... loading ...
عمر کے جس حصے میں مرحوم اشتیاق احمد کو پڑھا اس عمر میں تو اسکول کی کتابیں ایک ڈراتا جن معلوم ہوتی تھیں ، آپ کو اسکول کا کوئی کام تو نہیں کرنا ، یہ وقت عبادت کا تو نہیں ، گھر والوں نے کوئی کام تو آپ کے ذمہ نہیں لگایا اس طرح کے نظم و ضبط سے آراستہ جملے ہمیں اشتیاق احمد صاحب نے ہی سکھائے کہ مشاغل کے وقت اس طرح کے تردّد بھی ہوسکتے ہیں ۔
میرا سب سے پہلا ناول “چوٹ پر چوٹ ” مرحوم اشتیاق احمد کا تحریر کردہ تھا وہاں سے ہی انسپکٹر جمشید ، محمود ، فاروق ، فرزانہ سے ملاقات ہوئی ۔محمود کا “دھت تیری ” ، “منہ کھلا کا کھلا رہ جانا ” ، ” پائیں باغ ” یہ الفاظ ہماری زندگی میں بہرحال نئے تھے ۔ انسپکٹر کامران مرزا سیریز آصف ، آفتاب ، فرحت پھر شوکی سیریز جس میں تھوڑا طنز و مزاح بھی تھا جو کہ پرائیویٹ جاسوس تھے شوکی سیریز میں کرداروں کے نام ان کے اپنے گھر کے تھے شوکی یہ خود تھے اور اخلاق، آفتاب ان کے بھائیوں کے نام تھے اور کسی نہ کسی موڑ پر ان کی بہن بھی آجاتی تھیں جن کا نام ابھی ذہن میں نہیں رہا ۔
اشتیاق احمد پر کسی نے قادیانی ہونے کا الزام لگادیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی ہر کہانی کے آخر میں فتنہ قادیانیت کے لیے ایک دو صفحے مختص کردئے ۔ ان کی کہانیوں میں حب الوطنی اور اسلام پسندی ویسے ہی نمایاں تھی۔ اس الزام کے بعد تو کہانیوں سے ہٹ کر مشن بھی شامل ہوگیا اور ناول کے آخر میں کلین شیو تصویر کی جگہ ایک باریش اشتیاق احمد نے لے لی ۔ مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا جو اب ہو گیا ہے کہ اگر بچوں کے ذہن میں کسی نظریے کو راسخ کرنا ہو تو پہلے ان کے لیے کردار تشکیل دو اور پھر ان کرداروں کو نظریات کے مطابق ڈھال لو ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ قومی ترانے اور ملّی نغمے پر جو میرا جذبہ آج بھی زندہ ہے اذان کے وقت میری آواز کا ہلکا ہوجانا اشتیاق احمد کی تحریر ہی کی بدولت ہیں ۔ اشتیاق احمد کے خاص نمبر ہم نے اس وقت پڑھے جب وہ خاص نمبر ہماری کلائیوں سے بھی موٹے ہوتے تھے ۔
نوّے کے بعد ان کو پڑھنا کم ہوگیا تھا ۔اس کی وجہ سیاسی مصروفیات ، دوستوں کی محافل ، کرکٹ کا جنون ، اور پڑھائی بھی رہیں مگر ان کی تحریروں کے نقوش آج بھی میری تحاریر اور زندگی میں واضح ہیں ۔ مجھے اشتیاق احمد سے دلی لگاؤ رہا۔ خوش قسمتی سے جب میں ساتھی کا ایڈیٹر بنا تو ان سے خط و کتابت رہی جو میرے لیے ایک فخر تھا پھر ان سے ایک ملاقات دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کی سالانہ تقریب میں ہوئی ۔غالباً یہ 94 ء کی بات ہے یہ ملاقات بہت مختصر تھی ،بہت ہی سادہ طبیعت بہت ہی سیدھے سادے مجھے کراچی کے اس کتاب میلے میں ان کی موجودگی کی خبر ان کے انتقال پر ہوئی ورنہ میں ضرور ملتا ۔
جو بھی اس کتاب میلے میں شریک ہوا اور اس کو پتہ چلا کہ اشتیاق احمد بھی یہاں موجود ہیں تو وہ ان سے ضرور ملا ۔
ہمارے معاشرے کو آج بھی محبِ وطن اور اسلام کے قلمی سپاہی کی ضرورت ہے مگر ان کی کمی پھر بھی رہے گی۔ اللّہ ان کی کوششوں کو قبول فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے ۔آمین!