... loading ...
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے واشنگٹن کے پے درپے دورے بے سبب نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حوالے سے لچک دار پالیسی اختیار کی۔افغانستان میں اس کے نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کیا۔اس کے خلاف عالمی بیان بازی جو معمول بن چکی تھی کو روکا گیا۔پاکستان کا جوہری پروگرام جو عالمی رائے عامہ کو خوف زدہ کرنے اور اسے پاکستان کے خلاف اکسانے کا ایک بہترین ہتھیارہے ‘پر بھی امریکی اور مغربی دنیا نے نہ صرف نرم رویہ اختیار کیا بلکہ دبے لفظوں پاکستان کے جوہری پروگرام کو ایک حقیقت تسلیم کرنے اور اس کے تحفظ کے حوالے سے غیر ضروری خدشات کے اظہار کے بجائے اطمینان کا اظہارکیاجانے لگا۔
واشنگٹن میں قائم تحقیقی مراکز بالخصوص ا سٹمسن سنٹر اور کارنیگی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر تجزیہ کاروں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو کامیابی کی ایک داستان قراردیا جو دنیا کی مخالفت کے علی الرغم مکمل کیاگیا۔ان ماہرین نے تسلیم کیا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام بھارت کے مقابلے میں زیادہ معیاری اور اگلے لیول پر ہے۔ان اداروں نے تجویز پیش کی کہ اگرپاکستان عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے پر دستخط کردے تو اسے عالمی سپلائرگروپ کا حصہ بنادیا جائے۔یاد رہے کہ اس رپورٹ کے شریک مصنف مائیکل کریپون پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور دفاعی حکمت عملی کے سخت ترین نقاد رہے ہیں۔واشنگٹن کے پالیسی ساز حلقوں میں مائیکل نے ہمیشہ پاکستان کے نقطہ نظر کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن اب وہ نہ صرف ایک مختلف موقف کا اظہار کررہے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں اسلام آباد بھی تشریف لائے جہاں انہوں نے وزارت خارجہ کے زیر اہتمام چلنے والے ایک تھنک ٹینک میں ایسے ہی دوستانہ خیالات کا اظہارکرکے سب کو حیران کردیا۔
واشنگٹن میں بتدریج یہ نقطہ نظر غالب آرہاہے کہ پاکستان کو مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے عالمی نظام کا حصہ بنایاجائے تاکہ وہ دنیا کے لیے خطرہ بننے کے بجائے عالمی امن میں شراکت دار بن جائے۔خاص طور پر جنرل راحیل شریف نے امریکی اداروں کو کافی متاثر کیاہے کیونکہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر دہشت گردوں کے خلاف بروئے کار آئے۔پاکستان سے دہشت گردوں کے ٹھکانے اور محفوظ پناہ گائیں اکھاڑ پھینکیں ۔چنانچہ دنیا کو ا ب یقین ہوتاجارہاہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت میں یہ استعداد ہے کہ وہ ماضی کی غلط پالیسیوں کو دفن کرتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کریں۔
کچھ عالمی حالات نے بھی پاکستان کے لیے نسبتاً فضا سازگار بنائی ۔خاص طور پر جس غیر معمولی تیزی سے مشرق وسطیٰ کا خطہ غیر مستحکم ہوا اور داعش کا سنگین خطرہ اُبھرا ،اُس نے واشنگٹن کے ہاتھ روکے اور پاکستان کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ امریکی گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کے جوہری پروگرام میں آنے والے مسلسل پھیلاؤ اور چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں پیش رفت سے پریشان ہیں کیونکہ پاکستان کا جوہری اسلحہ خانے کا حجم بھارت کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔عالمی اداروں کے مطابق پاکستان کے پاس سو کے لگ بھگ ایٹم بم موجود ہیں اور وہ طویل فاصلہ تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری میں بھی مصروف ہے۔چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی مسلسل پیداوار سے بھی امریکاسخت اضطراب کا شکا رہے۔
پاکستان کے عسکری ماہرین کا نقطہ نظر ہے کہ چونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی طاقت کا توازن برقرار نہیں رکھاجاسکا لہٰذا ان کے پاس چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔آخر انہیں بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت سے روکنا ہے اور اسے موثر جواب بھی دینا ہے لہٰذا چھوٹے جوہری ہتھیاروں کا حصول ناگزیر ہوچکاہے۔امریکیوں کو پاکستان کی اس ضرورت اور مجبوری کی سمجھ ہے کہ اسے ایک طاقت ور ہمسائے کا سامنا ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ نکالاجائے کہ پاکستان کا دفاعی ڈیٹرینس بھی برقرار رہ سکے اور وہ مزید جوہری ہتھیاروں کے تجربات پر پابندی قبول کرلے۔ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد اوباما انتظامیہ کافی پرامید ہے کہ مذاکرات کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل نکالاجاسکتاہے۔چنانچہ گزشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بڑی شدت سے یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کو قائل کیا جائے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کردے ۔مزید ہتھیاروں کی پیداواراور تجربات روک دے ۔ ایٹمی پروگرام کو سویلین کنٹرول میں دے،بآلفاظ دیگر ایک سویلین ادارے کے انتظام میں دے دے۔
ظاہر ہے کہ پاکستان محض امریکی خوشنودی کے لیے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے رہا۔چنانچہ اسے ترغیب دی جارہی ہے کہ جوابی طور پر اسے عالمی نیوکلیئر سپلائی گروپ کا رکن بنایاجاسکتاہے ۔یوں بھارت کی طرح وہ بھی سویلین مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا استعمال کرنے کا مجاز بن جائے گا۔ پاکستان کا تشخص یا امیج عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ملک کے طور پر ابھرے گا۔پاکستان کے پاس اپنی ضرورت کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کا پہلے ہی کافی ذخیرہ موجود ہے جو برقرار رہے گا۔پاکستان معاہدے کی توثیق اس وقت تک موخر کرسکتاہے جب تک بھارت ایسا نہیں کرتا۔
پاکستان میں اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ان امور پر کافی بحث ومباحثہ جاری ہے۔یہ بھی سوچا جارہاہے کہ کس طرح امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کو قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان کو جوہری معاملات میں بھارت کے مساوی مرتبہ اور مقام دیں۔ علاوہ ازیں کشمیر کے مسئلہ کے حل میں پاکستان کی مدد کریں تاکہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کم ہوسکیں۔
بعض دفاعی مبصرین لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر خان جنجوعہ کی بطور مشیربرائے قومی سلامتی کے تقرر ی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھتے ہیں۔انہوں نے بلوچستان میں سویلین حکومت کے ساتھ زبردست شراکت داری قائم کی۔ وزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت کے تعاون سے جنگجوؤں کے خلاف کامیاب آپریشن کیے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کامیاب کوششیں بھی کیں۔ان کے تقرر کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت اور عسکری قیادت کے مابین رابطہ کا کردار اداکریں۔اہم قومی امور بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور دفاعی امور پر اداروں کے مابین ہم آہنگی پیداکریں ۔ناصر خا ں جنجوعہ کی شہرت ایک صلح جو اور علم دوست شخصیت کی ہے۔انہوں نے بلوچستان میں بھی بندوق کے بجائے حکمت اور سیاست سے کام لینے کو ترجیح دی۔اسی لیے کہتے ہیں کہ محبت ہے فاتح عالم۔
یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ پاکستان امریکا کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز کے جواب میں کیا حکمت عملی اختیار کرتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے نئے افق وا ہورہے ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
پاکستان نے امریکا میں جمہوریت سے متعلق سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ڈیموکریسی ورچوئل سمٹ 9 اور 10 دسمبر کو ہوگا۔ امریکا کی جانب سے سمٹ میں شرکت کے لئے چین اور روس کو دعوت نہیں دی گئی۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم سمٹ برائے جمہوریت میں شرکت کے لیے پاکستان کو مدعو کرنے پر ...
امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے پاکستان اور امریکا کا موقف یکساں ہے ، پاکستان کے سرکاری ٹی وی(پی ٹی وی ) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اورامریکا کے گزشتہ کئی دہائیوں سے مضبوط اور بہترین تعلقات ہیں۔ ...
امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کولیشن فنڈ سپورٹ کے تحت ملنے والی 30 کروڑ ڈالر کی دفاعی امداد روک لی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد امریکی کانگریس کو وزیردفاع کی سفارش نہ ملنے کی وجہ سے روکی گئی۔امریکی وزیردفاع کی جانب سے کانگری...
یوں لگتا ہے کہ امریکا کے اندر پاکستان کے خلاف ایک منظم ماحول جنم دیا جارہا ہے۔ اور مختلف طریقوں سے پاکستان پر دباؤ پیداکیا جارہا ہے۔ رواں ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی دہشت گردی ، جوہری عدم پھیلاؤ، ، تجارت اور ایشیا پیسفک سے متعلق ذیلی کمیٹیوں نے ایک مشترکہ مباحثے کا عنوان ہی یہ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
پاکستان کے خلاف مختلف سرگرمیوں میں معروف سمجھے جانے والے امریکی قانون ساز ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں ہو رہا۔ امریکا کے پاکستان مخالف قانون سازوں نے کیپٹل ہِل میں ایک مرتبہ پھر جمع ہو کر اپنا پسندیدہ سوال دُہرایا ہے کہ ...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
پاکستان نے امریکا پر واضح کر دیا ہے کہ اس کی پالیسیوں سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ جب کہ عالمی برادری کو بتا دیا ہے کہ پاکستان اپنا میزائل پروگرام کسی صورت بند نہیں کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار سیکریٹر ی خارجہ اعزاز چودھری نےپارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹ کی خارجہ اور...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...
طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی مبینہ ہلاکت پر دو روز بعد پاکستان کی طرف سے پہلا ردِ عمل وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی پریس کانفرنس کی صورت میں آیا ہے۔ جسے تجزیہ کاروں نے پاکستان کے سرکاری ردِ عمل سے زیادہ پاکستانی رائے عامہ کی تسلی کی نیم دلانہ کاوش قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر ...
امریکا نے بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ کر کے "ریڈ لائنز" کو پار کیا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر مشرف سے لے کر زرداری کے ادوارِ حکومت تک پاکستان کی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کا شور مچانے والے دانشور، کالم نگار ، اینکر پرسنز اور تجزیہ کار چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ امریکا نے واضح کردیا ہے...
امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان کی فوجی امداد پر پابندیوں میں اضافے کے ایک بل کو منظور کر لیا ہے۔ ایوان کے277 میں سے 147 ارکان نے مخصوص شرائط کے پورا نہ ہونے تک پاکستان کی فوجی امداد پر پابندیوں میں اضافے کے ایک بل کو امریکا کی طرف سے عائد مخصوص شرائط کے پورا نہ ہونے تک منظور ک...