... loading ...
موت کا دکھ بھی محبت کی مانند بہت نجی نوعیت کا ہوتا ہے۔اسے بیان کرنے کے لیے غالب کا سا عرض ِہنر چاہیے جنہوں نے اپنے جواں سال بھانجے عارف کی ناگہانی وفات پر لکھا تھا کہ
اُس کے بعد دیکھیں تو علامہ اقبال نے والدہ محرومہ کی یاد میں بھی اک شاندار اور دلگیر قسم کا نوحہ لکھا تھا۔ پھر اس حوالے سے اردو ادب میں ایک طویل عرصے سے خاموشی چلی آرہی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اردو ادب پر ایک بے ادب اردو میڈیا چھاگیا ہے جو ہر چھوٹی بڑی موت پر راجھستان کی رودالیوں کی طرح بے سرے ستار وادن اور دکھ بھرے تصویری اشاریوں کی مدد سے رونے بیٹھ جاتا ہے۔یہ رودالیاں آپ تو جانتے ہی ہیں سماجی طور پر کم تر درجہ کی پیشہ ور عورتیں ہوتی ہیں جنہیں موت میت پر بین کرنے اور دہائی دینے کے لیے اس لیے معاوضے پر بلایا جاتا ہے کہ اعلیٰ ذات کی ٹھکرائینیں اور راجپوتانیوں کو جذبات کے برملا اور کھلے اظہار کی اجازت نہیں ہوتی۔
محبت کی مانندموت کا دکھ سنتے سب ہیں، محسوس کوئی کوئی کرتا ہے۔ یہ حالات کا تقاضا ہے، میں نے سوچا کہ اشک باری اور آہ و بکا کے اس موسم میں آپ کو بھی نم آلود کرلوں۔یہ عجیب معاملۂ قلب ہے کہ میری یہ گریہ و زاری اپنے ایک سسرالی عزیز کی خاطر ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سسرالیوں کے لیے کون روتا ہے۔وہ تو موضوع تمسخر ہوتے ہیں۔آپ نے بھارتی فلم اومکار کا مشہور گیت ’’بیڑی جلائے لے جگر سے پیا‘‘ سنا ہو تو آپ کو یاد آئے گا کہ اس میں لحاف غلاف سے محرومی اور ٹھنڈی ہوا کی مخالفت کو شاعر گلزار نے سسُری کہہ کر لپیٹ دیا ہے۔ یعنی سسرال والی۔ایک عرصے تک یہ اردو زبان میں عورتیں محاورتاً انگریزی زبان کے کچھ ناقابل بیان الفاظ کے متبادل کے طور پر بولتی تھیں۔
ہر کلچر میں عورتوں کے بعد ایک گروہی حیثیت میں سب سے زیادہ لطائف، انہیں سسرال والوں کے بارے میں سننے میں آتے ہیں۔میں خود بھی اس حوالے سے کسی استثناء کے لائق نہیں بلکہ ایک ایسا ہی لطیفہ تھا کہ اس کی وجہ سے سنگاپور کے ٹریفک میں خلل پڑا تھا۔ہوا یوں کہ چانگی ایئرپورٹ سے جب خاکسار ایک ٹیکسی میں سوار ہوا تو ڈرائیور پوچھ بیٹھا کہ مسافر یعنی من جناب کی آمد کس شہر سے ہوئی ہے ؟ان دنوں کراچی بہت خبروں میں رہتا تھا اور اکثر بہت ہی ناگفتہ بہ وجوہات کی بنیاد پر ۔کچھ ہی دنوں سے مسلسل جلی ہوئی لاشیں ، بوری میں بند لاشیں، فائرنگ، قتل، دھماکے اور اموات کی وجہ سے سیاہ اخبار بھی پرانی کلیجی کی مانند دکھائی دینے لگے تھے۔اس ڈرائیور نے شہر کا نام سنا اور پھر انسانیت کے نام پر بھاشن دینا شروع کردیے ۔ اسے بڑی حیرت تھی کہ اتنی اموات اور پولیس ،عدالتیں فوج سب کے سب خاموش تماشائی ۔کچھ دور جاکر اسے احساس ہوا کہ یہ زیادتی ہے کہ ایک مسافر سے اس کے شہر کی برائی کی جائے۔چینی تھا، وہ بھی سنگاپور کا، بے حد معاملہ فہم۔دل جوئی اور بات بنانے کے لیے کہنے لگا کہ’’ پاکستان ایک بڑا ملک ہے کراچی تو میں نے سننا ہے کہ آبادی اور رقبے لے لحاظ سے نوے ممالک جتنا ہے۔ یقینا بہت دل چسپ اور Exoticہوگا یہ ہمارا سنگاپور تو چائے کی پیالی جیسا ہے۔بے رونق اور مہم جوئی سے عاری۔میں اگر سیر و تفریح کے لیے پاکستان آؤں تو کیسا رہے گا؟‘‘
خاکسار نے پوچھا کہ’’ وہ شادی شدہ ہے؟‘‘ ’’ آف کورس‘‘ اس نے بآواز بلند اعلان کیا۔
’’ تو وہ پہلے اپنی ساس کو بھیج دے ہمارے ہاں تجہیز و تکفین مفت ہوجاتی ہے۔‘‘اسے یہ لطیفہ سمجھ میں آیا تو اس نے اچانک ٹیکسی سائیڈ پر روکی اور ہنسنے لگا۔جب ہنسی رکی تو کہنے لگا یہ اتنا اچھا لطیفہ ہے مگر وہ اسے اپنی بیوی کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتا۔
جب میں نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے گیارہ نومبر کے تعزیتی اجلاس میں نعیم انکل کی یاد میں منعقدہ تقریب میں تعزیتی مضمون پڑھا تو میں خود بھی بآواز بلند رو رہا تھا اور بہت سے حاضرین جلسہ بھی جن میں کئی ایک چنیدہ ڈاکٹر صاحبان بھی تھے جن کے لیے موت سے روز مرہ کی نبرد آزمائی پیشہ ورانہ تقاضوں میں شامل ہے۔ ان ڈاکٹروں میں اکثریت ان کی تھی جن کے معالجے کے بل دیکھ کر مریض تو خون کے آنسو روتے ہیں مگر ان کی اپنی آنکھیں یوں سر عام کبھی اشک باری نہیں کرتیں۔
اپنی اس گریہ وزاری پر وہ نادم ہوا اور اپنی اہلیہ سے جو اجلاس میں شریک تھیں ۔جب اس نے پوچھا کہ کیا مردوں کا مروجہ انداز ہائے مجالس میں یوں رونا جائز ہے توکہنے لگیں کہ ’’ رونا ایک ایسافطری عمل ہے جسے مرد ہنسنے سے بہت پہلے سیکھ لیتے ہیں‘‘
پروفیسر ڈاکٹر نعیم عون جعفری میرے لئے تعارف کے روز اول سے تا دم مرگ صرف نعیم انکل ہی رہے، ان کی زندگی کو مختصر ترین پیرائے میں بیان کرنا ہو تو انہوں نے نہایت باعزت اورایماندارانہ زندگی گزاری اور ان کا خاتمہ بالخیر و ایمان ہوا۔انتقال سے چند دن پہلے جب ہم نے شرارتاً انہیں عصر کی نماز پڑھنے کی ترغیب دی تو وہ ایک بے بسی سے ہماری طرف دیکھ کر کہنے لگے ’’مجھے کچھ یاد نہیں رہتاـ‘‘ کچھ دن پہلے وہ کہہ رہے تھے کہ ’’میرے دماغ کا سارا ڈیٹا اڑ گیا ہے‘‘یادد اشت سے یہ محرومی اس شخص کے لئے بہت سوہانِ روح تھی جو کبھی کچھ بھولتا ہی نہ تھا۔میری ان سے پہلی ملاقات اپنی شادی کے رشتے کے حوالے سے ہوئی ،میں ان دنوں فیڈرل سروسز کمیشن کے مقابلے کے امتحانات کا زخم خوردہ تھا ، مجھے علم نہیں تھا کہ بقول منیر نیازی مرحوم مجھے اک اور دریا کا سامنا ایک دریا کے پار اترنے کے بعد ہوگا اور وہ بھی اتنی جلدی۔ وہ خاندان کے سربراہ تھے اور میری بیوی ان کی بیوی کی بھانجی۔
یوں اس رشتے میں میری موزونیت کو پرکھنا ان کی ذمہ داری کا حصہ بن گیا،بیوروکریسی والی بے حسی اور ڈھٹائی ابھی طبعیت کا حصہ نہیں بنی تھی لہذا دوران تفتیش میں نے خود کو بہت ہراساں محسوس کیا۔اس حوالے سے ہمارے تعلق کے ابتدائی ایام میں وہ میرے لیے Tormentor اور بقیہ تمام زندگی ایک Patron Saint کے درجہ پر فائز رہے۔
ان کا خیال تھا کہ میرے لیے اسلام آباد میں بغیر رہائش کے اپنی زوجہ محترمہ کو لے جانا بہت ناآسودگی کا باعث ہوگا سو میں کراچی تبادلے کی کوشش شروع کروں ۔معاونت کے لیے انہوں نے فیڈرل سیکرٹری لیول کے چند ایک جغادری افسران با اختیار کے نام گنوا ڈالے۔ان کے نعیم انکل سے ذاتی مراسم تھے۔ میں نے ان میں سے ہر ایک کو بے حس، مفاد پرست،فوجیوں کے سامنے Spineless اور ایک گرگ باراں دیدہ کہہ کر ٹھکرایا تو ان کے چہرے پر تردد اور تفکرکے آثار نمودار ہوئے اور انہوں نے بہت آہستگی سے مجھے جتلایا کہ بیورو کریٹ کے خیالات اتنے کھلے ڈلے اور بے باک نہیں ہونے چاہیں۔ مجھے علم تھا کہ ان کے گھرانے میں آئی سی ایس اور سی ایس افسران کی بھرمار ہے لہذا موقع غنیمت جان کرفوراًپوچھ بیٹھا کہ افسر عالی مقام کو کیسا ہونا چاہیے۔کہنے لگے :
Fair, Impartial, Fearless , Well informed and non -Controversial
میں نے بیان کردہ اوصاف کی روشنی میں کہا کہ آپ کے حساب سے میں بیوروکریسی کے معیار پر تو آدھا کامیاب ہوگیا ہوں۔
انہوں نے آخری سوال یہ پوچھا کہ” سول سروس میں کیوں آئے ہو؟”
’’اس لیے کہ میں لوگوں کی خدمت کروں اور لوگ میری عزت کریں۔ورنہ
آسودہ زندگی کے لیے والد صاحب کا کاروبار تھا”
یہ وعدہ وہی تھا جو میں نے اپنی والدہ محترمہ سے والد کا کاروبار نہ سنبھالنے کے عذر ِموثر اور سول سروس اپنانے کے لیے کیا تھا۔چلتے وقت انہوں نے مجھے John Le Carre کا مشہور جاسوسی ناول Smiley’s Peoplel دیا ۔جس کا ہیرو جمیز بانڈ کے برعکس اپنے حلیے عادات اور اپنی خفیہ وارداتوں کے حوالے سے ایک مکمل اینٹی ہیرو ہے۔مجھے یہ تحفہ ایک طرح کی چتاؤنی لگی کہ بیورو کریسی کو یوں خفیہ اور بے نام ہوکر جینا چاہیے۔ان کی اس ابتدائی نصیحت کو سامنے رکھ کر میں نے 36 برس بہت ٹھاٹھ سے نوکری کی بغیر شوکاز، بغیرانکوائری اور بے خوف ہوکر۔
اس دن جلسے میں مجھے پتہ چلا کہ نعیم انکل استادوں کے استاد کہلاتے تھے۔ شعبۂ طب میں جس قدر وہ باخبر اور با علم تھے کم ڈاکٹر اس معیار کو پاکستان میں پاسکے ۔نجی شعبے میں پہلی میڈیکل یونیورسٹی قائم کرنے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے۔ ضیا الدین میڈیکل یونی ورسٹی ان ہی کے مرہون منت ہے۔ وہ اس کے پہلے وائس چانسلر تھے۔پان گٹکے پر تو اب بھی کوئی موثر پابندی نہیں لگ پائی مگر سن ساٹھ کی دہائی میں نعیم انکل پان اور تمباکو نوشی کے مضر اثرات پر بیرونی رسائل اور ملکی فورمز پر اس کا کھل کر اظہار کررہے تھے کہ پان گٹکا اور تمباکو نوشی کس قدر مضر صحت اور غلیظ علتیں ہیں۔
نعیم انکل کا گھر ہمارے ہاں پیار سے جعفری میرج ہال کہلاتا تھا۔رشتے ، مہندیاں،شادیاں سبھی وہاں ہوتی تھیں۔ا س گھر، اور گھروالوں کے ایمان اور خلوص نیت میں ایسی برکت تھی کہ ایک بھی شادی آج تک طلاق کی نوبت تک نہیں پہنچی جب کہ آپ تو جانتے ہی ہیں پچھلے چند برسوں سے نکاح نامے پر اب فریقین کے اصرار پر حکومت کی جانب سے Expiry Date بھی درج کی جانے لگی ہے۔
گھرانے کو کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہوتا تو مجھ سے مشورہ بھی کرتے اور میری خدمات کا فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ میں ان کے لیے اپنی افسری کے حوالے سے وہی حیثیت رکھتا تھا جو سرکش کوفہ والوں کے لئے بنو امیہ کے دور میں حجاج بن یوسف کی تھی ۔وہ جب تقرری کے بعد جمعے کے خطبے میں امیر کی اطاعت کا فرمان جاری کررہا تھا تو شر پسندوں کی جانب سے سوال کیا گیا تھا کہ ـ’’ہم پر امیر کی کیسی اطاعت فرض ہے‘‘
’’ایسی اطاعت کہ میں تمہیں مسجد کے ایک دروزے سے نکلنے کا حکم دوں اور تم دوسرے
دروازے سے نکلو تو تمہارا قتل مجھ پر واجب ہے۔‘‘
حجاج بن یوسف نے بے خوفی سے جتلا دیا۔
ایسے کسی مسئلے میں میری شمولیت بادل ناخواستہ اور بحالت مجبوری اور سب سے آخر میں ہوتی اور وہ بھی کسی بڑے بگاڑ سے بچنے کے لیے۔وہ بہت ہمدرد انسان تھے اب میں ایسا سوچوں تو ان برسوں میں نعیم انکل نے مجھے کل دو دفعہ ہی زحمت دی ورنہ میری حیثیت ان تمام معاملات میں فصلوں پر ٹوٹ پڑنے والے پرندوں کو ڈرانے کے لیے کھیت میں لگےScare -Crow کی ہوتی تھی۔
نعیم انکل میں ذہانت بے تحاشا تھی ، بہت منظم اورprecise mind تھے چونکہ بنیادی تربیت ایک Pathologist کے طور پر ہوئی تھی اس لیے کسی بھی معاملے کو بہت Clinicallyاور باریک بینی سے پرکھتے تھے۔
ذہانت اور علمیت مردانہ حسن کا یہ پیکر شرافت خاندانی رواداری کے ساتھ بہت غریب پرور اور دوسروں کے بارے میں ایک فکر مند رہنے والا ،وجودِ دلداری تھا۔ انہیں دیکھ کر ان سے مل کر ایک طمانیت اور اعتماد ملتا تھا۔ دوسروں کے بارے میں حساس دل رکھنے والی اس عالی مرتبت ہستی کی غریب پروری کا یہ عالم تھا کہ ایک دن کسی دعوت میں گئے۔ یہ ایک عشائیہ تھا ۔باہر سے آئے ہوئے اے بی سی ڈی دولہا دلہن کا بھاگم بھاگ ولیمہ۔ دعوت کا مقام بہت Tonyاور شرکاء کا اسٹیٹس دبئی کے برج الخلیفہ جیسا بلند و بالا ۔ کئی ایسے رشتہ دار مدعو نہ تھے جو زندگی کی دوڑ میں مال و منال کے اعتبار سے اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرپائے تھے۔تقریب میں وہ کچھ چپ چپ سے دکھائی دیے ۔دلگیر اور دل گرفتہ۔ہم سب سوچتے رہے کہ جانے کیا بات بری لگی ہے ۔اگلے دن علم ہوا کہ انہیں یہ بات بری لگی تھی کہ شادی اور خوشی کے مواقع پر غریب قریبی عزیزوں کو محض اس لیے مدعو نہ کیا جائے کہ مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ وہاں مدعو کیے جانے کے لائق نہیں ہیں۔
اگلے دن سے ایسے تمام قرابت داروں کی فہرست بنی اور انہیں اپنے گھر پر گاڑیاں بھیج کر ایک دن اعلیٰ قسم کی دعوت برپا کرکے مدعو کیا گیا۔کیٹرنگ بھی اسی ہوٹل سے کرائی گئی جہاں چند دن پہلے ولیمہ ہوا تھا تاکہ محرومی کا احساس کم سے کم ہوجائے ۔ حالانکہ وہ بھی دیگرمدعوئین کی طرح محض اس دن محض ایک مہمان کے طور پر شریک ہوئے تھے۔رشتہ داروں کو مدعو نہ کرنے کا ان سے براہ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ان کے گھر آمد اور دعوت میں ان کی ادائے دل جوئی دیکھ کر رشتہ داروں کی مسرت دیدنی تھی۔ایسے تھے ہمارے نعیم انکل۔۔۔
جو ملازم ایک دفعہ گھر آیا اسے کبھی خود سے نہ نکالا ان میں کچھ جو اب پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنے گاؤں لوٹ گئے ہیں ایسے تھے کہ ا ن میں سے اکثر کے ساتھا آپ ایک گھنٹہ گزارتے تو آپ کی شرطیہ د ماغ کی شریان پھٹ جاتی ۔نعیم انکل ان سے بھی کام لیتے تھے اور خوش بھی رہتے تھے۔میرا بیٹا ان کے ملازمین اور ڈرائیور کو دیکھ کر مذاق میں انہیں کہتا تھا’’ ڈاکٹر نانا آپ کے ملازم لیاری کی ایسی گدھا گاڑیاں ہیں جنہیں آپ لیمبورگینی اور بگاتی (قیمتی اطالوی گاڑیاں) کی طرح دوڑاتے ہیں۔ وہ تو شرارت کا مزہ اٹھاتے مگر صادقہ نانی انہیں ڈانٹ کر یہ کہتیں کہ یہ سب بے حد ایماندار ہیں ۔اور سب کو اﷲ نے بنایا ہے ۔ Don’t be a snob‘‘
دو نومبر کی اس اداس سی شام جب حضرت عبداﷲ شاہ غازی ؒ کہ مزار کے احاطے میں ان کو لحد میں اتارنے کے مراحل میں شریک تھا مجھے لگا کہ میں ایک ایسا غریب بچہ ہوں جس کا سب سے عزیز کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔مگر اب بھی وہ اپنے ٹوٹے ہوئے کھلونے سے جدا ہونے پر رضامند نہ ہو۔ سوچئے میرے دل کا یہ عالم ہے تو ان کی اہلیہ ڈاکٹر صادقہ جعفری صاحبہ کا کیا عالم ہوگا جن سے ان کا نصف صدی کا ساتھ رہا اور جس میں ایک دن کی بھی تلخی، بدمزگی اور اختلاف رائے نہ ہوا۔ایسے پیکر ہائے عجز و سادگی، محبت کرنے والے، بے لوث اور اپنی علمیت اور پیشہ ورانہ قابلیت میں ایسے مستند لوگ کم یاب بھی ہیں اور نایاب بھی
اردو کے مشہور شاعر داغ دہلوی نے کہا تھا ع
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...