... loading ...
کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخ کر اُنہیں بتائے کہ خاموشی میں کتنی فضیلتیں بولتی ہیں۔ افسوس! صدرِمملکت پھر بولے!یہ ضروری نہیں کہ آدمی بڑے منصب پر فائز ہو تو وہ بات بھی بڑی کرنے پر قادر ہو جائے۔ اتنا ہی نہیں آدمی کی قامت کا اندازہ اُس کے منصب سے نہیں ہوتا۔ اب دیکھئے تو سہی ! صدرِ مملکت نے فیصل آباد ایکسپورٹ ایکسیلینس ایوارڈ کی تقریب سے خطاب میں کیا ارشاد فرمایا : علمائے کرام ہاؤس بلڈنگ قرضے پر سود کی گنجائش پیدا کرے، کیونکہ یہ مجبوری ہے کوئی اور راستا نہیں۔ ‘‘معلوم نہیں صدرِ مملکت کس ذہنی حالت میں تھے؟ کیونکہ وہ جن علمائے کرام سے اﷲ کے براہِ راست حکم کو تبدیل کرنے کے خواہش مند تھے ، خود اُن ہی علمائے کرام کے بارے میں وہ یہ رائے دینے سے بھی نہیں چُوکے کہ ’’جہاں جج انصاف نہ دیں اور علمائے کرام نوجوانوں کو گمراہ کریں وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘ اب ایک ایسے معاشرے میں جہاں علمائے کرام خود صدرِ مملکت کے خیال میں نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہیں، وہاں وہ اُن ہی علمائے کرام سے سود کی گنجائش پیدا کرانے کے خواہش مند ہیں۔ بآلفاظِ دگر صدر مملکت ممنون حسین نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے علماء تک کو گمراہ کرنے کی جرأت دکھا رہے ہیں۔ حکایت اس کیفیت کی کتنی شاندار وضاحت کرتی ہے۔
کیکڑے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اُلٹا چلتا ہے۔ ایک دن کیکڑے کی ماں نے اپنی بیٹی سے کہا :
’’اے بیٹی! اُلٹی چال چھوڑ اور سیدھی چال چل ، جیسے دوسرے جانور چلتے ہیں۔‘‘
اس نے جواب دیا:
’’اے ماں! میں تو اچھی طرح چلنے کی ہی کوشش کرتی ہوں ۔ اگر تجھے میری چال غیر مناسب نظر آتی ہے تو مجھے چل کر بتا ،تاکہ
میں بھی اُسی طرح چلوں۔۔‘‘
صدرِ مملکت نے جو چال چل کر دکھائی ہے وہ وہی کیکڑے کی ماں والی چال ہے۔ جو بیٹی کی چال سے بالکل الگ نہیں۔ بلوچ کہا وت ہے کہ آدمی اپنی غلطیوں کو دیکھنے میں اندھا ہوتا ہے۔ بآلفاظ دگر وہ اپنی چال دیکھنے کے معاملے میں کیکڑے کی ماں ہوتا ہے۔ تاریخ بھی ایک ہی بہاؤ میں کیسے کیسے لوگ پالتی چلی جاتی ہے۔ حکیم الامت اشرف علی تھانوی ؒ کی خدمت میں بھی ممنون حسین ایسے کچھ لوگ کچھ ایسے ہی الفاظ میں یہی درخواست لے کر آئے تھے۔ حکیم الامت سے کہا کہ دنیا کی معیشت اب دوسری طرح کی بنتی جارہی ہے، جس میں سود کے بغیر گزارہ ہی نہیں ۔ بس اب آپ سود کی حِلَّت (جائزہونے) کا فتویٰ عنایت فرمادیجئے۔ حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کہا کہ
’’یہ دین اشرف علی کا دین نہیں۔ اگر اشرف علی سود کی حِلَّت کا فتویٰ دے گا ، تو مسئلہ اپنی جگہ رہے گا ۔مگر
اشرف علی اپنی جگہ نہیں رہے گا۔ ‘‘
دراصل جب سے مذہب کو دیکھنے کا ایک سیاسی تناظر پیدا ہوا ہے، اُس نے ایک ایسی ذہنیت پیدا کی ہے جو ہر دینی مقصد کو پامال کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ اس ذہنیت میں سیاسی مقصد بالا اور مذہبی مقاصد پست ہو چکے ہیں۔ اس ذہنیت کے تحت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ’’ صحیح‘‘ کیا ہے اور’’ غلط ‘‘کیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ’’ ممکن ‘‘کیا ہے اور’’ ناممکن ‘‘کیا ہے۔ممکنات کے اِسی کھیل میں مذہب کو سیاسی مقاصد کی تحویل میں رکھ کر سوچاپرکھا جانے لگا ہے۔ یہ ایک ہی طرح کی ذہنیت ہے جب افغانستان کی جنگ میں اسلام کی ضرورت تھی تو جنرل ضیاء الحق کی شکل میں مردِ مومن اور مردِ حق دستیاب تھا۔ جب اُسی افغانستان میں ایک اور طرح کا ماحول میسر تھا۔ تو جنرل پرویز مشرف کی شکل میں ایک ایسا آدمی دستیاب تھا جو کتے بانہوں میں بھر کر تصاویر کھنچواتا تھا۔ یہی کچھ تماشا ہم میاں نوازشریف کے اندازِ سیاست میں بھی دیکھتے ہیں۔جب پنجاب میں مذہبی روایت کے تحت سیاسی رجحانات کی تشکیل کا دور تھا تو شریف خاندان علماء کی جوتیاں سیدھی کرتا تھا۔ آج کل مریم نواز کی سرپرستی میں کام کرنے والی سائبر فورس اُن ہی علمائے کرام کو جوتیاں مارتی ہیں۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے لئے جب سیاسی اختیارات کا حصول مذہبی ماحول میں حاصل کرنے کا ذرا بھی امکان پیدا ہوا تو وہ ۹۹۔ ۱۹۹۸ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے امیر المومنین بننے کے لئے تیار تھے۔ اور اب جب اُن کا واسطہ ایک ایسی دنیا سے ہے جس میں مذہب کے لئے ایک مصنوعی تنگی پیدا کی جارہی ہے تو وہی نوازشریف اب عوام کا مستقبل ’’لبرل پاکستان ‘‘ میں دیکھتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر صحیح اور غلط کی میزان پر معاملات کو تولنے والی نفسیات نہیں بلکہ ممکن اور ناممکن کی بنیاد پر مفید اور غیر مفید کے ذہنیت کی کارگزاری ہے۔ صدر ممنون حسین کے طرزِ گفتگو میں اسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
صدر ممنون حسین نے سود کی گنجائش نکالنے کی درخواست بھی جس عالم دین سے ماشاء اﷲ کی ہے وہ کوئی اور نہیں مفتی عبدالقوی ہیں ۔ یہ وہ صاحب ہیں جو ایک محفل میں خود اپنا تعارف اس طرح کراتے پائے گئے کہ وہ ٹیلی ویژن پر وینا ملک کے ساتھ آتے ہیں۔ ممنون حسین کو اندازہ ہونا چاہئے کہ ہر معاملے میں گنجائش نکالنے والے بیچارے مفتی عبدالقوی نے بھی اُن کی اس درخواست پر تقریباً ہاتھ ملتے ہوئے یہ کہا کہ’’ اس میں گنجائش نہیں نکل سکتی کیونکہ قرآن پاک کا واضح حکم ہے کہ سود حرام ہے۔‘‘اب جس مسئلے میں مفتی عبدالقوی سے بھی گنجائش نہ نکل سکے وہ حرام بھی کیسا حرام ہوگا؟ صدرِ مملکت اس کا اندازہ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ البتہ اگر کبھی دوبارہ میاں نوازشریف کے لئے امیر المومنین بننے کی گنجائش پیدا ہوئی تو صدر مملکت کی خواہش کے مطابق شاید سود کے لئے بھی کوئی گنجائش نکل آئے۔ آخر کیکڑا بھی تو اپنی چال چلتا ہے ۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...