... loading ...
کراچی میں بھتے ، جرائم اور قتل وغارت گری کا معاملہ محض سیاسی نہیں ۔ اس کی جڑیں خود قانون کے اندر گہری اُتری ہوئی ہیں۔ حکومتیں کس طرح نفاذِ قانون کے ذمہ داروں سے خود غیر قانونی کام لیتی آئی ہیں ، اور پھر اس کا فائدہ خود یہی نفاذِ قانون کے ذمہ داران کس طرح اُٹھاتے ہیں؟ اس کی ایک جھلک آئی جی سندھ کے معاملے میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ جو بظاہر ایک توہین عدالت کے مقدمہ سے متعلق معاملہ لگتا ہے ۔ مگر یہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر خطرناک بن جاتا ہے جب اِسے گہرائی میں جا کر دیکھا جائے۔
بظاہر آج( ۲۵؍ نومبر کو )آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی اور چودہ افسران کی معافی کی درخواست مسترد کئے جانے کے بعد ذوالفقار مرزا کی جانب سے دائر کئے جانے والے توہین عدالت کے مقدمے میں اُن پر فردِ جرم عائد کی جارہی ہے۔ مگر اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں قانون کی سب سے بڑی سرکاری طاقت دراصل قانون کی سرکوبی کرتے ہوئے زرداری صاحب کے انتقام کی ایک مشنری بن کررہ جاتی ہے۔ اور اس کے لئے وہ انصاف کی سب سے بڑی عمارت سے صادر ہونے والے احکامات کو بھی پامال کرنے کی جرأت دکھاتی ہے۔
رواں برس پولیس نے عدالتِ عالیہ سندھ اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا ۱۹؍ مئی اور ۲۳؍ مئی کی تاریخوں میں گھیراؤ کیا تھا۔ ۱۹؍ مئی کو پولیس کی جانب سے عدالتی گھیراؤ کے باعث ذوالفقار مرزا آٹھ گھنٹوں تک عدالت میں محصور رہے۔ اسی طرح ۲۳؍ مئی کو جب سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے عدالت عالیہ سندھ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سادہ لباس اہلکاروں نے ذوالفقار مرزا کے ذاتی محافظوں ، حامیوں اور وہاں موجود نامہ نگاروں کو تشدد کا نشانا بنایا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا کامعاملہ اگر قانون توڑنے کا ایک سادہ معاملہ تھا تو پھر اِسے قانونی طریقے سے طے کر لیا جاتا ۔ مگر اس کی پشت پر ایک سیاسی حکومت کے ذاتی انتقام کی متعفن سوچ اور اس کوپزیرائی دینے والی پولیس کی پوری فورس یہاں تک کہ خود اس کا سربراہ موجود تھا۔ جو اس کے لئے قانون کو پامال کرنے تک تیار تھے۔ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والے حقائق آشکار کرتے ہیں کہ پولیس کے پاس ایک منصوبہ تھا جس کے تحت پہلے تو کوشش یہ کی گئی کہ ذوالفقار مرزا کی ضمانت منسوخ ہو جائے۔ اس کے لئے ہر قسم کا اثرورسوخ استعمال کیا گیا۔ مگر مرزا کی جب درخواست ِ ضمانت منظور ہوئی تب بھی پولیس نے اپنی بکتر بند گاڑیاں عدالت کے دروازوں سے نہیں ہٹائیں۔ پولیس یہ چاہتی تھی کہ کسی بھی طرح مرزا کو گرفتار کر لیا جائے بعدازاں اُن پر نئے مقدمات قائم کرنا کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔ اس ضمن میں کچھ ناقابل تصدیق افواہیں بھی گردش کرتی رہیں جس کے تحت اُنہیں ایک ایسے ’’انجام‘‘ سے دوچار کیا جانا مقصود تھا جو عام طور پر ہر بھاگتے ہوئے مجرم کے ساتھ پولیس کرتی ہے۔ مگر مرزا کے حوالے سے جو بات سب سے زیادہ کہی جارہی تھی ، وہ یہ تھی کہ اُنہیں ضمانت مسترد ہونے یا نہ ہونے کی ہر دو صورتوں میں گرفتار کیا جانا تھا ، جس کے بعد اُنہیں گارڈن ہیڈ کوارٹر میں لے جانے کے انتظامات کئے گئے تھے، پھر وہاں سے اُنہیں ایک ایسی جگہ لے جانا تھا جس کا سارا ’’بندوبست ‘‘اُن کے ’’دیرینہ دوست‘‘ نے بنفس نفیس کر رکھا تھا۔ اس ’’بندوبست‘‘ کے تمام اخلاقی وغیر اخلاقی اُمور سے خود مرزا بھی اچھی طرح واقف ہیں ، کیونکہ وہ ان ہی سارے معاملات میں اپنے ’’دیرینہ دوست ‘‘کے دست راست رہ چکے ہیں۔ مرزا اس کی سُن گُن بھی شاید رکھتے تھے۔ اس لئے اُنہوں نے خود کو عدالت میں محصوررکھا۔ یہاں تک کہ عدالتی احکامات بھی آگئے کہ عدالت سے بکتر بند گاڑیوں کو ہٹا کر مرزا کی اُن کے گھر محفوظ واپسی ممکن بنائی جائے۔ مگر پولیس ان احکامات کو وصول کرنے سے گریزاں رہی۔ اس کی تفصیلات نہایت چونکادینے والی ہے ۔ جس سے اندازا ہوتا ہے کہ کس طرح خود پولیس عدالتی احکامات کو نظر انداز کرکے حکومتی کھیل کے غیر قانونی عمل میں خوش دلی سے شریک رہتی ہے۔ اور اس کافائدہ مالی مفادات کی صورت میں سمیٹتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اس پورے کھیل کی عملی طور پر جو پولیس افسر نگرانی کر رہا تھا ، وہ ایس ایس پی سٹی فدا محمد جانوری تھا۔ اِسے ’’ادی‘‘ کا خاص آدمی سمجھا جاتا ہے۔ ان ہی ایس ایس پی کی بدولت دو ڈی آئی جی ، ڈی آئی جی جنوبی ڈاکٹر جمیل احمد اور ڈی آئی جی غربی فیروز شاہ کی تعیناتیاں عمل میں آئی تھیں۔ ڈاکٹر جمیل احمد کا تعلق پنجاب سے ہے اور اپنی مخصوص شہرت کے باعث اُنہیں پنجاب میں کبھی بھی اچھی تعیناتی نہیں مل سکی۔ اسی طرح فیروز شاہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں مبینہ طورپر اُن کے گھر سے چوری کی گاڑیوں کے برآمد ہونے کا قصہ خاصا مشہور ہے۔ ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر جو ایک دیانت دار افسر کی شہرت رکھتے ہیں ، اُنہوں نے ایس ایچ اوز کی تعیناتی کے حوالے سے یہ پالیسی بنارکھی ہے کہ متعلقہ علاقے کے ایس ایس پی کی جانب سے تین نام ایس ایچ او کی تعیناتی کے حوالے سے ڈی آئی جی کو بھیجے جاتے ہیں۔ پھر ڈی آئی جی اُن تین ناموں میں سے دو نام ایڈیشنل آئی جی کو بھیج دیتے ہیں۔اور ایڈیشنل آئی جی اُن دومیں سے کسی بھی ایک کو بطور ایس ایچ او تعینات کردیتے ہیں۔ اس شفاف طریقے سے تھانہ انچارج کی تعیناتی کو بھی ایس ایس پی سٹی فدا محمد جانوری نے نہایت مشکل اور منفعت بخش بنا دیا ہے۔ جس کے باعث کم از کم ضلع غربی اور جنوبی میں وہی پولیس افسر ڈی آئی جیز کی فہرست میں حتمی طور پر جگہ بنا پاتے ہیں جو ایس ایس سٹی فدا محمد جانوری کے دروازے سے آتے ہیں۔
یہی فدا محمد جانوری ذوالفقار مرزا کے حوالے سے تمام معاملات کی عملی نگرانی کر رہے تھے ۔ تب اُس وقت کے ایس پی رئیس عبدالغنی کو جج صاحب نے بلا کر کہا کہ وہ پولیس کو ہٹائیں اور عدالتی حکم کی تعمیل کر یں۔ ایس پی نے یہی بات آکر ڈی آئی جی ڈاکٹر جمیل احمد کو جوں کی توں بتائی ۔ جس پر ڈی آئی جی نے اُن کی نہایت گوشمالی کی ، اور عدالتی حکم کو نظر انداز کردیا۔ بالاخر عدالت عالیہ سندھ نے اس سلسلے میں ایک حکم بھیجا جسے پولیس افسران نے لینے سے انکار کردیا۔ جس پر مرزا کے وکلاء نے شواہد کی خاطر فلمیں بنائیں اور چلے گیے۔ جس کے بعد عدالت عالیہ سندھ کو باقاعدہ ہوم سیکریٹری کو بلانا پڑا تھا۔ ایس پی رئیس عبدالغنی نے اپنا یہ ماجرا تحریری طور پر بھی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا ہے۔ بآلاخر رئیس عبدالغنی اور تب کے ایس ایس پی جنوبی طارق دھاریجو سے پچھلی تاریخوں میں چھٹیوں کی درخواستیں حاصل کرکے اُنہیں ایک طرف کر دیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق تب مرزا کی گرفتاری کے لئے خو دایس ایس یو سے پولیس کمانڈو آئے تھے، جنہوں نے صحافیوں کو تشدد کانشانہ بھی بنایا۔ دوارب روپے سے زائد رقم خرچ کرکے بنائے گئے اس ادارے کا ابھی تک کسی کومعلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ادارہ آخر کس مرض کی دوا ہے۔ ابھی تک اس ادارے کی کارکردگی جو کچھ بھی سامنے آئی ہے وہ محض آصف علی زرداری کے احکامات کی بجا آوری ہے۔ اسی ادارے کے کمانڈوز نے ماڈل گرل ایان علی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اُٹھا رکھی ہے۔ آخر وہ یہ سب کچھ کس کے کہنے پر کر رہا ہے؟ اس کا کوئی جواب وہ دینے کو تیار نہیں۔
ظاہر ہے کہ ایس ایس پی سٹی فدا محمد جانوری ، ڈی آئی جی جنوبی ڈاکٹر جمیل احمد اور ڈی آئی جی غربی فیروز شاہ یہ جو کچھ بھی کررہے تھے۔ اُس میں اُنہیں اپنے آئی جی غلام حیدر جمالی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ عدالت عالیہ میں جاری توہین عدالت کے مقدمے کا جوبھی نتیجہ مستقبل میں نکلے، مگر ایک نتیجہ تو بالکل واضح ہے کہ پولیس کی زیادتیوں ، بھتوں اور ناجائز مقدمات میں پھنسانے کا معاملہ ابھی تک پوری طرح حل نہیں ہو سکا۔ اور بدقسمتی سے شہر کے بھتوں سے جو شخص بچ کر نکل جاتا ہے ، وہ بآلاخر اس طرح کے جبری حالات اور پولیس کی زیادتیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ افسوس ناک طور پر پولیس خود اپنے اندر جھانکنے کو تیار نہیں۔ اور کراچی آپریشن کرنے والے سیاسی بھتوں اور شہر میں جاری دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے تو سرگرم ہیں مگر خود قانون کی سرپرستی میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں سے مکمل لاپروا ہ ہیں۔۔
ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمرانوںنے اسلام آباد بند کیا ہے ، ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وح...
پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے ، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے ، اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے ، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا ، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں(پیپلزپارٹی) ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ،...
نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس کا جی میل اور مائیکروسافٹ 365پر 2ایف اے بائی پاس حملے کا الرٹ رواں سال 2025میں ایس وی جی فشنگ حملوں میں 1800فیصد اضافہ ، حساس ڈیٹا لیک کا خدشہ جعلی لاگ ان صفحات کے ذریعے صارفین کی تفصیلات اور او ٹی پی چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔نیشنل ک...
خالص آمدنی میں سے سود کی مد میں 8 ہزار 106 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 111 ارب روپے لگایا گیا ، ذرائع وزارت خزانہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 26-2025 کے لیے وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب...
حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے وزیراعظم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر 7روزہ انسداد پولیو کا آغاز کر دیا وزیراعظم شہباز شریف نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک...
سندھ کے پانی پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہی نہیں بلایا گیا پاکستان میں استحکام نہیں ،قانون کی حکمرانی نہیں تو ہارڈ اسٹیٹ کیسے بنے گی؟عمرایوب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے حکومتی اتحاد پر...
پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...
وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...
واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...
حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...
کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...