... loading ...
کراچی شہرمیں انتخابات بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ساس بہو کا جھگڑا ، ساس اپنے رشتے داروں کے سامنے بہو کو امریش پوری بنا کر پیش کرتی ہے اور بہو اپنے رشتے داروں اور شوہر سمیت ساس کو پھولن دیوی سے تشبیہ دینے کی کوشش کرتی ہے جس طرح اختلاف جمہوریت کا حسن ہے ایسے ہی ساس بہو کے جھگڑے گھر کا حسن ہیں ورنہ کئی رائٹرز اپنی کہانیوں کے لیے موضوع ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے ہلکان ہوجاتے ۔ آسان موضوع اور دلچسپ بھی ۔ خیر جی بات ہو رہی تھی کراچی کے الیکشن کی اور وہ بھی منشور سے عاری الیکشن کی یہ اس دفعہ صرف نعروں کا الیکشن ہے ۔ منشور کے بارے میں ایم کیو ایم نے تو معذرت کرلی ہے ۔انہوں نے سائن بورڈ پر لکھا ہے “ہمارا ماضی ہمارا منشور ہے ” اب یہ ماضی کوئی ڈھائی گھنٹے کی انڈین فلم تو ہے نہیں کے ایک دفعہ اور دیکھ لو تو ماضی کی یادیں تازہ ہوجائیں ۔بھائی بہت طویل ماضی ہے ، عباسی شہید ہسپتال ، کروٹن کے پتّے ، مفروری ، خود ساختہ جلا وطنی پھر آپریشن آگے مشرف گیری پھر بارہ مئی، استعفے پر استعفے پھر استعفے پھر آپریشن اب ماضی میں منشور کہاں تلاش کریں ۔اگر کارکردگی کو جھانکیں تو چار فلائی اوور دو انڈر پاس کچھ پارکس وہ بھی مصطفٰی کمال کا مشرف نوازی دور۔ کیونکہ اب ایم کیو ایم کا حال یہ ہے کہ ان کے کسی حامی اور لیڈر سے پوچھو کہ آپ نے کیا کِیا تو جواب ہوتا ہے مصطفٰی کمال ارے بھائی مصطفٰی کمال سے پہلے اور بعد کیا ایم کیو ایم کھوکھلی ہے ؟ پھر ایسے میں یہ کہنا کہ میئر تو اپنا ہی ہونا چاہیئے تو بھائی اس کو کراچی میں اپنوں کے درمیان رہنا بھی چاہیئے ، عوام کو اس سے کیا عوام کا اپنا منشور ہوتا ہے ویسے بھی ہمارے ملک میں منشور پر ووٹ پگلے دیتے ہیں ۔
آجائیں جی جماعت اسلامی کے بلدیاتی منشور کی طرف اس دفعہ ان کا منشور بھی ایک نعرہ ہے “آؤ بدلیں اپنا کراچی ” یہ نہیں پتہ کس چیز سے بدلیں کیسے بدلیں ؟ اوہ ہاں ! یہ نعرہ پی ٹی آئی اور جماعت کا مشترکہ ہے ایک طرف ترازو ایک طرف بلّا لگا پینا فلیکس ۔ ۔ ۔ اب کون کس کو بدلے گا اس کا انتظار ہے ، ایک انتخابی پمفلٹ ہاتھ لگا جس میں ایک باریش جماعت کے چئرمین کے امیدوار کی تصویر تھی دوسری طرف ایک وائس چیئرمین کی امیدوار ٹائیگرنی کی تصویر تھی جس میں خاتون نے اپنے چہرے کو لپیٹا ہوا تھا اس سے پہلے انہیں ہم نے صرف دوپٹے میں دیکھا تھا یعنی بدلاؤ دونوں طرف ہے ۔ اب مشترکہ جلسوں میں ایک شرعی ترانہ ہوگا دوسرا شریعت کی طرف سے ممنوع ترانہ ، کہیں ٹھمکے ہونگے کہیں ٹھمکوں سے نالاں ۔ خیر دونوں پارٹیوں کا ون لائن منشور ہے “گو ایم کیو ایم گو ” ان کے خیال میں کراچی کی ترقی کے لیے ایم کیو ایم کا خاتمہ ضروری ہے ۔
پیپلز پارٹی ، ن لیگ ، اے این پی ان کا منشور جان کر ہم کو کرنا کیا ہے ان کو خود نہیں پتہ کہ وہ انتخابات میں کھڑے کیوں ہیں چھوٹی موٹی سیٹ ایڈجسمنٹ کہیں جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ تو کسی جگہ جے یو پی سے مل کر ، مگر اصل مقابلہ منشور کا نہیں بلکہ بقاء کا ہے ، کیونکہ نئے آنے والے چیئرمین یا بلدیاتی حکومت کو یہ ہی نہیں پتہ کہ ان کے اختیارات کیا ہونگے؟ ڈر کے مارے وعدے بھی نہیں کررہے نہ ہی منشور کی صورت میں کچھ لکھ کر دینا چاہتے ہیں ، صرف نعرے ، ترانے ، جھنڈے ، نشان ، اور لیڈروں کی تصویریں جہاں تک میرا علم ہے اس دفعہ مئیر صرف نمائشی ہوگا اور اسکو نمائشی اس سندھ اسمبلی میں تشکیل دئیے گئے آرڈیننس نے ہی بنایا ہے ۔ جس میں ایم کیو ایم بھی شامل رہی اس لیے اس بے اختیار مئیر پر مستقبل کی تنقید سے بچنے کے لیے ایم کیو ایم نے پانچ دسمبر کے انتخابات کے بعد الگ صوبے کی تحریک کا اعلان بھی کردیا ہے ۔
پاکستان میں عوام بلدیاتی انتخابات اور اس سے ظاہر ہونے والے نتائج میں بری طرح مدہوش ہیں ۔ مگر خطے میں کئی اہم واقعات نے جنم لے لیا ہے۔جس میں سب سے پہلے افغان طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی جھوٹی خبر پھیلانا، اس سے پہلے نواز حکومت کی جانب سے اے این پی کے رہنماوؤں پر ...
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں سندھ کے دارالحکومت کراچی کے 6 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج روایتی ثابت ہوئے جس میں متحدہ قومی موومنٹ نے نہ صرف واضح اکثریت حاصل کر لی ۔ بلکہ کراچی کے میئر کے لئے ایم کیوایم کے راستے میں کوئی رکاؤٹ بھی دور دور تک باق...
تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آج (بتاریخ 30 نومبر) انتخابی عمل جاری ہے۔جس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان روایتی قسم کی الزام تراشیوں کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ملکی تاریخ کے دارالحکومت میں اس پہلے بلدیاتی انتخابات میں چھ لاکھ 76 ہزار سے زائد ووٹرز اپن...
کراچی میں دسمبرکی پانچ تاریخ کو بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں شہر کی اہم اسٹیک ہولڈر متحدہ قومی موومنٹ شکایت کررہی ہے کہ اسے انتخابات سے روکا جارہاہے۔مبصرین کہتے ہیں کہ اپنے مخصوص سیاسی پس منظراور لب ولہجے کے باعث جب یہ جماعت مذکوہ بیان دے تو اس کا مطلب یہی لیا جاتاہے کہ اسے جی...
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پنجاب کے 12اور سندھ کے 14 اضلاع کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج نے کافی حد تک انتخابی نتائج کا مجموعی منظر واضح کردیا ہے۔ اب تک آنے والے نتائج کے مطابق پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سب زیادہ نشستیں حاصل کیں اور تحریک انصاف کو ابھرنے ن...
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پنجاب کے 12 اور سندھ کے 14 اضلاع میں پولنگ جارہی ہے۔ دونوں صوبوں میں پولنگ سے قبل اور بعد میں پُرتشدد واقعات سامنے آئے ہیں۔پولنگ سے قبل رات گئے تشدد میں ایک سرکاری ملازم ہلاک اور ایک انتخابی اُمیداوار سمیت متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہی...
کیا بلدیاتی انتخابات کے بعد سندھ میں ’’دھاندلی‘‘ والے الیکشن کے خلاف ہلچل مچنے والی ہے اور لوگ 1977 ء کو بھی بھول جائیں گے؟ اس حوالے سے سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جن سیاسی قوتوں نے مخالفانہ بیانات دے کر پیپلز پارٹی سندھ کو’’ہاٹ واٹر‘‘ تک پہنچایا ہے، وہ بلدیاتی انتخابات کے بع...
سندھ اورپنجاب کے بیس اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ بخیروخوبی نہ سہی بہرحال انجام کو پہنچا ۔بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ یوں تو اس سے پہلے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی جمہوریت کی نرسری لگائی گئی ان نرسریوں کے پودے کیا برگ وبار لاتے ہیں اس کا اندازا ...
اگرچہ حکمران نون لیگ کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کی نشست پر فتح یاب ہوچکے ہیں لیکن اس ضمنی الیکشن نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور پنجاب میں مسلسل حکمران رہنے کے باعث درآنے والی کمزوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔پارٹی کے اند ر بالائی سطح پر پائی جانے والی کشمکش نے عوامی ف...
حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے امیدوار سردار ایاز صادق انتہائی سخت مقابلے کے بعد بمشکل حلقہ 122 کی نشست بچانے میں کامیاب ہو گیے ہیں۔ ایک کانٹے دار مقابلے میں سردار ایاز صادق پہلے سے بھی بہت کم فرق کے سات تحریک انصاف کے امیدوار عبدالعلیم خان کو ضمنی انتخابات میں شکست دے سکے ہیں۔ ...
میرے لیے یہ ایک عجیب وغریب احساس کا دن ہے۔ کیا واقعی یہ نون اور جنون کا مقابلہ ہے؟ ابھی ابھی 11بج کر 53 منٹ پر میں نے ایک فون کال وصول کی ہے جس میں مجھے تحریک انصاف کی طرف سے ایک کال آئی ۔ ایک نوجوان نے جوش وخروش اور کھنکتے لہجے میں کہا کہ "کیا آپ محمد طاہر ہیں؟" "جی بول رہ...
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی انتخاب جاری ہے۔ لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 122 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 147 جبکہ اوکاڑہ کے قومی اسمبلی کے حلقے 144 میں صبح 8 بجے پولنگ کا آغاز ہوا جس کے لیے شام 5 بجے کا اختتامی وقت مقرر ...