وجود

... loading ...

وجود

جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے والے وائس چانسلر کے منصب پر !

منگل 17 نومبر 2015 جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے والے وائس چانسلر کے منصب پر !

ishrat ul ibad and masood

یہ ملک میں اعلیٰ طبی تعلیمی اداروں کا زوال نہیں تو کیا ہے جن لوگوں کو اپنے کردار و عمل کے باعث جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے۔ انہیں دیو مالائی مخلوق بنا کر ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اخلاقی‘ قانونی یا غیر معمولی صورتحال کا جواز نہ ہونے کے باوجود تدریسی عمل کے متاثر ہونے کا بہانہ بنا کر چوتھی یا پانچویں مرتبہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا قائم مقام وائس چانسلر بنا دیا گیا ہے۔ لیکن اس بات کو مخفی رکھا گیاکہ ڈاکٹر مسعود حمید کو تدریسی عمل فعال کرنے کے لئے نہیں بلکہ داخلہ سیزن کو محفوظ بنانے کے لئے سامنے لایا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی طبی حلقے حیران اور پریشان ہیں اور ان کا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر مسعود حمید کی حالیہ تقرری کس اصول اور ضابطے کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔ کیا ڈاکٹر مسعود حمید پیشہ وارانہ زندگی کی عملی اور تحقیقی خدمات کے لحاظ سے کوئی غیر معمولی یا پھر بے مثال صلاحیتوں کے حامل ہیں؟ طبی پروفیسرز کے مطابق ایک عام سے پروفیسر کے لئے کم از کم 15تحقیقی مقالات کی شرط ہے جو عالمی معیار کے جنرلز میں شائع ہوئے ہوں ۔ ڈاکٹر مسعود حمید خود پروفیسر آف میڈیسن ہونے کے دعویدار ہیں۔ آج کی دنیا میں ایک لائق‘ قابل اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل کسی بھی طبی پروفیسر کی علمی حیثیت اور قابلیت کو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ویب سائٹس میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ ڈاکٹر مسعود حمید نے ڈاؤ یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ کے دوران پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، لیکن وہ طب کے جس شعبے سے ریٹائر ہونے تک وابستہ رہے ہیں اس شعبے میں وہ کوئی معرکہ آرا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ وہ پیشہ وارانہ شعبے میں دلچسپی کے بجائے دولت کی جمع ضرب اور تقسیم کے کاموں میں الجھ کر رہ گئے۔ ان کے ہم عصر پروفیسرز کے مطابق اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں ڈاؤ یونیورسٹی میں ریت سیمنٹ اور سریئے سے تعمیر ہونے والے منصوبوں کی ایک سے زائد بار افتتاحی تقریبات منعقد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ان کی حالیہ تقرری جہاں مہذب معاشرے میں جگ ہنسائی کا سبب بنی ہے وہیں ان کی پہلی تقرری بھی سینیارٹی اور میرٹ کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر صوابدیدی اختیارات کو بروئے کار لاکر عمل میں لائی گئی تھی۔

غیر جانبدار حلقوں کے مطابق من پسندی اور اقرباپروری کے اس بے مثال کارنامے پر ڈاکٹر مسعود حمید کے پروڈیوسر کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرنے کے لئے بھجوانا چاہئے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ڈاکٹر مسعود حمید نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک موقع پر ایک ایسی نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے کا بھی فیصلہ کرلیا تھا جس میں سرے سے ان کی فیکلٹی میڈیسن کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ انہوں نے ڈاؤ یونیورسٹی کے انتظامی منصب پر اپنے عمل دخل کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی اہلیہ ڈاکٹر رعنا قمر کو بھی ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی دوڑ میں شامل کراتے ہوئے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ ڈاکٹر رعنا قمر گیارہ مرتبہ پوسٹ گریجویشن کے امتحان میں فیل ہونے کے بعد بمشکل کامیاب ہوسکی تھیں۔ جہاں تک ڈاکٹر مسعود حمید کے مالی امور میں پارسا ہونے کا معاملہ ہے تو ناقدین کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ہر ترقیاتی منصوبے کے پیچھے کرپشن کی ایک ایسی کہانی اُن کے خوف و دہشت کے نیچے چھپی ہوئی ہے جس کی غیر جانبدارانہ اعلیٰ عدالتی تحقیقات کرانے کی سندھ حکومت میں اخلاقی جرأت دکھائی نہیں دیتی۔ بصورت دیگر سپریم کورٹ آف پاکستان کے حاضر ججوں سے اگر ڈاؤ یونیورسٹی کے ترقیاتی منصوبوں کی تحقیقات کرالی جائے تو یہاں سے بھی منی لانڈرنگ اور کئی تحفظ پاکستان آرڈیننس پاکستان کے ملزم نکل سکتے ہیں۔ انہی ناقدین کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں ٹی بی کے مریضوں کے تھرڈ ڈگری کی دوا کا وہ اسکینڈل شامل ہے جس میں 52لاکھ روپے مالیت کی جعلی دوا ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایک ایسی کاغذی فرم سے خریدی۔ جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا پھر دوا کو لیبارٹری میں جانچے بغیر اور اتنی بڑی مقدار میں خریدی جانے والی دوا بغیر ڈیلیوری چالان کے خریدی گئی اور مذکورہ کمپنی کے مالکان کے خلاف آن کیمرا کارروائی کے بعد ڈاؤ یونیورسٹی ڈرگ کورٹ میں مقدمہ بھی ہار گئی اور یوں ٹی بی کی جعلی دوا کے اسکینڈل میں گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد کو بھی دنیا میں رسوا کیا گیا۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ گورنر سندھ کو پروفیسر مسعود حمید کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت پر بازپرس کرنی چاہئے تھی لیکن نامعلوم وجوہ کی بناء پر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔

اگر ڈرگ کورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا تو ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ڈرگ کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟

اگر ڈرگ کورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا تو ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ڈرگ کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟ جبکہ اس نے ڈرگ کورٹ کے وکلاء کو ڈاؤ یونیورسٹی کے خزانے سے بھاری فیس بھی ادا کی۔ اب جو لوگ ڈاؤ یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن کے ثبوت طلب کرتے ہیں ناقدین کے مطابق 52 لاکھ روپے کی ادویہ کی خریداری میں اگر شفافیت ہوتی تو ڈاؤ یونیورسٹی نہ صرف سندھ ہائی کورٹ میں جاتی بلکہ کاغذی کمپنی سے 52 لاکھ روپے کی ادویہ کی خریداری کے ذمہ داروں کا بھی تعین کرتی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا،یہ کرپشن نہیں تو اورکیا ہے؟ڈاکٹر مسعود حمید سے آج تک کسی ارباب اختیار نے چند سطریں دکھاوے کی لکھ کر بھی یہ معلوم کرنے کی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا کہ جعلی ادویہ جو دوچار ہزار روپے کی نہیں نصف کروڑروپے کی زائد رقم ادا کرکے ایک پبلک یونیورسٹی کے خزانے سے خریدی گئی جس پبلک یونیورسٹی میں قدم قدم پر غریب مریضوں سے علاج معالجے کے نام پر رقم بھی وصول کی جاتی ہے۔ اس کے ذمہ داروں کا تعین کئے بغیر ہی معاملے کو دریا برد کرنے کانیب سندھ نے اب تک نوٹس کیوں نہیں لیا؟جبکہ یاد رہے کہ اس سے قبل سندھ میں سب سے پہلے لیاقت میڈیکل کالج جامشورو کو یونیورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے اسے لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں تبدیل کیا گیا۔ یہ کارنامہ سابق وزیر صحت لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈاکٹر احسان احمد کا تھا۔ یونیورسٹی کے قیام کے بعد پروفیسر ڈاکٹر جان محمد میمن کو میرٹ کے مطابق لمزکے پہلے وائس چانسلرکی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔پروفیسر جان محمد میمن اپنی مدت ملازمت پوری کرکے وقت مقررہ پر ریٹائر ہوگئے شاید پروفیسر جان محمدمیمن ڈاکٹر مسعود حمید سے سینیارٹی اور میرٹ میں آگے ہی ہوں لیکن انہیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی۔ طبی حلقے سوال کرتے ہیں کہ پروفیسر جان محمد میمن نے لمز کی ترقی و تعمیر میں کیا ڈاکٹر مسعود حمید سے کم کارکردگی دکھائی تھی کہ انہیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی ۔ یہ امتیاز و تفریق قومی یکجہتی کے منافی اقدام ہے۔اداروں کو قانون اور آئین کے مطابق نہ چلایا گیا تو عوامی انتشار کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔ ان تمام باتوں کا حاصلیہی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کرپشن کے خلاف باتیں تو بہت کرتی ہیں ‘لیکن جب کرپٹ افراد کو پکڑنے اور کرپشن کو روکنے کا معاملہ آتا ہے تو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی یہ تمام سیاسی جماعتیں کرپشن کے خلاف کارروائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر عوام کے خون پسینے کے قومی خزانے پر شب خون مارنے کے لئے متحد ہوجاتی ہے ۔

خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہئے


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر