وجود

... loading ...

وجود

مقبوضہ کشمیر۔۔۔۔۔ ریاستی دہشت گردی کے کئی روپ

جمعه 04 دسمبر 2015 مقبوضہ کشمیر۔۔۔۔۔ ریاستی دہشت گردی کے کئی روپ

kashmir-azadi-freedom

ایک طرف بھارت سرکار نے فوج ،بی ایس ایف اور دیگر نیم فوجی تنظیوں کوافسپا(AFSPA) کے نام پر کشمیریوں کو کچلنے کیلئے کھلی چھوٹ دیدی ہے ،وہیں دوسری طرف ریاستی دہشت گردی کے مختلف طریقے بھی ایجاد کئے گئے ،ان میں منحرف بندوق برداروں کی تنظیمیں قائم کرنا،مسلم اکثریتی علاقوں کے ترقیاتی فنڈز اور سرکاری نوکریوں میں امتیاز برتنا شامل ہے۔بھارتی سراغ رساں ایجنسی را نے 1994 میں شمالی کشمیر میں’’ کوکہ پرے ‘‘کی قیادت میں اخوان المسلمین سے وابستہ یوسف پرے (المعروف کوکہ پرے المعروف جمشید شیرازی) کی قیادت میں منحرف بندوق برداروں کا ایک گروپ تشکیل دیا ، جس کا نام اخوان المسلمون رکھا گیا۔اسی طرح جنوبی کشمیر میں ’’نبہ آزاد‘‘ نامی منحرف بندوق بردار کی قیادت میں ایسا ہی ایک گروہ مسلم مجاہدین کے نام سے منظم کیا گیا ،چونکہ ان گروہوں سے وابستہ افراد کا تعلق مجاہدین تنظیموں سے ہی تھا ،اس لئے یہ ہر ایک تحریکی ہمدرد اور کارکن سے واقف تھے ۔گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مترادف ،ان لوگوں نے ایسا طوفان بدتمیزی مچایا کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔فوج کی چھتر چھایا میں ان لوگوں کے ہاتھوں نہ صرف مجاہدین شہید ہوتے رہے بلکہ عام کشمیری بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ رہ سکے۔بھارتی فوج کا کام انہوں نے آسان بنا دیا ،اب فوج اور بی ایس ایف کے بجائے ہر الزام منحرف بندوق برداروں کے کھاتے میں پڑنے لگا۔ان سرکار نواز بندوق برداروں کی کارروائیاں نوے کی دہائی کے اختتام تک جاری رہیں۔

نوے کی دہائی کے وسط میں ان کا سکہ ریاست میں ہر جانب سے چل رہا تھا۔ قانون ، حکومت، ایوان اْن کے اشاروں پر کام کرتے تھے، سرکاری و غیر سرکاری تمام شعبہ جات میں اِن منحرف لوگوں کا اس حد تک عمل دخل تھا کہ عام انسان خوف اور دہشت کے مارے کہیں سے بھی انصاف کی امید نہیں کرتا تھا۔اِن منحرف بندوق برداروں کی نہ صرف فوج اور نیم فوجی ایجنسیاں اْن کی تمام غیراخلاقی، غیر انسانی و غیر قانونی کارروائیوں کی پشت پناہی کرر ہی تھیں،بلکہ حکومتِ وقت مہربان تھی اور اْنہیں وہ سب کرنے کی کھلی اجازت ہوتی تھی جس کی اجازت جنگل کا قانون بھی نہیں دے سکتا ہے۔ درجنوں ادیب ،دانشور،سیاسی کارکن اِن سرکاری بندوق برداروں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔کپواڑہ سے کشتواڑ تک ہزاروں بیگناہوں کا قتل عام کیا گیا، اغوا کاری کر کے تاوان وصول کرنا عام بات بن چکی تھی، ملّت کی کتنی ہی ایسی بدنصیب بیٹیاں ہیں جو جرائم کے اِن کالے بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ گئی ہیں، کم ہی ایسے ذی عزت لوگ ہوں گے جو اْن کی تذلیل سے بچے ہوں گے، دیہات سے ہزاروں خاندانوں کی ہجرت کا بنیادی سبب یہی سرکاری بندوق بردار رہے ہیں۔ان گھر کے بھیدیوں کے ہاتھوں اپنے ہی لوگوں کے خلاف تاریخ نے اتنا ظلم و ستم اپنے اوراق میں سمیٹ لیا ہے کہ قیامت تک اِس قوم کی آنے والی نسلیں اْنہیں بد دعائیں ہی دیں گی۔

کریسنٹ آن لائن کے مطابق 1989ء سے 2009 تک 100000 کشمیری جاں بحق ہوئے ہیں ،جن میں 92,906لوگ عام شہروں ،گلیوں ،کوچوں اور گھروں کے اندر شہید ہوئے ہیں ۔شہید ہونیوالوں میں خواتین کی تعداد 2278ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کے طول وعرض میں سب سے زیادہ جماعت اسلامی سے وابستہ لوگ اِن کے ظلم و ستم کا شکار ہو ئے ہیں، اس تنظیم کے850 سے زائد ارکان و رہنماؤں کو انہی بندوق برداروں نے موت کے گھاٹ اْتار دیا، کپواڑہ ضلع میں1995ء کی ایک ہی رات میں30 سے زائد جماعت سے وابستہ یا اس تنظیم سے ہمدردی رکھنے والوں کو مختلف مقامات پر ابدی نیند سْلا دیا گیا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اِنRenegades نے بھارتی فورسز کی سرپرستی میں ایسے سیاہ کارنامے انجام دئیے جس کا احسان ان کے آقاؤں کی کئی پشتوں پر رہے گا۔

ترقیاتی فنڈز میں امتیاز

2001 ء کی مردم شماری کے مطابق صوبہ کشمیر کی آبادی 5467970 ،جموں صوبے کی آبادی 4430191اور صوبہ لداخ کی آبادی 236539ہے۔لیکن2008ء کے وزیراعظم کے خصوصی پیکیج 29000کروڑ روپے میں سے صوبہ کشمیر کیلئے 6447کروڑ(22%)،صوبہ جموں کیلئے12530کروڑ(43%) اور صوبہ لداخ کیلئے 2804کروڑ(9.67%)فراہم کئے گئے۔باقی رقم اسٹیٹ لیول سیکٹرز کو فراہم کی گئی۔حالانکہ آبادی کے تناسب سے کشمیر صوبے کا حصہ (54%)بنتا ہے۔جموں اور لداخ کا بالترتیب 43.7%اور2.3% حصہ بنتا ہے۔اسی طرح 5000کروڑصنعتی پیکیج کی رقم جو ریاست کو فراہم کی گئی کا صرف 10%حصہ صوبہ کشمیر میں خرچ کیا گیا۔اس طرح مسلم آبادی کو نظر انداز کرکے ان میں معاشی بدحالی کو فروغ دے کر انہیں پائی پائی کا محتاج بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پرائم منسٹرز پیکیج (امتیازی برتاؤ) جدول(1)

سال 2001ء لداخ جموں ڈویژن کشمیر ڈویژن
کل آبادی 236539 4430191 5467970
ترقیاتی فنڈ 2804 کروڑ (9.67 فیصد) 12530 کروڑ (43 فیصد) 6447 کروڑ (22 فیصد

مرکزی اور ریاستی انتظامی محکموں میں بھی ایسا ہی حال ہے۔2005ء میں سچر کمیٹی کے سامنے جو رپورٹ ریاستی سرکار نے پیش کی ،اس کے مطابق انڈین ایڈ منسٹریٹو سروسز میں ریاستی افسران کی تعداد کل 94ہے،جن میں سے کشمیرڈویژن سے صرف 24افسران ہیں۔ باقی سب کا تعلق جموں ڈویژن سے ہے۔اسی طرح کشمیر ایڈ منسٹریٹو سروسز میں 2001ء سے 2008ء تک 478تھی جن میں صرف 106کا تعلق کشمیرڈویژن سے ہے اور 360کا تعلق جموں ڈویژن سے ہے۔یہ بات صرف KASافسران تک محدود نہیں بلکہ 2008ء میں سروسز سلیکشن بورڈ نے 429 ا کاونٹساسسٹنٹ اسامیوں کی بھرتی کی جن میں وادی سے صرف 95 ا کاونٹس اسسٹنٹ لئے گئے ،جبکہ جموں ڈویژن سے 334امیدواروں کا انتخاب کیا گیا۔ اورجن میں مسلم طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ملازمتوں میں امتیاز ۔۔۔۔۔(جدول2)

سال 2008ء آئی اے ایس افسران کے اے ایس افسران
2001ء سے 2008ء
اکاؤنٹس اسسٹنٹ
2008ء (تقرریاں
کل تعداد 94 478 429
کشمیر ڈویژن 24 106 95
جموں ڈویژن 70 360 334

اس طرح کے امتیاز سے کشمیریوں کی محرومیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح بھارت نہ صرف فوجی طاقت سے ان کو زیر نگین رکھنا چاہتا ہے بلکہ معاشی لحاظ سے بھی انہیں کنگال کرکے ،در در کی بھیک مانگنے کے بھیانک عزائم رکھتا ہے تاکہ وہ دماغ سے سوچنے کے بجائے پیٹ سے سوچنے کا طریقہ اختیار کریں ۔

ریاستی دہشت گردی اعداد شمار کے آئینے میں

بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی فورسز نے تحریک آزادی کشمیر کو دبانے کیلئے طاقت کا بھر پور استعمال کیا ،اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔کرسچین سائنس مانیٹر کے مطابق ،پچھلے بیس برسوں میں60000سے 100000لاکھ بچے یتیم ہوئے ہیں۔کریسنٹ آن لائن کے مطابق 1989ء سے 2009 تک 100000 کشمیری جاں بحق ہوئے ہیں ،جن میں 92,906لوگ عام شہروں ،گلیوں ،کوچوں اور گھروں کے اندر شہید ہوئے ہیں ۔شہید ہونیوالوں میں خواتین کی تعداد 2278ہے۔

1989ء سے جولائی 2009ء تک (جدول 3)

کل شہدا 100000
زیر حراست شہادتیں 6559
خواتین کی بے حرمتی 9885
یتیم بچے 107262
بیوہ عورتیں 23000
شہری گرفتار 11633

معروف نیوز ایجنسی ،کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کے اعداد شمار کے مطابق جنوری 1989ء سے 31,اکتوبر 2015ء تک 94,273 کشمیری شہید ہوئے ہیں ،جن میں 7,038لوگ زیر حراست شہید کئے گئے ہیں ۔

جنوری 1989سے 31,اکتوبر 2015ء تک(جدول4) کشمیر میڈیا سنٹر

کل شہادتیں 94,273
زیر حراست شہادتیں 7,038
خواتین کی بے حرمتی 10,159
یتیم بچے 107,545
بیوہ عورتیں 22,806
شہری گرفتار 131,212
مکانات و تعمیرات خاکستر 106,050

لا پتہ لوگوں کے ورثاء کی تنظیم اے پی ڈی پی (Association of Parents of Disappeared Persons )کی ایک رپورٹ کے مطابق 1989ء سے اگست 2015تک10000لوگ بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوکر لا پتہ کردئے گئے ہیں ۔ اے پی ڈی پی ( Association Of Parents Of Disappeared Persons)ان والدین کی تنظیم ہے جن کے بچے ،بھائی یا قریب ترین رشتہ دار ،بھارتی فورسز کے ذریعے گرفتاری کے بعد لاپتہ ہوئے۔جبکہ سری نگر ہائی کورٹ بار ایسو ایشن کے اعداد وشمار کے مطابق 3لاکھ کشمیریوں کو انٹروگیشن سنٹروں اور بھارتی جیلوں میں شدید تعزیب کا نشانہ بنایا گیا۔

انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس تنظیم کے مطابق کشمیر کے صِرف تین اضلاع میں2373 بے نام قبریں موجود ہیں جن میں سے ایک سو چون قبروں میں ایک سے زائد لاشیں دفنائی گئی ہیں ۔یہ انکشا ف پر وفیسر اونگنا چٹر جی نے تنظیم کے دیگر اراکین پرویز امروز، گوتم نولکھا، ظہیرالدین، مِہیر ڈیسائی اور خرم پرویز کے ہمراہ 9 دسمبر 2009 کو ایک پریس کانفرنس میں اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کیا ۔اس رپورٹ کو اونگنا چٹرجی ، پرویز امروز، گوتم نولکھا، ظہیرالدین، مِہیرڈیسائی اور خرم پرویز نے مشترکہ طور تحریرکیا ہے۔ رپورٹ کے ابتدائیہ میں لکھا گیاہے: کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی عملہ فرضی جھڑپوں، حراستی تشدد اور خفیہ قتل کی کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں جس کے نتیجہ میں آٹھ ہزار لوگ لاپتہ ہوگئے ہیں اور ستّر ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

جموں کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن کے سربراہ بشیر احمد یتو نے 2011اگست میں اپنی رپورٹ حکومت جموں وکشمیر؂ پیش کی جس کے مطابق شمالی کشمیر کے علاقوں کپواڑہ، ہندواڑہ اور بانڈی پورہ کے 35 مقامات پر 2156 افراد کی نہ صرف گمنام بلکہ اجتماعی قبروں کا سراغ ملا ہے۔ ان مقامات پر اٹھارہ گڑھا نما قبروں میں ایک سے زیادہ افراد کے دفن ہونے کا پتا چلا ہے، گویا کہ ان گڑھوں میں اجتماعی طور پر کئی افراد دفن کیے گئے ہیں ۔معروف کشمیری خاتون قلمکار سوزینہ مشتاق اس ساری جدوجہد کا خلاصہ اپنی ایک تحریر”Happy Indepenence Day” میں یوں بیان کرتی ہیں کہ ” تحریک آزادی کشمیر کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔جدجہد آزادی میں اتار چڑھاؤ آسکتے ہیں لیکن یہ تحریک منزل تک پہنچ کر ہی دم لے گی۔جب ہم نے آپ کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف احتجاج کیا،جب ہم نے آپ کے جابرانہ اور استبدادی اقتدار اعلیٰ کے خلاف آواز اٹھائی ،جب ہم نے ظلم سہنے سے انکار کیا،جب ہم نے اپنی آزادی کا مطالبہ کیا،تو آپ کی فوج نے بڑی سفاکی سے ہمارا خون بہایا۔ کشمیر کے چپے چپے میں آپ نے ظلم و زیادتی کی انتہا کردی۔حد یہ کہ بچوں تک کو بھی اس سفاکیت کا شکار بننا پڑا۔جب آپ کی سرزمین کے لوگوں نے برطانوی راج کے خلاف آواز بلند کی ،آپ نے انہیں آزادی کے مجاہد قرار دیا۔انہیں اپنا ہیرو تسلیم کیا۔لیکن جب ہم نے اپنی سرزمین میں وہی آواز بلند کی تو آپ نے نئی بولی بولنی شروع کردی۔آپ نے ہمارے شہیدوں کو غدار،ہمارے مجاہدین کو انتہا پسند اور بنیاد پرست،اورہماری تحریک کو خبط و جنوں کے دورے سے تشبیہ دے کر،پاگل پن قرار دیا۔لیکن آپ ناکام ہوگئے۔آپ ہماراعزم و ہمت توڑنے میں با لکل ناکام رہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ اور دیگر ظالمانہ اور کالے قوانین کے ذریعے ہماری آرزوں اور تمناوں کو دبانے میں قطعی ناکام رہے۔دفعہ144کے نفاذاور بل کھاتی ہوئی خار دارتاریں ہمارے ظاہری وجود کو حرکت کرنے سے شاید روک سکیں ،لیکن ہمارے خیالات و احساسات کو کوئی رکاوٹ روک نہیں سکتی۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے احساسات اور خیالات ہم سے چھین نہیں سکتی۔آپ بہت ہی بری طرح ناکام ہوگئے۔بات جہاں درمیان میں رکی تھی ،وہ بعد میں بھی پھر کہی جاسکتی ہے۔ ہم دوبارہ کسی بھی وقت اس موضوع کو وہیں سے پھر شروع کرسکتے ہیں ،جہاں ہم نے اسے وقفہ دیا تھا۔دو سو سال کی غلامی کے بعد آپ نے آزادی حاصل کی۔۔۔ہم بھی اپنی آزادی حاصل کرلیں گے۔کہا جاتا ہے نا۔۔امید تو رکھنی چاہیے اور خواب کبھی مرتے نہیں۔۔ ہم خواب بھی دیکھتے رہیں گے اور امید کا دامن بھی نہیں چھوڑیں گے”

حقیقت حال بھی یہی ہے کہ کشمیر غلامی کی آگ میں جھلس رہا ہے ۔اور جب تک یہ جنت ارضی اس آگ میں جلتی رہے گی کشمیری قوم کا سفر بھی جاری رہے گا ۔سعادت کا سفر ،شہادت کا سفر ختم نہیں ہو گا۔سو کشمیریوں کا سفر آج بھی جاری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک کہ کشمیریوں کو آزادی سے رہنے ،جینے اور سر اٹھاکے چلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر