... loading ...
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام پیدا کردیا گیا ہے۔ چنانچہ آج کل یہ دونوں ہی رائج ہیں۔ رشید حسن خان نے ہمزہ کے بجائے ’ی‘ سے لکھا ہے یعنی گنجایش، ستایش وغیرہ۔
بات ہورہی تھی باباے اردو کی۔ ہرچند کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ لیکن اپنی رائے کا اظہار تو کیا جاسکتا ہے۔ مولوی عبدالحق اپنی کتاب ’قواعدِ اردو‘ میں لکھتے ہیں: ’’بعض عربی الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں الف ’ی‘ کی صورت میں لکھا جاتا ہے جیسے عقبیٰ اور دعویٰ‘‘۔ اردو میں ایسے الفاظ ’الف‘ سے لکھنے چاہئیں مثلاً دعوا، اعلا، ادنا۔ انہوں نے عقبیٰ کا حوالہ دے کر اسے الف سے یعنی عقبا نہیں لکھا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ عربی کے جو الفاظ اپنے مخصوص املا کے ساتھ اردو میں آگئے ہیں انہیں ایسے ہی لکھنا چاہیے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب سے زبانِ اردو وجود میں آئی ہے، عربی کے کئی الفاظ اپنے املا کے ساتھ ہی اردو بلکہ فارسی میں بھی جوں کے توں لے لیے گئے ہیں، جیسے صلوٰۃ، مشکوٰۃ، زکوٰۃ وغیرہ۔ چنانچہ اب املا ’’درست‘‘ کرنے کی مہم چلی تو تمام پرانے علمی، ادبی و مذہبی ذخیروں پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ طالب علم ایک طرف تو اعلا، ادنا، دعوا پڑھے گا، دوسری طرف اسے پرانے لٹریچر (جو زیادہ پرانا بھی نہیں) اور لغات میں مختلف ہجے ملیں گے۔ یہ قرآنی املا ہے اور اسے بحال رکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قرآن پڑھنے والے کے لیے یہ الفاظ نامانوس نہیں ہوں گے۔ عربی الفاظ کا املا بدلنے کا رواج چل پڑا تو بات بہت آگے تک جائے گی۔ کیا عیسیٰ اور موسیٰ کا املا بھی بدل کا عیسا اور موسا کیا جائے گا؟ چھوٹا منہ بڑی بات، ہمیں تو اس سے اتفاق نہیں۔
بعض الفاظ کی جمع الجمع تو ہے جیسے دوا، ادویہ اور ادویات۔ لیکن کچھ لوگ زبردستی جمع الجمع بنا رہے ہیں۔ ٹی وی کے میزبان اور ’’روائے عافیت‘‘ کے شہرت یافتہ کامران خان صرف ’الفاظ‘ یا ’جذبات‘ کہہ کر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ شاید زور پیدا کرنے کے لیے ’’الفاظوں‘‘، ’’جذباتوں‘‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ ٹی وی کے میزبانوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ اُن کی غلطیاں صرف اُن تک محدود نہیں رہتیں بلکہ سننے والوں کو بھی خراب کرتی ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ اب تک کسی نے کامران خان کو ’’الفاظوں‘‘ کہنے پر نہیں ٹوکا! شاید یہ اختیار رکھنے والے خود بھی ’’جذباتوں‘‘ میں بہہ جاتے ہوں۔
باباے اردو کی ’ے‘ پر ہمزہ لگانا صحیح نہیں ہے۔ لیکن ان کی مذکورہ کتاب جو انجمن ترقی اردو، پاکستان نے شائع کی ہے اُس میں باباجی کی ’ ے‘ پر ہمزہ لگا ہوا ہے یعنی ’بابائے‘۔ مولوی عبدالحق نے ’’اقوام‘‘ کو مذکر لکھا ہے، ’’جب یونانیوں کو دوسرے اقوام سے سابقہ پڑا‘‘۔ ممکن ہے یہ کمپوزنگ کا سہو ہو، کیونکہ اگر قوم مونث ہے تو جمع ہونے پر بھی مذکر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو صوبہ خیبر پختون خوا کے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ ’’ہمارا قوم‘‘ مونث نہیں مذکر ہے۔
لیے، دیے، کیے، چاہیے، کیجیے، دیجیے کے حوالے سے کہ ان الفاظ پر ہمزہ آنی چاہیے یا ’’یے‘‘ ، سہ ماہی ’بیلاگ‘ کراچی کے تازہ شمارے میں مدیر اعلیٰ (باباے اردو کے مطابق ’اعلا‘) عزیز جبران انصاری نے اچھی بحث کی ہے۔ محترم عزیز جبران انصاری ماہر لسانیات ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر راہی فدائی کا حوالہ دیا ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اس پر اتفاق نہیں ہوا کہ لیے، دیے، گئے وغیرہ الفاظ کا املا ہمزہ کے ساتھ مناسب ہے یا بغیر ہمزہ کے۔ اس اعتراض کے جواب میں عزیز جبران انصاری نے ماہر لسانیات ڈاکٹر شوکت سبزواری کی کتاب ’اردو املا‘ کا حوالہ دیا ہے کہ ’’اگر پہلے حرف کے نیچے کسرہ یعنی زیر ہے تو ہمزہ کے بجائے ’’ی‘‘ استعمال ہوگی، جیسے لیے، دیے، کیے، چاہیے، کیجیے، دیجیے وغیرہ…… اور ’ی‘ سے پہلے حرف پر فتح یعنی زبر ہے تو ہمزہ کا استعمال ہوگا جیسے گئے اور نئے وغیرہ۔ یہاں ’گ‘ اور ’ن‘ پر زبر ہے اس لیے ’یے‘ کے بجائے ’’ئے‘‘ یعنی ہمزہ آئے گا۔ کتنا آسان سا فارمولا ہے۔
عزیز جبران لکھتے ہیں کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارے اردو کے اکثر اساتذہ جو اسکول یا کالج میں پڑھاتے ہیں، یا ایسے مضمون نگار جنہوں نے پچاس ساٹھ سال پہلے اردو کی تعلیم حاصل کی ہے وہ اپنا املا درست کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ہمارے قلم کار اپنا املا درست کرنا ہی نہیں چاہتے، اور کہتے ہیں کہ اب اس عمر میں کیا تبدیلی لائیں۔
لیے اور لئے کے حوالے سے ماہنامہ ’چہارسو‘ راولپنڈی کے شمارے (ستمبر اکتوبر 2015ء) میں ’’لسانی مباحث‘‘ کے عنوان سے پروفیسر غازی علم الدین میرپور، آزاد کشمیر نے بھی بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’لیے اور لئے میں لکھتے وقت عام طور پر فرق نہیں کیا جاتا۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق مختلف معنوں کے ساتھ یہ دو الگ الگ مستقل لفظ ہیں۔ اردو میں لکھنے والوں میں سے بہت کم نے لیے اور لئے میں فرق سمجھا ہے۔ اس کی شاید یہی وجہ ہے کہ گیسوئے اردو ابھی منت پزیر شانہ ہے‘‘ (پذیر ’ذ‘ سے نہیں ’ز‘ سے ہے)
لیے (یا، کے نقطوں کے ساتھ لیکن ہمزہ کے بغیر) لینا مصدر سے فعلِ ماضی کا صیغہ جمع ہے جس کا واحد ’’لیا‘‘ ہے۔ کرنا مصدر سے کیا، کیے، پینا سے پیا، سینا سے سیا اور جینا سے جیا/جیے۔ مثال ملاحظہ کیجیے ’’احمد نے دس روپے لیے‘‘ اس مثال میں ’لیے‘ بمعنی حاصل کیے۔
امید ہے کہ اب لیے اور لئے میں فرق واضح ہو گیا ہو گا۔ موصوف نے لکھا ہے کہ لوگ کہتے ہیں اب اس عمر میں کیا تبدیلی لائیں۔ چلیے ان کی مجبوری ہے لیکن ہمارے نوجوان ساتھی یہ تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں، اور بعض تو یہ کہتے ہیں کہ یہ نئی زبان ایجاد کی جارہی ہے۔ ہمارے ’لئے‘ تو وہی بہتر ہے۔
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...
عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...
عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا ...
چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...