی

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر