... loading ...
کراچی نے بلدیاتی انتخابی مہم کا سب سے بڑا دن (اتوار)امن و امان سے گزار لیا ۔ہر سیاسی پارٹی نے طاقت دکھائی اورکراچی نے اِسے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کو رواں دواں رہنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔بلدیاتی انتخابی مہم کے دوران عجیب بات نظر آئی کہ عوام کسی بھی پارٹی کے لیے ماضی کی طرح جوش و خروش کے ساتھ نہیں نکلے۔غالباً اس لیے بھی کہ الیکٹرانک میڈیا سب کچھ گھر بیٹھے دکھا دیتا ہے، چنانچہ عوام دھوپ دھول اور مٹی میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں کے اقدامات سے اس قدرمایوس ہیں کہ روٹھ کرگھربیٹھ رہے۔ پاکستان میں سیاست اور عوامی خدمت کاروبار بن گیا ہے۔الیکشن کے بعد سیاست کاروں کی بے رخی نے عوام کو سیاسی جماعتوں سے دور کردیا ہے جس کی تازہ جھلک اتوار کے روز کراچی میں نظر آئی۔گرما گرمی تو بہت تھی لیکن یہ بیانات اور تقاریر تک محدود رہی۔کارکنوں اورحامیوں نے پر جوش شرکت نہیں کی۔یہ رجحان آہستہ آہستہ لوگوں کو جمہوریت سے دور کرنے کا ’’سنہری موقع ‘‘فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔عمران خان نے تو یہ کہہ کرجلتی پر تیل ڈالا کہ’’اسمبلیوں‘‘ میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کے کسی بھی سرخیل نے اس بیان کی مذمت نہیں کی، خاموشی دلیل بن رہی ہے کہ یہ الزام سچ ہے۔پاکستان کے 73کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کرنے والے رضا ربانی بھی خاموش رہے لیکن کیا کراچی 5دسمبر کو بھی خاموش رہے گا؟ یا سیاسی کارکن ووٹرز کی بڑی تعداد کو پولنگ اسٹیشن تک لے آئیں گے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کراچی کا ’’مختصر دورہ کیا۔‘‘وقت تو دو دن کا تھا لیکن جس نے بھی شیڈول ترتیب دیا وہ عمران خان کا خیرخواہ نہیں ہے، افراتفری کا عالم نظرا ٓیا،ہڑبونگ مچی رہی۔جہاں جانا تھا وہاں نہیں گئے جہاں نہیں رکنا تھا وہاں چار پانچ گھنٹے گزار دیئے۔داؤد چورنگی پر شرکا انتظار کرتے رہے۔مشتعل کارکنوں کے غیظ و غضب نے رہنماؤں کو’’روپوش‘‘ ہونے پر مجبور کردیالیکن تب تک کپتان ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔لیاری کا جلسہ بھی توقع کے مطابق نہ تھا۔عوام کی تعداد کسی بڑی عمرکے سرکے سفید بالوں کی جھالر کی طرح نظر آرہی تھی۔عمران خان اردوبولنے والے علاقوں میں نہیں گئے ۔صرف فائیواسٹار چورنگی پر ہاتھ ہلانے کے لیے رکے اورتیزی سے نکل گئے۔کراچی کے عوام تو وزیر اعظم سے شکوہ کرتے تھے کہ وہ کراچی کا مختصر ترین دورہ کرتے ہیں۔اب وہ’’نیا کراچی‘‘ بنانے والے لیڈر سے بھی یہی گلہ کررہے ہیں ۔
پیپلز پارٹی نے اتوارکو شیری رحمن کی قیادت میں بلاول ہاؤس چورنگی سے سپارکو چورنگی تک ریلی نکالی ۔ پیر کو پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس اور بلدیاتی الیکشن کا’’ٹو ان ون ‘‘جلسہ ملیر میں ہوا۔جلسے سے بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کیا ،یوں کراچی میں ایک بار پھر ان کی دستار بندی کی گئی لیکن یہاں بھی عوام کا وہ جوش وخروش نظر نہیں آیا جو پیپلز پارٹی کا خاصا رہا ہے۔ملیر اور لیاری میں پیپلز پارٹی نے کبھی راج کیا تھالیکن اب لیاری ہاتھ سے نکل گیا اور ملیر کو بچانے کی کوششیں میمن گوٹھ کے جلسے میں نظر آئیں۔
ایم کیو ایم کی انتخابی مہم میں بھی جوش و خروش کا فقدان تھا۔ایم کیو ایم کو بیک وقت مختلف اتحادوں اور’’نہ رکنے‘‘ والے آپریشن کا سامنا ہے۔ایم کیو ایم نے اپنی تنظیمی قوت سے کراچی میں اپنی طاقت کا جال بچھا رکھا ہے۔ ان کے پاس مہاجر قومیت اور علیحدہ صوبے کا مسحورکن نعرہ ہے۔کراچی میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کارکنوں کی اتنی بڑی فوج نہیں جتنی اکیلے ایم کیو ایم نے جمع کررکھی ہے۔جماعت اسلامی ابتدا میں مہاجر جماعت تھی اور بھارت کے شہرحیدرآباد دکن سے آنے والے ان کے بانی کراچی میں کچھ دن قیام کے بعد لاہور منتقل ہوگئے کیونکہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی تھی کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ پنجاب بننے والا ہے لیکن 1970 کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت کر خود کو تقویت پہنچائی تھی اور بھٹو کے خلاف تحریک میں مہاجروں نے دل اور تجوری کھول کر ساتھ دیا تھا۔1977 میں جنرل ضیا الحق آئے اور انہوں نے بھی کہا کہ’’ میں مہاجر‘‘ ہوں لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ بات منظر عام پر آئی کہ وہ مسلم اقلیتی صوبوں کے نہیں جالندھر کے مہاجر ہیں۔جماعت اسلامی کراچی کی اس بدلی ہوئی فضا میں اپنی طاقت کو سمیٹ رہی تھی کہ افغانستان میں روس داخل ہوا اورافغان جہاد شروع ہوگیا۔ جماعت اسلامی نے پشاور سے اپنا امیر منتخب کرلیاتو کراچی کے مہاجر قومی سیاست میں تنہا ہوگئے۔ ابھی مہاجر اس صدمے سے نکلے بھی نہیں تھے کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے میئر کی چابی عبدالستار افغانی کو دیدی ۔مرے کو مارے شاہ مدار!
کہا جانے لگا کہ مہاجروں کو اپنی قوت کو ’’ایٹمی طاقت ‘‘میں تبدیل کرنا پڑے گا۔ پورا شہر اور اندرون سندھ کی مہاجر آبادی الطاف حسین کے پیچھے چل پڑی۔عبدالستار افغانی نے ایک نئے آئیڈیا پر کام کیا۔کراچی کی سرکاری زمینوں پر قائم ہونے والی کچی آبادیوں کو’’مفت عوامی ‘‘نلکوں کے ذریعے پانی دینے کا اعلان کیا اور جہاں پائپ لائن نہیں تھی وہاں بھی ٹینکروں کے ذریعے مفت پانی سپلائی کیا گیا تاکہ ان کچی آبادیوں میں جماعت اسلامی کی طاقت کومنظم کیا جائے۔ابتدا میں جماعت اسلامی اس مشن میں کامیاب بھی ہوئی لیکن اس کی پکائی اس دیگ کو چٹ کرنے کے لیے اے این پی اور پنجابی پختون اتحاد آگے بڑھے۔جماعت اسلامی کے لیے یہ کٹھن مرحلہ تھا کہ’’دکھ‘‘ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھانے آجائیں ۔اور ایسا ہوا بھی کوؤں نے مزے سے انڈے کھائے اور جماعت اسلامی کراچی کی سیاست سے کچھ اور دور کردی گئی۔ اگر اس وقت جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کو لے کر آگے بڑھتی تو ایم کیو ایم کو اتنا موقع نہ ملتاکیونکہ ایم کیو ایم کی لیڈر شپ ابھی نووارد تھی ،تجربے کی کمی تھی، پیسہ اور وسائل بھی نہ ہونے کے برابر تھے مگر جماعت خود کو مذہبی سیاست تک محدود رکھ کر کراچی کی پالیٹکس پر قبضہ واپس لینا چاہتی تھی لیکن وقت اور حالات بدل گئے تھے۔آج بھی جماعت اسلامی یہ کہتی ہے کہ وہ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے دور کو واپس لانا چاہتی ہے۔ ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ کراچی والے ان دونوں شخصیات جیسے میئر کا انتظار کررہے ہیں۔نعمت اللہ خان کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کے لیے ان کے یہ ریمارکس ہی کافی ہیں کہ ’’کچی آبادیا ں ‘‘کراچی کے ماتھے کا جھومر ہیں ،جبکہ وہ خود کراچی کے پوش علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہائش پذیر ہیں۔یہ اور بات ہے کہ جماعت اسلامی 5دسمبر کے بلدیاتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم میں نعمت اللہ خان کو’’فاتح ‘‘کراچی کی حیثیت سے ا سٹیج پر اور عمران خان کے ساتھ ٹرک پرنہیں لائی جبکہ شخصی طور پر نعمت اللہ خان بہت نرم مزاج اور خوش اخلاق انسان ہیں اور اپنے مدمقابل کو قائل کرنے اور ساتھ لے کر چلنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔یہ تو جماعت اسلامی ہی بتاسکتی ہے کہ اتنی اہم شخصیت جس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی میدان میں کیوں نہیں لائی گئی ؟
5 دسمبر کے انتخابات کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اِس بار اتنی آسانی سے الیکشن نہیں جیت سکے گی اور ایم کیو ایم کے سب سے بڑے مخالف ذوالفقار مرزا کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ الیکشن تو جیتے گی لیکن مارجن اتنا بڑا نہیں ہوگا۔غیر جانبدار تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ”ایم کیو ایم کی کامیابی میں ان کی طاقت کا اتنا بڑا دخل نہیں ہوگا جتنا ان کے مخالفین کی تنظیمی کمزوریاں اور غلطیاں اس کا سبب ہوں گی۔ایم کیو ایم کے کارکن بلدیاتی انتخابی مہم کے لیے جب گھر گھر جاتے ہیں تو خواتین بڑے تیکھے سوالات کرتی ہیں ’’ ہم اپنا ووٹ‘‘ لندن والے بھائی کو دے دیں گے لیکن کم از کم میرے بیٹے کا چھینا ہواموبائل فون تو واپس دلوادیں۔یہ مخالفین کے جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کو کئی مقامات پر کڑے سوالات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے مگر ان کے مخالفین اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔کئی جگہ یہ بحث دیکھی گئی کہ جماعت اسلامی ایم کیو ایم کو سیدھا کرنے کیلئے اپنے ’’بڑے بھائی‘‘ تحریک انصاف کو لے آئی لیکن اتوار کے روز ریلی کے آدھے راستے سے عمران خان کاٹرک سے اتر جانا تجسس کا باعث بنا ہوا ہے۔کراچی کی انتظامیہ کا یہ مزاق بھی سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان کو جیل کے پاس کیوں اتارا گیا ؟ وہ کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟اور جماعت اسلامی کے امیر کو بچی کھچی ریلی کے ساتھ قائد اعظم کے مزار پر کیوں بھیج دیا گیا؟ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان دھرنے کے دنوں کے دوران’’لندن‘‘ والے سے آشیرواد لے کر مزار قائد کے قریب میدان میں جلسہ کرنے کے لیے آئے تھے ۔انتظامیہ نے مزار قائد کے دروازے کھلے رکھے لیکن وقت کی کمی نے اس لیڈر کو پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر کی قبرپر نہیں جانے دیا۔
بلدیاتی انتخابات ایم کیو ایم کے لیے کیا نتیجہ لاتے ہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔1986 سے 2015 تک کراچی کی سیاست میں بلاشرکت غیرے غالب کردار ادا کرنے والی تنظیم کو اب اپنی کامیابیوں کے اسباب اور غلطیوں کے نتائج کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کے اس نعرے نے کراچی میں بہت بڑی حمایت پیدا کردی ہے کہ ’’کام ‘‘تو اپنے ہی آتے ہیں ۔اس نعرے نے بکھرے ہوئے اردوا سپیکنگ لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کردیا ہے لیکن انہیں بھی اپنا بن کر دکھانا پڑے گا نعرے کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا ۔
سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے بہت سے اختیارات منتخب نمائندوں سے چھین کر ’’دیہی بیوروکریسی‘‘ کے ہاتھ میں دے دیئے۔لگتا ہے کہ یہ معاملہ کسی بڑی لڑائی کا نقطہ آغاز بنے گا۔خود فاروق ستار نے اپنے اگلے منشور کا اعلان اِن الفاظ میں کیا تھا کہ ’’میئر‘‘کے لیے وزیر اعلیٰ کو آدھے اختیارات چھوڑنا پڑیں گے ورنہ۔دوسری جانب سندھ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کراچی کا پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس جو بلدیہ کراچی کا حق ہے اس کے اکاؤنٹ میں نہیں جاتا۔اسی وجہ سے کراچی کی سڑکیں موئن جو دڑو کی سڑکوں کے سامنے بھی شرمندہ نظر آتی ہیں۔
سندھ حکومت نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے حوالے سے اپنی ضد پر قائم ہے۔ سندھ حکومت کا الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے پولیس موجود نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے سندھ حکومت...
حکومت سندھ نے ایک مرتبہ پھر بلدیاتی انتخابات میں روڑے اٹکاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی استدعا کر دی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو 3 ماہ کے لیے انتخابات ملتوی کرنے کا مراسلہ لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ...
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ بدھ کوسندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان، الیکشن کمیشن اور دیگر سے جواب طلب کرلیا۔ جسٹس جنید غفار نے نوٹیفکیشن فوری معط...
شہر میں پانی کے شدید بحران، ٹینکرمافیا اور واٹر بورڈ کی ملی بھگت اور کراچی کے لیے 650 ملین گیلن کے K-4 منصوبے میں کٹوتی، سرکاری سرپرستی میں کے الیکٹرک کی ظلم وزیادتی، شدید لوڈشیڈنگ اورنرخوں میں اضافہ، کراچی کے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں میں حق تلفی اور جعلی مردم شماری کے خلاف کر...
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ واٹر بورڈ کرپشن کا اڈہ بن چکا ہے ، پانی لائنوں میں فراہم کرنے کے بجائے ٹینکروں کے ذریعے فروخت کیا جا رہا ہے ،شہریوں کے ساتھ واٹر بورڈ کے اس ظالمانہ سلوک ، شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی اور بحران کے خلاف 20مئی جمع...
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے لیے وفاقی حکومت سے 18 ارب روپے سے زائد کے فنڈز مانگ لئے۔ چیف الیکشن کمشنر کی منظوری کے بعد کابینہ ڈویژن کو بھجوائی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت میں بلد...
حکومت ہٹاؤ مہم کے سلسلے میں آصف زرداری لاہور میں متحرک ہوگئے ہیں۔ سابق صدر اور شریک چیئرمین پی پی آصف زرداری نے حکومت ہٹاؤ مہم کے باعث ملتان روانگی بھی موخرکردی ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف زرداری نے سیاسی میدان میں ایک اور انٹری کی تیاری کرلی ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق...
پاکستان تحریک انصاف نے بڑے پیمانے پر جلسے شروع کر نے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری وزیراعظم عمران خان نے دیدی ہے ۔ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب،کے پی بلدیاتی انتخابات کی حکمت عملی پر غورکیاگیا۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کا بڑے پیم...
سندھ ترمیمی بلدیاتی قانون 2021 میں تبدیلی کے لیے جماعتِ اسلامی اور حکومت سندھ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات منظر عام پر آگئی ہیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں جماعتِ اسلامی نے 29 روز سے سندھ اسمبلی پر جاری اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعتِ اسلامی اور حکومتِ سن...
وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ (ای وی ایم) مشینیں فراہم کرنے سے معذرت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جوابی خط ارسال کردیا۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے موصول ہونے والے خط کے جواب میں اسلام آباد ب...
شہر قائد میں ستائیس روز سے جاری جماعت اسلامی کا دھرنا رنگ لانے لگا ہے، جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے بیک ڈور مذاکرات میں اہم ترین پیشرفت ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے بعض اہم بلدیاتی ادارے میئر کے ماتحت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، بلدیاتی قانون میں کم از کم 3 اہم شعبے میئر ک...
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آج ہمارا اسٹیٹ بینک اب ہمارا نہیں، گورنر اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف کو جوابد ہے، اس سے استعفیٰ لیا جائے، اگر گورنر سٹیٹ بنک کو نہ ہٹایا گیا تو ہم سٹیٹ بنک کا گھیراؤ کر سکتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کرپٹ حکمرانوں اور سودی نظام کی وجہ سے ہے۔آج ملک می...