... loading ...
جنرل راحیل شریف کا دورۂ امریکا ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب پاکستان کے اندر اور باہر خاص نوعیت کے رجحانات تشکیل پارہے تھے۔ ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کی تشکیل کا مغربی قوتوں کا منصوبہ روس اور چین بھانپ چکے ہیں۔ اور خود مشرقِ وسطیٰ کی پرُانی طاقتیں اس کی مزاحمت کے لئے خود کو تیار کر رہی ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب سمیت یہ قوتیں اپنے پُرانے امریکی محور کو بقدرِ ضرورت ترک کرکے روس اور چین کے مدار میں گردش کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گی؟ اس اہم ترین گردش کے ممکنہ اثرات کے ادراک کی معمولی صلاحیت بھی پاکستان کے جمہوری حکمرانوں میں نظر نہیں آتی۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اس کا ادراک پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے ہوا۔ جنہوں نے نہایت خاموشی سے روس اور چین سے خاص نوعیت کے تعلقات کو گہرائی دینے کے لئے دورے کئے اور ایک زبردست قسم کا ہمہ وقتی مواصلاتی رابطہ ماسکو ، بیجنگ اور پاکستانی جی ایچ کیو میں قائم کر دیا۔ ظاہر ہے امریکا ان بڑھتے ہوئے تزویراتی نوعیت کے تعلقات کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس عرصے میں جب روس اور سعودی عرب نے باہمی تعلقات میں اعتماد سازی کے لئے اقدامات اُٹھانے شروع کئے تو مشرقِ وسطیٰ میں فکر ونظر کا ایک نیا تناظر تخلیق پانے لگا۔ جنرل راحیل شریف نے اِسی ماحول میں سعودی عرب کا ایک سربراہِ ریاست کے طور پر دورہ کیا۔ میاں نوازشریف جو سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو شخصی تحویل میں رکھنے کی پُرانی نفسیات میں مبتلا ہیں ، یمن کے بحران پر اپنے اعتماد کو کھو چکے تھے اور پاکستانی ریاست پر اپنے اثر کے حوالے سے ریاستی حکمرانوں کو ایک منفی تاثر دے چکے تھے۔ سعودی عرب پر بھی امریکا کی طرح یہ واضح ہو چکا تھا کہ پاکستان میں قوت کے مراکز اب بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ اور کوئی بھی بات کرنی ہو تو کس سے کی جانی چاہئے؟ اگر شریف خاندان نے جنرل راحیل شریف کے دورۂ سعودی عرب کا اپنی پرانی عادتوں کے ساتھ بُرا منایا ہے تو یہ عین قرین از قیا س ہے۔ مگر وہ دراصل یہ پڑھنے میں ناکام رہے کہ یہ دورہ اُن کے ساس بہو والے انداز ِ بے رخی سے زیادہ مضمرات کا حامل تھا۔ جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکا سے قبل دورۂ سعودی عرب دراصل اِس پورے عمل کے بہاؤ کو افغانستان کے تناظر سے زیادہ بڑا پس منظر مہیا کرتا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے حالیہ دورۂ امریکا میں جس طرح کا برتاؤ کیا ہے ۔ اس کی مثال ستمبر ۱۹۵۳ء کے پاکستان سے ملتی ہے۔ جب جنرل ایوب خان نے آگے بڑھ کر تمام خارجہ اُمور اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے۔ یہاں ایک آسانی پہلے سے موجود تھی ۔ پاک فوج ملکی سلامتی سے متعلق ممالک کے ساتھ سیاسی معاملات کو آگے بڑھا نے کے اُمور پر بھی اپنی سخت نگرانی کی اب ایک اچھی یا بُری تاریخ بھی رکھتی ہے۔ اگر چہ جنرل راحیل شریف نے امریکا کا دورہ پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف سے ذرا بعد میں کیا مگر جنرل ایوب خان نے ستمبر ۱۹۵۳ء میں پاکستانی سربراہ اور وزیر خارجہ سے پہلے امریکا کا دورہ خود کیا۔ تب حالات دوسرے تھے، پاکستان کو فوجی امداد کی سخت ضرورت تھی۔ اور امریکا ایک دُہرا کھیل کھیلنے میں مصروف تھا۔ سابق سفیر اور انتہائی اہم کتابوں کے مصنف ڈینس ککس (Dennis Kux) نے اپنی ایک کتاب “The United States and Pakistan, 1947-2000” میں جنرل ایوب خان کے دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تب امریکا پاکستان کی فوجی امداد کے لئے رضامند نہیں ہورہا تھا۔ چنانچہ جنرل ایوب امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی ایشیائی امور کے نگران کے دفتر ’’بغیر اطلاع دیئے‘‘ چلے گئے۔ جنرل ایوب خان نے وہاں جو کچھ کہا ، کتاب کے تیسرے باب میں اس کی تفصیلات موجود ہے۔ ایک موقع پر ایوب خان نے کہا کہ
For Christ’s sake, I did not come here to look at the barracks. Our army can be your army if you want us. But let’s make a decision.
(حضرت عیسیٰ کے لئے! دیکھیں میں یہاں پر بیرکیں دیکھنے کے لئے نہیں آیا، اگر آپ چاہیں تو ہماری فوج آپ کی فوج ہو سکتی ہے۔ مگر پہلے ہم کوئی فیصلہ تو کر لیں)
ظاہر ہے کہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورے میں یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ مگر غیر متوقع طور پر جنرل راحیل شریف کے دورے سے قبل وائس آف امریکاکی ایک خبر نے جنرل ایوب خان کے اس دورے کا پس منظر یادداشتوں میں اُجاگر کر دیا۔ وائس آف امریکا کی ایک خبر میں کہا گیا کہ’’ جنرل راحیل شریف اپنی خواہش پر امریکا کا دورہ کر رہے ہیں اور پینٹاگون کے عہدیدار جنرل راحیل سے ان کی درخواست پر ملاقات کریں گے۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ جنرل راحیل شریف کے اہم ترین دورے کو ایک منفی رنگ دینے کی کوشش تھی۔ اب عسکری ذرائع سے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ اس دورے کو منفی رخ دینے کی کوششیں کرنے والے لوگوں کا پتا چلا لیا گیا ہے۔
اس سے قطع نظر جنرل ایوب خان کے مذکورہ دورے کا ایک نتیجہ جو نکلا تھا ، وہ ٹائم میگزین کے نومبر ۱۹۵۴ء کے سرورق پر چمکا ، جس میں پاکستان میں آنے والی تبدیلیوں کا احاطہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ بیان کیا گیا کہ
’’کسی بڑے خون خرابے کے بغیر پاکستان ایک غیر مستحکم مغرب نواز جمہوریت سے مستحکم مغرب نواز فوجی آمریت میں تبدیل ہو گیا۔‘‘
جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکا ایک مختلف سیاق وسباق میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے پاکستان پر آئندہ دنوں میں نہایت دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ جہاں تک پاکستان کا افغانستان کے حوالے سے کردار کا تعلق ہے تو یہ اب ایک ایسا بڑا معاملہ نہیں رہا جو جنرل راحیل کے دورے پر منتج ہوتا۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان اس معاملے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک منظم نظام موجود ہے۔ اور یہ ان دنوں اُن پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہے جو چین اور روس کی حالیہ دلچسپیوں کے باعث مختلف محاذوں پر پیش آسکتی ہیں، یا آرہی ہیں۔ طالبان کی طرف سے قطر دفتر کھولنے کے اشارے بھی اسی دورے کے دوران آچکے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اس معاملے کا کوئی اتنا ناقابل حل قضیہ نہ تھا۔ جنرل راحیل شریف کی امریکا میں ہونے والی ملاقاتوں پر ایک نظر ڈال لینے سے ہی اندازا ہوتا ہے کہ یہ دورہ اس سے بڑھ کر تھا ۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی نائب صدر سے بھی ایک غیر معمولی ملاقات کی ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی تبدیلیوں کے علاوہ حالیہ پیرس حملے میں کچھ مخصوص خبروں کا موضوع بنتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ ایک بساط اُلٹنے پلٹنے والے دورے کی نوعیت رکھتا ہے۔ چاہے یہ گہرے سمندروں کے اندر خاموشی سے ہونے والا ہو ، یا طوفانوں کی طرح شور پیدا کرنے والا ہو۔ اگلے چند ہفتوں میں اس دورے کی تشریح عملی واقعات سے کرنا زیادہ آسان ہو گا۔ تب تک خواجہ آصف اور چوہدری نثار کی وضاحتوں سے کام چلاتے ہیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...