... loading ...
ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا! مگر پرنالہ وہیں کا وہیں گرتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ وہی ڈھاک کے تین پات!
خرابی کہاں ہے؟ طاقت ور اداروں کے ذہنوں میں کیا منصوبے ہیں؟ اُن کے کاغذوں پر موجود اعداد وشمار کو ایک طرف رکھیے۔ اور سیاست دانوں کے سینوں میں کون سی آگ دہکتی ہے؟ اُن کے بیانات کو ایک طرف کیجئے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے دَر پِے ہیں۔ لگڑبھگّوں کی طرح جوا یک دوسرے کو لقمہ ٔ تر بنانے کے لیے ایک دوسرے کی موت کا انتظار دائروں میں کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ گروہ ایک دوسرے کے حق میں بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔ سیاست دان زیادہ بدعنوان اور زیادہ کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی مقتدر اداروں کی تعریف پر خود کو مجبور پاتے ہیں ۔ دائرے کا یہ ایک کھیل ہے جو برسہابرس سے جاری ہے۔
میاں نوازشریف کا یہ یقین کامل ہے کہ جمہوریت کو جاری رکھنے کے لیے دہشت گردی اور بدعنوانی گوارا کر لی جائے۔ اگر جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچتا رہا تو پھر گھاٹ میں بیٹھی قوتوں کے پہلے شکار وہ خود بنیں گے۔ اس لئے مدّبر کے طور پر دریافت ہونے والے میاں نوازشریف کے تدبّر میں اب زرداری کے پھیلے پیر اور دہشت گردی سے مرتے لاشے جمہوریت کے اس تدریجی سفر کی پیدا ہونے والی گنجائشیں ہیں۔ علمائے کرام کی ’’کتاب الحیل ‘‘ خوامخواہ بدنام رہتی ہے۔ بھارت کے سامنے قومی حمیت کو برائے فروخت بنانے والے نجم سیٹھی نے ہندؤں کی ایک تقریب میں مدّبر میاں نوازشریف کے خیالاتِ عالیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پچھلے دنوں اپنے پروگرام میں یہ کہا تھا کہ’’ اُنہیں یہ سُن کر قائداعظم یاد آگیے۔‘‘ اپنے آپ کو سنبھالیے! اگر قائداعظم خود بنفسِ نفیس زندہ ہوتے تو یہ سن کر ایک بار پھر مرجاتے۔ آج کل نئی نئی خیال آرائیوں کا دور دورہ ہے، بس سنتے جائیں!
جناب زرداری کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ میاں نوازشریف کی تشریح شدہ اس جمہوریت کو اپنے لئے ایک ڈھال سمجھتے ہیں ۔ اگر یہ ٹوٹی تو طاقت کی کمان سے نکلنے والا تیر سیدھا اُن کے سینے میں ترازو ہوگا۔ بس اسی لئے خورشید شاہ ہی قائد ِ حزبِ اختلاف کے لئے سب سے زیادہ ساز گار ہیں۔ جمہوریت کے بارے میں ا س آلودہ فکر ونظر کی گھٹیا اور پست مساوات نے مملکت کے چہرے کودہشت گردی سے خون آلود اور اس کے دامن کو بدعنوانی سے داغدار کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس دہشت گردی کے بالواسطہ سہولت کار اور اس بدعنوانی کے بلاواسطہ ذمہ دار بھی یہی مقتدر اور سیاسی قوتیں ہیں۔ اب عام شہری کریں تو کیا کریں ؟کراچی میں ہر شخص پریشان ہے۔ یہ پریشانی اس لئے زیادہ پریشان کن ہے کہ یہ مملکت پر اب اُن کے اعتبار کو مجروح کرنے لگی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں راقم کی جن سے بھی ملاقاتیں ہوئیں وہ اپنے مستقبل کے اُن امکانات پر غور کرتا ملا جو ملک سے باہر اُن کے لئے ممکن ہو سکتے ہیں۔ خطرناک ، یہ نہایت خطرناک رجحان ہے۔ مگر مقتدر قوتیں اور سیاسی کنبے اپنی روش چھوڑنے کو تیار نہیں۔ دائروں کاسفر اور طاقت کو یافت کرنے کا شعار کوئی بھی ترک کرنے کو تیار نہیں۔
دو ذہنیتوں کے اس اندرونی تصادم نے دونوں کے لئے یہ ناممکن بنادیا ہے کہ وہ اپنی اپنی بالک ہٹ کو ترک کرکے کچھ مشترکات پر اخلاص سے کام کرنے کا تہیہ کریں۔ ایک اس آلودہ جمہوریت کو جوں کا توں جاری رکھنے کی کھلی ضمانت دے اور اِسے تنگ اور ترک کرنے کے پوشیدہ منصوبوں سے دور رہے۔ اور دوسرا ہر طرح کی بدعنوانیوں اور دہشت گردیوں کے لئے سیاسی ارادے کو سرکاری فیصلے میں یکسوئی سے ڈھال لے۔ دونوں ہی اپنی’’ ناگزیریت‘‘کی بہتی رال کو مدت اور میعاد کے برتن میں رکھیں۔ اسے مدت ومیعاد کے برتن سے باہرنہ ٹپکنے دیں۔ اس طرح کسی ممکنہ تصادم سے بچنے کے لئے سیاسی قوتوں کوایک مکروہ ذہن کے ساتھ متحد رکھنے کا کھیل نفاذِ قانون کی خواہش پر غالب نہ آسکے گا۔ پھر ایپکس کمیٹیاں ہی نہیں ، نیشنل ایکشن پلان بھی اپنے ثمرات ظاہر کرنے لگے گا۔
یہ بنیادی طور پر دونوں قوتوں کے تصوراتِ ذہنی اور وارداتِ قلبی میں جاری آویزش کا نتیجہ ہے کہ مملکت مسائل سے نکل نہیں پاتی۔ اور بہتری کا ہر امکان مایوسی کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔ یہ دونوں ہی ذہنیتوں پر ناقص تصورات کی حکمرانی کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ ایپکس کمیٹی تک کو موثر بنانے میں ناکام ہیں۔ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں یہ طے ہوا تھا کہ اس کا اجلاس ہر ہفتے طلب کیا جائے گا۔ مگر بدھ (۲؍دسمبر) کو ہونے والا اجلاس ڈھائی ماہ کے بعد منعقد ہو سکا۔ جس بیٹھک (فورم) میں رہ کر سارے مسائل کا حل ممکن بنایا جانا ہے، اُس بیٹھک کو ممکن بنانا بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ مسئلہ دو ذہنیتوں کے درمیان فاصلوں کے باعث ایک دوسرے سے بچنے اور ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنے کی افتاد کا عکاس ہے۔معلوم نہیں ، ان کے طرزِ فکر کو کون سی دیمک لگ چکی ہے جو مسائل کے سرے کو سمجھنے میں ہی ناکام ہے۔ کہا گیا کہ استغاثہ کی کارروائی (پراسکیوشن) یعنی ملزموں کو سزادلانے والا سرکاری نظام نہایت خراب ہے۔ اور ا س کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ مزید دوسومستغیث( پراسیکوٹرز ) مقرر کئے جائیں گے۔دہشت گردی کے مسلسل واقعات جاری ہیں ، اس لئے اب ۸؍ ہزار نئی بھرتیاں کی جائیں گی۔ فیصلے جلدی نہیں ہو رہے ہیں اس لئے تیس نئی انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ مزید دو سو مستغیث بڑھانے سے استغاثہ کی کارروائی میں سدھار کیسے آجائے گا۔ جب کہ یہ مسئلہ مقدار سے نہیں معیار سے تعلق رکھتا ہے۔ ۸؍ ہزار نئی بھرتیوں سے پولیس دہشت گردی کے مسئلے پر کیسے قابو پالے گی، جبکہ پویس خود مسئلے کا حصہ ہے اور اُس کا بنیادی مسئلہ تعداد سے نہیں اُس کے کردار کی نوعیت اور اہلیت کی حالت سے جڑا ہے۔ عدالتیں بڑھانے سے انصاف آسان نہیں ہو جائے گا۔ جبکہ منصف اپنے اندر کوئی بنیادی تبدیلی لانے کو تیار نہ ہو۔ ریاست کے مسائل مقدار سے نہیں کردار سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور ریاست کے تمام ادارے اور افراد کردار کو بدلنے کے بجائے مقدار کی بدبودار بحث میں پڑے ہیں۔ انتہائی ادب سے عرض ہے کہ ۸؍ ہزار پولیس اہلکاروں کی بھرتی ، دراصل بوچڑ خانے میں نیے قصائیوں کی بھرتی ہے۔علیٰ ہذاالقیاس دیگر مسائل کو بھی اسی طرح رکھ کر دیکھ لیجئے۔ یہ دائروں کا سفر ہے۔ مسائل بڑھتے اور افراد کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہیں،مگر کہیں پر بھی مسائل کود یکھنے کا پیمانہ بدلنے کی کوئی سوچ ہی نہیں۔ مقدار بڑھا کر کردار میں تبدیلی نہیں آتی اور کردار بدل جانے سے مقدار کا مسئلہ باقی نہیں رہ جاتا۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...