... loading ...
عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا دلچسپ انکشاف کیا کہ جس کو شہر یعنی City کہا جاتا ہے، یہ دراصل عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’مہینہ‘ جیسے شہرِ رمضان۔ پہلے تو ہمیں گمان ہوا کہ وہ شاید اپنے پروگرام کی نسبت سے مزاح فرما رہے ہیں، لیکن پھر انہوں نے بڑی سنجیدگی سے شہر (مہینہ) اور شہر بمعنیٰ آبادی میں معنوی تعلق پر دلیلیں پیش کرنا شروع کردیں۔ ان کی ایک دلیل یہ تھی کہ ایک شخص ایک ماہ کا سفر کرکے بغداد پہنچا۔ اُس نے جگہ کا نام پوچھا اور بتایا کہ وہ ایک شہر (مہینہ) کا سفر کرکے پہنچا ہے۔ وہاں ایک تیسرا شخص کھڑا تھا (خدا جانے وہ کون تھا)، وہ سمجھا کہ اس جگہ کو شہر کہتے ہیں۔ بڑی عجیب سی دلیل تھی جس کو شاید وہ خود ہی سمجھے ہوں۔ یہ تیسرا شخص کون تھا اور اسے یہ غلط فہمی کیوں ہوئی؟ کیا وہ بغداد کا تھا یا مسافر کے ساتھ آیا تھا اور عربی سے واقف تھا جسے شہر (مہینہ) کا مطلب معلوم تھا۔
آفتاب اقبال کی اس ’’آفتابی‘‘ پر اُن کے تین ساتھی ہی لطف اندوز اور ہم حیران ہوتے رہے کہ کہاں کا لفظ کہاں ملا دیا!
آفتاب اقبال اپنی اس تحقیق کے بارے میں اپنے والد ہی سے مشورہ کرلیتے۔ ٹی وی چینل کے بزرجمہروں کے پاس بھی تحقیق، تصحیح اور ردوقبول کا خاصا وقت ہوتا ہے کیونکہ یہ پروگرام براہِ راست نشر نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے ریکارڈ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ چینل کے سارے ہی چھوٹے بڑے یا تو اس آفتابی سے متفق تھے یا مرعوب تھے۔
برخوردار کو اتنا نہیں معلوم کہ شھر بمعنیٰ مہینہ اور شہر بمعنیٰ آبادی نہ صرف یہ کہ دو الگ الگ الفاظ ہیں بلکہ ان کا تلفظ بھی مختلف ہے۔ ایک عربی کا ہے اور دوسرا فارسی کا۔ شہر رمضان یا الف شہر میں ’ش‘ پر زبر ہے، اور ’ہ‘ یا ’ھ‘ پر جزم ہے، اور یہ ساکن ہے۔ یعنی ’’شھْر‘‘ یا ’’شَہْر‘‘۔ اور فارسی کے شہر (City) میں ’ہ‘ متحرک ہے، ساکن نہیں۔ فارسی اور اردو میں شہر کے تلفظ میں ’ش‘ زبر اور زیر کے درمیان نکلتا ہے جیسے نہر، لہر وغیرہ۔ اور عربی کے شھرْ کا تلفظ نحر ہوگا۔ بنیادی فرق تو یہی ہے کہ ایک لفظ عربی کا اور دوسرا فارسی کا ہے۔ فارسی کے شہر کا مطلب سبھی کو معلوم ہے یعنی بڑی آبادی، وہ جگہ جہاں بہت سے آدمی مکانات میں رہتے ہوں اور بلدیہ کے ذریعے انتظام ہوتا ہو۔ اس شہر کے لیے عربی میں ’بلد‘ کا لفظ موجود ہے۔ قرآنِ کریم میں مکہ مکرمہ کو ’’بلدالامین‘‘ یعنی امن کا شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس لفظ کے ہوتے ہوئے عربوں کو فارسی کے ’شہر‘ پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ فارسی میں شہر کے متعدد مشتقات ہیں مثلاً شہر آشوب، شہر بدر، شہر پناہ، شہر خموشاں (قبرستان)، شہر دار، شہر یار (بادشاہ، حکمران) اور بے شمار۔ یہ محاورہ تو سنا ہی ہو گا ’’شہر میں اونٹ بدنام‘‘۔ ایک مزے کی اصطلاح ہے ’’شہر شَملہ‘‘ یعنی اندھیر نگری ، ایسا شہر جہاں انصاف کی توقع نہ ہو، اس حوالے سے ایک شعر:
واضح رہے کہ مشرقی پنجاب کے پُرفضا پہاڑی شہر شملہ میں ’ش‘ کے نیچے زیر ہے۔ حالانکہ شہر زبردست اور بلند ہے۔ برطانوی دورِ تسلط میں یہ انگریز حکمرانوں کا گرمائی صدر مقام تھا، جس طرح مغربی پنجاب کے حکمران گرمیوں میں مری کی طرف دوڑتے ہیں۔
شہر کے ضمن میں ایک ذکر ’’شہر آشوب‘‘ کا آیا ہے۔ جاننے والے تو اس آشوب سے بخوبی واقف ہیں، لیکن ممکن ہے ہمارے نوواردانِ صحافت بلکہ خود ہمارے بچے بھی اس اصطلاح سے واقف نہ ہوں، ویسے یہ ایک کالم نگار کے کالموں کا عنوان بھی ہے۔ شہر آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی شہر کی بربادی کا حال بیان کیا گیا ہو، یا شہر کے باشندوں کی ہجو یا تعریف، شہریوں کی پریشانی اور زمانے کی ناقدری کا ذکر ہو۔
آشوب کے لفظی معنی ہیں: فساد، فتنہ، شورغوغا، آنکھ کا درد اور سرخی، جسے آشوبِ چشم کہتے ہیں۔ ایک اور چیز ہوتی ہے ’’آشوبِ آگہی‘‘ یعنی عقل کا فساد، عقل کا پیدا کردہ فتور، فتنۂ عقل۔ آشوب فارسی کا لفظ اور مذکر ہے۔ آشوبِ آگہی کی ایک مثال پیش کی جاچکی ہے۔ عزیزم آفتاب اقبال کی اس آگہی پر اس لیے توجہ دلائی ہے کہ وہ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کررہے ہیں جس سے نجانے کتنے ناظرین و سامعین متاثر ہوں گے۔ مناسب تو یہ ہو گا کہ وہ خود اپنے پروگرام میں تصحیح کرلیں اور شہر کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے اس سے رجوع کرلیں۔
اسی پروگرام میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’غلیظ‘‘ کا مطلب مضبوط، صحت مند اور طاقت ور ہے۔ بے شک یہ لفظ کثیرالمعنیٰ ہے اور یہ عموماً گندہ، میلا، پلید، کثیف، گہرا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک مطلب مضبوط، موٹا، دبیز بھی ہے۔ کسی گندے، سندے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے: کتنا غلیظ ہے۔ البتہ مضبوط، موٹا، دبیزکے معنوں میں اس کا استعمال عام نہیں ہے۔ اس کا دوسرا مطلب جو عام ہے، وہ ہے ’’گاڑھا‘‘۔ ان معنوں میں یہ حکیموں کے ہاں زیادہ مستعمل ہے جو مختلف غذاؤں کے خواص کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ’’بھنڈی‘‘ غلیظ ہے ۔ یعنی اس سے بننے والا خون غلیظ یا گاڑھا ہوگا۔ غلیظ سے مغلظ اور مغلظات ہے، یعنی بڑی گاڑھی قسم کی گالیاں۔ مغلَّظ میں اگر ’ل‘ پر زبر ہو تو مطلب ہے گاڑھا…… اور زیر یعنی مغلِّظ ہو تو مطلب ہوگا: گاڑھا کرنا۔
چلتے چلتے شعروں میں محاوروں کے استعمال کی بات…… محترم ملک نواز احمد اعوان نے بھارت کے ایک ادیب ضیاء احمد بدایونی کا ایک موقر مضمون ’’محاوراتِ غالب‘‘ بھجوایا ہے۔ چنانچہ تحدیث کے طور پرچند نمونے:
دانت میں تنکا لینا، خس بدنداں گرفتن کا ترجمہ ہے اور فارسی دانان ہند کی ایجاد ہے۔ ہندوستان میں قاعدہ تھا کہ جو شخص مغلوب ہوتا وہ غالب کے سامنے دانت میں تنکا دباکر حاضر ہوتا، یعنی ہم تمہاری گائے ہیں (کیا گائے دانت میں تنکا لیے رہتی ہے؟) یہ اظہارِ عجز کا طریقہ تھا۔
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...
عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...
چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...