... loading ...
ترُکی نے جب چھبیس نومبر کو روس کا SU-24 لڑاکا طیارہ اپنی سرحد کے اندر مار گرایا تو مشرق وسطی میں ایک نئی کشیدگی کا آغاز ہوگیا۔ایسا لگا کہ روس کو ترکمان باغیوں پر فضائی حملہ کرنے کا تُرکی بہ تُرکی جواب دیا گیاہے۔اردو محاورے میں تُرکی بہ تُرکی جواب دینے کا مطلب حاضر جوابی ہے کمال یہ ہے کہ خود ترکی زبان میں بھی حاضر جوابی کی اصطلاح موجود ہے مگر اسے لکھتے کچھ یوں ہیں ’’ Hazir cevapــ‘‘۔
استنبول کے علاقے سلیمانیہ کو آپ کراچی کا کھارا در اور لاہور کا گوالمنڈی سمجھ لیں مگر زیادہ صاف ستھرا، نشیب و فراز والے پر پیچ پتھریلے راستوں سے گزرتے ہوئے یہاں کئی عمارات کو دیکھ کر آپ قدیم درختوں کی چھال اور جھولتی ٹہنیوں سے تاریخ کے حوالے پوچھ سکتے ہیں ۔
عبدالرحمان ترکمان کی دُکان اسی سلیمانیہ سے ذرا ہٹ کر ہے۔اس کی دُکان سے خاکسارنے پکاسو اور برازیل کے آرٹسٹ رومیرو بریتو کی تصاویر پر مبنی کشیدہ کاری کئے ہوئے کشن خریدے تھے۔دونوں مصوروں کا کمال یہ ہے کہ اپنے عروج فن کے زمانے میں انہوں نے بالکل بچوں کے انداز میں تصاویر بنانا شروع کیں۔ شوخ، چٹختے ہوئے نیلے، نارنجی، پیلے رنگ، سادہ ، بڑی آنکھوں والے انسانی فگرز۔پکاسو کو تو اپنے اس انداز مصوری پر ناز بھی بہت تھا ،وہ کہا کرتا کہ وہ رافیل کی طرح تصویریں بنانا تو محض چار سال کی عمر میں ہی سیکھ گیا تھا مگر بچوں کی طرح مصوری کا انداز اپنانے میں اس کی ایک عمر صرف ہوگئی۔
عبدالرحمان ترکمان کا گھرانہ ان کئی سو افغان، ترکمان گھرانوں میں سے ایک ہے جو افغانستان پر روسی حملے کے بعد بطور پناہ گزین پاکستان آگئے اور ایک سال کے اندر انہیں ترکی نے اپنے اصلی باشندے قرار دے کر اپنے ہاں بلاکر بسالیا۔ وہ یہاں خوش ہیں، خود عبدالرحمان ایسے رچ بس گئے ہیں کہ شادی بھی کسی مقامی خاتون سے ہی کی ہے۔ ترکی منتقل ہونے سے قبل وہ کافی عرصے تک کراچی میں بھی قیام پزیر رہے۔ پاکستان سے انہیں دو وجوہات سے بہت کوفت ہوتی تھی اور ایک تو ایسی وجہ ہے جس سے مملکت خداداد پر آج بھی بڑا ناز اور احساس طمانیت محسوس ہوتا ہے۔جن باتوں پر وہ بہت گرانی محسوس کرتے تھے وہ پان اور گٹکے سے پھیلی ہوئی جا بہ جا غلاظت اور مردوں کا بطور لباس شلوار قمیص کا استعمال تھا۔ان کا خیال ہے کہ یہ دونوں باتیں پاکستانی عوام کو جدید عوام بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دنیائے عرب،ترکی انڈونیشیا اور ملائشیا بھی لباس کی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان سے زیادہ ماڈرن لگتے ہیں۔پاکستان کی اکثریت شاید ان کی بات سے متفق نہ ہو اور اسے یکسر رد کردے مگر کچھ ایسا ہی اس عوام نے خشک دودھ، بناسپتی گھی، فارم کے مرغی انڈوں کے ساتھ بھی کیا تھا۔ ابتدا میں بے حد ناپسندیدگی دکھائی جاتی تھی، بعد میں زندگی کا لازمہ بن گئے جس دن پاکستان میں کسی بڑی برانڈ نے اپنے جدید لباس کی مارکیٹ ڈھونڈ لی تو پاکستان میں اولڈ نیوی اور بنانا نیوی اور بناناری پبلک کے ملبوسات تفاخر اور خوش پوشی کی نئی علامات بن جائیں گے۔وہ پاکستان کی جس بات پر بہت نازاں دکھائی دئے وہ ہمارا ایٹمی پروگرام ہے۔ ان کا شوخی بھرا مطالبہ تھا کہ پاکستان ترکی کو چند ایٹم بم دے دے تو کیا ہی اچھا ہو ۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ یہ بم یونان کے خلاف استعمال کریں گے تو انہوں نے کھلی ہتھیلی پر اشارتاً پھونک مار کر اڑادیا ۔ مسکراکر کہنے لگے وہ یہ بم روس کے مقابلے پر استعمال کریں گے۔یہ سال رواں کی جولائی کا آخر تھا۔ موجودہ چپقلش جو طیارہ مارگرانے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے وہ کچھ عجیب ہے۔ ترکی اور روس دونوں ایک عرصے تک عالمی طاقتیں تھیں۔
اب یہ جیسی اور جتنی بھی ہیں ،ان کے سربراہان ولادیمر پیوٹن اور طیب اردگان اپنے اپنے ممالک کے مردان آہن ہیں،دونوں ہی سیاسی طور پر قدامت پسند ہیں اور دونوں اپنے اپنے ممالک کی حد تک اس سوچ پرپختہ یقین رکھتے ہیں کہ مغربی طاقتیں مسلسل ان کے بارے میں سازشیں کرتی رہتی ہیں۔غالباً یہی امر واقعی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 56 بلین ڈالر کی تجارت بھی ہوتی ہے اور ایک عرصہ دراز سے علاقائی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے ۔
روسی فضائی در اندازی پر ترکی کے ایف سولہ طیارے سے فائر کردہ میزائل سے جب ان کا طیارہ تباہ اور ایک پائلٹ لقمۂ اجل بنا تو روس نے براہ راست کسی فوجی مداخلت سے تو گریز کیا مگر یہ اعلان ببانگ دہل کیا کہ ترکی نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے ۔ان کے وزیر خارجہ نے اپنا نہ صرف اگلے دن کا دورہ منسوخ کردیا بلکہ یہ الزام لگایا کہ ترکی میں ایسے کئی گروپ ہیں جو داعش کی تیل کی تجارت میں مصروف ہیں۔ گو روس کاS-400 میزائل شام کے علاقے خمیم میں نصب کرنے کا ارادہ تو اپنی افواج کے شام میں ملوث ہونے کے منصوبے کا حصہ تھا مگر یہ بات بہت گمبھیر ہے کہ دونوں ممالک میں فوجی مواصلت بالکل منقطع ہوگئی ہے۔خود صدر پیوٹن نے نہ صرف طیب اردگان سے فون پر بات کرنے سے گریز کیا ،بلکہ اس واقعے کے بعد فوراً بعد ان تمام ترکی کے دیہاتوں پر جن میں ترکمان آباد ہیں اور جو شام اور ترکی کی سرحد پر واقع ہیں، بمباری میں اضافہ بھی کردیا ہے۔ روس اور ترکی کی یہ فضائی مخاصمت کوئی نئی نہیں ۔اسی سال اکتوبر میں روس کا ایک جاسوس ڈرون ترکی نے اپنی سرحد کے اندر مارگرایا تھا اور شام کی سرحد میں ترکی کا ایک ایف فور جاسوس طیارہ بھی گرادیا گیا ۔ ترکی نے اس کا الزام ان روسی ماہرین کو دیا تھا جو شامی فضائیہ کے میزائل نظام کے نگران ہیں۔یہ بات البتہ تمام ممالک کے لئے بہت باعث تشویش ہے کہ نیٹو کے کسی ممبر ملک نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ روس کا طیارہ مارگرایا ہے۔
اس بات کا امکان تو بے حد کم ہے کہ نیٹو کے دیگر ممالک بھی اس جنگ کا حصہ بنیں مگر سردست کوشش یہ کی جارہی ہے کہ اس حربی مخاصمت کو دو ممالک کی سفارتی چپقلش سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔امریکی امداد پر جو اس نے صدر بشار الاسد کے مخالف گروہوں میں تقسیم کی ہے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔صدر پیوٹن کی یہ الزام تراشی کہ داعش کو بیس ممالک کی جانب سے مالی اعانت ہوتی ہے ،ایک حیران کن بیانیہ ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ مسلم ممالک کے لئے یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اس بات کا درست اندازہ لگا لیں کہ مغربی طاقتیں بشمول چین اور روس اور خود ایران کے ان کے علاقے میں کیا عزائم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق یہ سب کے سب ایسے اقدامات کیوں کررہی ہیں کہ جس کی وجہ سے بظاہر صرف بشار الاسد کے اقتدار کو دوام مل رہا ہے۔یہ جو عیسائی پیشوا پوپ نے بھی تیرہ نومبر کو پیرس حملے کے بعد فوراً اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک چھوٹے پیمانے پر تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس سے دنیائے عرب و اسلام کی بربادی کے کون سے نئے مشورے آسمانوں میں جاری ہیں۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...