... loading ...
موت کا دروازہ جس گھر میں بھی کھلتاہے ، غم والم کے پہاڑ توڑڈالتاہے لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی جدائی محض ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک عہد کی موت کا اعلان ہوتا ہے۔انگریزی اخبار کشمیر ٹائمزجموں کے مدیر اعلیٰ وید بھسین بھی ایک ایسی ہی نابغہ روزگار ہستی تھی۔ان کی رحلت کی خبر نے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف رنج وغم کی لہر دوڑا دی۔غالباً وہ واحد شخصیت ہیں جن کی جدائی پر ہندو،سکھ اور مسلمان ،جی ہاں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ہر کوئی ان کو اپنا درمند رفیق اور غمگسار ساتھی گردانتا۔زندگی بھر ان کا دل اور دفتر کا درمہمانوں اور شاگردوں کے لیے کھلا رہا۔
پیشے کے اعتبار سے وہ ایک اخبار نویس تھے اور ایک موقر روزنامہ کے مالک اور مدیر اعلیٰ بھی ۔لیکن ان کی محض یہی شناخت نہ تھی بلکہ وہ ایک مصلح بھی تھے۔قدیم طرز کے صحافی، جن کے لیے اخبار کاروبار نہیں مشن ہوتا ہے۔وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی یہی تعلیم دیتے۔وہ ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے بارے ایک واضح نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ان کے خیال میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست جموں وکشمیر ہی ایک ایسا حل ہے جو پاکستان اور بھارت کے علاوہ کشمیریوں کے مفادات کی بہتر نگہبانی کرسکتاہے۔اگرچہ ان خیالات کو اسلام آباد اور دہلی میں یکساں طور پر ناپسند کیا جاتاہے ، اس کے باوجود وید بھسین اپنا سیاسی نقطۂ نظر بیان کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ نہ کرتے۔اُنہوں نے ایک ایسے لبرل اور جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے عمر بھر جدوجہد کی جہاں انسان کو اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہو۔رواداری ہو،شہری نئے تصورات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں اور جہاں سیاسی فکر پر پہر ے نہ بٹھائے جاتے ہوں۔
وہ بھارتی حکومت کی پالیسیوں کے سخت ناقد تھے بالخصوص کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور کشمیریوں کی سیاسی اُمنگوں کی ہر فورم پر ترجمانی کرتے۔ان کے سیاسی خیالات نے ان کے اخبار کو زبردست مالی نقصان سے دوچار کیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور آرایس ایس والوں کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے ۔کشمیر ٹائمز کا کئی بار بائیکاٹ کیا گیا۔دفتر پر پتھراؤ بھی ہوا۔ ان کے خلاف جلوس بھی نکالے گئے حتیٰ کہ انہیں دیش کا دشمن بھی کہا گیا ۔کشمیر ٹائمز کو ناکام کرنے کے لیے متبادل انگریز ی اخبار ات کی سرپرستی کی گئی، لیکن مجال ہے کہ ان کے پایۂ استقامت میں کوئی لغزش آئی ہو۔وہ اخبار جو کل تک جموں ہی نہیں بلکہ کشمیر میں بھی سب سے زیادہ بزنس لیتاتھا ،بتدریج مالی خسارے سے دوچارہوتاگیا لیکن وید جی نے کشکول نہیں اٹھایا۔عزت اوروقار کے ساتھ زندگی کی اور جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ان کی موت پر سامنے آنے والے بے ساختہ پیغامات نے یہ حقیقت الم نشرح کی کہ وہ ایک بے خوف،سچے اور انسان دوست شخصیت تھے ۔
اگرچہ وہ ایک سیاسی فکر رکھتے اور کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے لیکن مزاجاًوہ ایک اعتدال پسند شخصیت تھے۔اکثر کانفرنسوں میں بحث ومباحثہ تلخی پر منتج ہوتا۔الزامات اور جوابی الزامات ماحول کو گرمادیتے۔ خدشہ پیدا ہوجاتاکہ کانفرنس بے نتیجہ رہے گی تو متحارب فریقین ان سے درخواست کرتے کہ وہ مشترکہ اعلامیہ لکھیں۔ اعلیٰ پائے کی اور پرمغز تحریر لکھنے میں انہیں خصوصی ملکہ حاصل تھا۔وہ ایسی عبارت تیار کرلیتے کہ شرکاء اسے خوش دلی سے قبول کرلیتے۔پاک انڈیا پیپلزفورم کے بانیوں میں سے تھے ،جس کا مقصد وجود ہی پاک بھارت تعلقات کی بہتری ہے۔وہ یہ راز پا گئے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین خوشگوار تعلقات قائم کیے بنا ء مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں اور کشمیرکے شہریوں اور لیڈروں کو اعتماد میں لئے بغیر مسئلہ کشمیر کا کوئی دائمی حل ممکن نہیں۔ ان خیالات کوپاکستان میں بہت داد ملتی اور بھارت میں لوگوں کی جبینوں پر شکنیں پڑجاتیں۔وہ بھارت،پاکستان اور جموں وکشمیر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور شدت پسندی سے کافی دُکھی رہتے اور کھل کر کہتے کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو شدت پسندی کا عفریت سب کچھ چاٹ جائے گا۔
میرپور سے ان کا تعلق گہرا قلبی اور روحانی تھا۔ان کے پُرکھوں کی راکھ اس دھرتی پر بکھر ی پڑ ی تھی۔پاکستان آتے تو میرپور یاترا ضرورکرتے۔جہاں جسٹس مجید ملک ان کا استقبال کرتے۔دونوں بزرگوں میں مہر ومحبت کا گہرا بندھن تھا۔میرپور کے عظیم فرزند کے ڈی سیٹھی بھی پیرانہ سالی کے باوجود ان کے ہم رکاب ہوتے۔موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے چھپے بلند آہنگ اور دوٹوک گفتگو کرنے والے کے ڈی سیٹھی سچے وقتوں کے کامریڈ اور وید بھسین کے ہم دم دیرینہ ہیں۔اگرچہ تقسیم کے ہنگام ان کا خاندان میرپور سے نقل مکانی کرگیا لیکن تادم زیست میرپور ان کے جسم وروح میں حاوی رہا۔ان کاتعلق ریاست جموں وکشمیر کی اس نسل سے تھا جو ریاست کی وحد ت کی علمبردار تھی۔انہوں نے جموں میں مسلمانوں کو کٹتے اوراجڑتے دیکھا۔میرپور ،پونچھ اور مظفرآباد سے لٹے پٹے قافلوں کو مہاجر کیمپوں میں رلتے اور سسکتے دیکھا۔اس پس منظر میں منقسم خطوں اور ایک دوسرے سے شاکی طبقات کو قریب لانے میں ان کی دل آویز شخصیت ایک پل کا کردار ادا کرتی ۔
بڑی باغ وبہاراور مہمان نواز شخصیت تھے۔ششتہ اردو بولتے لیکن پنجابی لہجے میں ۔آزادکشمیر یا پاکستان سے جو کوئی بھی جموں جاتا،ان کی میزبانی اور رفاقت سے لطف اٹھاتا۔سینئر بیوروکریٹ طارق مسعود کو بڑی چاہت اور محبت سے ان کا آبائی گھر دکھانے لے گئے۔ ایک پورادن ہم نے ان کے ہمراہ گزارا۔جموں میں آباد درجنوں میرپوریوں اور پونچھیوں سے ملاقاتیں بھی کرائیں جنہوں نے ہمارے ہاتھ اور پیشانی چومی۔گلے لگایا اور اپنے وطن کی مہک محسوس کی۔
سینئر صحافی سلطان سکندر کے ہمراہ راقم الحروف کو جولائی 2000ء میں سری نگر اور جموں میں لگ بھگ دوہفتے گزارنے کا موقع ملا۔یہ بڑا پرآشوب دور تھا۔عسکریت اپنے عروج پر تھی اور پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات سخت سخت کشیدہ کہ ابھی کارگل کی جنگ کے زخم ہرے تھے ۔اس کے باوجود وید جی نے ہمیں جموں میں اپنا مہمان ٹھہرایا ۔ ذاتی گاڑی میں شہرکی سیر کرائی۔پریس کلب میں صحافیوں سے نشست کا اہتمام کیا۔شہر کی اہم شخصیات کو ہماری آمد کی اطلاع کی۔گھنٹوں بیٹھ کر بڑے اطمینان سے میرے سوالوں کے جواب دیئے اور رخصت ہوتے وقت تک خبر گیری کرتے رہے۔
ان کی صاحبزادی انورادھا بھسین نے اپنے جری اور دانشور والد کا عَلم تھام رکھا ہے۔وہ جمہوریت،انسانی حقوق اور انصاف کی راہ پر اپنے والد کی طرح ثابت قدمی سے چل رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جموں وکشمیر کے شہری وید بھسین کو کبھی نہیں بھولیں گے کہ ایسے لوگ صدیوں میں جنم لیتے ہیں۔وہ کسی ایک مذہب، خطے یا برادری کی میراث نہیں بلکہ قوموں کا اجتماعی اثاثہ ہوتے ہیں۔
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس آج(منگل کو) پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں شروع ہو گا، اجلاس میں مسئلہ کشمیر، مسلم امہ کو درپیش معاشی، سیاسی اور ثقافتی چیلنجز کیساتھ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی غورکیا جائے گا۔ کانفرنس میں 150سے زائد قراردادیں منظور ہ...
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...
حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق کشمیر ب...
وادیٔ نیلم میں مسافر بس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایاگیا ، تین شہری موقع پر شہید ، زخمیوں میں شامل سات افراد ہسپتال میں دم توڑ گئے گزشتہ روز ہندوستانی فوج نے اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی تھی اور ٹوئٹ میں اس کارروائی پر شدید ردعمل دینے کی دھمکی دی تھی بھارتی افواج کی...
پاکستان بار بار یہی بات دہرارہا ہے لیکن بھارت فوجی قبضے اورتسلط پراَڑاہوا ہے ،نتیجہ آنے تک مقد س اورجائزجدوجہد جاری رکھیں گے بھارتی مظالم کے آگے سینہ سپر87سالہ ناتواں بزرگ لیکن جواں عزائم اورمضبوط اعصاب کے مالک چیئرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس انٹرویوپینل:شیخ امین ۔مقصود من...
ظلم و جبر پر عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک ہے،پاکستانی قیادت کو سمجھنا چاہیے مذاکرات اور قراردادوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مجاہدین کو وسائل مہیا کیے جائیں جب دنیا ہماری آواز نہیں سن رہی تو پھر ہمارے پاس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہی آخری آپشن ہے،سید صلاح الدین کا ایوان صحا...
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ انتہائی مطلوب حریت پسند رہنماکی موت کا جشن منا ئیں گے، مٹھا ئیاں با نٹیں گے اور نئی کشمیری نسل کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت ایک مہان ملک ہے اور اس کے قبضے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ ختم کرنا جا نتے ہیں۔ لیکن انہیں کشمیر...
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...
یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...
زندہ قوموں کی زندگی کارازصرف ’’خود احتسابی‘‘میں مضمر ہے۔ جو قومیں احتساب اور تنقید سے خوفزدہ ہو کر اسے ’’عمل منحوس‘‘خیال کرتی ہیں وہ کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتی ہیں۔ احتساب ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی فرد، جماعت اور تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا صحیح...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...