... loading ...
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر خصوصی طور پر اور پاکستانی میڈیا میں عمومی طور پران دنوں ایک مخصوص طرزِ فکر حاوی ہے جو یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ روس اور ترکی کے درمیان شام کے تنازع پر باقاعدہ ایک جنگ کا آغاز ہونے والاہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجیں دوبدو ہو جائیں گی ۔ شائد ایسا ہو بھی جائے اگر دنیا بھرمیں جنگیں اپنے اپنے اقتصادی مفادات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ خیال نہ کی جاتی ہوں۔ لیکن اگر دنیا بھر میں جنگیں زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل پر قبضے کے لئے ہی ہوتی ہیں تو اقتصادی اور مالیاتی معاملات کے حوالے سے ترکی اور روس باہم اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اب تک کی تمام تر تلخیوں کے باوجود روس نے ترکی پر براہِ راست حملے کی نہ تو دھمکی دی ہے اور نہ ہی عندیہ۔ تاہم اردگا ن کی کردارکشی کی ایک مہم ضرور چلائی جارہی ہے جس کو پاکستان میں موجود ایران نواز عناصر کی مکمل مدد اور پشتیبانی حاصل ہے اس لئے ہمیں پاکستان میں بیٹھے اس کی تپش کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے ۔ لگتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ بس چھڑنے ہی والی ہے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
ترکی نے خود کو اقتصادی طور پر خود مختار اور خطے میں اہم بنانے کے لئے اپنے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پائپ لائنوں کا جال بچھا رکھا ہے، جی ہاں پائپ لائنوں کا جال۔ آپ نے اگر تیل یا گیس ترکی کی جغرافیائی حدود کے اندر سے گذار کر لے جانا ہے اور آپ ترکی کے ہمسائے ہیں تو آپ کو اپنی پائپ لائن صرف ترکی کی سرحد تک لے کر جانا ہو گی، اس کے آگے ترکی کی بچھی بچھائی محفوظ پائپ لائن آپ کو دستیاب ہو جائے گی، وہاں اس میں اپنا تیل یا گیس ڈالیے اور یورپ میں جا کر اُسی ملک میں نکال کر سپلائی کر دیجئے جو آپ کا گاہک ہے۔ ترکی کے اندر بچھی ان پائپ لائنوں سے محصول اور کرائے کی مد میں ہونے والی آمدن کا اندازہ اس امر سے لگا لیجئے کہ ایران سے پائپ لائن پاکستان کے اندر سے گزار کر بھارت پہنچانے کے لئے پاکستان نے بھارت سے ایک ارب ڈالر سالانہ کرایہ وصول کرنا تھا۔ اس وقت تک علاقے کے دیگر ملکوں کے علاوہ ایران اور روس کی یورپ کو تیل اور گیس کی برآمدات ترکی کے اندر بچھی پائپ لائنوں سے ہو کر گزرتی ہیں تو ایک اطلاع کے مطابق آٹھ سے زائد پائپ لائنیں روس اور ایران کا پیدا کردہ ایندھن یورپ کی آبادی کو فراہم کرتی ہیں اور گیس کے حوالے سے یورپ کا تمام تر انحصار انہی پائپ لائنوں کے ذریعے کی گئی فراہمیوں پر ہے۔
بات یہاں تک ہوتی تو شائد ٹھیک ہوتی لیکن ترکی بذاتِ خود اپنی ملکی گیس کی ضروریات کا ساٹھ فی صد روس کی طرف سے فراہم کی گئی گیس سے پورا کررہا ہے۔ یعنی روس کے ساتھ کسی بھی مہم جوئی کے نتیجے میں اس کو اپنی ساٹھ فی صد گیس کی ضروریات کیلئے متبادل ذرائع سے انتظام کرنا پڑے گا، جو قدرتی طور پر اس کو فوری طور پر اپنے ہمسایہ ایران سے دستیاب ہو جائے گی جو پہلے ہی قطر کے سامنے واقع پارس یا فارس گیس فیلڈ سے پائپ لائن بچھا کر ترکی کی سرحد تک پہنچا چکا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب ترکی اس کو اشارہ کرے اور وہ اپنا لیور کھینچ کر گیس کی فراہمی شروع کرے۔ (یادش بخیر ایران نے پاکستان کو گیس کی فراہمی بھی اسی گیس فیلڈ سے کرنا ہے)اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایندھن کے معاملے میں ترکی روس کا محتاج نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روس ترکی کا محتاج ہے؟ تو جواب ہے کہ جی بالکل !اور روس محتاجی ایسی ہے کہ اس کو شاید کوئی متبادل بھی دستیاب نہیں۔ جی ہاں روس کی یورپ کو گیس اور تیل کی تمام تر فراہمی ترکی کے رستے ہی سے ممکن ہے جو کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں متاثر ہو سکتی ہے ، یعنی روس کی اس تمام آمدنی کا خاتمہ جس پر وہ اینٹھتا پھرتا ہے اور ایک دفعہ پھر یورپ اور امریکاکولال لال آنکھیں دکھاتا پھرتاہے۔ اسی ایندھن کی فروخت کے باعث روس کے پاس چین کی طرح اتنے ڈالرز اور یورو اکٹھے ہو گئے ہیں کہ اس کو رکھنے کی جگہ نہیں ۔ لہٰذا اس نے پاکستان اور یونان جیسے ملکوں میں تزویراتی سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی ہے جیسے حال ہی میں اس نے پاکستان میں موبی لنک کے بعد اب وارد خرید کر پاکستان کے ٹیلی کام شعبے میں اپنی اجارہ داری منوا لی ہے۔ جب کہ یورپ کی ٹیلی نار اور چین کی زونگ اس سے کوسوں پیچھے ہیں۔ امریکا نے جب روس کو یونان کے بینکاری کے شعبے میں پھانسنے کی کوشش کی تا کہ یونان کے بینکوں میں پڑا روس کا کھرب ہا ڈالر کا سرمایہ یونان کے بنکوں کے دیوالیہ ہونے کے نتیجے میں ضبط ہو جائے تو سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔لیکن وہ تو یونان اور یورپ کی قیادت کی عقل مندی آڑے آئی ورنہ امریکا تو آئی ایم ایف کے ذریعے کارروائی ڈال گیا تھا۔
بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے 1944 ء کے معاہدے کے تحت ایک منصوبے کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو اقتصادی طور پر ایک دوسرے سے منسلک کیا تھا تا کہ جنگوں کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے اور اسی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کو ایران، پاکستان اور انڈیا (آئی پی آئی) اور ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان اور بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن میں پرویا جا رہا ہے جس سے بھارت ہر دفعہ عین وقت پر انکاری ہوجاتا ہے تا کہ کہیں اُسے پاکستان کا محتاج نہ ہونا پڑ جائے اور مباداپاکستان کے اُس پر کسی بھی حوالے سے تزویراتی بڑھوتری (اسٹریٹجک ایڈوانٹیج) حاصل نہ ہو جائے۔ اس طرح کے تمام منصوبوں کی ضامن بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بنتی ہے، سرمایہ ورلڈ بنک فراہم کرتا ہے اور مذاکرات امریکاکرواتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب دو ملکوں کے باہمی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے تو دونوں ملک باہمی مہم جوئی سے احتراز کریں گے۔
علاقائی سیاست میں ہم نے اب تک امریکا بہادر کو ایران کے راستے کے کانٹے چنتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ کسی کو برا لگے یا اچھا لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ شیطانِ بزرگ ، امریکانے مہربانِ بزرگ ہونے سے پہلے ہی اس خطے میں ایران کے نظریاتی اور جغرافیائی مخالفوں کو چن چن کر ختم کیا ہے اور ان کی ریاستوں کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ ان کے لوگوں کے قتلِ عام سے بھی گریز نہیں کیا،امریکیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق امریکی مہم جوئیوں کے نتیجے میں چالیس لاکھ کے قریب عام لوگ عراق میں جب کہ بیس لاکھ کے قریب افغانستان میں قتل کئے گیے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکانے ایران کو اس خطے میں اپنے سیاسی ، اقتصادی اور جغرافیائی مفادات کی توسیع کے لئے انتہائی سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔ اس وقت خطے میں پاکستان سمیت جتنے ملکوں میں ایران نے پنگے لے رکھے ہیں، اتنے شاید امریکانے بذاتِ خود بھی نہیں لئے ہوئے۔ایسی صورت میں ایران کے اقتصادی مفادات کی بڑھوتری کے لئے اس سے بڑھ کر اور کون سی چال ہو سکتی ہے کہ روس کی یورپ کو ترکی کے راستے گیس کی فراہمی بند ہو اور ایران کو ترکی اور یورپ کو وہاں پر اپنا سودا بیچنے کا موقع ملے۔ ایک طرف روس کی اقتصادی ناکہ بندی کا ادھورا خواب بغیر کچھ کئے مکمل ہو جائے گا۔جب کہ دوسری طرف اس کے سابقہ خفیہ اور موجودہ اعلانیہ حلیف کے اقتصادی مفادات کا تحفظ بھی ہو جائے گا۔ اس زنجیر کی ٹوٹی کڑی اس وقت مکمل ہو جاتی ہے جب یورپی اخبارات نے ان خبروں کو بھی نمایاں طور پر شائع کردیا کہ ترکی کو روسی طیارے کے بارے میں معلومات کی فراہمی امریکا نے کی تھی۔ کسی کو عراق کے کویت پر حملے والا منظر نامہ یاد ہوتو اس کو اس کے ساتھ رکھ کر دیکھیں ، تاریخ خود کو دہراتی ملے گی۔
ہم نے ایک پنتھ دو کاج کا محاوہ سنا تو تھا لیکن دیکھ پہلی مرتبہ رہے ہیں۔اب پتہ چلا کہ روس اور ترکی کے درمیان ہونے والی کشیدگی پر پاکستان میں بغلیں کون کون اور کیوں بجا رہا ہے؟اس لئے یہ طے ہے کہ روس بھلے ترکی کو جتنی مرضی لعن طعن کر لے لیکن وہ معاملات کو اس نہج تک نہیں لے جائے گا جو باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر لے۔ اس پورے واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو ہم آئندہ عرض کریں گے۔
انٹر بینک میں ڈالر 1.29روپے سستا ہو گیا۔فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن کے مطابق 1.29روپے قیمت کم ہونے کے بعد انٹربینک میں ڈالر170 روپے29 پیسے کا ہو گیا ۔26 اکتوبرکوڈالرکی قیمت نے تاریخی بلندی 175 روپے27 پیسوں کوچھولیا تھا۔26 اکتوبرسے تک ڈالرکی قیمت میں 4 روپے98 پیسوں کی کمی ریکارڈ کی گئ...
انٹربینک میں ڈالر 173.24 روپے کا ہو گیا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، خام تیل کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان کے نتیجے میں انٹربینک نرخ 173 روپے سے بھی تجاوز کرگئے او...
شوکت ترین کو ایک مرتبہ پھر مشیر خزانہ وریونیو تعینات کردیا گیا۔ شوکت ترین کی تقرری کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردیا گیا ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر شوکت ترین کی تقرری کی منظوری دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق شوکت ترین...
ملک کے تیل کی درآمد کا بل رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 97 فیصد سے بڑھ کر 4.59 ارب ڈالر ہو گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی اضافے کی وجہ بنی ہے۔تیل کے درآمدی بل میں مسلسل ...
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے قرض پروگرام بحال کرنے کیلئے پاکستان کے سامنے نئی شرط رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرط رکھی ہے جس کے تحت حکومت نے جن اشیا پر ٹیکس چھوٹ دے رکھی ہے ، ان پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانا ہوگا۔آئی ایم ایف کی نئی شرط کے تحت ...
عرب دنیا کے پیرس کہلانے والے لبنان میں گزشتہ کچھ عرصے سے معاشی حالات اس تیزی کے ساتھ ابتر ہوئے ہیں کہ ملک قحط کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ عوام کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے اور سنہ 2019 کے اختتام کے بعد سے معاشی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کوروز مرہ ایندھن ، ادویات ...
مرکزی بینک آف انڈیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقروض ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، قیام پاکستان کے وقت پاکستان چھو...
ڈائریکٹر ایف آئی اے ناصر محمود ستی نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہنڈی اور کرنسی کاروبار میں گرفتار ملزمان کے کیس کی پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی ے نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں 54 افراد ا...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
حکومت نے شوکت ترین سے وزارت خزانہ واپس لے کر انہیں مشیرخزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق 16 اکتوبرکوشوکت ترین سے وفاقی وزیرکا عہدہ واپس وزیراعظم کے پاس چلا جائیگا۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی غیرمنتخب شخص کو 6 ماہ کے لیے وفاقی وزیر بنا سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق شوکت ترین بطور...
ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بینکنگ محتسب کو گزشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں تاہم رواں سال پہلے ...
کوئلہ مہنگا، اضافی کرایہ اور روپے کی گرتی قدر نے سیمنٹ کی پیداواری لاگت بڑھا اور کھپت 12 فیصد گھٹا دی۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی کھپت 45 لاکھ 89 ہزار ٹن رہی، جو ستمبر 2020 کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی مق...