... loading ...
پاکستان میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اس قوم کی بے قدری کے جو مناظر سامنے آئے ہیں اسے دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ حالات اور واقعات دیکھتے ہوئے اب اسے قوم کہتے ہوئے بھی عار محسوس ہوتی ہے کہ کس طرح یہ ان افراد کو منتخب کررہے ہوتے ہیں جو پہلے ہی بری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں اور جو جمہوریت کو لوٹ مار کا ایک بڑا ذریعہ سمجھ کر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں اور کررہے ہیں۔بھاری مینڈیٹ ملے تو فرعون بن جاتے ہیں ہار جائیں تو دھاندلی کا شور۔ اس حوالے سے نون لیگ پر بھاری مینڈیٹ ہمیشہ ’’بھاری ‘‘ہی پڑا ہے ۔اس مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں نون لیگ نے اکثریت حاصل کی ہے اس لئے خدا خیر کرے کہ میاں صاحب غلط فہمی میں پھر کوئی فاش غلطی نہ کر بیٹھیں۔۔۔۔
مالک کائنات کے نزدیک شرک ناقابل معافی جرم اورناپسندیدہ ترین فعل ہے کیونکہ اگر کوئی اس کا شریک ہوتا تواﷲ کی زمین پر اور اﷲ کی مخلوق پر اپنے قوانین اور طرز زندگی کے نفاذ کی کوشش کرتاہے۔ اس لئے عقلی طور پر بھی شرک فہم وادراک کی ضد ہے۔ فرعون نے جب اپنی قوم کو کہا کہ ’’میں ہی تمہارا رب ہوں‘‘ تو اﷲ تعالی نے اس کا یہ دعوی پسند نہ کیا اور اسے عبرت ناک سزا دی۔ فرعون کا یہ دعوی اپنے قوانین اﷲ کے بندوں پر نافذ کرنے کے لئے تھا۔ وہ یہ دعوی نہیں کررہا تھا کہ اس نے ہی کائنات تخلیق کی ہے یا بندوں کو اس نے پیدا کیا ہے ۔کیونکہ اس وقت مصر میں بے شمار بزرگ لوگ ایسے بھی تھے جن کے سامنے فرعون پیدا ہوا تھا۔ فرعون کے شرک کی حقیقت محض اتنی تھی کہ وہ اﷲ کی مخلوق پر اﷲ کا قانون نافذ نہیں ہونے دے رہا تھا جبکہ اﷲ کے نبی ؑ وہاں موجود تھے۔اس کا جو خمیازہ فرعون نے بھگتا وہ سب کے سامنے ہے۔ جدید تاریخ کے جدید فرعون امریکا بھی اﷲ کی مخلوق پر اﷲ کا قانون نافذ نہیں ہونے دے رہا اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا طرز سیاست یعنی نام نہاد جمہوریت اور معاشی اور معاشرتی نظام اختیار کیا جائے۔ یعنی ایک ایسا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام جس میں خدا کا تصور نہ ہو اور اسی دجالی تصور کی ترویج کے لئے اس نے اسلامی دنیا پر جنگوں کی آگ بھڑکا دی ہے۔مغربی جمہوری نظام کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نام نہاد جمہوریت اور آمریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
اس مغربی طرز سیاست کا مزا پاکستانی قوم کیسے چکھ رہی ہے اس کا احوال سب کے سامنے ہے ۔پاکستانی قوم آجکل زرداری گروپ کے بعد نون لیگ کے ہاتھوں جمہوریت کے وہ’’ثمرات‘‘ سمیٹ رہی ہے جس کا گمان کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں کیا تھا۔زرداری گروپ نے اعلان کیا تھاکہ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ اگر اس جملے کی گہرائی میں جایا جائے تو حقیقتاًہمیں معلوم ہوگا کہ قوم سے انتقام لینے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہیں تھا۔موجودہ حکمران بھی اسی روش پر قائم ہیں۔قوم اس وقت جن حالات کا شکار ہے اگر اس کے ہوش مند طبقے اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اﷲ رب العزت سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ کاش یہ قوم بلکہ امت مسلمہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتی کہ تاریخ انسانیت میں جمہوریت کے نام پر انسانیت کے ساتھ جس قدر فراڈ کیا گیا ہے اس کی مثال تاریخ کے کسی اور شعبے میں نہیں ملتی۔جمہوریت کا بظاہر معنی حکومت جو ایک ریاستی قوت کا نام ہے اس میں عوام کو برابر کا حصہ دار بنانا ہے یعنی ایک ایسی نمائندہ حکومت جو عوام کی مرضی سے تشکیل پائے اور عوام کے نمائندے ایک جگہ (اسمبلی)جمع ہوکر قانون سازی کا اختیار رکھتے ہوں۔اس قسم کی بے خدا جمہوریت کا آغاز معلوم تاریخ کے مطابق 508ق م میں یونان سے ہواتھا۔لیکن اگرماقبل تاریخ pre Histrical ageکے زمانے میں چلے جائیں تو ایسی ہی جمہوریت کا تصور ہمیں میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) میں ملے گاجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر فلاحی ریاست کا قیام یونان سے بھی پہلے موجودہ عراق میں عمل میں لایا گیا تھا۔ جدید محققین کے مطابق یونان کی اس جمہوریت کی عمر محض دو سو برس رہی۔لیکن اس جمہوریت میں بھی عوام کی شراکت داری کے نام پر بڑے بڑے سرمایہ دار اوردولت مند جنگجو ہی حکومت کیا کرتے تھے۔قوت بادشاہ کے ہاتھ میں تھی اس کے بعد بادشاہ کے احکامات پر نظر رکھنے کے لئے ایک کونسل بنائی گئی تھی جس میں زیادہ تر افراد بھی بادشاہ ہی کے منظور نظر ہوا کرتے تھے اور پھر تیسرے درجے پر عوامی نمائندوں کی ایک مجلس ہوا کرتی تھی۔ یہ یونان کے شہر اتھینا کا حال تھا جبکہ اس مملکت کے ایک اور صوبے سپارٹا میں بھی اسی قسم کا نظام حکومت تشکیل دیا گیا تھا ۔اس دوران قانون سازی کے لئے اہل علم افراد نئے نئے فلسفے بیان کرتے رہے لیکن جس وقت فارس کے خلاف جنگوں میں فتوحات کی بنا پر سونے اور چاندی کی وافر مقدار یونان پہنچی اور دولت کی فراوانی ہونے لگی تو اتھینا اور سپارٹا کے درمیان اختیارات کی کشمکش کا نیا اور طویل سلسلہ شروع ہوگیا جوآخرکار 371ق م میں جنگ لیکٹورا Leuctra کی فیصلہ کن جنگ کے بعد سکندر اعظم کے باپ فلپ میسیڈونین دوم نے اس اختیاراتی کشمکش کا خاتمہ کرکے یونان پر اپنا اقتدار مضبوط کرلیا۔یونان میں جمہوریت کا شوشہ اس وقت چھوڑا گیا تھا جب مطلق العنان بادشاہت کو عوامی ردعمل اور فوجی جرنیلوں سے خطرات محسوس ہوئے تھے کیونکہ اس وقت فوجی جرنیل جاگیردار بھی ہوا کرتے تھے ۔ یوں جمہوریت کے نام پر شاہی خاندان، فوجی جرنیلوں اور اشرافیہ نے قوت ، دولت اور اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لئے ایک ایسا نظام متعارف کرایا جس میں عام آدمی کو اختیارات میں حصہ دار بنانے کا جھانسہ دے کر بغاوت کے امکانات کو ٹھنڈا کیا گیا تھا لیکن یہ فراڈ دو سو برس سے زیادہ نہ چل سکا۔
اس کے بعد جمہوریت کے حوالے سے سلطنت روما (رومن ایمپائر)کا نام تاریخ میں نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔جس وقت رومن ایمپائر میں مطلق العنان بادشاہت نے معاشرتی اور معاشی خرابیوں کی وجہ سے عوام میں بغاوت کے بیج بو دیئے تو روم کی حکمران اشرافیہ کو جمہوریت کے نام پر یونان کا کامیاب تجربہ یاد آگیا۔ روم ایک شہری ریاست تھی جو 1300ق م سے اٹلی کے وسط میں قائم تھی جبکہ اس کا جنوبی حصہ یونان کا مقبوضہ علاقہ رہا ہے لیکن یونان کے زوال کے بعد رومی سلطنت نے اپنے ان مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ تاریخی طور پر روم پر بھی بادشاہت قائم تھی اور آخری بادشاہ جولیس سیزر رومی سینیٹرز لوکس، جونیس اور بروٹس کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھااس کے بعد نئے آئین کی تشکیل کی شروعات ہوئی اور رومی سینٹ نے 454ق م میں ایک تین رکنی کمیشن سپارٹا روانہ کیا تاکہ یونانی جمہوریت کے حوالے سے استفادہ کیا جاسکے ۔جب یہ کمیشن واپس آیا تو قانون سازی کے ماہرین اور فلاسفہ کی 451ق م میں ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی اور انہیں دو برسوں کے لئے غیر معمولی حکومتی اختیارات تفویض کردیئے گئے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ روم کے لئے نئے قانون اورجمہوریت کے نام پرری پبلک کوڈ تشکیل دینے والی یہ کمیٹی بھی اشرافیہ پر ہی مشتمل تھی۔اس کمیٹی نے روم کے قدیم روایتی نظام کو بارہ درجات یا Twelve Tables میں بدل دیا جسے ایک اسمبلی کے تحت کیا جانا تھا۔درحقیقت بنیادی طور پر یہ سپارٹا کے نام نہاد جمہوری نظام کا ہی چربہ تھا۔ سپارٹا کی جمہوریت میں دو بادشاہ سب سے زیادہ اختیارات کے حامل تھے اور روم میں دوافراد جن کو کونسل کہا جاتا تھا کو یہ اختیارات دیئے گئے ۔ اس کے بعد سینٹ آجاتی ہے جو تمام کی تمام رومن اشرافیہ پر مشتمل ہوتی تھی اور پھر سب سے آخری یعنی تیسرے درجے میں عوامی اسمبلیاں ہوتی تھیں۔ جہاں پر عوام کے وہ نمائندے ہی پہنچ پاتے تھے جنہیں سینٹ میں موجود اشرافیہ کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ جبکہ کونسل(بادشاہ) کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہوتی تھی وہ سول اور فوجی معاملات میں یکساں قوت کا مالک تصور ہوتا تھا لیکن کسی بھی بڑے سیاسی اور عسکری فیصلے کے لئے اسے سینٹ سے منظوری لینا پڑتی تھی یوں کہا جاسکتا ہے کہ اشرافیہ نے اختیارات کو ایک نظام کی شکل میں آپس میں تقسیم کرلیا تھا اور عام لوگوں کو یہ دھوکہ دیا گیا کہ ان کے نمائندوں کو اسمبلیوں میں بھیج کر انہیں بھی طاقت اور اقتدار میں حصہ دار بنا لیا گیا ہے ۔ یہ ہے وہ جمہوریت کے نام پر غریب عوام کو دکھایا جانے والا سراب جس کے پیچھے انسانیت کو قبل مسیح سے دوڑایا جارہاہے اور آج تک اس کا یہی حال ہے۔ اہل مغرب آج بھی اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپین قرار دیتے ہیں۔ وہ تاریخی طور اپنے آپ کو یونان اور روم کی جمہوریت اور قوانین اور آئین سے منسلک کرتے ہیں اور فخریہ طور پر دعوی کرتے ہیں کہ انسانیت کی فلاح کا سب سے بہترین نظام انہوں نے ہی دنیا کو دیالیکن ان سے کوئی یہ سوال کرے کہ یونان اور روم کی اشرافیہ کی مانند کیا آج بھی جمہوریت کے نام پراشرافیہ انسانوں پر حکومت نہیں کررہی؟ کیا امریکا اور برطانیامیں آج بھی کوئی غریب یا متوسط طبقے کا آدمی الیکشن لڑنے کا تصور کرسکتا ہے؟
بنیادی طور پر مغربی جمہوریت ایک دجالی نظام کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔ یعنی منظر عام پر جو نظام ہوگا وہ کچھ ہو لیکن درپردہ جو ہاتھ یا گروپ جنہیں انگریزی اصطلاح میں سیکرٹ سوسائٹیز کہا جاتا ہے۔ وہی درحقیقت اصل اقتدار اور قوت کی مالک ہوتی ہیں اور انہی کی مرضی سے تمام قوانین وضع کئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کاٹ کھانے والی آمریت اور دھوکہ دینے والی جمہوریت سے انسانیت کو محفوظ بنانے کے لئے تقوی کی بنیاد پر نظام خلافت کا تصور دیا تھا لیکن جلد ہی گہری سازش کے ذریعے اس آفاقی نظام کو لپیٹ دیا گیا اور قرآن کریم جس میں انسانیت کی سیاسی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور روحانی تربیت کا تمام سامان موجود ہے اس کے حقیقی مقاصد کو دنیا کے سامنے لانے سے روکنے کے لئے نئی نئی رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگیں۔
مغربی جمہوریت کی جدید ابتدا سولہویں صدی میں برطانیا سے شروع ہوتی ہے جو عالم انسانیت میں پھیلنے والی دجالیت کا محور اور مرکز ہے۔ برطانیا میں طرز سیاست اور قانون سازی کا عمل رومن قوانین کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے لوگوں کو رائے دہی کے حق کی آڑ میں مستقل غلام بنا لیا گیا۔ ’’جمہوریت‘‘ کی جائے پیدائش میں بادشاہت کا ’’پیوند‘‘ اس لئے لگا رہنے دیا گیا کہ تمام کا تمام برطانوی شاہی خاندان فری میسن سیکرٹ سوسائٹی کا رکن ہے جو درحقیقت برطانیاپر حکومت کرتی ہے۔ انہی لوگوں نے بینک آف انگلینڈ تشکیل دیا تھا۔ یہی وہ ہاتھ ہیں جو فرانس اور امریکا میں انقلاب کا سبب بنے۔ کیونکہ اس بات کا راز رومن فلسفہ جمہوریت سے حاصل ہوچکا تھا کہ انسانوں کی محرومیوں کو استعمال کرکے انہیں اپنے مخالف مقتدر حلقوں کے خلاف کیسے استعمال کیا جائے اور جب انسانی بے چینی اور محرومی کا فائدہ اٹھاکر انہیں مطلوبہ انقلابات میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاچکے تو اقتدار پر کیسے اور کن لوگوں کے ذریعے قبضہ جمایا جاے۔ یہی طرز جمہوریت بعد میں امریکا منتقل ہوا ۔ یہاں برطانوی ہاؤس آف لارڈز کی جگہ امریکی سینٹ نے لی،برطانوی ہاؤس آف کامن کی جگہ امریکن کانگریس نے لی ۔ ٹین ڈاؤنگ اسٹریٹ کی جگہ امریکہ میں وائٹ ہاؤس آگیااور یوں اتھینا، سپارٹا اور روم کے قدیم بے خدا نظام نے نیا جنم لے لیا۔
برطانیا ، فرانس اور امریکی انقلابات کے بعد دجالی قوتوں نے جو مقاصد حاصل کئے تھے ان کے پوری دنیا میں نفاذ کے لئے اس نظام کو باقی دنیا میں بھی پھیلانے کا مرحلہ آیا۔ اس کے لئے استعماریت کو استعمال کیا گیا اور مشرقی علاقوں پر چڑھائی کردی گئی۔ یہ عمل سترہویں صدی سے شروع ہوتا ہے ۔یورپ کے استعماری ملکوں نے جب علم اور سائنس کی بنیاد پر مشرق وسطی، شمالی اور وسطی افریقا، ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا تک اپنے پنجے گاڑدیئے تو انہوں نے وہاں کے معاشروں کو پہلے اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی، لوگوں کو معاشی طور پر بدحال کرکے انہیں اپنا طرز زندگی اختیار کرنے کے لئے مجبور کیا اور جب تک خود ان معاشروں میں انہی کی طرح کی ایک کلاس نے جنم نہ لے لیا انہوں نے وہاں سے اپنا قبضہ ختم نہیں کیا۔اس لئے اگر تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جہاں جہاں سے مغربی استعماری قوتیں نکلتی گئیں وہاں انہوں نے مغربی جمہوریت کے طرز کا نظام نافذ کردیا تھا۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی افریقاسے لیکر انڈونیشیا تک ایک ہی کہانی دہرائی جاتی رہی۔برطانیا، فرانس، امریکا، پرتگال، اطالوی، ولندیزی اور ڈچ استعمار نے اقتدار کی منتقلی زیادہ تر انہی عناصر کو کی جو ان ہی کے تربیت یافتہ اور انہی کی طرح کا طرز زندگی اختیار کئے ہوئے تھے اور جہاں عوام شعوری طور پر اس نظام کے لئے تیار نہیں تھے وہاں مغرب نواز بادشاہتیں قائم رہنے دی گئیں۔ اسلامی دنیا میں خلافت کی قبا چاک کروا کر نام نہاد جمہوریت کو اسی لئے رواج دیا گیا کیونکہ اسلام ہی اپنے اندر ایک مضبوط قسم کا معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام رکھتا ہے اور یہ مغربی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا۔یہ سارا عمل دوسری عالمگیر جنگ کے بعد عمل میں آیا اور اس وقت سے لیکر آج تک دنیا پر یہی نظام مسلط ہے۔
لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سارے شیطانی عمل سے اگر کوئی خطہ یا ملک باہر رہا تو وہ افغانستان ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود اس ایک خطے پر مغربی استعماریت بری طرح ناکام رہی۔ اس میں اﷲ رب العزت کی کونسی مصلحت یا راز پنہاں ہے۔ انسانی عقل اس کے ادراک سے عاری ہے۔سکندر اعظم یہاں صرف بلخ تک کامیاب رسائی حاصل کرسکا لیکن جلد ہی اسے بھی مڑ کر بابل (موجودہ عراق) میں سکونت اختیار کرنا پڑی۔ برطانیانے یہاں ناک تک رگڑلی لیکن اسے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ سوویت یونین افغانستان پر قبضے کے لئے آیا لیکن اپنے ہی وجود سے ہاتھ دھو بیٹھا اور آج امریکا یہاں آنے کے بعد جن حالات سے دوچار ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ افغانیوں کے طرز زندگی میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ۔ موجودہ نام نہاد جمہوریت بھی اسی روز تک ہے جب تک وہ امریکیوں کی حفاظت میں ہے۔
اس مغربی جمہوری نظام میں کوئی بھی دولت کی بنیاد پر اپنا حصہ ڈال سکتا ہے ۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد مغربی سیاست میں بڑے بڑے مافیا بھی اپنا حصہ ڈالنے لگے اور اب یہ پوری طرح جڑ پکڑ چکا ہے۔ اس نظام میں سب سے زیادہ گھناؤنا کردار برطانیا کی ایم آئی ۔ 5اور ایم آئی ۔6نامی خفیہ ایجنسیوں کا رہا ہے ۔ اس کے بعد یہ خصوصیات امریکی سی آئی اے کو منتقل ہوئیں جس نے دنیا بھر میں دہشت گردی کا ایک بازار گرم کردیا۔یہ مغربی جمہوریت کا ہی شاخسانہ تھا کہ بے لگام سی آئی اے نے خلیج خنازیر کے مسئلے پر اختلاف کی بنیاد پر اپنے ہی صدر کینیڈی کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں سی آئی اے چاہتی تھی کہ کیوبا کے رہنما کاسترو کو سبق سکھانے کے لئے کیوبا پر حملہ کیا جائے لیکن جواز کے طور پر پہلے امریکی ائر لائن کا مسافر بردارجہاز خلیج خنازیر پر تباہ کرکے اس کا الزام کاسترو انتظامیہ پر لگایا جائے۔ جس وقت یہ منصوبہ منظوری کے لئے صدر کینیڈی کی میز پر پہنچا تو اس نے اسے انسانیت کے خلاف ایک کارروائی قرار دے کر رد کردیا تھا جس کا خمیازہ اسے اپنی ناگہانی موت کی شکل میں بھگتنا پڑا تھا۔ کیا کینیڈی امریکی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آیا تھا؟ پھر کیوں ایک سرکاری دہشت گرد خفیہ تنظیم اس کی جان کے درپے ہوئی۔ اسی طرح جب نکارگوا میں ریگن انتظامیہ کی جانب سے سی آئی اے کو آپریشن بند کرنے کے لئے کہا گیا اور اس آپریشن کے لئے مہیا فنڈز روک لئے گئے تو اس نے اس مشن کو جاری رکھنے کے لئے حکومت سے پوشیدہ ایران کو اسلحہ فروخت کیا جو بعد مین ایران گیٹ اسکنڈل کے نام سے مشہور ہوا ۔ ایران اس وقت حالت جنگ میں تھا اسے اسلحے کی شدید ضرورت تھی اس لئے اس نے اس پیش کش سے انکار نہیں کیا لیکن ریگن انتظامیہ کو امریکی عوام اور عالمی میڈیا میں زبردست خفت کا سامان رہا۔ کون ہے جس نے ان تنظیموں کو بے لگام کیا ہوا ہے؟ یہ وہی طاقتور گروپ ہیں جنہوں نے دنیا کے گرم و سرد تک رسائی حاصل کرلی ہے اور اب اپنے شیطانی نظام کو تمام دنیا پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
پاکستان جہاں سب کو آجکل مغربی جمہوریت کا بخار چڑھا ہوا ہے کیا اپوزیشن اور کیا حکومت سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس طرز حکومت میں جس میں انسانوں کو تولا نہیں جاتا بلکہ گنا جاتا ہے پاکستان کے عام شخص کو کوئی فائدہ ہے۔ پاکستان کے آئین کی پہلی ہی شق یہ ہے کہ اﷲ رب العزت حاکم اعلی ہے اور قرآن وسنت کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی ۔لیکن اس کے بعد کے معاملات سراسر اﷲ سے بغاوت پر مبنی نہیں؟ اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں کہا ہے کہ سودی تجارت کرنے والے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لئے تیار ہوجائیں تو کیا ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے بغاوت نہیں کررہے کہ ہمارا ساری بینکنگ نظام سود پر مبنی نہیں ہے اور اگر اس لعنت سے چھٹکارے کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے بڑے بڑے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ نہ کیا تو دنیا کے ساتھ کاروبار کیسے ہوگا۔۔۔!! تقوی کی بنیاد پر طرز حکومت یعنی نظام خلافت کی جگہ مغربی جمہوریت کا نام لے کر ہم اس قوم کے فرد کو پانچ برسوں میں صرف ایک مرتبہ حق رائے دہی کی زحمت دیتے ہیں اور اس کے بعد اسی کا پانچ برس تک استحصال کرتے ہیں۔ اس گناہ میں سب سے زیادہ سیاسی علما ملوث ہیں جنہوں نے قرآن اور سنت سے بغاوت کے نظام کو تقویت پہنچائی۔ہماری حالت بنی اسرائیل کے اس دور صحراء نوردگی کی سی ہے جس میں وہ چالیس برس تک بھٹکتے رہے تھے ہم بحیثیت پاکستانی قوم آج ستر برس بعد بھی اسی صحرا میں بھٹک رہے ہیں ۔ہم نے اﷲ کے احکام کو پس پشت ڈالا، اﷲ کے نام لیواؤں کو سربازار رسوا کیا اور انہیں غائب کیا ، اﷲ کی مساجد پر گولیاں چلائیں ، معصوم بچیوں کو فاسفورس بموں سے جلا ڈالامگر قوم خاموش تماشائی بنی رہی۔ ہماری شاہراہوں سے نیٹو کے صلیبی صہیونی اتحاد کے لئے گولہ بارود گزرتارہاتاکہ افغانستان کے بے بس اور غریب مسلمانوں کو اس کا نشانہ بنایا جاتا رہے لیکن ہماری قومی غیرت میں ذرا بھی جوش نہ آیا۔ ڈررون حملوں میں اپنے ہی ہم وطن معصوم قبائلی لقمہ اجل بنتے رہے لیکن کسی نے اف تک نہ کی۔ سلالہ چیک پوسٹ پر پاک فوج کے چوبیس جوان شہید ہوگئے لیکن منہ توڑ جواب نہ دیا گیا۔ آج جو کام پاکستان پر جمہوریت کے نام پر مسلط سول وعسکری اشرافیہ خود نہیں کرسکتی وہ پارلیمنٹ پر ڈالتی ہے۔ اس پارلیمنٹ میں کون لوگ بیٹھیں ہیں؟ جن کی حقیقت زرداری، نواز شریف، اسفند یار ولی، فضل الرحمن اور الطاف حسین اور عمران خان کے ملازمین سے زیادہ نہیں وہ بھلا ان کی مرضی کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ ڈرامہ صرف پاکستانی قوم کو دکھانے کے لئے کیا جاتا ہے۔موجودہ جمہوریت کو پاکستانی قوم پر مسلط کرنے والوں نے مہنگائی کا شیڈول روز اول سے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔اتنے برس بعد آج ہم اس جان لیوا مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں کھونے کے لئے بھی کچھ باقی نہیں رہتا ۔ اﷲ کی مخلوق پر جب تک اﷲ کا قانون نافذ نہ ہو تو اس وقت تک مخلوق سکون کی زندگی نہیں گزار سکتی۔
معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ یوگو سلاویہ اور سوویت یونین کی طرح بھارت بھی ایک دن ٹوٹ جائے گا۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ارون دھتی رائے نے ایک انٹرویو میں بھارت کی موجودہ صورتحال کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے بھارت میں جمہوریت کو ایک دکھاوا قرار دیا۔انہوں نے ک...
فرانسیسی مصنف کرسٹوف جیفرلاٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسند قوم پرست سیلف سنسر شپ کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو مْلک و قوم دْشمنی اور غداری سے جوڑا جاتا ہے۔ مغربی دْنیا بھارت میں دم توڑتی جمہوریت پر خاموش کیوں؟ کنگز...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
امریکا کے معروف اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک دلچسپ تجزیہ پیش کیا ہے جس نے ظاہر کیا کہ ملک کے صرف 9 فیصد عوام نے ابتدائی انتخابات میں، یعنی صدارتی امیدواروں کے انتخاب کے لیے، ہلیری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیے ہیں۔ اس میں امریکا کے تمام شہری شامل ہیں، بچوں اور مجرموں سمیت – جن کو...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...