... loading ...
مسلم دنیا اپنے حکمرانوں کی طرح پسپائی کی ذہنی حالت سے نکلنے کو تیار نہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران تو مغرب کے اُگلے ہوئے نوالے چباتے رہتے ہیں۔ مغرب اپنے حقائق کا ایک عارضی ماحول بناتا ہے، مسلم حکمران جس کے شکار رہتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ خود مسلم دنیا کے عام لوگ بھی اِسی فریب خوردہ ماحول سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ خام اور کچے پکے دانشور جو سرکاری ماحول میں چمکنا دمکنا چاہتے ہیں، اس فریب خوردہ ماحول کو مزید فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔
پیرس میں ہونے والے حملے مغرب کے طریقۂ واردات کو سمجھنے کا ایک بہترین موقع بن کر سامنے آئے ہیں۔ مگر مسلم دنیا کی پسپا ذہنیت غور وفکر پر آمادہ نہیں۔ وہ مغرب کو یہ باور کرانے پر تُلے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا۔ ارے بھائی! یہ آپ سے زیادہ اُن کو پتا ہے۔ مغرب صرف یہ نہیں جانتا کہ ہم اپنے فکری پسِ منظر میں آدرش امن کی کون سی مذہبی تعلیم رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ اس سے بڑھ کر ہماری عسکری صلاحیت کی نارسائیوں سے بھی واقف ہے۔ مغربی ممالک یہ جانتے ہیں کہ کسی میدان میں لڑنے کے لئے کہاں کہاں کون کون سے ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود مغرب کے خلاف محاذآرا قوتوں کو بھی اپنی جنگوں کے لئے وہی ہتھیار بلا تعطّل مہیا ہوتے رہتے ہیں۔ مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ، بجائے خود ایک معذرت خواہانہ روش ہے۔ یہ مسلمانوں کی مغرب سے ہی ناواقفیت کا نتیجہ نہیں، بلکہ خود اپنے آپ سے بھی لاعلمی کا مظہر ہے۔ نوگیارہ کے حملوں سے مسلم دنیا کی ذہنی پسپائی اور اختلالِ اعصاب کا جو سفر شروع ہوا تھا،وہ پیرس حملوں کے بعد اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے۔
نوگیارہ اور پیرس حملوں میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں حملوں سے قبل دونوں ممالک اچھی طرح آگاہ تھے کہ اُن کے ممالک پر یہ حملے ہونے والے ہیں۔ مگر امریکا اور فرانس دونوں نے یہ حملے ہونے دیئے۔ باب وڈورڈ نے نوگیارہ کے حملوں پر اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’بش ایٹ وار‘‘ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ حملوں کے عین وقت ۱۱؍ ستمبر کو سی آئی اے کا سربراہ جارج ٹینٹ وائٹ ہاؤس کے شمال میں واقع سینٹ ریجس ہوٹل میں سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ چیئرمین ڈیوڈ بورن سے ملاقات میں یہی بات بتانے میں مصروف تھا کہ امریکا پر کسی بھی وقت دہشت گردی کے حملے متوقع ہیں۔ جارج ٹینٹ سے ڈیوڈ بورن کا تعلق تیرہ سال پُرانا تھا ۔ اگرچہ بورن کی ہی بدولت جارج ٹینٹ امریکا کے اس اہم ترین منصب پر پہنچنے کے قابل ہوا تھا مگر ٹینٹ کی بورن سے ملاقات کوئی معمول کی بات نہیں تھی۔ اُس روز بش فلوریڈا جارہے تھے مگر جارج ٹینٹ نے اُن کو معمول کے مطابق اُس صبح کوئی خفیہ رپورٹ یا بریفنگ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ مگر جارج ٹینٹ نے بورن کو امریکا پر ہونے والے ممکنہ حملوں کے خطرے سے ضرور آگاہ کیا۔ عین اُسی وقت سی آئی اے کے سربراہ کوبتایا گیا کہ امریکا اس وقت حملوں کی زد میں ہے۔
پاکستان کے کچے پکے دانشور اور منقّیٰ بننے کے ضدی بغیر پکے ہوئے انگور، اپنی معرکہ آرا تحریروں میں اُنہیں بے وقوف گرداننے کے لئے اپنا پورا زورِ قلم صرف کر دیتے ہیں جو نوگیارہ کو امریکا کی اندرونی کارستانی(اِن سائید جاب) قراردیتے ہیں۔ مگر خود امریکا میں جو دانشورنوگیارہ کو امریکا کے اندرونی کھیل کا ایک نہایت مکارانہ اور مکروہ حصہ سمجھتے ہیں، وہ خود مغربی معیارات میں وہاں کے اعلیٰ ترین دانشور سمجھے جاتے ہیں۔
اب یہ سوئے اتفاق ہے یا حُسن ِ انتظام کہ پیرس حملوں کا معاملہ بھی شکوک کے ان ہی سایوں میں گھرا ہواہے۔ پیرس حملوں سے صرف دوہفتے قبل امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ جان برینن اور فرانس کے ڈی جی ایس ای(ڈائریکٹر برائے خارجہ سیکورٹی)کے درمیان ایک اہم اور خفیہ ملاقات ہوئی تھی۔ جو ممکنہ طور پر مشرقِ وسطیٰ کی نئی تشکیل کے ممکنہ حالات سے متعلق تھی۔ ابھی اس پہلو کو یہیں چھوڑ کر ایک دوسرے رخ کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
امریکی خفیہ ادارے امریکا پر ممکنہ حملوں کے بارے میں کافی معلومات رکھنے کے باجودہ حملوں کو روک نہیں سکے۔ اسی طرح فرانس کامعاملہ بھی ہے۔ برطانوی اخبار میل نے دعویٰ کیا ہے کہ بتاکلان تھیٹر کے قریب مارا گیا دہشت گرد، دراصل پیرس کا ہی رہائشی ہے۔ اور پیرس حملوں سے قبل ہی فرانس کی انسدادِ دہشت گردی کی متعدد ایجنسیاں اُسے جانتی تھیں۔ اسی سال گستاخ جریدے شارلی ایبڈوکے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ فرانس کے خفیہ ادارے اُن کے بارے میں پہلے سے ہی آگاہ تھے۔ اُن میں سے ایک شخص پہلے دو مرتبہ گرفتار بھی ہو چکا تھا۔اُن میں سے دو افراد جب بیرون ملک تھے، تو اُن پر فرانسیسی اداروں نے کڑی نگاہ رکھی۔ یہاں تک کہ اُن افراد کی شام میں جاری جنگ میں حصہ لینے کی خبریں بھی خفیہ اداروں کے پاس تھیں۔پھر وہ نہایت کامیابی سے فرانس واپس آکر حملے کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ صورتِ احوال کچھ مشکوک نہیں لگتی؟
ان تمام شکوک کے پیچھے چُھپے اصل حقائق کو بآلاخر روس نے اپنی اطلاعات کے ذریعے بے نقاب کر دیا ہے۔روس کی وزارتِ دفاع کے مطابق اُنہیں روس کی مرکزی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جی آر یو) نے ۱۳؍ نومبر(بروز جمعہ) کو پیرس کے ممکنہ حملے کے بارے میں پندرہ روز قبل یعنی ۲۷؍ اکتوبر کو آگاہ کر دیا تھا۔ اُسی روز واشنگٹن ڈی سی میں ایک انتہائی خفیہ اجلاس ہوا تھا۔ جس میں امریکی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن، فرانس کی ڈی جی ایس ای کے ڈائریکٹر برنارڈ بایو لیٹ، ایم آئی سکس کے سابق سربراہ جان ساوورزاور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ڈی ایم آئی کے سابق سربراہ اور موجودہ قومی سلامتی کے مشیر یاکوو آمید ورنے شرکت کی تھیں ۔ اس اجلاس میں مغربی نقطۂ نگاہ کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کے نئے نقشے پر بات کی گئی۔ روسی وزارتِ دفاع کے مطابق اس اہم ملاقات کے بعد ان شخصیات نے امریکی نائب صدر جوبائیڈن سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ بائیڈن رومن کیتھولک یسوعی ہیں۔ اور امریکی سی آئی اے کا سربراہ جان برینن بھی اسی مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ عیسائی مکتبِ فکر جنگ کے نظریئے پر یقین رکھتا ہے۔ مذکورہ ملاقات کے بعد روسی خفیہ ادارے کے سربراہ نے کہا تھا کہ روسی حفاظت میں موجود ہ شامی ریاست دوسری جنگِ عظیم میں قائم کی گئی ریاست سے مختلف ہوگی۔ منصوبہ بالکل واضح ہے۔ پیرس حملے اس کے بعد کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ نتائج قارئین خود اخذ کریں ۔ یہاں سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹینٹ کی کتاب ’’At the center of the storm‘‘ کا ایک فقرہ پیش خدمت ہے جو ان حقائق کو سمجھنے کے لئے رہنماحیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنی کتاب کے تیسرے باب ’’Shot out of a cannon‘‘میں لکھتا ہے کہ
’’ جان ڈیوچ کے دور میں قائم مقام ڈائریکٹر آف آپریشنز کی حیثیت سے کام کرنے والے نہایت اہل خفیہ ادارے
کے ایک افسر جیک ڈیوائن نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ ’’جارج! اگر کوئی شخص شمالی عراق میں آج ایک گولی چلائے،
تو تمہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ دوسال بعد کہاں جا کر لگے گی۔‘‘
پیرس حملے کا معاملہ دو سال بعد کا نہیں ، بس دو چار دن کا معاملہ ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ کہاں جا کر لگتا ہے۔ نو گیارہ کا تو سب کو معلوم ہے کہ یہ سیدھے افغانستان میں جاکر لگے تھے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...